کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں۔۔۔۔۔۔۔فرح وقاص خان/قسط1

سورج کی کرنیں اپنی آب و تاب سے صحرا کی ریت کو تپاۓ دے رہی تھیں۔ تا حدِ نظر دکھتا صحرا تتے پانی کا دور دور تک پھیلا ذخیرہ لگ رہا تھا۔ صحرا میں کھڑا واحد درخت ہوا کے زور سے کبھی دائیں اور کبھی بائیں اڑ اڑ جاتا، لیکن یہ ہوا سے اڑتی ریت اگر چہرے کو چھُو لے تو ما نو چہرہ چھل جائے۔ اس سارے منظر کا حصہ وہ دو نین بھی تھے جو خلاؤں میں تک رہے تھے سوچ کے گھوڑے تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
“نوری۔۔۔” کوئی اس مجسمہ بنی بیٹھی لڑکی کو پکارتا ہوا اس کے قریب آرہا تھا لیکن نوری کو اس کی چنداں پرواہ  نہیں تھی، وہ نہیں چاہ رہی تھی کہ اس کے خیالات میں کوئی مخل ہو۔ لیکن سکھی سہیلیوں کو مخل ہونے کے لئے اجازت کی ضرورت ہی کہاں ہوتی ہے۔
“اری۔۔ بہري ہو گئی ہے کیا کب سے آوازیں دے رہی ہوں۔” نرگس نے نوری کی کمر پر دھپ لگا کر غصّے سے اُسے گھورا ، تیز تیز آنے کی وجہ سے اُس کا سانس پھولا ہوا تھا۔
“کیوں آوازیں دے رہی تھی مجھے ؟ کبھی تو اکیلا چھوڑ دیا کر آسیب کی طرح پیچھے لگی رہتی ہے” نوری کو نرگس کی طوفانی آمد کچھ خاص پسند نہیں آئی تھی۔
“ہاں ۔۔۔ کہتی تو تُو ٹھیک ہے میں وہ آسیب ہوں جو تیرا پیچھا کبھی بھی نہیں چھوڑنے کی اور ڈھونڈ اس لئے رہی تھی کہ تُجھے کچھ بتانا تھا۔۔۔۔ لیکن تُو سننا نہیں چاہتی تو کوئی بات نہیں۔ مرضی تیری۔” نرگس ہاتھوں سے ریت جھارتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی کہ یک لخت نوری نے اسے کھینچ کر بٹھا لیا۔ ” اب اترا نہ زیادہ ۔۔۔ بتا جو بتانے آئی تھی” نوری کا اتنا کہنا تھا کہ وہ ساری ناراضگی بھول کر ریڈیو اناؤنسر کی طرح شروع ہو گئی۔۔ ” کل میری امّاں تیرے گھر آ رہی ہے ، تیرا رشتہ مانگنے ادّا ساجد کے لئے۔” نرگس کے بے ساختہ خوشی کے اظہار نے اس کے سر پر بم پھوڑ دیا۔
” تیرا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔ میرا رشتہ ادّا ساجد سے۔ تُو پاگل ہے مُجھ سے پوچھے بغیر اپنی امّاں کو میرے گھر لائے گی۔ میں نے شادی نہیں کرنی ، سن لیا تو نے۔۔۔۔” غصّے اور بے چارگی سے اُنگلیاں چٹخاتے وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔
” رک جا نوری۔۔۔۔ ” نرگس حیران پریشان اسکے سامنے آئی تو ضبط سے اسکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ ” شادی نہیں کرنی يا ادّا ساجد سے نہیں کرنی؟” نرگس نے اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اُسے ٹٹولنے کی کوشش کی۔ نوری نے پلٹ کر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں سے جھٹک دیا۔ “کسی سے بھی نہیں کرنی۔۔۔” ” پر کیوں نہیں کرنی میرا ادّا ہیرا ہے ہیرا گوٹھ کی سب لڑکیاں مرتی ہیں اس پہ اور وہ تُجھ پہ۔۔۔۔” نرگس نے با قاعدہ جرح کی ساتھ ہی اس کا ہاتھ بھی پیار سے سہلایا۔
“نرگس میں نے کہہ دیا نا  میں نے شادی نہیں کرنی ، نہ ادّا ساجد سے نہ کسی اور سے۔۔۔۔” کسی وحشت ، کسی اضطراب نے گویا اس کے بدن کو جکڑ لیا، سانس لینا مشکل ہونے لگا۔ گرم گرم آنسو قطار در قطار اس کے گالوں پر بہنے لگے۔
“او جھلی ۔۔۔۔ روتی کیوں ہے تُو نہیں چاہتی تو کل امّاں کو نہیں بھیجوں گی تیرے گھر۔۔۔۔۔ بس چپ ہو جا” نرگس نے اسکو گلے لگا لیا لیکن وہ نوری کے اس طرح رونے سے بہت حیران تھی۔ نرگس نے طے کر لیا تھا کہ وہ نوری کو رضا مند کیے بنا امّاں کو نہیں بھیجے گی۔

~~~~~~~~~~

صحرا کا چوڑا سینہ چیر کر سورج اُبھر آیا تھا۔ رات کے آخری پہر میں سرد پڑتی ریت آغاز سحر میں ہی اپنے اندر کی ٹھنڈک کرنوں کی تپش میں جذب کر کے صحرا کی حرارت بڑھانے لگی تھی۔ آثار بتا رہے تھے کہ صحرا کے باسیوں کو ایک اور گرم اور خشک دن سہنا ہے۔ دشت کی یہ سختیاں وہاں رہنے والے  حساس اذہان  میں  کبھی کبھی کانٹے دار جھاڑیوں کی آب یاری کا باعث بنتی ہیں۔ وہ مزاجاً اپنے اندر اور باہر کے ماحول سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتے۔
کھلے سے احاطے میں کچی مٹّی سے بنا ایک کمرہ اور سامنے بڑا سا صحن۔ صحن کے ایک کونے میں گھڑ وں کا راج تھا، کچھ خالی اور کچھ پانی سے بھرے ہوئے۔ چار دیواری کے نام پر کچی مٹی اور اینٹوں کی دیوار تھی وہ بھی بس اس قدر اونچی کہ  جب کوئی کھڑا ہو کر چل پھر رہا ہو تو دیواروں کے پار صحرا کا منظر دکھے۔
صحن کے بیچوں بیچ بانس کے سوکھے ہوئے تنوں سے بنی چھت کے نیچے بیٹھی وہ گزشتہ رات اپنے اور امّاں کے درمیان ہونے والی بحث کا سوچ رہی تھی۔ کیا غلط ہے ،کیا صحیح سوچوں کا ، الجھنوں کا ایک نخلستان اُگ آیا تھا دماغ میں۔۔۔۔۔۔۔
“تُو نے منع کیوں کیا نرگس کو؟۔ اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ اپنے فیصلے خود کرے گی۔” نوری نے امّاں کو نرگس کی امّاں کے آنے اور اپنے منع کر دینے کا احوال بتایا تھا، تب سے امّاں تپتے توے پر بیٹھی تھی ، غصہ ہی کم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔
“آج ہم ہیں ، کل آنکھیں بند ہو گئی تو کون بنے گا تیرا جو تُجھے پوچھے۔۔۔۔؟ خانہ بدوشوں کی رشتے داریاں نہیں ہوتی، اپنے پرائے کا مان نہیں ہوتا ۔
دھی نوری! تُجھے کیا پتا تیرا ابّا اور میں ہر وقت دعا کرتے ہیں کہ تُو اپنے گھر کی ہو جائے، زمانے کی تتی ہوا نہ لگے تُجھے۔۔” امّاں کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے، لمحوں میں 60 سالہ زندگی دماغ میں گھوم گئی سخت مصائب والی۔
ماں باپ نے بیاہا اور چل دئیے آج تک نہ پتا چلا کہاں چلے گئے ، نہ کبھی پلٹ کر بیٹی کی خبر لی۔ زندگی میں ایک نوری کے ابّا کا سہارا تھا اور وہ بوڑھی عورت اپنے سے دس سال بڑے شریکِ سفر کو کھانسی آ جانے پر بھی کانپ جاتی تھی۔ دل میں بسایا اندیشوں اور وڈیروں کے خوف سے بیٹی کو لکھایا پڑھایا بھی نہیں۔ اس نے جو پڑھنا لکھنا سیکھا ساجد سے سیکھا جو اپنی بہن نرگس اور نوری کو پڑھانا چاہتا تھا۔ وہ روشن خیال نوجوان تھا لیکن گوٹھ کے لوگوں کی روشن خیالی ان کے کسی کام کی نہیں ہوتی کیوں کہ زندگیاں وڈیروں کے در کی بندیاں جو ٹھہری۔
“امّاں۔۔۔۔” نوری نے امّاں کی آنکھوں کا درد پڑھ لیا لیکن وہ خود کو بہت مجبور پا رہی تھی۔ امّاں کے ہاتھ تھام کر وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔ ۔۔۔”میں نہیں سمجھا سکتی تُجھے امّاں۔۔ بس میں ابّا کو تُجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی ، ساری زندگی تمہاری خدمت کروں گی۔۔۔۔” اُسے الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ وہ امّاں کو شادی نہ کرنے کی وجہ بتا پاتی۔۔
“چھوڑ میرا ہاتھ دهی دھیانیاں اپنے گھروں کی ہو کر ہی اچھی لگتی ہیں، ساری زندگی ماں باپوں کے نہیں رہتی” امّاں کو نوری کی دلیل بہت بودی لگی۔ ” کل میں خود جاؤں گی نرگس کے گھر” امّاں نے اپنا فیصلہ سنا کر رخ موڑ لیا۔ لیکن حسب توقع نوری کا ردِّ عمل شدید تھا۔
“کیوں جائے گی تو نرگسِ کے گھر۔۔۔۔۔۔؟”
“اس کی امّاں سے ملنے۔۔۔۔ وہ مجھے سامنے دیکھے گی تو خود بات شروع کر دے گی اور اگر اس نے مُجھ سے تیرا رشتہ  مانگا تو میں انکار نہیں کروں گی۔۔۔۔ ”
“امّاں۔۔۔ ۔۔۔۔۔” نوری کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
“امّاں تُو ایسا ہر گز نہیں کرے گی ورنہ میں خود کو۔۔۔۔۔۔”
“ورنہ کیا کرے گی تو۔۔۔ بول نا کیا کرے گی تو۔۔۔۔۔ دھمکی دے گی اب تو مجھے۔۔۔۔۔ مر جائے گی نا۔۔۔۔۔؟ ہاں ہاں یہی صلا ملنا چاہیے تیرے ابّا کو اور مجھے۔۔۔۔۔۔ دنیا کی گندی نظروں سے چھپا چھپا کے رکھا تُجھے، تیری خوشیوں کے پورا کرنے کے لیے کبھی اپنا نہیں سوچا ۔۔۔۔ جان نچھاور کی تُجھ پہ نوری۔۔۔۔۔” شدّت جذبات سے امّاں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا۔۔۔
“اور تُو اب ہمیں اس عمر میں رسوا کرے گی، مر جائے گی، ہے نا؟ مرنے کا بہت شوق ہے تو چل اکٹھے مرتے ہیں، تیرے بنا میں نے جی کے کرنا بھی کیا ہے۔۔۔۔ پہلے میں مروں گی پھر تُو۔۔۔۔” امّاں نوری کو کھینچتی ہوئی صحن میں لے آئی، ایک ہزیانی کیفیت میں وہ اِدھر اُدھر کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔
“لیکن۔۔۔ ہم مریں گے کیسے۔۔۔۔۔ بتا نا کیسے مریں۔۔۔۔؟ امّاں اس کی مضمحل کیفیت سے بے خبر غصے کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔
“ہاں ۔۔۔۔ آگ لگا لیتے ہیں خود کو۔۔۔۔ یہ ٹھیک رہے گا۔ ” اور اس آخری جملے کے ادا ہوتے ہی وہ تڑپ گئی۔
“بس کر دے امّاں۔۔۔۔۔۔ بہت ہو گئی۔۔۔۔ اگر ہر مسئلے کا حل میری شادی ہے تو کر دے جہاں بھی تُو چاہتی ہے۔ شادی کر کے سکون مل جائے گا نا ابّا کو اور تُجھے۔۔۔۔ ٹھیک ہے کر دے۔ لیکن یاد رکھنا بعد کے حالات کی ذمہ دار بھی تُو ہو گی، میں نہیں۔۔ ساری زندگی تُجھے اس صحرا کی ریت سے لڑتے دیکھا ہے، ابّا کی آنکھوں میں سمٹے ہر وقت کے اندیشوں کو دیکھتے ہوۓ بڑی ہوئی ہوں میں۔ یہ ریت کا بھنور ہے جہاں پہلے تیری اور اب میری زندگی چکر کھائے گی۔ میں اس ریت میں بسنے والے آسیبوں سے خود کو کب تک بچاؤں گی۔۔۔۔۔ یہ نوچتے ہیں امّاں۔۔۔۔ یہ مجھے نوچتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ دیکھ، تُجھے یقین نہیں آتا تو دیکھ میرے بازو ۔۔۔۔ یہ نوچنے کے نشان دکھ رہے ہیں تُجھے۔۔۔۔۔ یہ یہ میرا چہرہ دیکھ آسیب زدہ نظر نہیں آتا تُجھے۔ امّاں دیکھ میں خود کو بچاتے بچاتے تھک گئی ہوں۔۔۔۔۔” حیات کا نوحہ پڑھتے پڑھتے وہ زمین میں دھنستی چلی گئی۔ اس بار بت بننے کی باری امّاں کی تھی۔ یہ کونسا درد تھا جو وہ بول رہی تھی، امّاں کاٹو تو لہو نہیں کے مصداق نوری کے بکھرے ہوئے وجود کو ایک ٹک دیکھ رہی تھی۔ ایک شور سا برپا تھا چہار اطراف میں نے کب تیری حفاظت میں کوتاہی برتی ، میں کب غافل ہو گئی، ایسا کب ہوا۔۔۔۔ میں مر کیوں نہ گئی میری دھی
رات کے اس پہر دو زندہ وجود روحوں سمیت زمین میں دهنستے چلے جا رہے تھے۔
نہ کوئی حوصلہ نہ دلاسہ۔۔۔۔۔ سکوت ہی سکوت صبح سحر تک۔۔۔

~~~~~~~~~~

قدموں کی آہٹ اس کے قریب آ کر رک گئی تھی۔ ان قدموں کی دھمک اس کے دل کی دھک دھک سے مل کر جلترنگ بکھیر دیتی تھی۔ اس کا آنا نوری کے لیے ہمیشہ روح پرور ہوتا تھا، اس کی قربت تو سرمایہ حیات تھی۔ لیکن وہ پلٹی نہیں ، آنکھیں موندے اس احساس کو پختہ کر رہی تھی۔۔۔۔ وہ احساس جو اُس کے سلگتے بدن پر ٹھنڈی پھوار کی صورت برسنے لگا تھا۔
نووارد اب اس کے بالکل قریب آ بیٹھا تھا۔۔۔ آہ ! کاش کہ یہ زندگی یہیں تمام ہو جائے، کتنا سکون ہے اس قربت میں۔۔۔۔۔ مجھے تیرا ساتھ چاہیئے فرہاد۔۔ نوری کا دل ضد کرنے لگا۔۔۔۔ بدستور آنکھیں موندے وہ لطف و شکایت کے مراحل سے گزر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ساتھ، ساتھ، ساتھ ۔۔۔۔۔ جونہی ذہن میں اس تکرار کی دھن بجنے لگی نوری نے جلتی ہوئی آنکھیں کھول دیں۔
“پورے آٹھ روز بعد آیا ہے تو۔۔۔”نوری نے بنا دیکھے شکوہ کیا۔۔۔ “تُو نے پُکارا ہی نہیں میں منتظر رہا، پھر مجھے لگا تو اُداس ہے سو خود ہی آگیا۔۔۔۔” فرہاد نے مغموم چہرے کو پیار سے دیکھا۔
“ہنہ منتظر۔۔۔۔۔ بغل بج گیا ہے جدائی کا فرہاد ! شادی کر رہی ہے امّاں میری۔۔ ” بھرائی آواز میں اس نے پلٹ کر پہلی بار فرہاد کو دیکھا۔۔۔ ویسا ہی جاذب نظر، لبوں پہ مدھم مسکراہٹ ، سراپا ٹھنڈک۔ جس قدر نوری مضطرب تھی اتنا ہی وہ پر سکون۔
“چل باہر دیوار کے سائے میں بیٹھتے ہیں۔۔۔۔” فرہاد اسکا ہاتھ تھامے صحن پار کر گیا۔ گھر کی چار دیواری کے پیچھے نسبتاً الگ تھلگ گوشہ وہ دونوں یہاں ہی ملتے تھے، گھنٹوں باتیں کرتے، دیوار کی اوٹ سے ہونے والا سایہ صحرا کی ریت آلود ہوا کی حدت کو قدرے کم کر دیتا تھا ۔ نوری کسی معمول کی طرح اس کے سنگت میں اپنی مخصوص جگہ آ بیٹھی، خالی نگاہوں سے سامنے تکتی ذہن میں مچی ہلچل کے بر عکس سپاٹ چہرہ لئے۔۔۔۔۔
“فرہاد! ۔ تُجھے یاد ہے کتنے سال ہو گئے ہمیں ملے؟۔۔۔” آج تو اس کے تیور ہی مختلف تھے آنکھوں میں دیکھ کے بات کرنے کی بجائے وہ مسلسل سامنے دیکھ کر بات کر رہی تھی، تصوّر کا بہاؤ اس کو یک لخت سات سال پیچھے لے گیا۔ ” نہیں۔۔۔ سال تو یاد نہیں ہیں لیکن اتنا پتا ہے جتنے برس تُجھ سے ملے ہوئے ہیں اتنے ہی برس مجھے جیتے ہوئے ہو گئے ہیں۔۔۔” اپنے مخصوص سے نرم لہجے میں جواب دیا۔
“میں یاد نہیں کرنا چاہتی وہ پل،وہ دن،وہ وجہ لیکن میں کیا کروں وہ سب میری آنکھوں سے نکلتا ہی نہیں۔ ایک عذاب سے گزر کر مُجھے تیری شکل میں آسودگی ملی۔۔۔۔۔” قطرہ قطرہ یادیں آنسو بن کر بہنے لگیں ۔ دفعتاً فرہاد نے اسکو ٹوک دیا۔۔۔ “مت یاد کر کوئی بھی ایسا وقت جس نے تُجھے دکھ دیا۔۔۔بھول جا جو بھی تھا۔۔۔۔تیرا رونا نہیں دیکھا جاتا۔۔۔”نوری کا کرب فرہاد کو بھی تکلیف دے رہا تھا۔
“بھولنا چاہتی ہوں ، کھرچ کر پھینک دینا چاہتی ہوں اپنے حافظے سے لیکن یہ۔۔۔۔ “نوری نے اپنا دایاں بازو اس کے سامنے پھیلا دیا جہاں زخم کا نشان رہ گیا تھا گویا کسی زہریلے جانور کے پنجے نے نوچا ہو۔ ” یہ نہیں بھولنے دیتا ۔۔۔۔۔ جب نظر پڑتی ہے درد ہوتا ہے۔۔۔۔ یہاں درد نہیں ہوتا ۔۔۔۔ یہاں ہوتا ہے۔۔۔۔” نوری نے اپنا ہاتھ دل پر رکھ دیا۔ فرہاد سے ضبط کرنا مشکل ہو گیا، کنپٹیاں سلگنے لگی۔۔۔۔لیکن وہ خاموش تھا۔
“تُو نے کبھی بھی مجھ سے نہیں پوچھا میں کس برے وقت کو یاد کر کے روتی ہوں، میں اس ان کہی تکلیف سے کیوں نہیں نکل رہی؟؟؟۔۔۔۔۔” سرخ آنکھوں کے بر ملا سوال نے فرہاد کو نگاہیں چرانے پر مجبور کر دیا ” کیوں کہ میں سننا نہیں چاہتا، تیری تکلیف سے مجھے تکلیف ہوتی ہے، تیرے آنسو برداشت نہیں ہوتے۔
“لیکن میں بتانا چاہتی ہوں فرہاد۔۔۔۔۔ آج بتانا چاہتی ہوں، دل کا غبار بہت وزنی ہو گیا ہے ،مجھے لگتا ہے میرا سينہ پھٹ جائے گا۔ آج تک کسی کو نہیں بتا پائی ۔۔۔۔۔ بتا ہی نہیں سکتی تھی۔۔۔ ” بولتے بولتے وہ دور کہیں گم سی ہو جاتی۔۔۔” تجھے سننا پڑے گا ۔۔۔ تو سنے گا نا۔۔۔۔۔ وہ سچ جو امّاں نہیں سن سکتی ۔۔۔۔ وہ مر جائے گی۔۔۔ ۔” کبھی غم،کبھی غصّہ،کبھی جنون اور اب بے  چارگی۔۔۔۔فرہاد کو اس لڑکی پر بے تحاشا رحم آیا ۔ ” میں سن رہا ہوں۔۔۔۔ ” فرہاد نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ” لیکن تُو وعدہ کر آج جو کہہ دے گی وہ آخری بار ہو گا ،دوبارہ کبھی یاد نہیں کرے گی۔۔۔۔۔” نوری نے اسکی تنبیہہ سنی اور سر جھکا کر خود کو تیار کرنے لگی۔۔۔۔ اپنی ذات کو پرت در پرت کسی پہ آشکار کرنا آسان نہیں تھا۔ وقت کا پہیہ گھوم کر سات سال پیچھے چلا گیا۔
آج ادا ساجد نے شہر سے آنا تھا اس نے وعدہ کیا تھا اس بار کتابیں لائے گا نوری اور نرگس کے لیے۔ نوری کا شوق دید انتہا کو چھو رہا تھا۔ امّاں کو تفصیل بتا کر وہ چادر اچھی طرح اپنے گرد لپیٹ کر گھر سے نکلی۔ حسب توقع نرگس اسکی آمد پر جھوم اُٹھی۔ دونوں خوشی خوشی میز پر دھری کتابوں کو الٹا سیدھا کر کے دیکھنے لگیں۔ ” میری کونسی ہیں اور تیری کونسی؟۔۔۔۔۔۔” نوری سراپا اشتیاق بنی ہوئی تھی۔ “یہ تیری میری کیا ہوتا ہے۔۔؟” نرگس کی بجائے پشت سے ساجد کی آواز آئی تو دونوں نے ایک ساتھ پلٹ کر دیکھا۔ “سلام ادا !۔۔۔۔ نوری نے قدرے جھینپ کر فوراً سلام داغ دیا۔ “وا علیکم السلام۔۔۔ کیسی ہے نوری؟” ادا ساجد کا لب و لہجہ گوٹھ کے لوگوں سے مختلف تھا شہر میں رہنے کی وجہ سے۔ “ٹھیک ہوں۔۔ ” جواب مختصر تھا ساجد مسکرا دیا۔ “یہ کتابیں آدھی آدھی کر لو اور پھر پڑھ کر تبدیل کر لینا۔۔ ” اس نے مسئلے کا حل بتایا ، اس دوران وہ دونوں اتنی خوش تھیں کہ نوری نے ساجد کی نظروں کے حصار کو محسوس ہی نہیں کیا۔ اور فی الوقت ساجد اُسے احساس دلانا بھی نہیں چاہتا تھا۔” اچھا نرگس امّاں کو بتا دینا میں ذرا جلسے میں جا رہا ہوں” ساجد ان دونوں کو خوش باش چھوڑ کر باہر نکل گیا، الیکشن سے پہلے وڈے سائیں کا یہ آخری جلسہ تھا ۔ وڈا سائیں الیکشن سے پہلے جلسے میں کوئی وعدہ کوئی دعویٰ کرنے نہیں آتا تھا کیوں کہ اسے ایسی کسی کوشش کی حاجت نہیں تھی، وہ آتا یا نہ آتا ووٹ اسی کے تھے۔
“ارے بہت دیر ہو گئی نرگس۔ وقت کا پتا ہی نہیں چلا اب مجھے اجازت دے، امّاں راہ دیکھتی ہوگی۔۔۔۔” نوری کو اچانک احساس ہوا کہ کتابوں میں کھو کر وہ وقت کا اندازہ نہیں لگا پائی ۔ “ہاں واقعی وقت کے گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔۔۔۔۔ تھوڑا رک جا ادا آتا ہو گا تُجھے چھوڑ آئے گا”۔۔ نرگس نے اسکی کتابیں الگ کرتے ہوئے مشورہ دیا۔ ” نہ،نہ ادا جلسے میں گیا ہے پتا نہیں کب لوٹے ، میری امّاں پریشان ہو گی۔۔۔” نوری نے جلدی جلدی چادر لی اور کتابیں بازو میں دبا کر باہر کی راہ لی۔
عصر کا وقت تھا شام کے آثار بھی نمایاں نہیں ہوئے تھے پھر بھی ہو کا عالم تھا۔۔۔۔ شاید سب جلسے میں گئے ہوئے ہیں نوری نے دل میں سوچا ۔۔۔ اپنی سوچوں میں مگن چلتے چلتے اُسے جھٹکے سے رکنا پڑا جب بڑی سی گاڑی عین اس کے سامنے آ کر اس کا راستہ روک چکی تھی۔ قبل اس کے کہ وہ کچھ سمجھ پاتی دو دیو ہیکل اسلحہ بردار گاڑی سے کود کر اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ مارے خوف کے ایک لفظ نوری کی زبان سے ادا نہ ہوا، وہ پوچھنا چاہتی تھی کون ہو تم لوگ، مجھے کیوں روکا ہے؟؟؟
اسی اثنا میں فرنٹ سیٹ سے وڈا سائیں نکل کر سامنے آ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔ “سائیں ! اپنے مکرم کی دھی ہے یہ جو طفیل کے لڑکے ساجد سے پڑھنے آتی ہے۔۔۔۔” کسی ایک اسلحہ بردار نے اسکا تعارف کروایا ، نوری اس قدر سہم گئی تھی کہ ایک نظر تک اٹھا کر ان کی طرف نہیں دیکھا البتہ کتابوں پر اسکی گرفت مزید مضبوط ہو گئی تھی۔
“کیوں ری ! تُو یہ کتابیں پڑھنے جاتی ہے۔۔۔ کیا کرے گی پڑھ کر۔۔ منسٹر لگے گی؟۔۔۔۔ ” وڈا سائیں نے طنز کرتے ہوئے اسکی کتابوں کی طرف ہاتھ بڑھایا تو نوری نے دانستہ کتابوں والا ہاتھ اس سے دور کر لیا۔ “ہا۔ہا۔ہا۔۔۔۔۔” نوری کی معصوم مزاحمت نے اس کو مزا دیا ” دکھا تو سہی کیا پٹیاں پڑھتی ہے۔۔۔۔۔۔” وڈا سائیں کا ہاتھ جونہی اس کے ہاتھ سے ٹکرایا کتابیں اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئیں۔۔۔۔ نوری کی حواس باختگی پر وہ مکروہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔ ” ہٹ میرے رستے سے میں نے جانا ہے۔۔۔۔” نوری کو اسکے جناتی قہقہے سے سخت کراہیت محسوس ہوئی، اس نے اپنے چہار اطراف پھیلے اس گھناؤنے گھیرے سے نکلنے کی بے سود کوشش کی۔۔۔۔۔۔۔ ” چلی جانا رانی! اتنی جلدی بھی کیا ہے، ابھی آ بیٹھ ہمارے ساتھ کچھ بات وات کرتے ہیں۔ ڈرتی کیوں ہے ڈیرے پر تیرا ابّا بھی ہو گا، چل تُجھے اس سے بھی ملوا دیں گے” وڈے سائیں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر تقریباً کھینچا۔ گرفت کی زیادتی اور وحشیانہ زور آوری کے باعث نوری گھسٹتی چلی گئی، وہ چلّا رہی تھی لیکن آواز تھی کہ پھنس کے رہ گئی تھی حلق میں۔۔۔۔۔۔۔”چھوڑ،چھوڑ میرا ہاتھ۔۔۔۔ ” کوشش کے باوجود وہ خود کو آزاد نہیں کروا پا رہی تھی، پہلے کتابیں اور اب چادر جو اس زور زبردستی کے دوران  سر سے اتر کر کندھے تک پھسل آئی تھی۔ ” چھوڑ دے مجھے ۔۔۔ کیسا سائیں ہے تُو، سائیں تو چادروں کی حفاظت کرتے ہیں۔۔۔” پندرہ سالہ بچی اپنے بے دم ہوتے وجود کو بچانے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہی تھی۔ یک لخت وہ وحشی گرفت کمزور پڑ گئی، اُسے لگا شاید خدا نے ظالم کے دل میں رحم ڈال دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن نہیں وہ درندہ چند لمحوں کے لئے اس لئے رکا تھا کہ اس کی زمین سے چھوتی چادر کا آخری کونہ جو ابھی بھی اس کے کاندھے کی حفاظت پر معمور تھا کو اُتار کر دور پھینک سکے۔۔۔۔۔ چادر کا جسم سے جدا ہونا تھا نوری نے واسطے دینے چھوڑ دیئے۔ اب وہ پتھر کی مورت تھی جو اُس خبیث انسان سے کھینچی نہیں جا رہی تھی، اسی کشمکش میں اس جنگلی کی کلائی سے بندھی گھڑی کھل گئی جس کی چین نے نوری کے بازو پر ان مٹ نقوش بنا دئیے۔ درد کی شدت سے وہ چیخی لیکن پشت سے ایک اور دھکا لگتے ہی وہ کٹی پتنگ کی طرح گاڑی کی پچھلی سیٹ پر جا گری۔

~~~~~~~~~~

گاڑی سے نوری کی زندہ لاش کو دھکا دے کر ریت پر پھینک دیا گیا اور وڈا سائیں کی گاڑی اپنے پیچھے ریت کا بگولابناتے ہوئے ٹیلے کی طرف بڑھ گئی۔
چند منٹوں میں دنیا بدل گئی، کتابوں کے بنڈل کے ساتھ جو زندگی پھولوں کی سيج لگ رہی تھی بنا چادر کے ننگے سر آسمان کے نیچے کانٹوں کا جھنڈ لگ رہی تھی۔ نا سمجھی کی عمر میں سمجھ کی ہزار منزلیں طے کر کے وہ بے دم صحرا کی ریت پر پڑی تھی، بے یقینی کی کیفیت میں بنا آنکھیں جھپکے وہ آسمان کو تک رہی تھی،کاش یہ آج ٹوٹ کر گر جائے یا صحرا کی ریت مجھے خود میں سمیٹ لے۔ سائیں تیرے پاس تو گولیاں بھی تھیں اور گولیاں مارنے والے بھی ، تو تو نے گولی کیوں نہیں مار دی۔۔۔۔۔۔دور دور تک کوئی ذی روح نہ تھا سواۓ ایک لٹے ہوۓ وجود اور اُسکی روح کے بین تھے۔
شام کے سائے گہرے ہو گئے۔۔۔”نوری۔۔۔۔نوری۔ ۔۔” اس کی سماعتوں سے امّاں کی آواز ٹکرائی۔ جھرجھری لے کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ” امّاں۔۔۔امّاں۔۔۔ کہاں ہے تُو۔۔۔؟ اس نے ہر سمت امّاں کو تلاش کیا لیکن کوئی بھی نہ دکھا، ابھی بھی وہ اکیلی ہی تھی۔۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔۔۔۔۔امّاں ابّا کو کیا بتائے گی، ان کا کیا ہو گا ،کچھ بھی تو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا لیکن اس کو اٹھنا تھا ، خود چل کر جانا تھا ،امّاں پریشان ہو گی۔۔۔۔۔۔نوری نے اپنی چادر کی تلاش میں نظر دوڑائی جو کچھ دور جھاڑیوں میں پھنسی ہوئی تھی۔ اس نے زمین پر بکھری ہوئی کتابوں کو حسرت سے دیکھا اور ایک کتاب کو اٹھا کر آنکھوں سے لگا لیا۔۔۔۔” تیری چاہ نے نوری کو بے توقیر کر دیا، تُجھے چاہ کر کیا کرے گی نوری۔۔۔” دکھ سے کتاب دوبارہ ریت پر رکھ کر نوری چادر کی طرف بڑھ گئی۔
گھر کی دہلیز پر ہی امّاں پریشانی سے چکر کاٹتی مل گئی ” کہاں رہ گئی تھی نوری ۔۔۔۔۔ وقت دیکھا ہے ،شام پڑ گئی ہے۔۔۔تیرا ابّا بھی ابھی آیا تھا ،تُجھے دیکھنے ہی نکلا ہے، ملا نہیں رستے میں؟؟…..” امّاں مسلسل بول رہی تھی وہ کوئی بھی جواب دیے بنا اندر گھستی چلی گئی۔ اب امّاں کو اُسکی مضمحل سی چال سے کچھ غیر معمولی کیفیت کا احساس ہوا۔ ” نوری۔۔۔۔نوری میری دھی” امّاں اس کے پیچھے چلی آئی۔ کسی بھی پکار کے جواب میں کچھ کہنے کو نہیں تھا اس کے پاس۔۔۔۔ وہ چارپائی پر گٹھڑی بنی پڑی تھی۔۔۔۔” دھئے تیری طبیعت ٹھیک ہے۔۔۔۔۔بول نا کیا ہوا ہے,؟ خدا خیر کرے۔۔۔۔” امّاں بےتابی سے اُسکی چارپائی سے لگی اس کی آواز کی منتظر تھی۔
“امّاں!…..” “ہاں ہاں بول۔۔۔” “امّاں جانور۔۔۔۔۔۔۔”
” کون جانور۔۔ ” خوفناک جانور۔۔۔۔۔” نوری نے چادر ہٹا کر اپنے زخمی بازو امّاں کے سامنے کر دیا۔ ” ہائے میں مر گئی۔۔۔۔ یہ کیا ہو گیا میری سوہنی دهی کو؟” زخم سے رستے خون کو دیکھ کے امّاں تڑپ اٹھی
“جانور تھا امّاں۔۔۔۔بڑا خوفناک۔۔۔۔حملہ کر دیا اس نے مجھ پر۔۔۔۔پنجہ مارا۔۔۔بہت بھاگی ، بچنا چاہا لیکن پکڑ لیا اس نے۔۔۔۔” خوف کے کئی رنگ اُسکی آنکھوں سے جھانک رہے تھے۔ ” یہ کونسا جانور آ گیا صحرا میں ، نام تو بتا ۔۔۔۔ تُو کہاں مل گئی اسے۔۔۔بھاگی کیوں نہیں۔۔۔۔کسی کو بلا لیتی۔۔۔ اکیلی کیوں نکلی، ساجد کے ساتھ جاتی۔۔۔۔” امّاں اپنے دوپٹے سے اسکا بازو صاف کرتے ہوئے پریشانی سے سوال پہ سوال کر رہی تھی۔ ” میں نہیں جانتی اس جانور کو ،پہلےکبھی نہیں دیکھا، دعا کر امّاں وہ مر جائے کسی کو بھی نظر نہ آئے۔۔۔۔۔” نوری نے اتنی رقت سے بد دعا کی کہ امّاں کے چلتے ہاتھ رک گئے۔۔۔۔۔ ” نوری ! تیرا ابّا تُجھے دیکھنے گیا تھا خُدا خیر کرے اسے نہ کچھ ہو جائے۔۔۔۔” خیال آتے ہی دونوں نے مڑ کر دیکھا مکرم دروازے کی دہلیز پہ کھڑا تھا، ہاتھ میں ایک کتاب تھی اور نظر مسلسل نوری پر ٹکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ مکرم کو دیکھتے ہی نوری کی امّاں نے اس کا بازو سامنے کر دیا ” نوری کے ابّا دیکھ اس کو کسی جانور نے پنجہ مار دیا ، اللہ کا شکر ہے میری سوہنی دھی کی زندگی بچ گئی،تُو آ جا اس کے پاس میں پانی گرم کر کے لاتی ہوں اس کا زخم صاف کرنے کے لئے”….. مکرم کی بے جان ٹانگوں نے جنبش کی اور وہ نوری کے پاس آ گیا۔۔۔۔کاش میری دھی کی عزت بھی بچ جاتی ۔ ابّا کے جذبات سے قطعی بے خبر نوری ابّا کی گود میں شاخ سے ٹوٹے پتے طرح آ پڑی۔ کیا المیہ تھا کہ بیٹی ظلم سہہ کر باپ سے چھپا رہی تھی اور کیا ہی تلخ سچ تھا کہ باپ سب جان کر بھی صرف نظر کرنے کو مجبور تھا۔۔۔۔ہائے رے غربت! کیسے طاقت اور دولت سے غیرت،عزت،حرمت سب خرید لیتے ہیں یہ زمین کے خدا۔ غریب کے پاس بچتی ہے تو صرف “بے غیرتی،بے حرمتی،بے عزتی”

~~~~~~~~~~

نوری کے باپ نے وڈیروں کی غلام گردشوں میں ان کی خدمت کرتے کرتے عمر گزار دی تھی۔ مکرم ڈیروں کا اور حویلی کا بھی قابل بھروسہ ملازم تھا۔۔۔۔۔چاندنی میں نہائے گھر کے صحن میں چارپائی پر لیٹا ایک بوڑھا شخص سوچوں کا عذاب جھیل رہا تھا۔ نہ رات کٹنے کا نام لے رہی تھی نہ نیند مہربان ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ نوری کو لینے نرگس کے گھر گیا تو اس نے بتایا “چاچا نوری تو کچھ دیر پہلے جا چکی ہے بلکہ تو گھر پہنچ بھی گئی ہو گی۔۔۔۔۔ چاچا تو آجا اندر کوئی چا پانی پلاؤں۔۔ ” ۔۔ ” نہ دھیے ابھی تو چلتا ہوں نوری کی اماں کو پریشان چھوڑ کر آیا ہوں، پھر کبھی سہی۔۔۔” مکرم نرگس کے سر پر ہاتھ پھیر کر واپسی کیلئے نکل پڑا۔ تیز تیز قدم اٹھاتا مکرم تب چونک کر رک گیا جب ریت پر کتاب گری دیکھی۔ جھک کر کتاب اٹھانے لگا توریت پر چمکتی ہوئی کسی چیز پر نظر ٹک گئی، ذرا جو ریت ہٹا کر نکالی تو چمکتی ہوئی گولڈن گھڑی اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔۔۔۔۔ ” وڈا سائیں کی گھڑی یہاں پر کیوں گری ہوئی ہے۔۔۔” اس نے حیرت سے سوچا۔ وہ یہ گھڑی پہچاننے میں غلطی کیسے کر سکتا تھا روز اپنے ہاتھوں سے یہ گھڑی وہ وڈے سائیں کو دیتا تھا۔ نہ جانے کیوں اس کا دل گھبرانے لگا۔ ذہن میں کسی واضح سوچ کے ہوئے بنا بھی اس کے دل کی دھڑکن بے قابو ہوگئی،وہ اڑ کا گھر پہنچ جانا چاہتا تھا اور اسے لگا کہ وہ اڑ کر ہی پہنچا ہے۔ نوری اور اسکی ماں کے درمیان ہونے والا مکالمہ سن کر اس کی بے قرار سوچ کو وضاحت مل گئی۔
وہ مسلسل آسمان کو گھور رہا تھا آج اسے نیند کی تمنا بھی نہیں تھی،40 سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا تھا سائیں کی چاکری کرتے، وہ سوچ رہا تھا کہ اس نے سائیں کے لئے کیا کیا نہیں کیا۔ ہر وہ خدمت جو جائز بھی تھی اور نا جائز بھی۔ اسے وہ دن یاد آیا جب وہ سائیں کے ڈیرے کے زنان خانے میں داخل ہوا تو کسی نسوانی آہ و فریاد کی آوازیں آ رہی تھیں، کوئی عورت واسطے دے رہی تھی مدد مانگ رہی تھی۔ جونہی میری نظر کریمو سے ٹکرائی میری طرح کا ایک اور ملازم میں نے ملامت بھری نگاہیں اس پر گاڑھ دیں۔ اور جیسے ہی وہ مجھ سے نظریں چرا کر جانے لگا میں نے اس کو کھینچ کر دیوار سے دے مارا۔ ” کیا کر رہا ہے ،تو پاگل تو نہیں ہو گیا؟ ” کریمو درد کی شدت سے چلایا۔ مکرم نے اس کی ایک نہ سنی اور تقریبا گھسیٹتا ہوا زنان خانے کے کونے میں لے آیا “تو باز نہیں آئے گا کیوں برادری کی دھی بہنوں کا دشمن ہوگیا ہے؟ اؤے تُجھے غیرت نہیں آتی ؟ کبھی سوچ تو بھی دھی بہنوں والا ہے۔۔۔۔۔۔” “مکرم بس۔۔۔۔۔۔۔۔ ” ایک زوردار گھونسا مکرم کے جبڑے پر پڑا “ایک لفظ اور نہ نکالنا اپنے منہ سے دھیوں بہنوں نے ہی تو زندگی میں آگ لگائی ہوئی ہے۔ نایہ ہوں  نا ہم ایسے ذلیل ہوں” کریموں نے ابھی تک مکرم کا گریبان جکڑا ہوا تھا۔ ” تُجھے لگتا ہے میں شوق سے یہ کام کرتا ہوں۔۔۔۔مجبور ہوں ،بہت مجبور ہوں۔۔۔۔۔۔ میری دھی اور زنانی دونوں سائیں کی حویلی میں کام کرتی ہیں۔ میں سائیں کی بات نہ مانوں تو وہ نہیں چھوڑے گا ان کو، تو بتا کیا کروں میں؟ کل اس کو پانی بھرتے دیکھ لیا تھا سائیں نے اور دیکھتے ہی اشارہ کردیا ،یہ چاہیے۔۔۔۔میں مجبور ہوں ” کریمو نے مکرم کا گریبان چھوڑ دیا اور زمین پر بیٹھ کر سر پیٹنے لگا۔ مکرم کو اس کے دکھ کی ذرا پروا نہیں تھی وہ ابھی بھی اپنی بات پر قائم تھا ” تیری بیوی,بیٹی کی عزت ہے دوسروں کی نہیں ہے۔۔۔۔کریمو تجھے اللہ کا خوف نہیں آتا” مکرم کا لب و لہجہ بڑا کاٹ دار تھا وہ ابھی بھی اس کی کمزور دلیل ماننے کو تیار نہیں تھا۔ “آتا ہے خوف….. اور میں نے تو اس خوف سے جان چھڑانے کی کوشش بھی کی تھی جس دن میری دھی ہوئی تھی میں نے اس کو اٹھایا اور پیچھے ٹیلے پر لے گیا، سوچتا رہا کہ کیسے ماروں۔ وہ میرے ہاتھوں میں سوئی ہوئی تھی بڑے سکون کی نیند تھی۔ میں نے اسےریت پر لٹا دیا اور ریت میں گڑھا بنایا۔ اٹھا کر دفنانے لگا تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ بڑی سوہنی آنکھیں تھیں، بڑی سوھنی۔۔۔۔۔۔ ہوا سے ریت اڑی جیسے ہی اس پر پڑی اس نے آنکھیں بند کر لیں ،رونے لگی۔ دل کٹ گیا میرا ،گود میں اٹھا لیا میں نے اُسے ،سینے سے لگا لیا۔۔۔۔۔ نہیں دفنا سکتا ،یہ میری دھی ہے،میری زندگی ہے۔ واپس گھر لے آیا۔ اس کی ماں حویلی میں کام کرتی تھی، وڈی سائیں نے اس کو کہا بچی کو بھی حویلی لے آیا کر، وہ کھیلتی رہے گی تو کام کرتی رہنا۔ ہماری کیا مجال ہم انکار کریں۔ تُجھے کیا پتا ہر رات سولی پر لٹکا رہتا ہوں وہ دونوں گھر واپس آتی ہیں تو سکون کی نیند آتی ہے۔۔۔۔۔ نہیں ہے میرے پاس کوئی علاج سواۓ اس کے کہ جو سائیں کہے چپ چاپ عمل کروں۔ تُو بتا دے تیرے پاس کوئی حل ہے تو؟؟۔۔” کريمو نے مکرم کو لاجواب کر دیاتھا۔ مکرم اس کا جھکا ہوا سر دیکھتا ہوا وہاں سے پلٹ آیا لیکن اس کے بعد کبھی ڈیرے کے زنان خانے کی طرف نہیں گیا۔ اس کا ضمیر ملامت کرتا تھا کہ ظلم ہوتا دیکھ کر چپ رہا لیکن   مجبور تھا اس کی بھی چھوٹی سی نوری تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکرم نے آنکھیں جھپکی اور کتنے ہی گرم گرم آنسو اس کی کنپٹیاں بھگو گئے۔ وہ خود کو مورد الزام ٹھہرا رہا تھا تب اگر اس نے ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی ہوتی ۔۔۔۔۔ کسی کی بہن ، بیٹی، بیوی کو بچایا ہوتا تو آج اس درندگی کا شکار وہ خود نہ ہوتا۔ نفرت تھی کہ ہر سیکنڈ کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔
فجر کی اذان کے ساتھ ہی اس نے بستر چھوڑ دیا۔ اندر نوری اور اس کی ماں شاید ابھی ہی سوئی تھیں۔ رمضان کے علاوہ کبھی نماز کا اہتمام نہ کرنے والا مکرم آج خضوع و خشوع سے نماز ادا کر رہا تھا۔ لیکن اتنا طویل سجدہ اس نے کبھی رمضان کی بھی کسی نماز میں نہیں کیا تھا۔ “اے میرے رب میں اس کرب میں زندگی نہیں گزار سکتا ، یا تو مُجھے موت دے دے یا پھر ظالم کو مار دینے کی طاقت” ذہن و دل میں اسی دعا کی تکرار تھی۔ روز کی طرح وہ کمرے میں گیا نوری کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس کی ماں کو جگائے بغیر باہر نکل گیا۔۔۔۔ ۔

~~~~~~~~~~

الیکشن کی وجہ سے ساری رات کی ہلڑ بازی کے بعد ڈیرے پر سکون کا راج تھا۔ سائیں کے بندے موج مستی کے بعد لمبی تان کر سو رہے تھے جبکہ صفائی کرنے والے جگہ جگہ پڑی بدبو دار بوتلوں کو اٹھا کر پھینکتے ہوئے ناک چڑھا رہے تھے۔ مکرم آج کسی سے ملنا بھی نہیں چاہتا تھا وہ سیدھا چلتا ہوا اپنے حُجرے نُما کمرے میں آ گیا۔ سائیں کے خاص بندوں کے لئے ڈیرے پر چھوٹے چھوٹے حجرے نما کمرے بنے ہوئے تھے۔ صرف ایک رات پہلے یہ کمرہ اس کو اپنی خوش نصیبی لگتا تھا، ہر آسائش سے مزین اور سائیں کی خاص نظر کرم کا حامل اور آج ان درودیوار سے اس کو سرخ خون بہتا ہوا نظر آرہا تھا۔ آنکھوں میں جو خون آ سمایا تھا تو وہی ہر طرف بکھرا لگ رہا تھا۔ مکرم کا ذہن سوچوں کی ایک بند گلی میں مسلسل گردش کر رہا تھا کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی اور خود پر اختیار ختم ہوتا جا رہا تھا. کبھی کبھی کسی کو جیتا جاگتا دیکھنا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن مجبوری کی بیڑیاں پاؤں سرکنے تک نہیں دے رہی تھیں۔
“مکرم وڈا سائیں نے یاد کیا ہے تُجھے” مکرم دور کہیں کھویا ہوا تھا جب کریمو کی آواز اسے کسی اور ہی جہاں سے کھینچ لائی۔ “کیوں……. کیوں بلایا ہے اس نے مجھے؟ ” مکرم کے حقارت بھرے لہجے سے کریمو کا منہ کھلا رہ گیا۔ “او! کیا ہوگیا تجھے یہ کیسے بات کررہا ہے تو سائیں کے بارے میں…”
“ابھی تو صرف بات کر رہا ہوں میرا بس چلے تو اس کو جہنم واصل کر دوں۔۔۔” غصے کو ضبط کرتے کرتے مکرم کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ کریمو کو مکرم کی ذہنی حالت پر شبہ ہونے لگا اس نے اندر آ کر دروازہ بند کر دیا اور ہونٹ پر انگلی رکھ کر مکرم کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا ” اوئے تو پاگل تو نہیں ہو گیا ؟ خدا کا خوف کر دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں….” کریمو حیرت اور اب تشویش میں مبتلا ہو چکا تھا۔ “ان دیواروں کے کان ہوتے ہیں تو ٹانگیں کیوں نہیں ہوتیں پیر کیوں نہیں ہوتے ،یہ چل کر ایک دوسرے سے گلے کیوں نہیں ملتیں، کچل کیوں نہیں دیتیں سب کو۔۔۔۔۔” جذبات تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ مکرم بےبسی سے آئے آنسوؤں کو بے دردی سے باربار چہرے سے صاف کر رہا تھا۔ اب کریمو سے اس کی حالت برداشت کرنا مشکل ہوگیا ” میرا بھرا تجھے ہوا کیا ہے سائیں نے تیرے ساتھ ایسا کیا کر دیا؟ ” سوال تھا کہ کوڑا مکرم نے تڑپ کر نظر اٹھائی۔ سرخ ۔۔۔۔۔انتہائی سرخ آنکھیں ، غصہ، انتقام، بےبسی اور جانے کیا کیا تھا اس کی آنکھوں میں۔۔۔۔۔کریمو مشکوک ہوگیا وہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا جو مکرم کی آنکھوں میں لکھا ہوا تھا۔ عجیب مخمصہ تھا وہ مکرم سے ایسا کوئی سوال کرنا ہی نہیں چاہتا تھا جس کا جواب وہ اس کی آنکھوں میں پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ “مکرم بھرجائی اور نوری ٹھیک ہیں نا ؟” انسان بہرحال اپنے خیالات کو زبان کی سند مل جانے کا محتاج ہے اسی لیے اس نے نظریں چراتے ہوئے سوال تو کر لیا تھا لیکن سراپا دعا بن گیا تھا کہ جو اس کو شک ہو رہا ہے ویسا کچھ نہ ہو۔ “کریمے کیا میں اس درندے کو جان سے مار سکتا ہوں ؟” کریموں کو ہزار واٹ کا کرنٹ لگا۔ ” چپ ،چپ ،چپ یہ بات آئندہ منہ سے نہ نکلے مارا جائے گا کتے کی موت۔۔۔۔۔”کریمو نے مکرم کو احساس دلایا کہ وہ جنگل میں رہ کر شیر سے زور آزمائی کا سوچ رہا ہے۔ “جا پھر زہر لا دے اس زندگی سے تو اچھا ہے مر جاؤں میں۔۔۔۔” اب کریمو اور مکرم دونوں خاموش آنسو بہا رہے تھے, دونوں کے پاس کوئی لفظ کوئی دلاسہ نہیں تھا،صرف پچھتاوا تھا۔۔۔۔۔۔۔
کریمو جھٹکے سے اٹھا اور مکرم کو دکھ سے دیکھتا ہوا کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا، باہر صحن میں بنے بیسن کے سامنے کھڑا وہ اپنے چہرے کو نا جانے پانی سے دھو رہا تھا یا آنسوؤں سے۔ لیکن جو بھی تھا رستے ہوئے دل کی تکلیف کا تدارک کوئی نہ تھا۔
“سائیں! مکرم کو بہت تیز بخار ہے وہ بے ہوش پڑا ہے حجرے میں” کریمو نے ہمیشہ کی طرح سائیں کے سامنے ہاتھ باندھ کر اطلاع دی۔ “کیا ہو گیا اس کو؟ کہہ اس کو میرے پاس آئے ضروری کام ہے مجھے اس سے” سائیں کے انداز میں انتہائی ناگواری تھی۔ “جو حکم سائیں جیسے ہی ہوش میں آئے گا آپ کے سامنے لا کھڑا کروں گا۔۔۔۔۔”
“ٹھیک ہے ,ٹھیک ہے جا تو بھی اب ۔۔۔۔” سائیں کے اشارے کے ساتھ ہی کریمو باہر آگیا۔
دوپہر سے شام اور اب شام سے رات ہونے کو آئی تھی نا کریمو کی اندر جانے کی ہمت ہو رہی تھی اور نہ مکرم حجرے سے باہر آیا تھا۔ کریمو سرجھکائے حُجرے کے پاس بیٹھا تھا، تھکن کا احساس تک نہیں تھا وہ گھنٹوں سے ایسے ہی بیٹھا تھا کہ اچانک اس کو اپنے کندھے پر دباؤ محسوس ہوا چونک کر نظر اٹھائی تو مکرم کھڑا تھا۔ ” وہ۔۔۔۔۔ مکرم تجھے وڈا سائیں نے۔۔۔۔۔” ابھی اس کے الفاظ منہ میں ہی تھے کہ مکرم بول اٹھا۔ “اس کے پاس جانے کے لیے ہی آیا ہوں” بہت ٹھہرے ہوئے انداز میں اس نے کہا۔ “ہاں۔۔۔ ہاں چل میں تیرے ساتھ چلتا ہوں ” کریموا سے دو قدم آگے کو چل پڑا دروازے پر دستک دی اور اندر داخل ہوگیا اجازت ملتے ہی “سائیں! وہ مکرم آیا ہے کریمو نے ہاتھ باندھ کر اطلاع دی۔ ” تو لاؤ نا بابا۔۔۔ اس کو اندر لاؤ” کریمو نے اشارے سے مکرم کو اندر آنے کا کہا.
“تجھے کیا ہوگیا ؟ کریمو بتا رہا تھا بخار شخار ہوگیا ہے” سائیں نے ہاتھ باندھے کھڑے مکرم کو نظروں ہی نظروں میں جانچا تولا۔ “کچھ نہیں سائیں طبیعت کچھ خراب تھی اب ٹھیک ہوں ” “اچھا چل بیٹھ جا کچھ بات وات کرتے ہیں” سائیں کے اشارے پر مکرم کرسی پر ٹک گیا۔ “مکرم اپنا حساب کتاب کا رجسٹر کہاں رکھا ہے؟” سائیں نے پہلا سوال کیا مکرم نے حیرت سے اس کو دیکھا۔ “سائیں میں نہیں جانتا حساب کتاب تو اب خود ہی سنبھالتے ہیں۔۔۔۔” “ہاں! لیکن سالوں سے میری ذاتی ملازمت کر رہا ہے کبھی دیکھا تو ہوگا میں کہاں رکھتا ہوں چیزیں” سائیں کا انداز اور نظریں دونوں ہی بہت عجیب لگ رہی تھی مکرم کو۔ “نا سائیں نا خدمت ضرور کرتا ہوں لیکن بلاضرورت کبھی بھی آپ کی چیزوں کو نہیں دیکھا۔۔۔۔۔” سائیں قہقہ لگا کر ہنسا۔۔۔”اچھا لگا…….. بہت اچھا لگا ، چل اٹھ وہاں جا وہ پہلی ہی الماری کو کھولے گا تو اندر دراز ہو گا اس میں سے نیلے رنگ کا رجسٹر نکال کر لا۔۔۔۔۔” سائیں نے مکرم کو ہدایات دیں جو اس نے من و عن پوری کر دیں۔ رجسٹر اب سائیں کے ہاتھ میں تھا اور وہ اس کو کھول کر صفحہ صفحہ پلٹ رہا تھا کہ ایک صفحے پر جا کر رک گیا جس پر مکرم کا نام اوپر لکھا تھا۔ “مکرم لکھنا پڑھنا آتا ہے کیا؟ “نا سائیں!۔۔۔۔۔۔”
“ہا.ہا.ہا.ہا پڑھنا لکھنا کیسے آئے گا بھلا….” سائیں اپنی خود کلامی پر مکروہ ہنسی ہنسا۔ مکرم کو انتظار تھا کہ وہ مدعا بیان کرے کیوں بلایا ہے اس کو۔ ” یہ دیکھ یہ تیرا نام ہے اور یہ تیرا حساب۔۔۔۔” سائیں نے رجسٹر مکرم کی نظروں کے سامنے کر دیا۔ “سائیں  کیسا حساب ؟ ” مکرم نے حیرت سے اس بھرے ہوئے صفحے کو دیکھا۔ یہ وہ حساب ہے جو تو میرے پاس کام کرتا رہا اور میں تجھے قرضہ دیتا رہا۔۔۔” سائیں بدستور مسکرا رہا تھا۔ “کیسا قرضہ ؟ ” مکرم کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔ ” بابا! وہی قرضہ جو میں تجھے ہر مہینے اور کبھی کبھی مہینہ ختم ہونے سے پہلے بھی دیتا رہا ہوں۔۔۔۔” “لیکن سائیں میں نے تو کبھی آپ سے قرضہ نہیں لیا, آپکی خدمت کی اس کا معاوضہ وصول کیا ہے ہر مہینے…..” مکرم کو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا اس نے کبھی ایک پیسہ بھی نہ لیا تھا سائیں سے۔    “کون سی خدمت , کونسا معاوضہ؟ تیرا کیا خیال ہے تو جو میری خدمت کرتا ہے میں تجھے اس کا معاوضہ دیتا رہا ہوں۔۔۔۔۔بےوقوف! گوٹھ کے سب لوگ رعایا ہے میری انکا فرض ہے ہماری خدمت کرنا۔ اس کا معاوضہ کیسا۔۔۔۔؟ وہ تو میری خدا ترسی ہے کہ میں سب کو روٹی پانی کے لیے رقم دیتا ہوں اور تجھے تو میں نے روٹی پانی کے علاوہ بھی بہت کچھ دیا ہے،جب تو نے گھر بنایا تھا اپنا اور جب تیری بیوی بیمار ہوئی رقم دی تھی میں نے تجھے۔۔۔۔۔۔” سائیں ایک کے بعد ایک بم پھوڑ رہا تھا اس کے سر پر ” لیکن سائیں! وہ تو آپ نے اپنی خوشی سے دیا تھا نا ” مکرم منمنایا “ہاں اپنی خوشی سے دیا تھا، پر تھا تو قرضہ نا۔۔ بہرحال وقت آگیا ہے قرضہ اتارنے کا۔۔۔۔۔تیرا قرضہ سات لاکھ 55 ہزار ہے لیکن چونکہ تو نے میری بڑی خدمت کی ہے اس لیے میں تجھے ایک لاکھ معاف کرتا ہوں تو مجھے چھ لاکھ 55 ہزار ادا کردے کل تک۔۔۔۔”سائیں کیا بول رہا تھا مکرم کی سماعت جواب دے گئی تھی وہ ساکت بیٹھا بنا آنکھیں جھپکے سائیں کو دیکھ رہا تھا۔ “اوئے مکرم! بت کیوں بن گیا ہے؟ سن لیا ہے نا جو میں نے کہا۔۔۔۔؟” سائیں کے پکارنے پر وہ چونکا “لیکن سائیں میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں ہے. میں کہاں سے دوں گا اتنی بڑی رقم؟” مکرم کی بیچارگی اس کے الفاظ میں در آئی۔ ” تو تجھے کس نے کہا ہے کہ تو مجھے پیسہ دے۔ بابا ! پیسے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے لینے دینے کے لیے۔۔۔۔” سائیں کے چہرے کی مکروہ مسکراہٹ گہری ہوگئی ” اور… اور کیا ہے میرے پاس؟ سائیں! میرا گھر نہ لینا وہ میں نے اپنی دھی اور اسکی ماں کے لیے بنوایا ہے وہ بے گھر ہوجائیں گی. آپ چاہو تو مرتے دم تک آپ کی خدمت کروں گا لیکن آئندہ معاوضہ بھی مت دینا اسکو قرضے میں کاٹ لینا۔” خالی الذہن مکرم کو صرف اپنے گھر اور گھر والوں کی فکر تھی۔ اس عمر میں بھی وہ زندگی دینے کو تیار تھا ان کے لیے۔ “مجھے تیرے گھر کا کیا کرنا ہے , اتنا ظالم نہیں ہوں کہ تجھے اس عمر میں بے گھر کر دوں۔میرے پاس ہے ایک مشورہ اگر تو مانے تو تیرا ہی بھلا ہوگا۔۔۔۔”سائیں رازدارانہ اسکی طرف جھکا, مکرم نے سخت کراہیت محسوس کی اس سے لیکن کیا کہہ سکتا تھا. “کیسا مشورہ سائیں؟ ” مکرم کا دل گواہی دے رہا تھا کہ جو وہ کہنے والا ہے وہ برداشت کرنا مشکل ہوگا اس کے لیے. “گھر کی عورتیں ایسے وقتوں میں ہی کام آتی ہیں۔ میں نے سنا ہے تیری دھی جوان ہو گئی ہے۔۔ ؟ مکرم کی نظر کا دھوکا تھا یا ایسا سچ میں تھا سائیں کے چہرے پر ایک بھیڑیے کا چہرہ نمودار ہو چکا تھا۔۔۔۔۔ ” سائیں بس۔۔۔۔ غریب کے پاس صرف عزت ہی ہوتی ہے” ضبط کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے بمشکل تمام مکرم نے غصہ پیا۔ انگلیاں تھیں کہ نرم کرسی کی گدی میں پیوست ہو گئی تھیں۔ “آواز نیچی رکھ مکرم! تیرے ساتھ ہمدردی ہے اس لئے پوچھا ہے ورنہ مجھے تجھ سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے، سوچا تھا خوش ہوگا لیکن جاھل ہمیشہ جاھل ہی رہتا ہے۔۔۔۔۔” سائیں کی آواز مکرم کے جذبات کو روند نہ سکی۔۔۔۔” اب بس۔۔۔۔ “اس نے شاید زندگی میں پہلی بار سائیں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔۔۔۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر سائیں کی گھڑی نکالی اور اس کی آنکھوں کے سامنے کردی۔ ” اوئے یہ تجھے کہاں سے ملی؟” سائیں صرف ایک لمحے کے لیے چو نکا۔ “جہاں آپ چھوڑ کر آئے تھے” مکرم نے گھڑی سائیں کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر رکھ دی۔ “پہیلیاں نہ بھجوا صاف صاف بتا تجھے کہاں سے ملی؟” سائیں نے اس کے ہاتھ سے پکڑتے ہی گھڑی اپنی کلائی میں پہن لی۔ وہ مقصد کی بات سے توجہ ہٹنے پر بدمزا ہو رہا تھا۔ “وہی سے ملی جہاں تو نے کسی معصوم کو روند ڈالا بھول بھی گیا تو؟ اتنا پرانا قصہ تو نہیں ہے۔۔۔۔” مکرم سائیں کے اور نزدیک چلا آیا اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ “اچھا تو تجھے پتا چل گیا ،بڑی بے شرم ہے تیری دھی اس نے تجھے بتا بھی دیا۔۔۔ ” سائیں کو ذرا بھر شرمندگی نہ تھی الٹا وہ ساری صورتحال سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ “نام نہ لے اپنی ناپاک زبان سے میری بچی کا۔۔۔۔۔۔” مکرم کا ہاتھ ایک جنبش میں اپنے لباس میں چھپے تیز دھار چاقو کو نکال لایا۔ “مکرم تیری یہ ہمت, تجھے پتا ہے تو کس کے سامنے کھڑا ہے۔۔۔۔ایسا مروا کے پھینکواؤں گا کفن اور قبر بھی نصیب نہیں ہو گی, مجھے دے چاقو۔۔۔۔” سائیں پر مکرم کی جرات سے حیرت کا پہاڑ آن گرا تھا۔ “نہیں سائیں اب نہیں ….”وہ خونخوار نظروں سے اسے دیکھتا ہوں آگے بڑھا.”اوئے رک جا ۔۔۔۔۔ مکرم تُجھے سنتا نہیں۔۔۔۔ چل جو بھی ہوا اب شادی کروں گا تیری بچی سے،رانی بنا کر رکھوں گا حویلی کی” غصہ تھوک دے، یہ چاقو مجھے دے دے۔۔۔۔۔۔” پہلی بار سائیں کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا تو لجاجت سے گویا ہوا۔ “نہ سائیں نا۔ حساب کا وقت ہے، بہت ساری کلیوں کو انصاف دلانے کا وقت ہے، جن ہاتھوں نے میری دھی کو چھوا ہے ان کو کاٹ دینے کا وقت ہے۔۔۔۔۔” مکرم کھویاکھویا بول رہا تھا۔ ” اوئے کریمو اندر آ۔۔۔۔۔” سائیں نے آخری مدد کے طور پر کریمو کو پکارا جس نے دروازے کے ساتھ کان لگا کر یہ پکار سنی ضرور تھی لیکن اس پر لبیک کہنا مناسب نہیں سمجھا ۔ مکرم کو دیکھ کر لگ نہیں رہا تھا کہ وہ کوئی بوڑھا انسان ہے اس کی طاقت اس وقت کسی جوان کو مات دے رہی تھی۔ اس کی ایک جست میں سائیں تک رسائی نے سائیں کو اپنا دفاع کرنے کا موقع بھی نہ دیا ۔ کسی مشاق نشانہ لگانے والے کی طرح چاقو کا پہلا ہی وار اس قدر تیربہدف ثابت ہوا کہ سائیں اپنا سینہ پکڑے نیچے ڈھے گیا۔ رب نے ایک چیخ تک نکلنے کا ٹائم نہ دیا اس کو۔۔ ۔۔۔۔ اور پھر دوسرا ،تیسرا اور چوتھا وار قالین خون سے نہا گیا اور مکرم سرشاری سے ۔۔۔۔۔
“لعنت ہو تجھ پر…. معلون۔۔۔۔ گدھ ہے تو گدھ۔۔۔۔۔ پہلے کیوں نہ مار ڈالا میں نے تجھے۔۔۔۔” جنونیت میں چاقو کے وار پہ وار کر کے اب وہ بے دم بھی ہو چکا تھا۔
کریمو جس پل کمرے میں داخل ہوا ابلیس اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا لیکن یہ سب اتنا آسان نہ تھا مکرم قاتل بن چکا تھا اور وہ سہولت کار۔ لیکن اس نے ہوش و حواس کو برقرار رکھ کر خود کو اور مکرم کو بچانے کی آخری کوشش کرنی تھی۔
“مکرم اٹھ۔۔۔۔” اس نے سہارا دے کر اسے اٹھایا.
“میں نے مار دیا اس کو کریمو۔۔ دیکھ مار دیا۔۔۔” مکرم غائب دماغی سے بولتا جا رہا تھا۔
“سن ….میری بات سن ….تو سیدھا جا اپنے کمرے میں، کپڑے بدل اور یہ چاقو کسی بڑے سے لفافے میں چھپا دے،چل جلدی۔۔ ہوش کر م۔۔۔۔۔ ” کریمو نے چکراتے ہوئے مکرم کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔ “نکل… ٹائم بہت کم ہے، تُجھے جو کہا ہے کر۔۔۔۔” کریمو نے مکرم کو دھکیل کر کمرے سے باہر نکال دیا۔ باہر ہو کا عالم تھا سائیں کے حواری شراب نوشی کرکے اوندھے منہ پڑے تھے اور جو ہوش میں تھے وہ اپنے اپنے حجروں میں تھے۔
مکرم کے کمرے سے نکلتے ہی کریمو نے سائیں کے کمرے کا جائزہ لیا۔ سائیڈ ٹیبل کور اتار کر اپنے ہاتھ پر لپیٹ لیا اور تیزی سے دروازے کے ہینڈل صاف کیے،کرسی کے بازو رگڑے اور آخر میں کمرے کی کھڑکی کی چٹخنی نیچے گرا دی۔ اس کام سے فارغ ہو کر اس نے ٹیبل کور دوبارہ لگایا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں۔۔۔۔۔۔۔فرح وقاص خان/قسط1

  1. سب سے پہلے مکاملہ پر شائع ہونے کی مبارک۔۔ بہت اچھا آغاذ فرح۔۔اللہ مزید کامیابیاں دے آمین

  2. عمدہ تحریر. بس ایک چیز کا خیال رکھیں. فلسفہ کا تڑکہ کم اور واقعات کا مصالحہ زیادہ رکھیں. ساتھ ساتھ جذبات کی آنچ کا خیال بھی رکھیں.

Leave a Reply to سمیرہ Cancel reply