ثروت زہرا سے ایک مکالمہ۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

’کاش  میرے پاس اپنے ادب اور فکری پیاس کے لیے کہیں زیادہ وقت ہوتا‘

۱۔آپ کو زندگی میں پہلی بار کب احساس ہوا کہ آپ کے اندر ایک شاعرہ چھپی بیٹھی ہے ؟

مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاعری کی پہلی آواز تو شاید میری پہلی چیخ کے ساتھ  ہی شروع ہوئی تھی ۔ اس کا احساس اس وقت ہوا جب میرے اندر پہلی دفعہ درد کا احساس پیدا ہوا۔ شاعری میرے پاپا کرتے تھے اور ہمارے گھر میں مستقل ماہانہ ادبی نشستیں ہوتی رہتی تھیں۔  پاپا کے شاعر دوست آتے رہتے تھے ، مشق سخن کے دوران مصرعوں کے تبادلے ہوتے رہتے تھے، ان کو چائے دینے کے ساتھ ساتھ پاپا قافیہ اور گرہیں لگانے کا کہتے ۔کبھی کبھار مذاق میں  وہ دوستوں سے کہتے کہ اس کا مصرعہ یا گرہ تو ثروت بھی لگا لے گی۔ یہ چوتھی یا پانچویں کلاس کی بات ہے۔ میرے تایا شاعر، پاپا شاعر میرے کزنز میں سے اکثر شاعر ، سو بچپن  سے کھیل کھیل میں بیت بازی کے ذریعے  تربیت ہوتی رہی ۔اس کے بعد خود غزل کہنے لگے ایک دوسرے کو سناتے تھے، پھر محرم کے دنوں میں میر انیس کے مرثیے اور نوحے مستقل پڑھے جاتے تھے اور کہیں کوئی نوحےمیں بے وزن مصرعہ پڑھ دے تو اسی وقت خود بخود اس کے بے وزن ہونے کااحساس ہوجاتا تھا۔ چارسال کی عمر میں نانا نے اپنی ذاکری سے پہلے مرثیے کے بند یاد کروا کر منبر پر بٹھا دیا تو یہ سب تربیت چلتی رہی۔ لیکن یہ احساس کہ شاعری  کے بغیر میں کچھ نہیں ہوں یا میں اظہار نہیں کرو ں گی تو میری سانس رک جائے گی ۔یہ احساس مجھے درد نے اور عشق نے دیا۔ پہلی محبت اوائل عمری میں  ہوئی تھی،  ٹین ایج میں ہی۔ پھر اصل روشنی سے مکالمہ ہوا اورپھر میرے اندر کی منزلیں تھیں اور میں اپنی دریافت کے سفر پر تھی  اور اس کا اصل دروازہ عشق نے مجھے دیا۔ تو اس کے بعد تو پھر ایسی ترتیب شروع ہوئی تھی تو میرا دن نہیں گزرتا تھا اور رات بسر نہیں ہوتی تھی ، مستقل شاعری کی اور کرتی چلی گئی۔

۲-آپ نے جب اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بتایا کہ آپ ایک شاعرہ ہیں تو ان کا کیا ردعمل تھا؟

بتانے کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی ،بلکہ سب نے مل کے شاید مجھے بتایا کہ میں شاعری کر رہی ہوں۔ بڑی بات یہ کہ میں جیسے ہی  میٹرک میں آئی تو پاپا میرے شعروں کو سننے لگے اور ان پر تھوڑا دھیان دینے لگے ،اسکول کالج میں کبھی کوئی شعری و تقریری مقابلہ ہوتا تو ہم اس میں شریک ہوتے تھے انعامات ملنے لگے تو یہ احساس ہوا کہ ہم بھی تھوڑے بہت  شاعر ہیں ۔ ریڈیو پروگرام بزم طلبہ میں مستقل شامل ہونے لگی اور وہاں محترم  حمایت علی شاعر، محترمی شاہدہ حسن،  فاطمہ حسن ،محسن بھوپالی کی صدارت میں مشاعرے پڑھے اور انعام حاصل کیے۔ اور آہستہ آہستہ شہر کے مشاعروں میں بھی شریک ہونے لگی ۔

۳۔ آپ نے ایک ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیسے کیا ؟ 

دیکھئے میں پاکستان کے جس سماج اور خاص طور پر جس خاندان  میں بڑی ہوئی وہاں چند ایک شعبہ ہاۓ زندگی تھوڑے بہت ذہین اور کامیاب لوگوں کی نشانی ہیں  اور ڈاکٹری اس میں سے ایک ہے ۔تو یہ بات میرے لئے بھی طے ہو گئی تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں گی-اب  یہ بات ضرور کہوں گی کہ اس کار ِمسیحائی کو میں نے اپنے اندر وقت گزرنے کے ساتھ نہ صرف قبول کیا بلکہ سمجھ یہ آیا کہ یہ رستہ مجھے اس لیے دیا گیا ہے تاکہ میں انسانوں کے درمیان رہ سکوں ان کے دکھوں کو قریب سے دیکھوں  ۔

۴-آپ محبت میں پہلی بار کب اور کیسے گرفتار ہوئیں؟

محبت تو اوائل عمری میں ہوئی اسے لگاوٗ بھی  کہہ سکتی ہوں۔  پھر  مکمل عشق ہوا   ۔پہلی محبت کا معاملہ بھی یوں رہا ۔۔کہ بیل اس سے لپٹتی ہے جو شجر ہو قریب  ۔

۵- آپ نے شادی کرنے کا فیصلہ کیوں اور کیسے کیا؟

میں نے شادی کرنے کا فیصلہ کبھی نہیں کیا میں نے تو عشق کیا تھا۔  اور میں اپنے محبوب کے ساتھ رہنا چاہتی تھی،  اور میرا سماج ،محبوب کے ساتھ رہنے کے لئے اس وقت اور اب بھی سوائے شادی کے کوئی اور  اجازت نہیں دیتا اور خاص طور پر میں جو کہ پانچ بہنوں میں سب سے بڑی تھی تو شادی کی۔ شکر ہے،شادی کے ذریعے بھی بہت اچھا  ساتھ ملا جس نے میری شاعری کو سمجھا مجھ سے دوست بن کے نبھایا اور دانشور بن کر مجھے فکری رچاؤ دیا  ۔پھر پیر محمد کیلاش کے سندھی کہانی کار  اور نقاد ہونے کے سبب نہ صرف سندھ مجھ پرمنکشف ہوا بلکہ زبان اور تہذیب کے زرخیز دروازے بھی کھول گیا۔

۶۔آپ کا ماں بننے کا تجربہ کیسا رہا ؟

ماں بننے کا تجربہ کائنات کا سب سے خوبصورت تجربہ ہے  اگر اصل بات کہوں  تو شاید میں نے شادی بھی اسی لئے کی کہ  میں ماں بننا چاہتی تھی۔ اصل میں عورت  اپنے محبوب جیسے کسی فرد کو اپنے آپ سے پیدا کرنا چاہتی ہے تبھی وہ ماں بننا چاہتی ہے اور میں نے جب بھی محبت کی تو ماں بننے کی خواہش اس کے ساتھ پہلی خواہش تھی۔

۷۔آپ کے لیے بچہ پیدا کرنے اور کتاب پیدا کرنے میں کیا فرق ہے ؟

تخلیق کا ہر تجربہ خوبصورت اور انوکھا ہےلیکن  میں ماں بننے کے تجربے کا  کتاب لکھنے سے مقابلہ کر ہی نہیں سکتی۔

 ۸۔آپ کی مقبولیت کا راز کیا ہے ؟

مجھے نہیں معلوم میں مقبول ہو ں بھی یا نہیں اوراگر ہوں تو، مجھے یہ بھی نہیں معلوم  کہ میری مقبولیت کا راز کیا ہے ؟لیکن میں  اپنا سب کچھ  پورا لکھنا چاہتی ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ وقت  جو میں گزارتی ہوں جو سچ میں کہتی ہوں   وہ خود بخود لوگوں کے  قریب ہوتا ہے تو وہ اس کو اپنے قریب سمجھتے ہیں۔ اگر کہیں وہ اس سچ سے منسلک ہو جاتے ہیں تو مجھ کو اپنا لیتے ہیں، ورنہ مجھے تو لگتا ہے میں یوں ہی زندگی کر رہی ہوں۔  خاص طورپہ اپنے ملک سے دور ہونے کے بعد کبھی کبھار میں  پاکستان جاتی ہوں تو اب لوگ مجھے ملتے ہیں ۔ اور اب سماجی رابطوں جیسے فیس بک یا سوشل میڈیا کے ذریعے مجھے بتاتے ہیں تو لمحہ بھر کو احساس ہوتا ہے  کہ وہ مجھے جانتے ہیں

۹۔ آپ اپنی ادبی اور خاندانی زندگیوں میں کیسے توازن پیدا کرتی ہیں ؟ 

میری زندگی تین مداروں پر گھومتی ہے، شاعری،گھر اور نوکری۔مجھے لگتا ہے زیادہ وقت تو نوکری لے لیتی ہے اس کے بعد جو وقت بچتا ہے،اس میں سے کچھ اپنے بچوں اور اپنے خاندان کے ساتھ،  کچھ اپنے ساتھ ۔ کبھی کبھار ایمرجنسی روم کےمریضوں کے درمیان سے  نکل کر کسی کنارے پر جا کے میں موبائل پر  نظمیں ریکارڈ کر لیتی ہوں،کبھی وارد ہوتے ہوئے اس لمحے کو رد بھی کردیتی ہوں۔ توازن تو کیا ۔۔ بس سب چیزوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔

۱۰۔ آپ کے لیے عورت ہونے کا فائدہ اور نقصان کیاہیں ؟ 

فردی سطح پر میں عورت یا مرد کی عینک سے اپنے آپ کو دیکھنا نہیں چاہتی اور جب کوئی دیکھتا ہےتو مجھے اذیت ہوتی ہے۔ ادبی اور سماجی سطح پر اپنا آپ منوانے سے پہلے ، اپنی ذات کے آئینے سے مجھے صنف کی گرد جھاڑنی پڑتی ہے تب کہیں تخلیق کار کی حیثیت سے میں خود کو منوا پاتی ہوں۔ تخلیق کا تجربہ مجھے ملا تو مجھے لگا  میراعورت ہونا ،زیادہ سعادت کا باعث ہے جو مرد کو حاصل نہیں ہے لیکن پدرسری نظام میں عورت کی حیثیت تبدیل کرنے کی خواہش رکھتی ہوں۔ اپنے عورت ہونے سے مجھے کوئی شکوہ نہیں۔

۱۱۔ آپ ادب کی دنیا میں کس ادیبہ یا شاعرہ سے سب سے زیادہ انسپائرڈ ہیں اور کیوں ؟

ہمم -کسی ایک شاعرہ کی ایک بات سے نہیں۔ میں بہت سی شاعرات کی جستہ جستہ باتوں سے کچھ نہ کچھ سیکھتی ہوں اور سیکھا ہے۔ سیفوسے فرد کی فطری آزادی اور اس کا اظہار۔ فہمیدہ ریاض سماجی شعور  کےارتقاء کی کوشش،  مایا اینجلو کی  جہد مسلسل ،میرا بائی سے بھگتی کے راگ، کشور ناہید کی سچائی سے دوستی ،فروغ فرخ زاد سےجدیدیت  ،سارا شگفتہ سے محبت کی تلاش اور اسکے پیچھے صرف ہو جانے کی خو ۔ اور ہزاروں نام ہیں جن کی کوئی نہ کوئی جہت مجھے متاثر کرتی ہے اور  یہ ایک مستقل عمل ہے میں  کسی ایک کا نام نہیں لینا چاہوں گی  میرے گھر میں جو عورت میرے ساتھ رہتی ہے اس سے بھی میں روزکچھ نہ کچھ سیکھتی ہوں-

 ۱۲۔ کیا آپ کو  زندگی میں کچھ پچھتاوا ہے ؟ 

میں اپنے ہفتے کے پچاس سے زیادہ گھنٹے اپنی نوکری پر صرف کرتی ہوں اور کبھی کبھی اپنے  آس پاس کی زندگیوں کو بچاتے بچاتے مجھےفخر کے احساس کے ساتھ پچھتاوا بھی ہوتا ہے کہ کاش میں ایمرجینسی کی اس نوکری کے علاوہ کچھ کرتی میرے پاس اپنے ادب اور فکری پیاس کے لیے کہیں زیادہ وقت ہوتا ۔ کبھی کبھی میں نظم جوذہن میں رواں ہوتی ہے  اسکو بھی  وقت نہیں دے پاتی  ۔

۱۳۔ آپ کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے ؟

میں نے عمر بھر صرف عشق کیا اور پوری طاقت اور حوصلے کے ساتھ کیا اور اظہارکی کوشش بھی کرتی رہی  ۔  اپنی پوری عمر اس کام میں اور اس سے بندھے ہوئے لوازمات میں صرف کردی۔

۱۴۔ عورت کی آزادی کا راز کیا ہے ؟ 

عورت کی آزادی کے لئے اسے سب سے پہلے اپنی معاشی آزادی کے لئے تیار ہونا پڑے گا اس کے بعد اس کی جذباتی خودا نحصاری اور دانائی کا سوال آگے تک جائےگا۔

۱۵۔ آپ کا مستقبل کا خواب کیا ہے ؟

میں اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اس کائنات سے محبت کشید کر سکوں۔ محبت لے سکوں اور دے سکوں۔

۱۶۔ جب عورتیں آپ کو اپنی مظلومیت کی کہانی سناتیں ہیں تو آپ کیا کہتیں ہیں ؟

میں مر د کی مظلومیت کی  داستان بھی اسی طرح سنتی ہوں جیسے عورت کی۔۔ ظالم کو میں ظالم کہتی ہوں اور مظلوم کو مظلوم ۔ لیکن بلاوجہ مظلومیت کا پرچار کرنے کا چاہے وہ عورت کی طرف سے ہو یا مرد کی طرف سے مجھے پسند نہیں  اور میں سمجھتی ہوں کہ خود کو مظلوم سمجھنا بھی ایک طرح سے اپنی ذات پر ظلم ہے جس سے نکلنے کی عورت کو خود بھی کوشش کرنی چاہیے۔ میں خود بھی کر رہی ہوں۔

۱۷۔ آپ نثر کیوں نہیں لکھتیں ؟ 

میرا فطری میلان نظم کی طرف زیادہ ہے، یہ میرا ذاتی خیال ہے ۔ میں نثربھی لکھتی ہوں لیکن کم لکھتی ہوں مجھے لگتا ہے مجھ سے بہت اچھالکھنے والے نثر لکھ رہے ہیں اور میں نےکچھ افسانے بھی لکھے لیکن چھپوائے نہیں۔ اب مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ میرا شعوری فیصلہ بھی ہے۔

۱۸۔ آپ کا نوجوان شاعرات کو کیا مشورہ ہے ؟

مشورہ کیا دینا ہے۔ بس اتنا کہ پڑھتے رہیے۔  زندگی کو بھی اور کتابوں کو بھی مستقل پڑھتے رہیں-

۱۹-آپ پاکستانی عورت کا مستقبل کیا دیکھتی  ہیں ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

میں عورت کو سماج کا بیرومیٹر سمجھتی ہوں ۔ اور مردوں کے مقابلے میں پوری دنیا میں موجودہ صدی میں عورت نے کامیابی اور ترقی کی جست لگائی ہے۔ شاید عورت کو اس کی ضرورت بھی تھی۔ پاکستانی عورت بھی اس منظر نامے سے پوری طرح مستفید ہورہی ہے۔ اور اس کا مستقبل بھی باقی دنیا کی عورتوں کی طرح روشن ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply