تعلیم یا کاروبار۔۔۔ایم۔اے۔صبور ملک

مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی موسم انگڑائی لیتا ہے ،سرد موسم کی بجائے بہار کی آمد کی نوید سنائی دیتی ہے،کلیوں پہ نیا بانکپن۔درخت سبزے کی چادر اُڑھنے لگتے ہیں،دن بڑے اور ہوا میں خنکی کی ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی گرمی کی تپش محسوس ہونے لگتی ہے،باغوں میں پھول کھلنے لگتے ہیں،چرند پرند نغمے گانے لگتے ہیں،اس قدرتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ دوسری طرف سکولو ں میں زیر تعلیم بچوں کی سال بھر کی محنت کا ثمر پانے کے دن بھی آجاتے ہیں،بچے اور والدین سارا سال ان دنوں کے انتظار میں ہوتے ہیں،نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کے بچوں کے سالانہ نتائج کا اعلان اور تقسیم انعامات کی تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے،بچے اس موقع پر رنگ برنگے ملبوسات زیب تن کئے نتیجے والے دن سکول اپنے والدین کے ہمراہ سکول پہنچتے ہیں،جہاں تقسیم انعامات کی تقریب میں بچے مختلف ٹیبلوز پیش کرکے حاضرین کے دل مو لیتے ہیں،ٹیبلوز میں حصہ لینے والے اور امتحانات میں نمایاں پوزیشن لینے والے بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے،ایسے بچے کو خاندان بھر میں وی آئی پی کادرجہ ملتا ہے،اور بچے کی اعلی کارکردگی کا کمزور اور نالائق بچے کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے،لیکن اصل امتحان اس کے بعدشروع ہوتا ہے،جس کے لئے نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے والدین کے ہاتھ میں نئے سیلبس اور نوٹ بکس کی فہرست تھما دی جاتی ہے اور والدین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کتابیں اور کاپیاں صرف متعلقہ سکول یا اسکے مقرر کردہ بک ڈپو سے ہی خریدیں،کیونکہ سارا سال فارغ بیٹھنے والا بک ڈپو کا مالک اور سکول والوں کے لئے مارچ کا مہینہ قدرتی بہار کے ساتھ ساتھ مالی بہار کی نوید بھی لے کرآتا ہے،اور مہنگائی کے ہاتھوں پژمردہ والدین کی جیبوں پر بڑے مہذب طریقے سے ڈاکہ ڈالا جاتا ہے،ایک وہ وقت تھامجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے بستے کا وزن نہ ہونے کے برابر تھا اور کاپی کی جگہ سلیٹ اور تختی استعمال کی جاتی تھی،بچے ٹاٹوں اور گھر سے لائی پٹ سن کی بوری پر بیٹھ کر تعلیم حاص ل کرتے تھے اور وہی بچے آج اس ملک کی اعلی قیادت میں جابجا نظر آتے ہیں،اور آج بھی کئی جگہ ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں کم وسائل اور سرکاری تعلیمی اداروں سے پوزیشن ہولڈر طلباء وطالبات نکل رہے ہیں،لیکن براہو اس نجی تعلیمی مافیا کا جس نے آج تعلیم کو مکمل طور پر کمرشکل بنا دیا ہے اور حکومت اور ریاستی ادارے بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں،بازار میں ملنے والی 50یا 40روپے والی نوٹ بک صرف سکول کا مونو گرام اور نام پتہ چھاپ کر 70سے 90روپے میں زبردستی والدین کو فروخت کی جارہی ہے،اور یہی حال کتابوں کا ہے ،ہر دوسرے نجی سکول کا اپنا الگ نصاب ہے،اور سکول انتظامیہ اپنے چہیتے بک ڈپو اور پبلشر کے ساتھ ملی بھگت کرکے والدین کو صرف مخصوص دکانوں سے نصاب اور یونیفارم خریدنے پر مجبور کرتی ہے،جس میں ہر سکول انتظامیہ کو بک ڈپو اور پبلشر سے کمیشن ملتا ہے،جس طرح نجی اور سرکاری ہسپتالوں کی ڈاکٹرز مخصوص کمپنی اور مخصوص میڈیکل سٹورز سے دوائی لینے پر اصرار کرتے ہیں اور ان کی لکھی ہوئی دواعام میڈیکل سٹور سے نہیں ملتی،اور سالانی کمیشن اور مراعات ڈاکٹر صاحب کو دواساز کمپنی کی جانب سے مل جاتی ہیں ،بعینہ اُسی طرح یہ نجی تعلیمی اداروں اور بک ڈپو نیز پبلشر ز کا مافیا ہر سال مارچ کے مہینے میں والدین کی جیب سے اربوں روپے نکلوا کر مراعات حاصل کرتا ہے ،سوال اس بات کا پیدا ہوتا ہے کہ جب بچے سیاہ ملائیشا پہن کر سکول جاتے تھے ،ٹاٹوں اور پٹ سن کی بوریوں پر بیٹھ کر تختی اور سلیٹ پر لکھ کر تعلیم حاصل کر کے ملک و قوم کی بھاگ دوڑ سنبھال سکتے ہیں تو یہ رنگ برنگے مہنگے یونیفارم اور تعلیم کے نام پر سال بھر مختلف فنڈز جنہیں جگا ٹیکس کہنا زیادہ مناسب ہو گا دے کر ہم کون سا چاند فتح کر نے چلے ہیں،ایک اللہ ایک قرآن ایک رسول اور ایک دین کے نعرے تو لگتے ہیں لیکن ہمارے دین نے علم حاصل کرنے کومرد وعورت کے لئے فرض قرار دیا ہے ،اس کو آج جنی تعلیمی اداروں نے مذموم کاروبار کی شکل دے دی ہے،بچوں کے والدین کی جیب پرڈاکہ ڈالنے والے اور ماہانہ سینکڑوں روپے فیس وصول کرنے والے ان اداروں میں کم تعلیم یافتہ اور نان کوالیفائیڈ ٹیچنگ سٹاف بھرتی کیا جاتا ہے جن کو سرکاری طور پر مقرر مزدور اور ورکرز کی تنخواہ کی بجائے نہایت کم اُجرت دی جاتی ہے اور کام گدھے سے بھی زیادہ لیاجاتا ہے،اور تنخواہ بڑھانے کے مطالبے پر ملازمت سے فارغ کرنے کا عندیہ،ایسے میں ہم کیسے بچوں کی بہتر اور معیاری تعلیم کا تصور کرسکتے ہیں،مجھے ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہے کہ اپنے ادارے کی ساکھ بچانے کے لئے ہر سال نجی تعلیمی اداروں میں جان بوجھ کر بچوں کو پاس کرنے کا رواج ہے کیونکہ فیل ہونے کی صورت میں بھاری فیس دینے والے والدین کی جانب سے بچے کو کسی دوسرے ادارے میں داخل کروانے کی ممکنہ صورت میں نجی تعلیمی ادارہ اپنا کاروبار تباہ نہیں کرسکتا ،اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ ان سب حالات میں بھی کچھ نجی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو کم فیس لے کر تعلیمی کو کاروبار کی بجائے خدمت اور عبادت سمجھ کر سرانجام دے رہے ہیں،اور اس تعلیمی مافیا جیسی لعنتوں سے بچے ہوئے ہیں،لیکن ایسے اداروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور اکثریت آج تعلیمی کو کاروباربنا کر دونوں ہاتھوں سے خوب دولت کما رہی ہے ،اس بات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ محض ایک چھوٹے سے سکول سے آغاز کرنے والے آج کئی کئی برانچوں کے مالک ہیں ،بھائی یہ کیسی خدمت اور یہ کیسا پیشہ پیغمبری ہے جو تم اپنائے ہوئے ہو،کیوں اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے اس مقدس پیشے کوبدنام کررہے ہو،دنیا میں کسی ملک میں کھیل کے میدان کے بنا سکول کا تصور محال ہے۔کیونکہ بچے کو ابتدائی عمر میں تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کود نہ ملے تو جسمانی وذہنی ساخت پر برا اثر پڑتا ہے لیکن پاکستان کے گلی کوچوں میں تنگ وتاریک عمارتوں اور بازاروں میں قائم نجی تعلیمی ادارے ان سب عوامل سے ماوراء ہیں،انھیں محض اپنی فیس اور پیسے سے غرض ہے اور قوم کے مستقبل اور آئندہ آنے والی نسل ان کی طرف سے جائے بھاڑ میں،ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک میںیکساں نصاب کے ساتھ ساتھ یکساں یونیفارم کا نظام وضع کیا جائے اور نجی تعلیمی ادارہ قائم کرنے والے کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ادارے میں کھیل کا میدان لازمی بنائے ،نیز والدین کی جیب پر ہرسال مارچ کے مہینے میں ڈاکہ ڈالنے والے اس وائٹ کالر کرمنلز کو لگام دی جائے،معصوم بچے جو کا سکول بیگ اس وقت اٹھانے کے لئے اچھے خاصے صحت بند بندے کی ضرورت ہوتی ہے اس کا حجم کم کر کے تختی اور سلیٹ کا رواج ڈالا جائے ،علاوہ ازیں جابجا کھلے ٹیویشن سنٹرز اور اکیڈمیز کو ختم کرکے اساتذہ کو اس بات پر پابند کیا جائے کہ وہ بچے کی تعلیم وتربیت اس ڈھب سے کریں کہ اسے ٹیویشن اور اکیڈمی جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply