مچھلی سے گدھے تک ۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی/دوسری،آخری قسط

 جنرل ضیاءالحق کے دورِ اقتدار میں سب سے زیادہ نقصان نظامِ تعلیم کو پہنچا، عہدِ رفتہ کی عظمتوں اور امتِ مسلمہ کے سنہری دور کے گُن گانا ہی حقیقی قابلیت مانا گیا، جبکہ دورِ حاضر کے علمی تقاضے اور مستقبل کی بابت معاشرتی، معاشی و سائنسی فکر کو غیر اہم جانا گیا، اس سارے عمل میں دینی جماعتوں نے پوری دیانتداری سے اہلِ اقتدار کا ساتھ دیا۔ اگلے چند برس جمہوریت نے ملک میں اپنے قدم جمانا شروع کئے، شریف اور بھٹو خاندان نے دو دو بار اقتدار کا تاج اپنے سر پر رکھا، مگر دونوں جماعتیں اپنی نالائقیوں اور کارناموں کی بدولت ہر بار اپنی اپنی مدت پوری نہ کر پائیں۔ یہی وہ دور تھا جب دنیا ٹیکنالوجی کی دنیا میں قدم رکھ چکی تھی، اسی دور میں بنی نوعِ انسان نے قبائیلانہ نظامِ زندگی کو جدید طرزِ زندگی سے بدلا، بادشاہت کے خاتمے اور آزادئ اظہارِ رائے کی اہمیت سے انسان واقف ہو چکا تھا، مگر اپنے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے ان دونوں جماعتوں نے معاشرتی اور سماجی علوم سے عوام کو بہرہ ور نہ ہونے دیا، جبکہ ٹیکنالوجی کے استعمال اور مستقبل میں سائنسی علوم کی اہمیت سے یہ دونوں جماعتیں سرے سے ناواقف تھیں، رنگ پور میں اب خاندانوں کے خاندان مختلف جتھوں میں بٹ گئے تھے، عام فرد کو زیادہ سے زیادہ اپنے بیٹے کی نوکری یا اپنی گلی کی سولنگ کی فکر رہتی تھی،

http://مچھلی سے گدھے تک۔۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی/پہلی قسط

Advertisements
julia rana solicitors

اسی لیے رنگ پور کا ہر دوسرا رہائشی اپنی عزتِ نفس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، آنے والے الیکشنز میں متوقع کامیاب امیدوار کی چوکھٹ پر اپنی پگڑی رکھ دینے پر مجبور تھا، کرپشن اور اقرباء پروری کا وہ عروج تھا کہ رنگ پور کے باسیوں کو یہ جاننے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ تعلیم ، ہنر یا قابلیت وغیرہ کسی کام کی نہیں، بس کسی وڈیرے کا دستِ شفقت سر پر ہوتو سمجھو کہ پانچوں گھی میں ہیں، اس نفسیات سے نوجوان نسل کے اقدار کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا، سکول منشیات وجوّے کا گڑھ بنتے جا رہے تھے، مساجد میں کفر کے فتوے بکنے لگے، پلاسٹک بیگ کے اندھا دھند استعمال اور صفائی کے ناقص نظام نے مقامی دریا کو ایک بدبودار نہر میں بدل ڈالا تھا، مقامی ہوٹلوں میں نوجوان اب مچھلی یا دنبے کی بجائے مرغی کی کڑاھی پسند کرنے لگے تھے۔ جنرل مشرف صاحب نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اس قوم کی حالت سدھارنے کی ٹھانی، گویا کہ روسی محاورے کے مطابق، ریچھ والی خدمت، انجام دی، روسی لوک کہانی میں ایک ریچھ اور ایک انسان جنگل میں دوست بن جاتے ہیں، ایک دن قیلولہ کرتے وقت ایک مکھی بار بار انسان کو تنگ کر رہی تھی، ریچھ نے اپنے دوست پر ترس کھاتے ہوئے، کہ ایک نامراد مکھی اس کے دوست کو سونے نہیں دے رہی، اینٹ اٹھا کر تب مکھی پر دے ماری، جب مکھی اس شخص کے عین ماتھے پر بیٹھی تھی، اس سے آگے راوی خاموش ہے۔ مشرف صاحب کو احساس تھا کہ ملک و قوم دنیا میں رواں تہذیب ، علوم اور ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہیں، انہوں نے اپنے تئیں اس بگاڑ کو سنوارنے کی کوشش میں، تہذیب وتمدن کے ترتیب وار مراحل میں سے ایک دو پھلانگتے ہوئے سیدھا دورِ جدید میں قدم رکھنے کی کوشش کی، اجمالاً یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ گدھے کو گھوڑے بنانے کی کوشش میں، خچر والا درمیانی مرحلہ، پھلانگنے کی کوشش کی گئی، صرف دو مثالوں سے اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے، لوگوں کا وہ ہجوم جو ضیاءالحق کے دور سے حسنِ فطرت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے روحانیت کے لبادے میں اپنی منافقت کو لپیٹنے کا ہنر سیکھ چکا تھا، یہی ہجوم جو بعد کے جمہودی دور میں شخصیت پرستی ، سفارش، کرپشن و اقرباء پروری جیسے فن پر عبور حاصل کر چکا تھا، ایسے ہجوم کو گھریلو فون سیٹ، وائرلیس فون وغیرہ کے مراحل سے گزارے بغیر سیدھا موبائل پکڑا دیا گیا، اسی طرح خبر رسانی کے نظام اور میڈیا کے قوم کی پرورش میں کردار کو سمجھے بغیر پرائیویٹ چینلز کو لائسنس پرشاد سمجھ کر بانٹ دئیے گئے، ایسے ہتھکنڈوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ رنگ پور میں نوجوان اب پوری پوری شام ٹیلیویژن کے سامنے اور رات رات بھر موبائل پر گزارتے، اس سے معاشرے کی اجتماعی طبعی و روحانی صحت پر جو اثر پڑا، اس کا اندازہ رنگ پور کی دیواروں پر لکھے حکیموں و عاملوں کے اشتہارات سے بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔ مقامی ہوٹلوں میں نوجوان اب وقت کی قلت اور سستی قیمت کی وجہ سے صرف برائلر مرغی کا گوشت کھاتے تھے۔ جنرل مشرف نے امریکہ افغانستان جنگ میں جو رویہ اپنایا، اس سے گویا کہ عملی جنگ وطنِ عزیز کو منتقل ہو گئی، روزمرہ کی بنیاد پر خودکش حملوں سے تنگ عوام نے جمہوریت کو خوش آمدید کہا، ایک دفعہ پھر ماضی کے تمام دکھ بھلاتے ہوئے اُنہی دو جمہوری جماعتوں کو مواقع دئیے گئے، اور ” بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے ” کے غلاف تلے وہ شیطانی ننگا ناچ کھیلا گیا کہ خدا کی پناہ۔ لوٹ مار کا بازار صبح شام گرم رہا کرتا، سنتری سے لے کر منتری تک صرف اپنی تجوری بھرنے کے چکروں میں رہتے، میڈیا مالکوں کو اپنی اپنی استطاعت اور ان کی اوقات کے مطابق خرید لیا جاتا، معاشرہ کا اجتماعی شعور شوبازی سے آگے نہ پنپ پایا، حتی کہ عسکری اور عدل و انصاف کے اعلی ادارے تک اس سے محفوظ نہ تھے۔ رنگ پور میں اب شادی ہال اور پراپرٹی بزنس کا راج تھا، سکول وڈیرے کے جانور باندھنے کا کام آتے، مساجد میں موجود ملّاؤں کے اخلاق اور رویوں نے عام فرد کو دین سے متنفر کر دیا تھا، نوجوان منشیات، اسلحہ اور دوسری بدکاریوں میں مبتلا رہنے لگے، بزرگ اپنی جوانی کے ناکردہ اعمال پر پچھتاوے کے علاوہ، دیر آید درست آید، والے محاورے کے مطابق اس کی کوئی نہ کوئی عملی شکل تلاشتے اور تراشتے، خواتین اب، آزادئ نسواں، اور ” میرا جسم میری مرضی ” کے مطابق شرم، حیا اور شائستگی سے مستعفی ہو چکی تھیں، تعلیم کے نام پر کچھ انگریزی سکول کھول دئیے گئے تھے، جن کا اصل مقصد دھن کمانے تک محدود تھا، آبادی میں دن دگنا اور رات چوگنا اضافہ ہو رہا تھا، پلاسٹک بیگ نے جس آلودگی کو جنم دیا، اس کے نتائج ہر گلی کے نکر پر دیکھے جا سکتے تھے، دریا کے کنارے اب دو بورڈ لگے ہوئے تھے،ایک پہ، زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، اور دوسرے پر ، میاں دے نعرے وجنڑ گے، جیسے فقرے درج تھے اور ساتھ میں ان سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے ساتھ دو مقامی وڈیروں کی تصاویر بالترتیب چسپاں تھیں، قریب موجود ہوٹلوں پر اب گدھے کے گوشت کی کڑاہی فروخت کی جاتی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply