کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں ۔۔۔فرح وقاص خان

مکرم کے کمرے کا دروازہ بھی اس نے اپنے گلے سے لپٹے کپڑے سے کھولا، تب تک مکرم اپنے کپڑے بدل چکا تھا اور اب ان کو رکھنے کے لئے کوئی لفافہ ڈھونڈ رہا تھا۔
“چاکو رکھ دیا کپڑوں میں؟” کریمو نے انتہائی عجلت سے پوچھا ۔
“کریمو میں خوفزدہ نہیں ہوں اپنے کئے کی سزا بھگتنے کو تیار ہوں،کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ تجھے پتا ہے سائیں نے ایک رجسٹر بنایا ہوا تھا جس میں وہ سب کے کھاتے لکھتا تھا،مجھ پر سات لاکھ 55 ہزار کا قرض ڈالا ہوا ہے، بدلے میں مجھ سے میری نوری مانگ رہا تھا” مکرم بتاتے بتاتے بے دم ہو کر چارپائی پر گر گیا ۔۔۔۔۔۔۔ “تو خود کو سنبھال مکرم! بس ماننا مت کہ تم نے کچھ کیا ہے۔ اللہ وارث ہے ہمیں اس مشکل سے نکالے گا۔” کریمو نے اسے کندھوں سے پکڑ ا وہ تپ رہا تھا۔
“تو آرام کر تجھے بہت تیز بخار ہے۔” کريمو نے اس کے ہاتھ سے کپڑے لے کر اس کو لیٹنے میں مدد دی اور خود فٹافٹ چاقو کو کپڑوں میں چھپا کر لفافے میں ڈالا اور لفافے کو گرہ لگا کر کمرے سے باہر آ گیا۔ وہ چاہتا تھا جس قدر جلد ہوسکے یہ لفافہ حویلی سے دور ہوجائے اور اس کی واحد صورت یہی تھی کہ اس کو حویلی کے کوڑے کے ساتھ شامل کرکے صبح صبح کوڑے والے کے ذریعے اسے پھینکوا دیا جائے۔۔ ۔۔۔۔۔۔ کریمو لفافہ تھامے بہت اعتماد سے چلتا ہوا برآمدے میں آیا جہاں رات کی ہلڑ بازی کے نشانات جابجا موجود تھے كریمو نے کوڑے کے لئے رکھیں ٹوکریوں میں سے ایک ٹوکری کا لفافہ نکالا اور اس میں اپنے ہاتھ کا لفافہ ٹھونسا اور اوپر دو تین بوتلیں بھی ٹھونس دیں اور کوڑے کا لفافہ ٹوکری میں رکھ کر اطمینان سے اپنے حجرے کی جانب چل دیا ۔ وہ فی الحال سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا کہ چند منٹوں یا گھنٹوں کے بعد کیا غدر مچنے والا ہے۔۔۔۔

دروازے کو بری طرح دھڑدھڑایا جا رہا تھا جب اس نے کسمسا کر آنکھیں کھولیں۔
دھکے سے دروازہ کھلا اور ایک پولیس اہلکار اندر گھستا چلا آیا۔ “چل اوئے! اٹھ باہر نکل سارے نشئی اکٹھے کیے ہوئے ہیں، بھنگ پی کے سوئے ہوئے ہو کیا؟” وہ اونچی آواز میں خود کلامی کے ساتھ ساتھ اپنا کام بھی کر رہا تھا ہر حجرے کے مکین کو دھکے دے کر صحن میں لانے کا کام۔
“سرکار کیا ہوا؟ میں نے کیا کیا ہے؟” حواس باختہ کریمو آنکھوں میں حیرت اور بے چارگی کا سمندر سموئے دھکے دیتے ہوئے اہلکار سے التجائیہ استفسار کر رہا تھا۔
“واہ بھائی واہ! سائیں مر کھپ گیا اور کامیوں کو دیکھو آرام سے سو رہے ہیں۔” اہلکار کو نہ صرف زیادہ بلکہ بے تکا بولنے کی بھی عادت لگ رہی تھی۔” کیا……. کیا بول رہے ہو ؟سائیں کیسے مر سکتے ہیں؟؟؟؟” کریمو خود پر فخر محسوس کر سکتا تھا اس قدر جان دار ایکٹنگ پر ۔ ” او چل یار دماغ نہ چاٹ۔ ” اہلکار شاید ہر کمرے سے لوگوں کو اٹھاتے اور انکو جواب دیتے دیتے کوفت کا شکار ہوچکا تھا۔۔۔
اسی اثنا میں جب کم و بیش سبھی لوگ ڈیرے کے صحن میں جمع کر لیے گئے تھے۔ ایک اہلکار مکرم کو سہارا دیئے صحن میں آ رہا تھا۔” صاحب! اس بابے کو بخار ہے۔” اہلکار نے تفتیشی افسر کو بتایا اور اس کو سہارا دیتے ہوئے کونے میں پڑی چارپائی پر بٹھا دیا۔ مکرم کی متلاشی نگاہوں نے مجمع میں کریمو کو تلاش کیا جو نظر ملتے ہی اس کو نظروں نظروں میں حوصلہ دے رہا تھا۔ تفتیشی افسر نے تمام لوگوں کے جمع ہوتے ہی خطاب کے سے انداز میں بولنا شروع کیا ۔”وڈے سائیں کا رات کو قتل ہوچکا ہے ،اتنے بھرے پرے ڈیرے میں سائیں کا قتل کیسے ہو گیا؟ یہ سوچنے کی بات ہے کیا سارے بھنگ پی کر سو رہے تھے.۔۔۔جو بھی ہوا ہے ڈیرے پر موجود لوگوں میں سے کسی نے کیا ہے اور بہتر ہوگا جو اس سازش میں شامل ہے خود ہی بول دے ورنہ پتا تو ہم چلا ہی لیں گے۔۔ بولو؟” آخر میں وہ قدرے اونچے لہجے میں گویا ہوا۔
“سرکار ہماری کیا مجال ہم ایسا سوچیں بھی سائیں کے بارے میں ۔” کسی ایک نے ہجوم میں سے اس سوچ سے بھی معذوری ظاہر کی ۔
” اوئے اکبر! ان سب میں سے کوئی باہر نہیں جائے گا اور کوئی اندر بھی نہیں آئے گا۔۔۔۔۔۔”
” اوئے افضل! یار تو پوچھ گچھ شروع کر میں ذرا اندر سے ہوکر آیا۔۔۔۔” افسر ماتحتوں کو آرڈرز دے کر خود اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا۔ تفتیشی افسر کے اندر جاتے ہی تمام لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے یہ ایک ایسی خبر تھی جس پر یقین آنا ہی مشکل ہو رہا تھا ،تمام افراد کا خیال تھا کہ ڈیرے کے اندر سائیں کے ملازمین تو ایسا کر ہی نہیں سکتے، یہ اندر سے کسی نے نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔ جو ہوا ہے اس کا تعلق باہر سے ہے ۔
مکرم کو بخار کی شدت سے چکر آرہے تھے۔ افضل کو اس پر بڑا ترس آیا۔۔۔۔” اس بابے کو لٹا دو ۔۔۔” افضل نے پاس کھڑے ہوئے کسی ملازم کو مکرم کو سہارا دے کر لٹانے کا کہا۔ کریمو مسلسل سر جھکائے دعائیں مانگ رہا تھا لیکن چہرہ اس قدر سپاٹ تھا کہ کچھ بھی اخذ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مکرم کا شدید بخار بھی اس کو اس وقت اللہ کی رحمت لگ رہا تھا۔
سائیں کے دونوں بیٹے ملک سے باہر تھے ۔ وقوعہ کے پانچ گھنٹے بعد سائیں کے بھائی ڈیرے پر پہنچے تھے خوب ہنگامہ کیا شورمچایا اندرون خانہ کسی کو بھی ذاتی طور پر کوئی صدمہ نہیں تھا لیکن دنیا دکھاوا تو کرنا تھا نا۔ تفتیشی افسر نے ڈیرے پر موجود سب ملازمین اور ورکرز کے بیانات ریکارڈ کرلیے تھے۔۔۔۔۔ تمام لوگوں کو ہدایت ملی تھیں کہ اپنے اپنے گھروں کو جاؤ لیکن کوئی بھی گوٹھ چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا جب تک تفتیش مکمل نہ ہوجائے۔
کریمو نے اجازت ملتے ہی افضل سے مکرم کو اس کے گھر چھوڑنے کی اجازت طلب کی اور مکرم کو سہارا دیتے ہوئے ڈیرے سے باہر نکل آیا۔ دروازے کے پاس سے گزرتے ہوئے کوڑے کے ڈھیر کے نہ ہونے نے اس کے اندر تک سکون بھر دیا۔ تمام رستہ دونوں نے احتیاطاً آپس میں کوئی بات نہیں کی۔
جب گھر میں داخل ہوئے تو نوری اور اس کی ماں کریمو کا مکرم کو سہارا دیے لاتے دیکھ کر باہر کی طرف بھاگیں۔۔۔۔۔ “کیا ہو گیا اس کو؟” نوری کی ماں کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ “کچھ نہیں ہوا …. حوصلہ کرو ۔۔۔۔۔ بخار ہے اتر جائے گا ۔۔۔۔۔ کوئی چا شا بنا دھیے۔۔۔ کھلا ابّے کو، بھوکا ہے یہ۔۔۔۔” کریمو نے مکرم کو چارپائی پر لٹاتے ہوئے نوری کو ہدایات دیں۔
وہ جیسے ہی اٹھ کر جانے لگی تو ماں نے ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔ “تو ٹھہر جا۔۔ میں بنا کر لاتی ہوں” اماں کا رخ چولہے کی طرف ہو گیا اور نوری اپنے ابّا کے گھٹنے سے لگ کر بیٹھ گئی۔۔۔۔ “کیا ہو گیا ابا؟۔ کل تک تو تُو ٹھیک تھا۔۔۔۔۔” باپ کی پریشانی میں اپنی پریشانی کو وہ بھول ہی گئی تھی۔
مکرم نے آنکھیں نہیں کھولیں وہ ابھی نوری کا سامنا نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔۔۔ مکرم کی بجائے جواب کریمو نے دیا۔۔۔۔ “دھیے بخار ہے ، اُتر جائے گا ۔۔۔۔۔پریشان نہ ہو۔۔۔ جا پانی لا کے پلا چاچے کو۔۔۔۔۔”
“جی چاچا! ابھی لائی۔۔۔۔”
نوری جب گھڑے سے پیالے میں پانی نکال کر پلٹی تو اندر سے آتی آوازوں میں اپنا نام سن کر وہیں رک گئی۔۔۔۔۔۔ دیکھ مکرم! ظالم کو رب نے انجام تک پہنچادیا ہے, اب بچی کے سامنے اور اس کی ماں کے سامنے ایسے مت کر کہ وہ شک کرنے لگیں۔۔۔۔۔” کریمو اس کو سمجھا رہا تھا۔۔۔۔ پیار سے، ہمدردی سے ۔
“کب تک کریمو ؟ کب تک بچوں گا میں؟۔ کریمو قتل کیا ہے،قتل میں نے۔”
“قتل۔۔” نوری کے ہاتھ سے پیالہ چھوٹ کر ریت کے فرش پر جاگرا۔۔۔۔۔۔۔ پیالے کے پانی کو پیاسی ریت نے چند لمحوں میں ہی اپنے اندر جذب کرلیا، بنا کسی آہٹ اور شور کے۔
“بس کر دے یار!…. بس کر دے۔۔۔۔۔ یہ لفظ آئندہ اپنے منہ سے مت نکالنا، کچھ نہیں کیا تو نے۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں اور تجھے پتہ بھی نہیں ہے کُچھ۔۔۔۔۔ سمجھا کہ نہیں؟؟؟؟ اور ہاں ان کپڑوں اور چھرے کے لئے پریشان نہ ہونا وہ میں نے ٹھکانے لگا دیے ہیں۔۔۔۔۔” کریمو نے مکرم کی پریشانی کی یہ آخری وجہ بھی ختم کردی۔
” وہ کیسے؟” مکرم نے بے صبری سے پوچھا…. جس پر کریمو نے اپنے کمرے سے نکلنے سے لے کر اگلے دن تک کی ساری کہانی کہہ سنائی اور یہ بھی بتا دیا کہ جب وہ ڈیرے سے نکل رہے تھے تو وہاں کوئی کوڑے کا ڈھیر نظر نہیں آرہا تھا۔
نوری کے ہاتھ کانپ رہے تھے اس کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔ “ابّا نے سائیں کو قتل کردیا۔۔۔ لیکن کیوں؟؟؟؟ کیا وہ جانتا ہےجو اس نے کیا ، لیکن کیسے؟ کیا سائیں نے خود ابّا کو بتایا ؟
سوال، سوال، سوال ۔۔۔۔۔۔سوچوں کا جم غفیر تھا لیکن جواب سے محروم۔۔۔ دنیا اس کی نظروں میں گھوم سی گئی جب فرش پر کچھ دور کتاب پڑی نظر آئی۔۔۔۔ نوری نے جاکر کتاب کو ہاتھ میں نہیں لیا، وہ تو اس کتاب کو خود ریت پر پھینک کر آئی تھی۔ یعنی ابّا لایا کتاب۔۔۔۔۔ ۔۔ ابّا نے سب سمجھ لیا
قبل اس کے کہ قسمت کی ستم ظریفی پر وہ چکرا کر گر جاتی امّاں نے اس کو تھام لیا “نوری, نوری۔۔۔ “اماں کی پکار پر اندر سے کریمو اور مکرم بھی بھاگتے ہوئے باہر آئے جہاں وہ ماں کے بازؤں میں بے ہوش پڑی تھی۔۔۔۔۔ “اس کو کیا ہوا؟” کریمو نے پریشانی کے عالم میں زمین پر بیٹھ کر نوری کے ہاتھ ملنا شروع کردیئے۔
” یہ باہر کیوں آئی تھی ؟” امّاں نے مکرم سے پوچھا ۔
“پانی لینے”
اور وہ سب سمجھے چکرانے سے پانی کا پیالہ ہاتھ سے چھوٹ گیا،
کریمو اور اماں نے مل کر اس کو چارپائی پر لٹایا, مکرم پانی لے آیا۔ پانی کے چھینٹے لگتے ہی نوری کی آنکھیں سکڑنے لگیں یعنی وہ حواس بحال کرنے ہی والی تھی اپنے۔۔ سب کی جان میں جان آئی اسکی ہلکی پھلکی جنبش دیکھ کر۔ امّاں اور ابّا اور کریمو اپنے اپنے تئیں اُس کی حالت کی وجہ جانتے تھے ، سو مغموم تھے۔
“گھر میں بخار کی کوئی دوا پڑی ہے ؟” کریمو نے نوری کی ماں سے پوچھا۔
” نہیں ادا! ضرورت نہیں پڑی بہت عرصہ ہو گیا, کوئی دوائی نہیں ہے گھر میں۔” امّاں کے چہرے پر بیٹی اور شوہر کی بیماری کی وجہ سے پریشانی کے اثرات نمایاں تھے۔
“اچھا میں گھر سے لا دونگا کچھ دیر تک۔۔۔۔ لگتا ہے نوری کو کمزوری ہے۔ ابھی تو گوٹھ سے باہر نہیں جا سکتے لیکن جب اجازت مل جائے گی تو اس کو شہر لے جائیں گے ڈاکٹر کو دکھانے”۔
” کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ کیوں گھر سے باہر نہیں جا سکتے؟” اماں نے کریمو کی گفتگو کے آخری الفاظ اُچک لیے۔
” وہ تجھے مکرم بتائے گا۔میں اب چلتا ہوں۔۔ اچھا مکرم! پریشان مت ہونا رب سائیں بڑا کارساز ہے وہ ہماری ہر حال میں مدد کرے گا،بس ہمت نہیں چھوڑنا۔” کریمو مکرم کا کاندھا تھپتھپاتا ہوا اس کے ساتھ باہر تک آیا اور پھر اُسے آرام کی ہدایت کرتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔
“کیا کہہ رہا تھا کریمو؟۔۔” نوری کی ماں نے مکرم کے اندر آتے ہی یہ پریشان کن سوال دہرایا۔
“او نوری کی ماں! دم تو لے لینے دے بتاتا ہوں، پہلے تو اس کو ہلا جلا۔۔۔۔۔ کچھ کھایا ہے اس نے ؟؟” مکرم کو نوری کی بہت فکر ہو رہی تھی، وہ اس کے ردعمل کی وجہ سمجھتا تھا۔
” ہاں زبردستی تھوڑا بہت کھلایا تھا۔
اٹھ جا دھیے ! دیکھ ابّا پریشان ہو رہا ہے تیرے لیے۔۔۔۔۔” نوری کی ماں نے اس کے بال سہلائے نوری کا جسم پر سکون تھا گویا وہ اب نیند کی کیفیت میں تھی۔ لیکن ماں کی مہربان آغوش اور مدھر لمس نے اس کو کسمسا کر آنکھیں کھولنے پر مجبور کردیا۔ اس کی آنکھیں کھلتی دیکھ کر ماں ،باپ دوبارہ سے جی اٹھے اور دونوں کو اپنے آس پاس بیٹھا دیکھ کر اس کی روح تک سرشار ہوگئی۔۔۔اماں نے مسکرا کر اسکے بال سہلائے۔
“ہاں نوری کے ابّا اب بول کیا چھپا رہا ہے؟” نوری کی ماں کا رخ ایک بار پھر مکرم کی طرف ہو گیا اور یہی وہ لمحہ تھا جب نوری کی یاداشت میں وہ الفاظ دوبارہ گھومنے لگے۔ “قتل کیا ہے میں نے کریمے ۔قتل۔۔ کاش میرے آنکھیں بند کر لینے سے سب بدل جائے۔۔۔ جو، جو کچھ ہو چکا ہے، وہ نہ ہوا ہو۔ کاش یہ خواب ہو، میں آنکھیں کھولوں اور سب ٹوٹ جائے۔ سب ٹوٹ جائے ۔۔۔۔۔” لیکن بند آنکھوں کے پیچھے حقیقت کی تلوار لٹکی تھی وہ صرف نظر نہیں کر سکتی تھی۔رواں،رواں سن ہو گیا تھا سننے کے لئے کہ اُس کی سماعتوں سے ابّا کی آواز ٹکرائی۔۔ ۔۔
” رات کسی نے وڈا سائیں کو قتل کردیا ہے نوری کی ماں۔۔۔”
” کیا ۔؟ وڈا سائیں کو قتل کردیا ۔” اماں کے ہاتھ سے نوری کا ہاتھ چھوٹ گیا اور نوری کی سماعت انہی الفاظ میں کھو گئی۔۔
” کسی نے” اسے لگا شاید ابّا سب بتائے گا امّاں کو جس کا ذکر کریمو چاچا کے سامنے ہو رہا تھا لیکن اب احساس ہوا کہ ابا یہ نہیں بتانا چاہتا کہ قتل اسی نے کیا ہے۔
” ہاں ! قتل ہو گیا ہے وہ شیطان ۔ غم نہ کر، فکر نہ کر۔۔۔ شکر ادا کر نوری کی ماں۔۔۔ اگر وہ زندہ رہتا تو آج یہ گھر ہمارے پاس نہ ہوتا۔ ہم صحرا کی ریت پر بے یارو مددگار پڑے ہوتے۔ اللہ بڑا غفور الرحیم ھے اس نے ہمیں اُس انسان نما شیطان کے شر سے بچا لیا۔ رب سوہنے کو پتا تھا ہم کمزور لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ دیکھو کیسی غائبی مدد اُتری ہے آسمان سے، کسی نے اس کو راتوں رات ہی مار دیا۔۔۔۔ ”
“نوری کے ابا تو کیا کہہ رہا ہے؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔۔” امّاں اپنی جگہ ٹھیک تھی، اس کے لئے یہ سب کچھ پہیلی ہی تو تھا۔ مکرم نے رات کا قصہ کہہ سنایا رجسٹر میں درج اپنے نام اور قرض کا ، لیکن قتل کا معاملہ حذف کر لیا۔ کچھ دیر قبل اماں جتنی پریشان تھی اب اتنی ہی مطمئن تھی اور شکر ادا کر رہی تھی اس کے مر جانے پر۔۔
مکرم کے جسم کا کونا کونا درد کر رہا تھا اور نوری کی روح کا ۔
کمرے کے نیم ملگجے ماحول میں 3 چارپائیوں پر تین وجود پڑے تھے۔ ایک مطمئن کیونکہ آگہی کے عذاب سے ناآشنا تھا۔۔نوری ۔۔۔جو اپنی روح کے زخموں کو تو برداشت کر رہی تھی اب یہ بھی سہنا تھا کہ ابّا سب جانتا ہے اور اس انسان کو اس کے لئے جان سے بھی مار دیا اور تیسرا وجود مکرم جو بیٹی کا بدلہ لے تو چکا تھا لیکن اپنے مستقبل کے لیے غیر یقینی صورتحال کا شکار تھا ۔۔۔۔۔بہرحال دو دن اور ایک ہولناک رات کے بعد اب تینوں بے خبر سو رہے تھے۔۔

~~~~~~~~~~

تفتیشی افسر اپنے ساتھی اہلکار افضل کے ساتھ سر پکڑ کر بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔ آج وقوعے کو پانچ روز گزر گئے تھے لیکِن کوئی سرا ہاتھ نہ آ رہا تھا۔
” کمرے کی کھڑکی کی چٹخنی کا کھلا ہونا اس بات کی دلالت کرتا ھے کہ قاتل باہر سے آیا تھا لیکن اتنا ہوشیار قاتل کہ کوئی ثبوت ہی نہیں چھوڑ کرگیا۔” افسر نے افضل سے معاملہ بیان کرتے ہوئے حقیقت میں خود کلامی کی۔
” سرکار! آپ کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ ہمارے سر پر اور کم کام ہیں۔۔۔۔۔ الیکشن ہیں۔۔۔۔اور وڈا سائیں کے گھر والے بھی تو کوئی خاص مقدمے کی پیروی نہیں کر رہے۔۔۔۔۔۔ بھائی بند الیکشن چھوڑنا نہیں چاہتے، بیٹے پاکستان آنا نہیں چاہتے، ڈیرے کے ملازمین اور گوٹھ کے لوگوں نے تو شکر ادا کیا ہے کہ جس نے بھی مارا، نیکی کی۔ کوئی بھی تو قاتل کو تلاش کرنا نہیں چاہتا۔۔۔۔؟” افضل نے اپنے صاحب کو تسلی دی۔
“کہہ تو تُو بھی ٹھیک رہا ہے۔۔۔۔۔ اور بھلا یہ کوئی حرکت ہے کرنے والی ۔۔۔۔۔” افسر نے نیلا رجسٹر اٹھا کر ایک بار پھر ورق ورق پلٹنا شروع کردیا۔
“سرکار! جس، جس کا نام درج ہے سب سے پوچھا ہے۔ لوگوں نے مرے ہوئے کو گالیاں دی ہیں۔۔۔۔یہاں کوئی بھی نہیں جانتا تھا سائیں کا یہ روپ۔۔۔۔۔۔ اور جن کو بلیک میل کر چکا ہے وہ الگ بول رہے تھے۔” افضل نے بھی اب تک کی کارکردگی پر تبصرہ فرمایا۔
” تو بس پھر کچھ دن اور لٹکا کر فائل بند کردیں گے۔۔ خس کم، جہاں پاک۔ یہاں کون ہے پوچھنے والا اور کوئی پوچھنے والا آ بھی گیا تو یہ سب اس کے سامنے رکھ دیں گے۔۔۔۔ قاتل آیا کھڑکی سے کود کر۔۔ قتل کرکے فرار ہو گیا اور آج تک نہیں ملا۔ اللہ اللہ، خیر صلا۔” دونوں قہقہہ لگا کر ہنس دیئے۔ اور یوں ایک شیطان کا باب ختم ہوا۔ اگلے جہاں کا حساب تو وہی جانے جہاں کا رجسٹر اس کے نام سے بھرا ہو گا۔
~~~~~~~~~~

پلکوں پر اٹکے دو موتی ٹپک کر اس کے دوپٹے میں جذب ہوگئے۔ شدید تھکن محسوس ہو رہی تھی۔ برسوں جو بوجھ کاندھوں پر اٹھایا تھا ،آج اس کو سرکایا تو اس کی تھکن۔ ایک ان چاہی کیفیت جو اس کے اعصاب پر مسلط رہی تھی۔
“اب کیسا محسوس کر رہی ہے؟” فرہاد کے ٹھنڈی پھوار جیسے لہجے میں اتنا سکون تھا کہ اس نے یہ سکون زندگی بھر کسی اور چیز میں محسوس نہ کیا تھا۔
“میں ٹھیک ہوں فرہاد ۔۔۔” اپنی زندگی کی تلخ حقیقتیں وہ آشکار کر تو چکی تھی لیکن اس کو خوف تھا اب فرہاد کیا سوچے گا۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف فرہاد کے چہرے پر کسی قسم کے تاثرات نہیں تھے۔ وہ تو پیار کی مٹی سے گوندھا تھا۔۔ سراپا پیار، خلوص، خیال۔۔۔۔۔
“تو نے صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں نوری! چل گھر۔۔۔ کھا لے اب ۔۔۔” کمال کا یقین تھا فرہاد کو اس نے نوری سے پوچھا نہیں تھا کھانے کا لیکن اس کو یقین تھا کہ وہ بھوکی ہوگی۔ کیا، کیا خوبیاں تھیں اس میں ہر ادا، ہر خوبی پر وہ فدا ہوجاتی تھی۔ نوری منہ سے کچھ نہ بولی لیکن اٹھ کھڑی ہوئی اور وہ دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے پچھلی دیوار کی اوٹ میں۔
“تو میرے ساتھ ہوتا ہے تو بہت سکون محسوس کرتی ہوں میں۔۔۔۔۔” نوری کا دل بار بار چاہ رہا تھا کہ وہ اعتراف کرے۔۔۔ فرہاد کی محبت کا اعتراف۔ وہ چاہتی تھی کاش الفاظ بھی فرہاد کی محبت کی طرح نایاب ہوں۔
“ہمم! میں جانتا ہوں۔” فرہاد کے ہونٹوں پر مدھم، حسین مسکراہٹ تھی۔
” تو بڑا لاپرواہ ہو گیا ہے ویسے ۔”فرہاد کی مختصر کلامی پر وہ ذرا روٹھی روٹھی گویا ہوئی۔
” نہیں۔ سوچ رہا تھا۔ کبھی ،کبھی صرف سننا اچھا لگتا ہے، بولنے کو دل نہیں چاہتا۔۔۔۔ ” فرہاد کی ہنستی، باتیں کرتی آنکھوں نے نوری کو اپنے حصار میں لے لیا۔
“فرہاد جب تو ایسے دیکھتا ہے نا ۔”
“چپ ۔۔”
فرہاد کی شہادت کی انگلی نے نوری کے چلتے ہوئے لبوں پر خاموشی کی سند رقم کردی۔
” اب چپ کر کے گھر جا ،کھانا کھا اور آرام کر۔۔۔ جو گزر گیا اسے بھول جا۔” فرہاد کی انگلی بدستور نوری کے لبوں پر دھری تھی۔ اس کے ہاتھ کی مہک نوری کے اتنے قریب تھی۔۔۔۔ ایک لمبا سانس لے کر اس نے وہ مہک اپنے سینے میں اتار لی۔
” جارہی ہوں بابا۔۔۔۔۔ لیکن وعدہ کر جلدی آئے گا؟”
” تجھ سے دور کہاں جانا ہے، جب بُلائے گی آ جاؤں گا۔۔۔۔” اور نوری نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی لطیف قربت سے دور ہوتے ہوئے گھر کے کھلے کواڑ میں داخل ہو گئی۔
اماں نے اس کے مطمئن چہرے اور مسکراتے لبوں کو دیکھ کر نظریں چرا لیں۔ دکھ قطرہ، قطرہ برس رہا تھا اس کے وجود پر۔ سوچوں کی امر بیل پر ایک نئی کونپل بھی پھوٹ آئی تھی۔ بوڑھا ناتواں وجود جو پہلے ہی کھوکھلا تھا اب اس مضبوط جکڑ کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے لئے تیار تھا لیکن زندہ وجود کے سانس لیتے دل کا آخری ارمان تھا نوری کی شادی ۔۔۔۔۔۔۔
نوری نے ماں کو چارپائی پر لیٹا دیکھا تو گزشتہ رات کی تمام تلخی بھلا کر اس کے پاس چلی آئی۔ ” اماں! تُو نے کھانا نہیں کھایا نا؟ ” اس نے اماں کے ضعیف ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لے کر چوما۔
” بنایا تو تھا لیکن تو نے نہیں کھایا تو میرا بھی دل نہیں کیا کھانے کو۔”
“اُفف اماں! تیری نوری کتنی بری ہے سوچا ہی نہیں میں نے۔۔۔۔ اماں مجھے معاف کر دے۔۔۔۔ میں ابھی اپنا اور تیرا کھانا لاتی ہوں۔۔۔۔” وہ عجلت میں بولتی امّاں کا ہاتھ سہولت سے نیچے رکھ کر کھانا نکالنے اٹھ کھڑی ہوئی لیکن اماں کی آواز نے قدم روک لئے۔
” نوری! تو نے پہلے کبھی کیوں کچھ نہیں بتایا مجھے ؟ کیا تجھے اپنی ماں اس قابل بھی نہیں لگی کہ اپنا دکھ مجھے بتا دیتی۔۔۔۔؟” نوری جس لمحے کا سامنا کرنے سے اتنے سال تک ڈرتی رہی تھی وہ لمحہ آ گیا تھا۔۔۔۔ ٹانگوں میں کھڑا رہنے کی سکت نہیں تھی وہ وہیں ریت کی زمین پر بیٹھ گئی۔
“پتا ہے تُجھے یہ انگارہ کیسے بنتا ہے؟” نوری نے امّاں کی کھوئی کھوئی آواز پر نظر اٹھائی۔ “کوئلے کو دہکایا جاتا ہے، وہ پکتا رہتا ہے، پکتا رہتا ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ لال انگاره بن جاتا ہے۔۔ آگ میں آگ بن جاتا ہے۔۔۔۔۔ بڑی تپش ہوتی ہے اس میں۔۔۔ پھر اُس کے سامنے بیٹھا نہیں جاتا۔۔۔ سیک نکلتا ہے نا اس میں سے۔۔”
“امّاں۔۔۔” نوری امّاں کی بہکی بہکی باتوں سے خوف زدہ ہو کر اس کی چارپائی کے پاس چلی آئی۔
” یہ دیکھ ۔۔ یہ رہے انگارے۔۔۔” وہ چارپائی سے کھڑی ہوگئی اور اشارے سے نوری کو دکھانے لگی۔
” بھری ہوئی ہے چارپائی انگاروں سے ۔۔۔جل رہی ہوں میں۔۔ ۔ یہ دیکھ جھلس گئی میری کمر۔۔ دیکھ نا۔۔۔ دیکھا جل گیا نا سب کچھ۔” اماں ہیجانی کیفیت میں چلا رہی تھی۔
نوری نے اس کو اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا۔۔۔۔۔ “امّاں چپ۔۔ کوئی انگارہ نہیں ہے یہاں ،کچھ بھی نہیں جلا۔۔ امّاں ہوش کر۔۔ خدا کے لئے ہوش کر۔۔ اگر تُو ایسے کرے گی تو میں رو پڑونگی۔”۔ اماں کو سنبھالتے سنبھالتے وہ خود ہانپ گئی تھی لیکن دھمکی کارگر ثابت ہوئی اماں نے مزاحمت چھوڑ دی وہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔ چپ۔۔۔۔ بالکل چپ۔ نوری اس کے پاس بیٹھ کر اس کے ہاتھ دبانے لگی کچھ ساعتیں دونوں کے درمیان ایسے ہی نکل گئیں۔۔۔۔ مہر به لب۔ “مجھے صرف اس خنزیر کا نام بتا دے؟ امّاں کا ظاہری اطمینان بھی اس کے اندر کے الاؤ کو چھپا نہیں پا رہا تھا۔ “تو کیا کرے گی جان کر امّاں؟ چھوڑ دے اِس قصّے کو۔۔۔۔ بھول جا ۔ بار،بار مت کرید مجھے دکھ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔؟
” تُو نے اپنے حصے کا دکھ سہہ لیا ہے، اب نہ دکھ کر۔۔۔۔ مجھےاس عذاب سے لڑنا ہے اب عمر بھر۔۔۔ ” تکلیف امّاں کے لہجے سے عیاں تھی۔
“اللہ نہ کرے اماں تجھے کوئی دکھ دیکھنا پڑے, نہ خود کو ہلکان کر۔۔۔۔ جس لعنتی کے لیے خود کو تکلیف دے رہی ہے وہ کب کر رخصت ہوگیا ہے دنیا سے۔۔۔۔” اماں کو سچ بتائے بنا گزارا نہیں تھا اب۔
” کیا مطلب۔۔۔۔۔؟”
“میں کیا بتاؤں اور کہاں سے بتاؤں؟ کہانی ہے بہت لمبی لیکن تیری یہ حالت دیکھی نہیں جارہی۔۔۔۔” نوری نے سرجھکا کر مختصرا اماں کو مردود کے دنیا سے چلے جانے کا قصہ سنا دیا بشمول قاتل کے۔
“ساری زندگی تیرے ابا نے مجھ سے کچھ بھی نہیں چھپایا اور اب چھپایا بھی تو کیا۔۔۔۔۔ امّاں نے تاسف سے اپنا ماتھا ہتھیلی پر گرا لیا۔
“مجھے یہ زندگی کبھی بھی پسند نہیں تھی لیکن اپنی پسند کی زندگی منتخب کرنے پر ہمارا اختیار ہی کہاں ہے۔۔۔۔۔ تیرے ابا نے ساری زندگی میرا بہت خیال رکھا، ہم نے مطمئن زندگی گزاری ہے لیکن ہمیشہ مجھے اس صحرا سے خوف آتا تھا۔ میری ماں مجھے چھوڑ گئی، پلٹ کر نہ آئی کبھی کبھی دل بہت گھبراتا تھا۔۔۔ ماں یاد آتی تھی، ابا بھی یاد آتا تھا۔ میرا چھوٹا سا بھائی تھا۔ میری شادی ہو گئی تیرے ابا سے وہ بہت رویا تھا جب مجھے چھوڑ کر جا رہا تھا۔ کیا زندگی ہے یہ۔۔۔۔؟
میں تیرے ابّا سے چھپ کر روتی تھی۔۔۔۔ اس کے سامنے روتی تو وہ پریشان ہو جاتا تھا۔ بڑے سالوں کے بعد اللہ سائیں نے تجھ سے نوازا۔ تیرے بعد جیسے مجھے صبر آگیا، پھر نہیں کبھی پچھلوں کا سوچا۔ تُو تو ہماری کائنات تھی بڑا چھپا،چھپا کر رکھتے تھے ہم تجھے۔
تیرا ابّا بڑا وہمی تھا، رات کے وقت کبھی صحن میں بھی تجھے اکیلا نہیں جانے دیتا تھا۔۔۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا اتنی بڑی غلطی مجھ سے کیسے ہو گئی اس دن تُجھے اکیلا جانے دینے کی۔۔۔ ” وہ اپنی بیٹی کے سامنے اپنی ذات کو پرت در پرت کھول رہی تھی، حقیقت میں وہ یہ سب اس کو نہیں بتا رہی تھی بلکہ اپنے اندر کھوئی ہوئی اپنی ذات کو دہرا رہی تھی۔۔۔۔۔
“امّاں! تو نے پہلے کبھی بھی صحرا کو برا نہیں کہا نا ہی کبھی تو نے اپنی زندگی کے حوالے سے کوئی شکایت کی مجھ سے یا ابّا سے۔۔۔۔۔ لیکن میں پھر بھی جانتی ہوں تو نے کبھی کبھی بہت مشکل دن گزارے ہیں یہاں۔۔۔ میں تیری بیٹی ہوں نا تُو مجھے نا بھی بتائے میں جان جاتی ہوں۔
میرے دل سے تیرے دل تک رستہ جاتا ہے” نوری نے اپنے سینے پر امّاں کا ہاتھ دھرا اور بولتی گئی۔
” میرے اندر تو ہے۔ تیرا غم میرا غم ہے، تیرا سکھ میرا سکھ ہے لیکن اب تو اگر ایسے روئے گی تو مجھ سے برداشت نہیں ہوگا۔۔۔ میں تو پہلے ہی بہت کمزور ہوں، تجھے اور ابا کو دیکھ کر جیتی ہوں۔۔۔۔ تُو کمزور نہ پڑ امّاں۔۔۔۔” نوری مسلسل امّاں کا کرب کم کرنے میں جتی ہوئی تھی۔۔۔۔ شاید امّاں بہل بھی گئی تبھی چپ تھی۔
زندگی بھی کیسا گورکھ دھندا ہے گول گول گھماتا ہے اپنے جینے والوں کو اور مشیت ایزدی سے چکر کھاتا انسان خود کو فرعون سمجھ لیتا ہے۔۔۔۔۔ بھلا سوچ اے انسان! تیرے اختیار میں ہے کیا۔۔۔ ایک پل بھی تو تیرے ہاتھ میں نہیں ہے، پھر تو کیسے دوسروں کی زندگیوں کا کفیل بن جاتا ہے۔ لیکن جب ناقص العقل کو سمجھ آتی ہے کہ طاقت کا مرکز رب ہے تب تک دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔۔۔ بہت دیر ۔۔۔ اماں کو سہلاتے سہلاتے نوری گہری سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

“صحرا میں پھول کیوں نہیں کھلتے فرہاد؟؟؟” اپنے مخصوص گوشے میں فرہاد کے ساتھ بیٹھے ہوئے وہ دور سے آتی ہواؤں کو اپنے چہرے پر محسوس کرکے بہت خوش تھی۔۔۔۔۔
” کھلتے ہیں نا۔۔۔۔۔۔۔۔ صحرا کے پھول سا خوبصورت پھول تو میں نے کہیں دیکھا ہی نہیں۔۔۔۔۔” فرہاد کی آنکھوں میں جلتے چراغوں کی تپش نوری نے اپنے چہرے پر محسوس کر لی۔
” مذاق نہ اڑا تو میرا۔۔۔۔”
” کافر ہی ہو، جو مذاق اڑائے۔۔۔۔۔” انتہائی سنجیدگی سے ترکی بہ ترکی جواب دے کر وہ اطمینان سے اس کے پہلو سے لگ بیٹھا۔ “تجھے پتا ہے صحرا میں بھی پھول کھلتے ہیں لیکن ان کو توڑنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ بہت سارے سخت کانٹے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ دور سے دیکھنے میں بہت حسین لگتے ہیں لیکن اگر پاس جاکر بہت دھیان سے بھی پھول کو توڑنے لگو تو ایک آدھ کانٹا تو ضرور ہی سلامی دیتا ہے توڑنے والے کے ہاتھ کو۔۔۔۔۔۔”
“تُو کہہ رہا تھا میں صحرا کا پھول ہوں۔۔۔۔۔؟” نوری نے درمیان سے فرہاد کی بات اُچک کر سوال کیا۔
” تو ہو نا ۔۔۔۔ صحرا کا گلابی پھول۔۔۔۔”
” تو میرے گرد وہ کانٹے کیوں نہیں تھے جو توڑنے والے کے ہاتھ کو سلامی دیتے؟” نوری نظر جھکا لی۔
” اُف نوری اُف۔۔۔۔۔بھول جا اللّٰہ کی بندی۔۔۔۔ میں کتنا تیرا دھیان بٹاتا ہوں تو پھر وہیں پہنچ جاتی ہے۔۔۔۔۔”
” بھول جاتی ہوں۔۔ پھر یاد آ جاتا ہے۔۔۔۔”
” کچھ برا یاد نہیں کرنا اب تو نے۔۔۔۔۔ سب بھول جا ورنہ میرے پاس مت آنا۔۔۔۔ سنا تو نے؟؟؟” فرہاد نے خوشمگیں نگاہوں سے اسے گھورا۔
“میں آؤں گی تیرے پاس۔۔۔۔۔” نوری نے جیسے ہی نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو سٹپٹا گئی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply