حالیہ عورت مارچ اورمخصوص مائنڈسیٹ کی پریشانی۔۔۔۔مہک سلیم

حالیہ عورت مارچ سے صرف دو نعرے پیش ہیں۔
’’میرا جسم میری مرضی‘‘
’’اپنا بستر خود گرم کرو اور اپنی ڈِک پکچر اپنے پاس رکھو!!‘‘
یہ نعرے تازیانے کی طرح لگے اور فیس بک کے صفحات نیکو کار مردوں اور نیک پروین بیبیوں کی بلبلاہٹ سے بھر گئے۔ ان کی بلبلاہٹ میں کئی نام نہاد لبرلز نے بھی متوازن سوچ کے نام اپنے سُر شامل کرنے ضروری سمجھے کہ کہیں فحاشی کے حامیوں میں شمار نہ کر لیے جائیں۔ یعنی ان کے نزدیک صدیوں سے جاری ننگے ظلم کے خلاف اتنا بلند آہنگ احتجاج فحاشی ٹھہرا۔ ہمارے یہ لبرلز حالیہ مارچ میں متحرک خواتین کو متوازن اور ماڈریٹ فیمنزم اپنانے کے ناصحانہ مشورے دیتے پائے گئے۔
روایات کے پاسبان مردوں اور عورتوں کی دہائی کا عالم دیدنی بھی ہے اور شنیدنی بھی۔لگتا ہے جیسے اس مارچ نے ان کی جمی جمائی تہذیب اور اخلاقیات کا چھابہ بھرے چوک میں الٹا دیا ہو۔ حالانکہ ہوا صرف یہ کہ ان نعروں نے ابھی ان کے چہرے کا تھوڑا سا نقاب سرکایاہے۔ ان کا مکمل عریاں ہونا تو باقی ہے۔
نام نہاد مشرقی روایات کے چہرے کو بے نقاب کرنے کی جرأت کرنے والی خواتین پر مذہبی اور مشرقی روایات کے نام پر گھٹیا اور غلیظ زبان میں حملے کیے جارہے ہیں۔ خود فحاشی سے لتھڑی زبان کے سہارے انہیں بدکردار بتایا جارہا ہے۔
آخر ان پلے کارڈز پہ ایسا کیا غلط لکھا تھا جو ہمارے جملہ مذہب پسند منافقین یوں بھڑک اٹھے۔ ان میں سے کون ہوگا جس کی عورت کو دیکھ کر رالیں نہیں ٹپکتیں۔ جو اپنی محرومی پہ نہیں کڑھتا۔ وقتاً فوقتاً رانگ نمبر ٹرائی نہیں کرتا۔ فون پر اجنبی نمبر دیکھ کر پھڑک نہیں اٹھتا۔جو مردِ میدان نہیں ہوتا وہ اپنی تنہائی میں کیسے کیسے فحش منظر بناتا ہے۔ اور کتنے ہی ہیں جو فیک آئی ڈی کی آڑ لے کر اجنبی خواتین کے انباکس میں اپنی ڈِک پکچرز بھیجتے ہیں۔ اب اگر اس بے ہودگی سے تنگ آئی لڑکیوں نے ان کا چہرہ دکھایا ہے تو یہ چیخ اٹھے ہیں اور مشرقی روایات اور مذہبی اخلاقیات کی دہائیاں دینے لگے ہیں۔
بھائی زرا ایک منٹ صبر کرو، ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس پیو اور پھر اپنے اندر چھپے اس فرد کی حرکتوں اور سوچوں کو یادداشت میں تازہ کرنے کی کوشش کرو جس سے تمہیں خود بھی نظر ملاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اگر ایسا کرنے کی ہمت نہیں تو گوگل کرو اور دیکھو کہ ہمارے ہاں پورن فلمیں دیکھنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ نام نہاد غیرت مندوں کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی عورتوں کے اعداد و شمار کیا ہیں؟ مذہبی مدرسوں اور باقی سماج میں روزانہ کتنے معصوم بچے ریپ ہونے کے بعد بے رحمی سے قتل کردئیے جاتے ہیں؟ کتنے مرد ہیں جو شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی طوائفوں کے پاس جاتے ہیں؟ یہ رقص جیسے لطیف فن کو مجروں کی صورت دینے والے معززین آخر کون ہیں؟ ہاں ممکن ہے گوگل ان عورتوں کے اعداد و شمار نہ بتاسکے جو نکاح کے تقدس کے بلند آہنگ نعروں کے باوصف اپنے ہی شوہروں کے ہاتھوں زنابالجبر والی زندگی جیتی ہیں۔
ایک بینر پر مردوں کے انداز میں بیٹھی ہوئی عورت کی تصویر اگر آپ کو فحش لگی تو اس کا مطلب اس کے سوائے کیا ہے کہ اس سوسائٹی کے کم و بیش سبھی مرد روزمرہ زندگی میں فحش ہیں۔ گویا کہیں بھی ٹانگیں کھول کر بیٹھنا اور وقتاً فوقتاً اپنے پرائیویٹ پارٹس کو مسلتے ہوئے عورتوں کو شہوت بھری نظروں سے دیکھنا مردوں کی تہذیب کا جزوِ لاینفک ٹھہرا مگر اس کی نشاندہی غیرمہذب حرکت گردانی جارہی ہے۔
اور اگر عورت بولے کہ اس کا جسم اس کی مرضی تو آپ کی رگِ ملکیت کو چوٹ لگتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مرد کو کس نے یہ لائسنس دیا کہ وہ عورت کو گھورے، تاڑے۔ اسے اپنی جسمانی طاقت ، سماجی سٹیٹس اور دولت کے بل پر زیر کرے۔ اسے استعمال کی کوئی شے سمجھے؟ آپ کی بہن یا بیٹی آپ کی زبردستی کی وجہ سے ناپسندہ مرد سے شادی کرکے اپنا جسم اسے کیوں سونپے؟ وہ اپنی مرضی سے شادی کیوں نہ کرے؟ وہ اپنی مرضی کی جاب کیوں نہ کرے؟ مرضی کا لباس کیوں نہ پہنے؟
سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ آخر ’میرا جسم میری مرضی‘ کا سلوگن پڑھ کر آپ کے دماغ میں فحش مناظر ہی کیوں بنتے ہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ نے عورت کے بدن اور فحاشی کو ایک ہی بات سمجھ لیا ہے۔اگر ایسا ہے تو اپنی فحش سوچ کا علاج سوچیں۔
ہماری عورت صدیوں سے جو جبر برداشت کررہی ہے وہ ان نعروں میں ابھی ایک فیصد بھی منعکس نہیں ہوا لیکن گنتی کے ان چند جملوں نے جھوٹی اور منافق تہذیب کے پروردہ گروہوں کو ہلا اور جھنجھلاکے رکھ دیا ہے۔ کوئی مذہب کی آڑ میں ان کی مخالفت کررہا ہے، کوئی سماجی روایات کے نام پر لیکن کوئی ان حواس باختہ مبلغوں کویہ سمجھائے کہ ذرا ان نعروں میں چھپے درد تک پہنچنے کی کوشش کریں جس سے ہم عورتیں زندگی بھر گزرتی ہیں۔ آج اگرزرا سا نقاب کھسکا ہے تو معاشرے کی مردانہ اخلاقیات کی دھجیاں بکھرنے لگی ہیں۔
کئیوں کو یہ اعتراض ہے کہ لبرٹی اور فریڈم صرف جسم تک کیوں محدود ہے۔ اب ان معصوم پیاروں نے شائد باقی کے جملے پڑھے ہی نہیں یا وہ سب بستر اور جسم جیسے الفاظ پڑھ کر ان کی آنکھوں کے سامنے دھندلاگئے۔ پیارے اخلاقیات کے علمبرداروسب سے پہلے تو یہ مان لو کہ عورت ایک مکمل انسان ہے جسے اپنے فیصلے خود کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔
اگر آپ کو’ اپنا بستر خود گرم کرو‘جیسے جملے سن کر خوف آتا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ ایک مرد ہونے کے ناطے تمام دنیا کی خواتین کو سیکس آفر کرنا، گندی تصاویر بھیجنا،سڑکوں پر آوازیں کسنا، بسوں میں ٹچ کرنا، دفتروں میں ہراس کرنا، قابل عورت کو آگے نہ بڑھنے دینا، ان کے سامنے آفس، دوکانوں اور چوراہوں پر ٹانگیں کھول کر بیٹھنا آپ کا حق ہے تو پھر یہ بھی جان لیجئے کہ آج کی عورت آپ کو یہ سب کچھ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ چنانچہ آپ کے لئے اپنی عزت کروانے کیلئے حقیقی تہذیب سیکھے بنا کوئی چارہ نہیں۔
اپنے حقوق اور سماج کوانسانی بنانے کے لیے یہ عورت کی طویل جدوجہد ہے جو اب قانون سازی کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ عورت کے جو حقوق مذہب اور مشرقی کلچر کے بلند آہنگ نعروں کے باوجود پامال ہوتے رہے، انہیں اب قانونی تحفظ حاصل ہونے لگا ہے۔ اب عورت وراثت بھی حاصل کرے گی، جاب کے لیے گھر سے باہر بھی نکلے گی، اور پسند کی شادی بھی کرے گی اور ماموں، چچا اور دوسرے مقدس رشتوں کے ہاتھوں اپنی پامال ہوئی عزت پر بھی آواز اٹھائے گی۔ اب بہرصورت عورت دشمن مائنڈ سیٹ کو پسپا ہوئے بنا کوئی چارہ نہیں بچا۔
اس بار عورت مارچ میں سامنے آنے والے بولڈ سلوگنز کو کوئی کتنا ہی فحش کیوں نہ کہے مگر یہ ماننا پڑے گا کہ ان نعروں نے عورتوں کی جدوجہدکو ایک دم ہائی لائیٹ کردیا ہے۔
مسئلہ مرد سے نہیں بلکہ اس کے آقائیت پسند مائنڈسیٹ سے ہے جسے ہماری عام عورتوں نے ہی نہیں بلکہ بہت سی نام نہاد پڑھی لکھی عورتوں نے بھی مذہب کی آرتھوڈاکس تشریح کی بنیاد پر قبول کررکھا ہے۔ کچھ بیبیاں تو فیس بک پر باقاعددہ اس کی تبلیغ کرتی پائی گئی ہیں۔
آخر میں ان تمام خواتین و حضرات کے لیے جن کے بقول جو عورتیں یہ سب کچھ سہہ رہی ہیں وہ تو گھروں سے نکلی ہی نہیں، یہ بتانا ضروری ہے کہ دنیا میں آج تک جتنی بھی تحریکیں چلی ہیں، چاہے وہ مزدوروں کے حقوق کی تھیںیا کالے افریقیوں کے حقوق کی یا قومی آزادی کے لیے، کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی تحریک کی ابتدا میں تمام متاثرہ لوگ شامل ہوئے ہوں بلکہ شعور پھیلانے کے لیے کچھ لوگ ہی باہر نکلتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے خاموش لوگ بھی حوصلہ پکڑنے لگتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”حالیہ عورت مارچ اورمخصوص مائنڈسیٹ کی پریشانی۔۔۔۔مہک سلیم

  1. مضمون پڑھ کر کئی ایک طرح کے تصورات ذہن کے پردے پر آرہے ہیں، بلا شبہ مضمون قیمتی اور حقیقت کا عکاس ہے، البتہ کئی مقامات سے محررہ کا ذہنی اضطراب جھلک رہا ہے، اسی سبب جسم کی جو آزادی وہ خواتین کو دینا چاہتی ہیں اس کا حق وہ مردوں سے سلب بھی کرنا چاہتی ہیں.
    ہمارے سماج میں عورتوں کی وقعت کم ہے، ان سے سلوک بہتر نہیں ہے، مگر احتجاج کا یہ طریقہ تو خود اپنی وقعت کم کرنے کا باعث ہے. لکھا ہے کہ: *گوگل کرو اور دیکھو کہ ہمارے ہاں پورن فلمیں دیکھنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ نام نہاد غیرت مندوں کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی عورتوں کے اعداد و شمار کیا ہیں؟ مذہبی مدرسوں اور باقی سماج میں روزانہ کتنے معصوم بچے ریپ ہونے کے بعد بے رحمی سے قتل کردئیے جاتے ہیں؟ کتنے مرد ہیں جو شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی طوائفوں کے پاس جاتے ہیں؟ یہ رقص جیسے لطیف فن کو مجروں کی صورت دینے والے معززین آخر کون ہیں؟ ہاں ممکن ہے گوگل ان عورتوں کے اعداد و شمار نہ بتاسکے جو نکاح کے تقدس کے بلند آہنگ نعروں کے باوصف اپنے ہی شوہروں کے ہاتھوں زنابالجبر والی زندگی جیتی ہیں*
    مذکورہ اقتباس میں ذکر کیے گئے مظالم پر کتنے بینر تھے اس مارچ میں، اس کا بھی تذکرہ ہونا چاہیے. مگر افسوسکہ تذکرہ ہوا تو بے حیائی سے، خارج از حد آزادی کا، نکاح سے راہ فرار کا الخ.

  2. Assalam o alikum! mard ki burai btaty hoye ap itna aagy nikal rahy k agar mard azad bhairia tasawur keye jaany laga to orat ko b wohi rutba dena chahty ha?bina rok tok k orat kokhula chor dene ki bt krty
    hoge apne ye khayal keya k jin jin jagao py orat ko khuli azadi mili whan crime ratio kaha tak gya? ap khty ho mard orato k fb py dicl pics bhejta ortien b to kitni ha jo yahe sb krti ratio ma b bht bara fark ni mard shadi k baad koi chakar chalata ha to wo b orat e hoti ha jis se chalata orat ko oski marzi k mutabik k shadi krne ka haq ha magar sary nazar bf k sath ghoom kr baap ki izat dubane ka haq nai ha? orat ko oski marzi k kapry phnny dye jaye ab agar koi orat pakistan jase mulk ma kahy k osne bikini phn k nikalna ha bhr to allow kr dy ap kry gy asi azadi apne ghr k leye?ghairat k naam py qatal hny wali bht ha or ye bt galat ha to maa baap ki jo izzat khak ma wo milati ha kia wo baap k leye doob marne ka mukam nai hota apki beti asa kry to ap kia kry gy? pasand ki shadi nai krty lakin aaj mostly larkio ko awara nashai or buri sohbat k lrky zayada jaldi pasand ajaty ha agar asa e koi seen apki beti ka ho to kia ap ijazat dy gy k aik ase larky se shadi kr lo jis ka buraion ki bhambar ho?

  3. یہ ہماری خواتین بہت اچھے طریقے سے جانتی ہیں کہ ان کے حوالے سے مردوں کی نیچر، عمل اور روئیے کیا ہیں۔ گھر سے باہر نکلیں تو ہر جگہ گندگی سے لبریز نظریں ان کا استقبال کرتی ملیں گی جن میں انہیں بیڈ روم میں لے جانے کی خواہش ملفوف ہوگی۔ ساتھ ساتھ دماغ میں کئی ننگے مناظر چل رہے ہوں گے۔ زیادہ رش ہوگا تو کئی ہاتھ لگانے سے بھی نہیں چوکیں گے۔ کہیں کہیں کوئی آوازہ بھی کس دے گا۔
    یہ تو ہے باہر کا منظر۔ گھروں کی صورت اس سے بھی بھیانک ہے مگر وہ اکثر پردے کے اندر چھپی رہتی ہے۔ بچیاں اپنے ہی محرم رشتوں کے ہاتھوں ریپ اور پریگننٹ ہوتی ہیں جن کی ماؤں کو رازداری سے ایبارشن کروانی پڑتی ہے۔ ناپسندیدہ رشتوں میں بیویاں شوہروں کے ہاتھوں ہی زنابالجبر کا شکار بنتی ہیں۔ اب فیس بک میں لڑکیوں اور خواتین کو گندی فلمیں اور ڈِک کی تصویریں بھیجی جاتی ہیں۔ مدرسوں میں بچے بازی کا مسئلہ الگ ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو بچوں کو بلیک میل کرکے ان کی ویڈیوز بناتے ہیں اور باہر فروخت کرتے ہیں۔ صورت یہ کہ گوگل نے ہمیں پورنستان کا طعنہ دیا۔ اب ایسے میں عورت مارچ پر اس گندگی کو ایکسپوز کرنے والے چند نعرے سامنے آئے تو اخلاقیات کے جھوٹے علمبرداروں کی چیخیں نکل گئیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جو اس موجود گندگی پر چپ سادھے بیٹھے تھے، انہیں ان نعروں پہ تکلیف کیوں ہوئی؟؟؟

Leave a Reply to یاسر انصاری Cancel reply