عالمی یوم خواتین۔۔۔سید ذیشان حیدر بخاری ایڈووکیٹ

ہر سال 8 مارچ کا دن عالمی یومِِِ  خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد خواتین کی معاشرے میں اہمیت,عزت, قدرو منزلت کو اجاگر کیا جانا ہے۔۔۔ایک شعورکا احساس  دلایا جانا تاکہ صنف نازک کسی احساس کمتری کا شکار نہ ہو بلکہ ہمت اور  استقامت  کا نمونہ بنتے ہوئے معاشرے  میں ایک فعال اور کارآمد کردار ثابت ہو سکے۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اس دن کو خواتین کے نام کیا گیا۔۔بے شمار سیمینار, تقاریب, ریلیاں غرضیکہ وما توفیقی الا باللہ کے مصداق   ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق اس دن کو منانے کا اہتمام کیا۔اسی تناظر میں پاکستان میں موجود ایک طبقہ جو اپنے آپ کو فیمنسٹ کہلواتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے کی سرپرستی میں عورت مارچ کے نام سے ریلیوں کا انعقاد بھی کیا گیا۔جس مارچ نے پورے پاکستان کا سردنیا بھر اور بالخصوص اسلامی دنیا میں شرم سے جھکا دیا۔اس مارچ میں شامل لڑکیوں کے ہاتھوں میں تھامے گئے پلے کارڈز اور بینرز اس بات کا ثبوت  ہیں کہ اس میں شامل افراد کم سے کم کسی اسلامی معاشرے کا بالکل بھی حصہ نہیں ہو سکتے۔اس پلیٹ فارم سے عورت مارچ کے ذریعے اس دن کو یوں منانا اس دن اور بالخصوص عورت ذات کی کھلم کھلا توہین ہے میری نظر میں تو فیمنسٹ مافیا اس دن کو عالمی یوم بے حیائی کے طور پر منا رہا ہے جس کو دیکھ کر ہر باحیا اور باکردار شخص اور بالخصوص عورت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ وہ ملک جو اللہ   کے نام  پر حاصل کیا گیا اور جس کی اساس کلمہ طیبہ پر کھی گئی۔ مذہب اسلام کا یہ مضبوط قلعہ اور لوگوں کا یوں سرعام بے حیائی پر مبنی بینرز اور پلے کارڈز ہاتھوں میں پکڑ ا کر یوں سڑکوں پر بھیجنا میری سمجھ سے بالا تر ہے۔مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اس طرح کے ذرخیز اذہان کس قسم کی آزادی کے خواہاں ہیں۔کس قسم کی برابری ان کو درکار ہے حالانکہ اسلام نے عورت کو اس کے حقوق چودہ سو سال قبل متعین کر کے بتا دئیے ہیں.۔ایک راہ مستقیم بتا دی ہے۔عزت اور توقیر میں اس قدر اضافہ  صرف اور صرف اسلام کی بدولت ہی عورت  کو حاصل ہوا ایسے مکتبہ فکر کو یہ بات بھول گئی کہ اسلام سے پہلے تو اسی عورت کو زندہ درگور کیا جانا ہی  قابلِ فخر  گرانا جاتا تھا۔کیا انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اسی عورت کی پیدائش کو نحوست اور شرمندگی سمجھاجاتا تھا۔لونڈی اور باندی بنایا جاتا تھا۔اپنی ہوس اور درندگی کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور اسلام نے وہاں سے اٹھا کر اسی عورت کو انسان کے لئے بیٹی کی صورت میں رحمت قراردیا, ماں کی صورت میں قدموں تلے جنت لا کر رکھ دی۔مسکرا کر چہرے  کا دیدار کرنا افضل اور مقبول حج کے برابر قرار دیا۔کیا یہ لوگ بھول گئے کہ ایک عورت کی تعلیم کوپورے خاندان کی تعلیم کے برابر صرف اسلام نے گردانا۔ صرف اسلام نے ہی محرم اور غیر محرم کی تمیز کرنا بتائی۔۔ کیا اس سے قبل ایسا کیا جاتا تھا۔۔لیکن ایسا انہیں کیونکر یاد ہو۔۔کیونکر ایسی سوچ کو اجاگر کریں۔۔انہیں کیا مجبوری کہ وہ عورت کے حقوق,اسکی تعلیم, اس کی عزت,اس کے تشخص اور اقدار کی بات کریں وہ تو بات کریں گے تو صرف عورت کے جسم کی, عورت کے استعمال کی اور عورت کی نام نہاد آزادی کی کیونکہ اس طرح کے اذہان کا فوکس اور سوچ کا محور عورت کے حقوق یا ان کا تحفظ نہیں بلکہ کہیں پر میرا جسم میری مرضی کا سلوگن لگا بینر اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ ان کی سوچ عورت کے جسم تک ہی محدود ہے اور کہیں پر بستر خود گرم کر لینا  کا سلوگن از خود عورت کی تذلیل کرتے ہوئے یہ بتا رہا ہے کہ عورت کی حیثیت ایک طوائف سے زیادہ نہ ہے لیکن ان کے علم کے لئے عرض کرتا چلوں کہ اسی عورت کو رب لم یزل نے جنت کی بیبیوں کی سردار چنا, اسی عورت کے حقوق کے لئے رب قدوس نے اپنے پاک کلام میں پوری ایک سورت کا نزول فرمایا, ہمارے اسلامی معاشرے میں حضرت سیدنا خدیجۃالکبری کی زندگی ایک تاجرہ کی صورت میں مشعل راہ ہے, سیدنا زینب سلام اللہ علیہا کی زندگی ایک بہادر, جفاکش جنگی سپہ سالار, سربراہ کی حیثیت سے یہ بتا رہی ہے کہ آزادی کس چیز کا نام ہے۔سیرت سیدہ فاطمۃ الزہرا کا مطالعہ کرتے تو علم ہوتا کہ عفت اور شان کس میں ہے۔اپنے گھر میں موجود چکی سے آٹا خود پیسنا, گھر کے سارےامور کی انجام دہی اپنے ہی ہاتھوں سے کرنا کتنی بڑی برکت کا سبب بنتا ہے لیکن افسوس ایسا کرنےکی کوشش تک نہ کی گئی کیونکہ ایسے اذہان نومولود مغرب زدہ ہونے کے باعث ان کی چال چلتے چلتے اپنی بھی بھول گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرا تمام قارئین سے سوال ہے کہ کیا ایسی عورت یا افراد کو جو اس سب کے داعی ہیں اپنے تعارف میں کسی جگہ پر بھی وہ الفاظ اپنے لئے استعمال کرنا گوارا کریں گے جو انہوں نے پلے کارڈز اور بینرز پر لکھ اور لکھوا رکھے تھے۔کبھی بھی وہ ایسا نہیں کریں گے اس سب کے لئے صرف دوسروں کی بیٹیاں جو ہیں اور میرا آخری سوال ان تمام والدین سے ہے جن کی بیٹیاں اس سب کا حصہ رہی ہیں کہ   آپ  کی بیٹی کسی غیر کے ساتھ اپنے جسم کے سودے کو اپنی آزادی گردانتی ہے, کیا اس کا یوں سرعام اپنی عزت کا مذاق اڑانا ہی اس کا حق ہے ؟خدارا ایسا ہونے سے روکا جائے ۔ میری عاجزانہ,مخلصانہ اور  گزارش ہے تمام والدین سے کہ خدارا اپنی اولاد کی تربیت جناب فاطمۃ الزہرا کے پیرائے میں کیجئیے…خدارا اگر فلاح چاہئیے تو سیدہ کائنات کی زندگی کو نمونہ زندگی بناتے ہوئے اپنی بقیہ زندگی گزارنے کی کوشش کیجیئے۔ یہ فیمنزم کا جو بھوت چند لوگوں کے سر پر سوار ہے وہ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ مذہب اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔چودہ سوسال قبل آج کے اور قیامت تک آنے والے انسان کی تمام تر ضروریات کا احاطہ کرتے ہوئے مکمل رہنمائی موجود ہے۔یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اقدار پس پشت ڈال کر مغربی اقدار سے متاثر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔جس میں ہماری ہلاکت, بربادی اور تباہی ہے۔ہمیں پھر سے اپنی روایات اور اقدار اپنانا ہوں گی۔ ہمیں پھر سے حسن و حسین علیہ السلام, سیدنا زینب سلام اللہ علیہا کی سیرت کو اپنانا ہو گا۔ہمیں پھر سے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کےسانچے میں اپنا کردار ڈالنا ہو گا۔اسی میں ہماری, ہماری اولاد اور آنے والی نسلوں کی بقا کا راز  مضمر ہے۔

Facebook Comments

سید ذیشان حیدر بخاری ایڈووکیٹ
سید ذیشان حیدر بخاری ضلع حویلی کے ایک گاؤں جبی سیداں میں پیدا ہوئے.موصوف نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائرسیکنڈری سکول جلال آباد سے حاصل کی.گریجویشن مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ تک مختلف NGOs میں جاب کرتے رہے.لگ بھگ چھ سال تک کمپیوٹر کی فیلڈ سے بھی جڑے رہے.موصوف کو ملازمت ایک آنکھ نہ بہائی. موصوف اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے لئے آزاد جموں وکشمیر یونیورسٹی مظفر آباد کا رخ کیا جہاں سے آپ نے ایل ایل بی کا امتحان امتیازی گریڈ میں پاس کیا.آج کل موصوف سینٹرل بار مظفر آباد میں بطور وکیل اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں..اور ادب کے حوالے سے موصوف نے اپنی پڑھائی کے دوران سہ ماہی سحر, اور چراغ کے نام سے بچوں کے لئے دو رسالہ جات بھی شائع کئے اور اس دوران ایک اخبار صدائے چنار کے ساتھ بھی اپنی خدمات بطور رضاکاررپورٹر وقتاً فوقتاً دیتے رہے... ایک آن لائن میگزین ماہنامہ رنگ برنگ کی ادارتی ٹیم کا حصہ بھی رہے...

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply