کرنے کے کام۔۔۔عارف انیس

آج صبح صبح دستک ہوئی تو اٹھ کر دیکھا. بڑا بیٹا سروش، اپنے پسندیدہ برانڈ کے کپڑے اور جوتے پہنے تیار کھڑا تھا. مجھے حیران دیکھ کر اس نے بتایا ‘بابا، مجھے آج صفائی کے لیے جانا ہے’. میری بے ساختہ ہنسی نکل گئی. اسے دیکھ کر تو فیشن شو کی کسی کیٹ واک کا ارادہ لگ رہا تھا.

ہم لندن کی سرے کاؤنٹی میں گوروں کے گڑھ میں رہتے ہیں. شروع شروع میں گوروں کے دیس میں آنا ہوا تو لگا کہ برطانیہ عظمیٰ میں ساری جگہیں ہی اچھی ہیں. تاہم یہ غلط فہمی دور ہوگئی. گورے نے اپنے ہاں مقیم 250 سے زیادہ نیشنلیٹیز کو عزت تو خوب دی ہے اور اگر کسی نے کونسلر، ممبر آف پارلیمنٹ بننا چاہا تو اسے بھی بھرپور مواقع دیئے. مگر دیکھا یہ گیا کہ جہاں بھی کالے، پیلے، نیلے، بھورے اکثریت میں ہوئے، انہوں نے برطانوی لوکل گورنمنٹ کے نظام کی وجہ سے وہاں کے نظام حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے لیا. اور پھر تعلیم، صحت اور صفائی کے نظام کا بیڑا غرق کردیا یا کم ازکم اپنے رنگ میں رنگ دیا. مستثنیات اپنی جگہ مگر پاکستانی، افریقن، انڈین، میکسیکن آبادی والی جگہوں پر جاتے ہی احساس ہو جاتا ہے کہ آپ کسی وکھری جگہ پر آگئے ہیں. آج بھی بہترین سسٹم وہیں چل رہا ہے جہاں گورا خود کثرت میں رہتا ہے. اسی وجہ سے سرے کاؤنٹی میں آگئے جہاں گورے کی آبادی 95 فیصد کے لگ بھگ تھی. سروش ایک مقامی سکول میں ماشاءاللہ پریفیکٹ ہے اور وہ آج چھٹی کے دن کسی صفائی کےموڈ میں لگ رہا تھا. جو کہ میرے لیے دنیا کی سب سے بڑی خبر تھی کہ صاحبزادے کو اپنے ہاتھ سے پکڑا گلاس بھی نیچے رکھنا روا نہ تھا، وہی پاکستانی پیمپرنگ!!!

سروش کو سکول کے راستے پر لے کر روانہ ہوا تو معلوم ہوا کہ سکول ہر تین ہفتے بعد علاقے میں صفائی کی ایک مہم چلاتا ہے جس میں سکول لیڈرشپ پوزیشنز پر بیٹھے تمام بچے بچیاں حصہ لیتے ہیں. سکول کے قریب پہنچے تو تیس چالیس کے قریب گورے بچے بچیاں نظر آئے. تقریباً سب ہی نائیک، گوچی، ارمانی کے ڈیزائنر کپڑوں میں تھے جو یہاں اس عمر میں رواج ہے. تاہم سب نے اپنے کپڑوں پر دھاریوں والی ویسٹ پہن رکھی تھی. اور اپنے علاقے، یوول ویلج کی مختلف گلیوں سے کوڑا اٹھا رہے تھے. معلوم ہوا آج لٹر پکنگ کا دن ہے، سکول پرنسپل، اور علاقے کے ریٹائرڈ خواتین و حضرات اپنے علاقے کی مختلف گلیوں کو آپس میں تقسیم کرکے وہاں سے کوڑا کرکٹ اٹھاتے ہیں (جو پہلے ہی وہاں نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے). خاص طور پر سکول لیڈرشپ سے بچوں اور بچیوں کو اس لیے شامل کیا جاتا ہے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ لیڈرشپ کا پہلا بڑا کام خدمت کرنا ہے اور آغاز اپنے گلی محلے سے کرنا پڑتا ہے. چنانچہ وہ بخوشی اپنے حساب سے بہترین لباس پہنے، ہمارے حساب سے چوڑھے اور سویپر بنے پھر رہے تھے.

دو گھنٹے بعد سروش کو واپس گاڑی میں اٹھایا تو وہ کافی پرجوش لگ رہا تھا اور اس نے خوشی خوشی بتایا کہ اس کے گروپ نےکہاں کہاں کی صفائی کی ہے. میں ان دو گھنٹوں میں یہی سوچتا رہا کہ اس طرح کا کوئی بھلا کام میں نے اپنے سکول میں کیوں نہ کیا. یاد پڑا کہ جب وادی سون کے سرکاری سکول میں پڑھتا تھا تو استاد لوگ اکثر پوری کلاس کو اپنے گھروں کی طرف لے جاتے تھے اور ہم پرائمری میں پڑھنے والے ان کی گندم، مکئی یا پٹھے کاٹتے تھے. تاہم یہ کام استادوں کے زاتی کام ہوتے تھے اور علاقے کو کوئی فائدہ نہ ہوا تھا.

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے سروش کے کام سے متاثر ہو کر سوچا کہ ایک پوسٹ لگائی جائے. اس سے پوچھا کیا تم نے یا باقی بچوں نے دوران صفائی کوئی کوڑا کرکٹ کے ساتھ تصویر بنائی ہے تو وہ ہکا بکا رہ گیا. ‘ایسے کام کرتے ہوئے کون پاگل تصویر بناتا ہے :. اس نے لفظ’ وئیرڈو’ استعمال کیا تھا. جب میں نے قدرے ایمبیریس ہوکر اسے کہا کہ تصویر کی عدم موجودگی میں کیسے پتہ چلے گا کہ اس نے یہ کام کیا ہے تو اس نے کہا کہ ہر سٹوڈنٹ سویپر کو ایک فارم دیا گیا تھا جو اس نے بھر کر واپس کردیا تھا. زیادہ پریشانی یہ دیکھ کر ہوئی کہ یہ تھوڑا سا خیر کا کام کرنے کے بعد سروش کو کوئی احساس نہیں تھا کہ اس نے کچھ خاص کام کیا ہے جس پر وہ داد کا مستحق ہے. اس کے بقول اگر ہم اپنے علاقے کو صاف نہیں کریں گے تو کون کرے گا. واقعی بزرگ درست کہتے ہیں، ولایت میں رہنے کی وجہ سے ہماری اگلی نسلیں ہاتھ سے نکلتی جارہی ہیں اور ان میں اپنے اسلاف کی خودنمائی، مکر اور ریاکاری جیسی صفات بھی عنقا ہوتی جارہی ہیں. بھاڑ میں جائے ایسی نیکی جس کی ڈانگ بنا کر کسی کے سر پر نہ مار سکیں. پتہ نہیں اس دنیا کا کیا بنے گا؟؟

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply