آزادی نسواں کے نام پر جہالت کا فروغ۔۔۔۔صدف مرزا

آزادئ نسواں کے نام پر جہالت کا فروغ

نعروں کے نام پر لچر پن

حقوق کے نام پر درونِ ذات کی غلاظت بینرز پر لکھ کر گلی کوچوں میں بوچھاڑ کرنے کی کوشش میں ہلکان معزز خواتین سے میرا محض ایک سوال ہے…..

کیا انہوں نے یورپ، امریکہ اور کینڈا کی خاموش پہرےدار کی صورت میں احتجاج کو کھڑی عورت کے نعرے پڑھے…؟

کیا انہوں نے مغربی عورت کے مطالبات کی فہرست پر نظر ڈالی؟

موجوں کی صورت اٹھنے والی فیمنزم کی پکار میں ان کے عزائم کو جان پائیں؟
تانیثیت… جغرافیائی، لسانی اور مذہبی اقدار کے ساتھ ہم آمیز ہے
سعودی عرب، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے حالات و مطالبات الگ ہیں
یورپی عورت تعلیم و تدریس اور ملازمت کے یکساں حقوق حاصل کر چکی ہے…. وہ نئے افق تلاش سکتی ہے
لیکن

یہ نعرے لکھنے والے زرخیز اذہان کی مالک عورتیں سڑک پر کھڑی ہو کر…. گرم کھانے سے گرم بستر تک…. کے الفاظ دہراتی شاید خود بھی نہیں جانتیں کہ وہ آزادی کے مفہومِ تک سے واقف نہیں

لیکن وہ ان سگنلز سے بخوبی آگاہ ہیں جو وہ صرف صنفِ مخالف کو
ہی نہیں، اپنی نئی نسل کو بھی بھیج رہی ہیں.

بہت ڈھونڈا، شاید کوئی تحریر تعلیم. کا مساوی حق مانگتی نظر آ جائے

کوئی آواز ملازمت اور مساوی تنخواہ کی بات کرے

کوئی میڈم عورتوں کے زمانۃحمل میں اور وضعِ حمل بعد کے ابتدائی دور میں ملازمت پیشہ ماں کے لیے سہولیات کی فراہمی کی بات کرے

جائیداد کا حق لینے کی کوشش کرے

کاروبار کا حق مانگتے ہوئے اسے اپنی میراث اور گم گشتہ دولت قرار دے، بی بی خدیجہ الکبریٰ کی مثال دے
دلیل سے بات کرے

طبی سہولیات مانگے،

کتاب مانگے
قلم اٹھانے کی اجازت چاہے
شعر کہنے کی سہولت کی متقاضی ہو…

شادی کے فیصلے میں اپنی رضا دینے کا حق مانگے

لیکن آزادی کی متوالی ان جیالی عورتوں نے تقاضا کیا بھی تو ورائے بدن کچھ نہ سوچ سکیں….

مانگا بھی تو جسم کے خطوط، قوس، اٹھاں، ڈھلان کے راستوں کے نشانات کو بل بورڈ بنانے کی اجازت چاہی

شاہین نہ بن سکی، کرگس کی طرح پرواز اتنی رکھی کہ اپنا نوالہ حاصل کر سکے

زندگی کو ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی سکون دینے کے لیے ایک جنت نظیر گھر، ایک محبت کرنے والے شوہر، بچوں کا سکون طلب کرنے کی بجائے وہ بے مہار آزادی مانگی جس کی صناعی محض چند برس کی بندر رقص کی ڈوری ہلانے کے بعد بڑھاپے، بے بسی اور تنہائی کی ڈگر پر لے جاتی ہے

ان نعروں کو مقدس آیات کی طرح دہرانے والی خواتین بے ڈھنگے پن سے عیاش مردوں کی مساوات میں شراب کے گھونٹ اور اسی کی طرح بدن کی بے مہار خواہشات کوپورا کرنے کی تمنا میں ہوکے بھرتی پھرتی ہیں

از راہِ کرم، ایسی ادب آداب سے عاری، سرِ عام آزادی کے نام پر اپنی کچلی تمنائیں پیش کرتی روشن خیال مستورات مجھے از خود ان فرینڈ کر دیں.

ان کے نظریات کے مطابق میں ابھی دو صدیاں پیچھے ہوں

کچھ کو میں خود اپنے محدود حلقے سے نکالنے کو ہوں، مجھے اس بات کی ہر گز پروا نہیں کہ نام نہاد دوستی کو کتنا وقت گزر گیا….

کند ہم جنس باہم جنس پرواز

کبوتر با کبوتر، باز با باز‘

یہاں تعفن اور نئی نئی آزادی جسے یہ بیچاری نئی نیی ملحد اور نئی نئی مغربی زندگی سے آشنا ہونے والی بیبیاں محض شراب اور شباب کی لذت تک بے روک ٹوک رسائی سمجھتی ہیں……
ان روشن خیالوں سے دست بستہ عرض ہے کہ

Advertisements
julia rana solicitors london

بندگی خدا خدا صاحب

Facebook Comments

صدف مرزا
صدف مرزا. شاعرہ، مصنفہ ، محقق. ڈنمارک میں مقیم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”آزادی نسواں کے نام پر جہالت کا فروغ۔۔۔۔صدف مرزا

  1. دیکھنے والی آنکھ سے ہوتی تو وہ نعرے بھی نظر آ جاتے جن کی غیر موجودگی کا شکوہ کیا گیا ہے

Leave a Reply