سڑکوں پر قتل ہونے والا ٹیلنٹ۔۔۔۔ سید بدر سعید

کبھی کبھی احساس ہوتا ہے ۔ ہمارے یہاں جرائم اس لئے بھی ہوتے ہیں کہ اقبال کے شاہینوں کو جھپٹ کر پلٹنے اور پلٹ کر پھر جھپٹنے کی سہولت میسر نہیں ہے ۔ لہو گرم رکھنے کا کوئی بہانہ ہمارے پاس باقی نہیں بچا اور سوشل میڈیا کے نام پر ہم جن مصروفیات میں الجھتے چلے جا رہے ہیں وہ ہمیں عملی زندگی میں مزید تنہائی کا شکار بنا رہی ہیں ۔ دنیا بھر میں شہریوں کی سہولت کے لئے مختلف ان ڈرو اور آوٹ ڈور گیمز کے لئے کلب اور اکیڈمیز کا جال بچھا ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کلب کے نام پرباڈی بلڈنگ جم اور کرکٹ اکیڈیمیز کے سوا کوئی دوسری سہولت نظر نہیں آتی ۔ کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں ایک ایک ملک کے درجنوں کھلاڑی شامل ہوتے ہیں لیکن پاکستان اکثر کھیلوں میں بانجھ پن کا شکار نظر آتاہے ۔ ہمارے یہاں بہترین بائیکرز ہیں لیکن بائیک اسٹنٹ کے لئے تربیتی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے کسی مقابلے میں سامنے آنے کی بجائے سڑکوں پر ون ویلنگ کرتے مارے جاتے ہیں ۔ اسی طرح ہمارے یہاں اسلحہ کی بھرمار ہے لیکن اسلحہ رکھنے والے زیادہ تر افراد کو اس کے استعمال کا درست طریقہ ہی معلوم نہیں ہے ۔

یہی بحث اگلے روز گیریژن شوٹنگ گیلری میں ہو رہی تھی ۔ پاک آرمی کے زیر انتظام اس شوٹنگ گیلری میں پسٹل سے لے کر رائفل تک نشانہ بازی کی تربیت اور پریکٹس کا بہترین انتظام ہے ۔ ہمیں اے ٹی ایس کمانڈو اور سابقہ چیف ٹریننگ پولیس آفیسر کاشف قادری اسلحہ کے استعمال اور حفاظت سے متعلق ٹپس دے رہے تھے جبکہ پروفیشنل شوٹر اور پیراگلائیڈر راجہ یاسر بھی راہنمائی کرتے رہے ۔ دیگر ساتھیوں کا تعلق بھی فورسز سے تھا لہذا موضوع بحث اسلحہ کے درست استعمال تربیت پر تھا ۔اس روز سی آر او لاہور انسپکٹر عمران خان یوسف زئی اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ آصف اقبال سمیت یہ درویش بھی مسلسل گولیوں کے دھماکوں اور پروفیشنل شوٹرز کی گفتگو کے زیر اثر رہا۔

یہ درست ہے کہ پاکستان میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں افراد کے پاس اسلحہ ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر کو نہ تو اسلحہ کی حفاظتی طریقہ کار سے آگاہی ہے اور نہ ہی اس کے درست استعمال کا علم ہے ۔ آصف قادری متعدد سپیشل آپریشنز کا حصہ رہے ہیں اور ان کا اسلحہ فائرنگ پوزیشن میں رہتا ہے ۔ وہ حیرت کا اظہار کرتے ہیں جب انہیں خبروں میں بتایا جاتا ہے کہ اسلحہ کی صفائی کے دوران گولی چل جانے سے گھر کا کوئی فرد زخمی یا جاں بحق ہو گیایا کسی شادی پر ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں دولہا یا دلہن کے بھائی بہن مارے گئے جس سے خوشی کے موقع پر بھنگڑوں کی جگہ جنازے لے لیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں یہ سب ہماری اپنی ناتجربہ کاری کا نتیجہ ہے ۔ ہتھیاروں کے معاملے میں بھی ہم شوقین ہی سہی لیکن انتہائی حد تک لاپروا ثابت ہوئے ہیں ۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں عام شہریوں کو کوئی ایسا تربیتی ادارہ ہی میسر نہیں جو راہنمائی کر سکے ۔ان کے لئے محفوظ فائرنگ رینج تک نہیں جہاں لوگ پریکٹس کر سکیں اور سچ یہ ہے کہ جو چند ایک مہنگے شوٹنگ کلبس ہیں وہاں تک عام لوگوں کی رسائی نہیں ہے ۔ زیادہ دور کیا جائیں ہمارے یہاں سکیورٹی گارڈز مہیا کرنے والی زیادہ تر نجی کمپنیز میں تربیت یافتہ گارڈ نہیں ہیں اور اکثر ناتجربہ کاری کی وجہ سے محافظ سے زیادہ قاتل کا کردار ادا کرتے ہیںیا پھر ڈاکوؤں کے ہاتھوں خود ہی مارے جاتے ہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ غیر تربیت یافتہ افراد کی وجہ سے جو سانحات رونما ہوتے ہیں ان کی ذمہ داری بھی ہم پولیس پر ڈال دیتے ہیں ۔ یہ بھی طے ہے کہ پولیس اپنی فورس کو تو تربیت فراہم کر سکتی ہے لیکن ہر شہری کے لئے تربیت فراہم کرنا ناممکن تو نہیں لیکن بہرحال ایک مشکل کام ہو گا۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس مقصد کے لئے شوٹنگ کلبس قائم ہیں جہاں عام شہری بھی تربیت حاصل کرتے ہیں اور اپنے شوق کو نیشنل اور انٹرنیشنل مقابلوں میں شمولیت کا ذریعہ بناتے ہیں ۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں اگر کوئی اسلحہ اور لائسنس حاصل کر لے تب بھی اس کا مقصد یا تو مخالفین پر رعب ڈالنا ہے یا پھر خوشی کے موقع پر ہوائی فائرنگ کر کے خوف و ہراس پھیلانا ہے ۔ اس حوالے سے اپنی صلاحیتوں یا شوق کو اپنے حقیقی دفاع سے لے کر ملک و قوم کا نام روشن کرنے تک کا کوئی مثبت سلسلہ نظر نہیں آتا ۔
اگلے روزیہی سوال موضوع بحث رہے ۔ میں نے پروفیشنل شوٹر راجہ یاسراور اے ٹی ایس کمانڈو کاشف قادری کو تجویز دی کہ کوئی ایسا سلسلہ شروع ہونا چاہئے جوصرف ان لوگوں تک محدود نہ ہو جو مہنگے کلبس کے اخراجات اٹھانے کے اہل ہیں ۔ ایک عام شہری اگر تیس چالیس ہزار کا پسٹل خریدتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ سات لاکھ کی کلب ممبر شپ بھی لے سکتا ہے ۔ اسی طرح سکیورٹی گارڈز کی تربیت بہت ضروری ہے ۔ اگر گاڑیوں کا لائسنس دیتے وقت تربیتی امتحان میں کامیابی ضروری ہے تو پھر اسلحہ لائسنس کو بھی اس سے مشروط ہونا چاہئے ۔ میری رائے تھی کہ ہر معاملہ سرکار پر ڈالنے کی بجائے قوانین کے تحت ماہرین کو بھی ایسا کوئی سلسلہ شروع کرنا چاہئے جہاں ماہر اور پروفیشنل شوٹرز عام شہریوں کو شوٹنگ پریکٹس ، سیلف ڈیفنس اور عالمی مقابلوں کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے تربیت فراہم کر سکیں تو ہمارے گلی محلوں سے بہت بڑا ٹیلنٹ سامنے آ سکتا ہے ۔ ہم اسلحہ کا شوق رکھنے والے نوجوانوں کو لائسنس ملنے کے بعد شوٹنگ رینج ، تربیت یافتہ انسٹریکٹر اور پریکٹس کے لئے محفوظ جگہ فراہم کر دیں تو بہت سے حادثات اور جرائم سے بچا جا سکتا ہے ۔ نوجوانوں کے شوق کو مثبت راستے پر لانا ان لوگوں کا فرض بھی ہے جنہیں قدرت نے یہ سہولت مہیا کر رکھی ہے ۔
اس میں دو رائے نہیں کہ دنیا بھر میں ہر بدلتے دن کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی اورتکنیکس سامنے آتی رہتی ہیں ۔ کاشف قادری ، راجہ یاسر سمیت دیگر پروفیشنل شوٹرز اس بات پر آمادہ ہیں کہ اگر سرکار انہیں اجازت دے تو وہ اپنی خدمات عام شہریوں اور فورسز کے تربیتی اداروں کو مہیا کرنے کو تیار ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ عالمی قوانین کے مطابق ٹریننگ ہی نہیں بلکہ نشانہ بازی کے انٹرنیشنل مقابلوں میں بھی پاکستان کی بھرپور نمائندگی رہے ۔ خاص طور پر ہماری فورسز میں سے بہت قابل لوگ انٹرنیشنل مقابلے جیت سکتے ہیں ۔فورسز کی شوٹنگ رینج کوان فورسز کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں اور عام شہریوں کی تربیت کے لئے استعمال کیا جا سکے تو ہم اس فیلڈ میں بھی عالمی سطح کے کھلاڑی تیار کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایڈیشنل آئی جی ٹریننگ پنجاب طارق مسعود یسین اور کمانڈنٹ پولیس ٹریننگ کالج ڈی آئی جی مرزا فاران بیگ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کی یہ خوبی ہے کہ انہوں نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی پنجاب پولیس کی جدید تربیت اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر بھرپور توجہ دی ہے ۔ عوام دوست پولیسنگ کے فروغ اور پروفیشنل فورس کے خواب کو یقینی بنانے کے لئے ان کی کوششوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ انہوں نے پنجاب پولیس کو ترکی کے ماہرین سمیت غیر ملکی ٹرینرز سے تربیت دلوانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پولیس میں شوٹنگ کی مہارتوں کو مزید فروغ دینے اور نیشنل اور انٹرنیشنل مقابلوں میں پنجاب پولیس کی بھرپور نمائندگی کے لئے وہ ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر سرکار اسلحہ لائسنس کے اجرا کے لئے پولیس یا کسی سرٹیفائیڈ تربیتی ادارے سے کم از کم ایک ہفتے کا اسلحہ ہینڈلنگ کا تربیتی کورس پاس کرنا لازمی قرار دے تو جرائم اور حادثات میں کمی آسکتی ہے ۔ اس مقصد کے لئے پولیس سمیت دیگرآرمڈ فورسز کے ریٹائرڈ ٹرینرز کی مدد سے شوٹنگ اکیڈمیز کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جہاں اولمپکس سمیت دیگر مقابلوں کے لئے بہترین پروفیشنل شوٹرز تیار کئے جا سکتے ہیں ۔ اسی طرح دیگر کھیلوں کی ایسی اکیڈمیزکی بھی حوصلہ افزائی ضروری ہے جن تک عام شہریوں کی رسائی ہو۔جب تک ایسا نہیں ہو گا تب تک ہمارا ٹیلنٹ شادیوں کی ہوائی فائرنگ اور ون ویلنگ کی وجہ سے سڑکوں پر اپنے ہاتھوں قتل ہوتا رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ نئی بات

Facebook Comments

سيد بدر سعید
سب ایڈیٹر/فیچر رائیٹر: نوائے وقت گروپ ، سکرپٹ رائیٹر ، جوائنٹ سیکرٹری: پنجاب یونین آف جرنلسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply