ہم اور ہمارے روئیے۔۔۔۔عامر عثمان عادل

گزشتہ روز ایک سرکاری بینک میں اپنے سکول کے اکاونٹنٹ کو ضروری کاغذات کے حصول کیلئے بھجوایا تھوڑی دیر بعد بینک مینجر کی جانب سے تصدیق کی کال آئی ۔۔ انداز ملاحظہ فرمائیے گا
مینجر : عامر عثمان صاحب گل کردے پئے نیں
عامر عثمان : جی جناب عامر عثمان
مینجر: اے تواڈا ملازم آیا اے تے تصدیق کرنی سی پئئ ایہنوں تسی گھلیا اے
لفظ ملازم سن کر یوں لگا جیسے کسی نے میرے چہرے پر تھپڑ رسید کر دیا ہو
مینجر صاحب کو بڑے ادب سے گزارش کی کہ جناب یہ میرے ملازم نہیں میرے بھائی ہیں اور جتنے لوگ میرے ادارے میں کام کرتے ہیں ان میں سے کوئی  بھی میرا ملازم نہیں سب ادارے کا حصہ ہیں اور میرے لئے ہر شخص قابل احترام ہے میں نے تو اپنے اداروں کا ماحول ایسا رکھا ہے کہ یہاں کام کرنے والے ایک فیملی کی طرح رہتے ہیں ہم ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتے ہیں اور اسی طرح خیال رکھتے ہیں جیسے ایک گھر میں رہنے والے افراد۔۔
مینجر صاحب کے الفاظ بار بار میرے کانوں میں گونجتے اور میں کافی دیر افسردہ بیٹھا رہا کہ ہمیں بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں۔۔ بولتے ہوئے ہم ذرا بھی احساس کیوں نہیں کرتے کہ ہماری زبان سے نکلے ہوئے الفاظ مخاطب کو کس طرح سے مجروح کرنے کا باعث بن سکتے ہیں کیسے سامنے کھڑے شخص کی عزت نفس تار تار کر سکتے ہیں اور یہ ملازم کیا ہوتا ہے؟ کیا کسی ادارے میں کام کرنے والے افراد ہمارے ذاتی ملازم ہوتے ہیں؟ کیا ہماری نظروں میں کسی شخص کے کام کی کوئی عزت کوئی  مقام نہیں؟ کیا ہم شخصی احترام کو بھلا بیٹھے ہیں
کبھی ہم نے سوچا بے دھیانی میں روزانہ نجانے کتنی بار کتنے دل توڑتے ہیں کیا ہم نے اپنے بچوں کو یہ سبق سکھایا کہ پیشہ کسی کا تعارف ہوتا ہے نہ پہچان یہ تو ہم اپنے روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے ان کے محتاج ہوتے ہیں اکثر میرے بچے جب ذکر کرتے ہیں کہ ڈرائیور انکل نے یہ کہا یا باربر انکل کے پاس جانا ہے تو ہم نے ہر بار انہیں ٹوکا کہ بیٹا انکل کا کوئی  نام بھی ہو گا یہ ڈرائیور انکل کیا ہوتا ہے ؟ یا تو آپ ان کے نام سے مخاطب کریں کہ انکل نواز یا پھر صرف یوں کہا کریں کہ ہماری سکول وین والے انکل
بچے بھی کیا کریں ہم بڑوں نے جو نمونہ انہیں دیا اسی کی تقلید وہ کرتے ہیں۔۔
کوئی  بھی ملازم نہیں ہوتا سب اپنے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر محنت مشقت کرتے ہیں اور ہر بندے کی عزت ہوتی ہے ضروری ہے کہ ہم اپنے آس پاس کام کرنے والوں کی عزت نفس اور احساسات کا پاس رکھیں یوں تحقیر سے دوسروں کو مخاطب کر کے کسی کی دل شکنی کا باعث نہ بنیں یہ لوگ ملازم نہیں ہمیں سروس دیتے ہیں ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں
آئیے ان کی عزت کرنا سیکھیں
اور یوں ان کو ملازم کہہ کہہ کر دل شکستگی کے مرتکب نہ ہوں کیونکہ
ڈھا دے مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے جو کج ڈھینڈا
دل نہ کسے دا ڈھائیں بندیا کہ رب دلاں وچ رہندا !

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply