ابھی بہت دیر ہے۔۔۔مرزا مدثر نواز

عید قریب تھی اور بچوں کو اپنی خوشی دوبالا کرنے کے لیے نئے کپڑے خریدنے کی شدید خواہش‘ جس کا اظہار انہوں نے اپنی ماں سے کیا۔بیوی نے بچوں کا مطالبہ اپنے شوہر کے سامنے رکھاجس نے تنگ دستی کی وجہ سے معذوری ظاہر کی تو بیوی نے تجویز دی کہ آپ اپنی ایک ماہ کی تنخواہ قبل از وقت لے لیں ‘ اس طرح ہم نئے کپڑے خرید لیں گے اور گھر کا خرچہ میں مزدوری کر کے چلا لوں گی۔ تجویز معقول تھی لہٰذا اس نے وزیر خزانہ سے قبل از وقت تنخواہ دینے کے لیے درخواست کی۔ وزیر خزانہ بھی تو اسی کا تربیت یافتہ تھا ‘ اس نے کہا کہ میں آپ کو تنخواہ دے دیتا ہوں لیکن پہلے مجھ کو لکھ کر دے دیں کہ آپ ایک ماہ زندہ رہیں گے۔ یہ سنتے ہی وہ سر جھکائے اٹھے اور گھر جا کر بیوی سے کہا کہ بچوں سے کہہ دو کہ ان کا باپ انہیں کپڑے خرید کر نہیں دے سکتا۔ وہ کوئی اور نہیں ‘ تین بر اعظم کے رقبے پر حکمرانی کرنے والے امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ تھے۔
ہر ذی روح نے مقررہ وقت پر موت کا ذائقہ چکھنا ہے جس سے کوئی بھی آگاہ نہیں سوائے خالق حقیقی کے‘ کوئی موت کو قریب کر سکتا ہے نہ رزق کو دور‘ ہمارا ایک ایک سانس موت کی جانب پیش قدمی ہے‘ کوئی نوزائیدہ اس جہان فانی سے کوچ کر جاتا ہے تو کوئی بچپن‘ لڑکپن‘ جوانی یا پھر بڑھاپے کی محتاج زندگی میں۔ لیکن یہ سب جانتے ہوئے اور روزمرہ کے مشاہدہ کے باوجود ہم اپنے آپ کو یہ جھوٹی تسلیاں دیتے رہتے ہیں کہ مرنا اسی نے تھا جس کا جنازہ پڑھا گیا ہے‘ میری تو ابھی بڑی عمر باقی ہے‘ ابھی تو عیاشی‘ موج مستی‘ کھیلنے کودنے کے دن ہیں‘ بعد میں کر لیں گے عبادات‘ اعمال صالح‘ عمرہ و حج‘ گناہ کی لذتیں تو چکھ لیں توبہ کے لیے بڑا وقت پڑا ہے‘ سردی گزر جائے یا پھر گرمی گزر جائے تو نماز شروع کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ اس سے بڑا نادان کون ہو گا جو کل کی امید پر نیک کام کو ملتوی کرے اور توبہ کی امید پر گناہ کرے۔ لمبی عمر پانے کی خوشنما سوچ و امید اور غلط فہمی میں اچانک وہ وقت نمودار ہو جاتا ہے جب اس دنیا کی تمام رنگینیاں نہ چاہتے ہوئے بھی چھوڑ کر کسی دوسرے جہان روانہ ہونا پڑتا ہے‘ اس وقت صرف اور صرف اپنی سستی و کاہلی پر ندامت‘ شرمندگی اور ہائے کاش ہائے کاش کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ یہی نقطہ امام غزالیؒ نے ایک نہایت ہی خوبصورت و عمدہ مثال سے سمجھانے کی کوشش کی ہے جو کہ حسب ذیل ہے۔
ایک بادشاہ نے ایک باغ کی آبیاری کی‘ جب وہ خوب بن چکاتو قید خانہ سے ایک مجرم کو بلا کر کہاکہ تمہاری قید سے رہائی کی ایک صورت ہے کہ تم اس باغ میں سے بہترین پھل توڑ کر لاؤلیکن شرط یہ ہے کہ جس راستے سے ایک دفعہ گزر جاؤاس سے پھر دوبارہ گزرنے کی اجازت نہیں (جسے عرف عام میں یک طرفہ کہتے ہیں)۔مجرم نے کہا کہ یہ تو بہت آسان طریقہ ہے۔ چنانچہ وہ باغ کے اندر چلا گیا‘ جب پہلے راستے سے گزراتو دیکھا کہ وہاں پھل تو لگے ہیں لیکن کچے ہیں‘ اس نے سوچا کہ دوسرے راستے سے پھل توڑوں گا‘ جب وہ دوسرے راستے سے گزراتو دیکھا کہ وہاں پھل لگے ہیں لیکن کچھ چھوٹے ہیں‘ اس نے سوچا کہ اگلے راستے سے پھل توڑ لوں گا‘ جب وہ تیسرے راستے سے گزرا تو دیکھا کہ وہاں پھل پچھلے راستے سے کچھ بہتر ہیں‘ اس کے دل میں خیال آیا کہ میں جوں جوں راستے طے کر رہا ہوں‘ پھل خوب سے خوب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں‘ کیوں نہ میں سب سے آخری راستے سے پھل توڑوں تا کہ بادشاہ کی خدمت میں بہترین پھل پیش کر سکوں۔ چنانچہ اس نے تمام راستے طے کر لیے اور جب آخری راستے پر پہنچاتو دیکھا کہ وہاں درخت تو ہیں لیکن پھلوں کا نام و نشان نہیں۔ اس کی وہ حالت ہو گئی جیسے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اب سوائے نادانی اور پشیمانی کے اور کچھ نہ رہا۔ حضرت امام غزالیؒ نے اس مثال کو بیان کرنے کے بعد فرمایاکہ اے انسان یہ دنیا اس باغ کی مانند ہے‘ درخت سے مراد تیری زندگی کے ماہ و سال ہیں‘ پھلوں سے مراد نیک اعمال ہیں‘ راستوں سے مراد تیری زندگی ہے‘ بادشاہ سے مراد اللہ تعٰالٰی ہے اور مجرم سے مرادتو ہے۔ اس لیے تجھے چاہیے کہ تو اپنی زندگی کے ایک ایک دن کو غنیمت جان اور یہ اوقات فضول کاموں میں ضائع کرنے کی بجائے نیک اعمال کرنے میں بسر کر ورنہ اسی مجرم کی طرح تو بھی روزِ آخرت خسارے میں رہے گا۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply