پاکستان میں رئیل سٹیٹ کا کاروبار۔۔۔اعظم معراج

کچھ دن پہلے پنجاب حکومت نے زرعی ا راضی کو ہاؤسنگ کے لیے استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے  2013  میں   اپنی کتاب پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کا کاروبار میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی کتاب کا وہ حصہ نیچے   شائع  کیا جارہا ہے لیکن کیا کتابی باتیں بھی حاکموں کی ترجیحات ہو سکتی  ہیں یہ حیران کن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار۔۔۔اعظم معراج
زمین جائداد کی بڑھتی ہوئی طلب اور قیمتوں کے معاشرے اور معیشت پر اثرات
معلوم تاریخ سے لے کر اب تک انسان کی بنیادی ضروریات تین رہی ہیں یعنی روٹی، کپڑا اور مکان۔ گو کہ ترقی کے ساتھ انسان نے اپنی ضروریات بہت بڑھا لی ہیں لیکن عام انسان کی زندگی آج بھی ان تین ضروریات کے گھرد گھو متی نظر آتی ہے۔ اسی لیے انسان کی فلاح کا سوچنے والے خواتین و حضرات نے ہمیشہ انہی تین بنیادی ضروریات کو انسان کی بقا اور خوش حالی کا ذریعہ قرار دیا ہے چاہے سولہویں صدی کے یورپ کی گلیوں میں کندھوں پر صلیب اٹھائے مسیحی مذہبی راہنماہ ہوں جو ہر انسان کے لیے  خدا سے فُورڈ کلاتھنگ اینڈ شیلٹر کی   التجائیں کرتے ہوں یا سترھویں صدی کے عظیم صوفی شاعر بلّے شاہ بندے کو رب سے گلی (روٹی) جھلی (رضائی) اور قُلی (جھونپڑی) مانگنے کی نصیحت کرتے ہوں یہ الفاظ کہتے ہیں
منگ اور بندیا رب کو لوں گلی جھلی تے قُلی
(یعنی بندے رب سے روٹی، رضائی اور جھونپڑی مانگ)
پھر کارل مارکس اور ان کے پیرو کاروں نے بھی یہ تینوں ضروریات ہر انسان کو پہنچانے کا نعرہ لگایا۔ بابے بلھے شاہ کے شہر قصور کے ایک لیڈر کے مطابق میرے ذریعے بلھے شاہ کے اس شعر میں سے گُلی، جھُلی اور قُلی پیپلزپارٹی کے منشور کا حصہ بنا۔ حالانکہ بلھے شاہ ان بندوں کو یہ ضروریات رب سے مانگنے کا سبق دیتا تھا۔ ان راہنماؤں نے انھیں ان ضروریات کا کہہ کر اپنے پیچھے لگالیا۔ ہرچند کہ یہ ہمارا موضوع نہیں، غرض زمانہ قدیم سے یہ تینوں چیزیں بنیادی ضروریات چلی آرہی ہیں یہاں حیران کن بات یہ ہے کہ ان تینوں بنیادی ضروریات کا منبع زمین ہے یعنی زمین پر ہی گھر بنتا ہے، زمین پر اناج پیدا ہوتا ہے جس سے روٹی اور خوراک بنتی ہے، زمین پر ہی کپاس اگتی ہے جس سے کپڑا بنایا جاتا ہے۔ لہٰذا ان تینوں بنیادی ضروریات کا منبع زمین ہی ٹھہری۔ زمین جس میں لین دین اور معاشی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ جہاں چالیس پچاس دوسری صنعتیں (انڈسٹری) چلتی ہیں۔ وہی اگر کسی معاشرے میں معاشی توازن یا ریگولٹری اتھارٹی والے ادارے نہ ہو اور حکمران کوتاہ اندیش ہوں تو جہاں زمین جائداد کی معاشی سرگرمیوں سے معیشت کا پہیّہ  چلنے میں مدد ملتی ہے وہیں زمین جائداد کے بے ہنگم طریقے سے بڑھتی ہوئی قیمتوں سے معاشی نظام کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے کیونکہ صرف زمین کے اس استعمال یعنی رہائشی و کمرشل عمارتوں کی تعمیر میں غیر ضروری اضافے اور اس میں چیک اور بیلنس کا نظام نہ ہونے اور پالیسی ساز ادارے اور حکمران ڈھنگ پٹاؤ (دن گزارو) پالیسی پر عمل پیرا ہوں تو زمین جو کہ کائنات کے وجود میں آنے سے اب تک تقریباً ہر انسانی ضرورت کا منبع رہی ہے کا صرف استعمال ہاؤسنگ اسکیم اور کمرشل پلازے رہ جاتے ہیں اور عموماً اس کے دوسرے ہزاروں استعمال کو اور بالخصوص دوسری دو پیداواری صلاحیتوں کو بالکل بھول کر پوری قوم صرف رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کے پیچھے لگ جاتی ہے اور معاشرے کا معاشی، تہذیبی، تمدنی، تعلیمی، معاشرتی غرض ہر طرح کا توازن بگڑجاتا ہے اور یہ اب لکھی پڑھی بات ہے کہ توازن سے ہی فرد، افراد، قبیلوں، نسلوں، اقوام اور معاشروں میں حسن پیدا ہوتا ہے جو افراد قبیلے، قوم، نسلیں اور معاشرے کسی بھی طرح کے بے توازن پن کا شکار ہوتے ہیں ایسے معاشروں کی اگلی منزل معاشی، معاشرتی، تہذیبی غرض ہر طرح کی تنزلی کی اتھاہ گہرائیاں ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنا مکان ہر انسان کا خواب ہوتا ہے لیکن یہ بھی دانشمندی نہیں کہ اس خواب کو بنیاد بنا کر لوگوں کے جذبات کو مشتعل کرکے اپنی جنت نظیر زرخیز زمینوں میں سرخ اینٹیں اور کنکریٹ اگادی جائے اور اپنے مکان کے خواب میں روٹی اور کپڑے کے اس منبع کو تباہ و برباد کر دیا جائے۔
ہر پاکستانی جس کو کراچی سے پشاور تک سڑک یا ریل ذریعے سفر آج سے 30سال پہلے اور اب بھی سفر کا اتفاق ہوا ہے ان کے مشاہدے میں یہ ہوگا کہ ماضی میں جہاں سرسبزکھیت کھلیانوں میں سرسبز فصلیں لہراتی تھیں وہاں اب سیمنٹ اور اینٹیں اگی ہوئی ہیں۔ لہٰذا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس پر ایک جامع اور مربوط پالیسی ترتیب دینی چاہیے  کہ زرعی زمینوں کی رہائشی اسکیموں کے نام پر تباہی اور بربادی کو روکا جائے اور ایسی جامع پالیسیاں مرتب کی جائیں جس سے زمین کے صرف اسی استعمال کی بجائے اور استعمال اور افادے کو بھی دھیان میں رکھا جائے اور شہروں کو افقی (Horizontally)پھیلانے کے بجائے عمودی (Vertically)پھیلاؤ پر توجہ دی جائے کیونکہ ایک بڑے ماہر تعمیر کے مطابق انسان کے رہنے کو عمودی Verticallyطریقہ ہوتا ہے اور مرنے اور دفن ہونے کے لیے  افقی Horizontallyطریقہ ہوتا ہے یا پھر کوئی ایسا قانون بنایا جائے کہ جو ایک ایکڑ زرعی زمین رہائشی یا کمرشل کام کے لےے استعمال کرے گا وہ سو ایکٹر بنجر زمین آباد کرے گا یا دریاؤں کے ڈیلٹاؤں اور کناروں کی زرخیز زرعی زمینوں کی کمرشل اور رہائشی استعمال کی ممانعت ہوگی اس طرح کے اور کئی اقدامات کیے جاسکتے ہیں جس سے اس غیر متوازن معاشی سرکل کو کسی توازن میں لایا جاسکتا ہے اور روٹی، کپڑے اور مکان کے اس عظیم عطیہ  خداوندی کو صرف مکان اور دوکان کے علاوہ بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے کیونکہ یہ طے ہے کہ مکان میں بھوکے اور ننگے نہیں رہا جاسکتا کھانے کے لیے  روٹی اور تن ڈھانپنے کے لیے  کپڑا بھی درکار ہوتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply