مکالمہ کی پہلی اور سترویں سالگرہ مبارک۔

یکم ستمبر کو”مکالمہ” اپنی پہلی سالگرہ منا رہا ہے۔ مجھے چند ماہ پہلے رضا شاہ جیلانی  نے  مکالمہ سے متعارف کروایا تھا  اور تجویز دی تھی کہ میں اپنی ٹائم لائن پر شائع ہونے والی تحاریر کو مکالمہ پر بھیجوں۔میں کوئی کہنہ مشق لکھاری نہیں تھا۔ لیکن دوست  کی تجویز نے میرے اندر کے لکھاری کو جگا دیا۔ اور یوں مکالمہ کے ساتھ ایک خوشگوار تعلق کا ایسا سلسلہ قائم ہوا جس نے مجھے فکر کی بہت سی نئی جہات سے روشناس کروایا۔محترم رضا شاہ جیلانی صاحب تو اب مکالمہ ٹیم کا حصہ نہیں رہے۔ تاہم میں ان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے انعام رانا، طاہر یٰسین اور احمد رضوان صاحب جیسی شخصیات سے متعارف کروایا۔
مملکت خداداد پاکستان دنیا کی واحد مملکت ہے جو نظریاتی  بنیادوں پر قائم ہوئی۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ  ہو گا کہ پاکستان خالصتاً دلیل اور مکالمے کی بنیاد پر وجود میں آیا۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رح جو کہ پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل بھی تھے۔ انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت، علمی مہارت اور بہترین مکالماتی طاقت کے ذریعے باقائدہ دلائل کے ساتھ یہ منوایا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کی زندگی گزارنے کے لیے ایک الگ وطن کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر انگریز کے چلے جانے کے بعد وہ برصغیر میں ایک اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔قائد اعظم کے مضبوط دلائل اور مکالمے کی طاقت کے سامنے انگریز تو کیا کانگریس بھی بے بس ہو گئی۔ اور یوں دنیا کے نقشے پر ایک ایسا ملک ابھرا جو خالصتاً نظریاتی بنیادوں پر کیے گئے مکالمے کے نتیجے میں قائم ہوا تھا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان بننے کے بعد بھی اسی نظریے کو آگے بڑھاتے ہوئے ملک میں بسنے والے مختلف مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں کو قریب لانے کے لیے مکالمے کو مزید فروغ دیا جاتا۔ تا کہ وطن کے تمام باسیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جا سکے۔مگر افسوس کہ ایسا نا ہو سکا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ستر سال بعد قوم مختلف سیاسی,معاشرتی اور مذہبی فکر رکھنے والے کئی گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اور ہر گروہ کے ماننے والے اپنے عقیدے اور فکر پر اتنا پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اختلافِ رائے کی گنجائش نہ  ہونے کے برابر ہے۔ بلکہ ذرا سے اختلاف کی صورت میں بھی معاملہ تشدد اور خون ریزی تک پہنچ جاتا ہے۔ مذہبی یا سیاسی اختلاف رکھنے والے کو بھرے ہجوم میں تشدد کر کے مار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
بدقسمتی کے ساتھ معاملات کو اس نہج تک پہنچانے میں ہمارے نام نہاد آزاد میڈیا کے کچھ عناصر کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جہاں سرِ شام مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والے افراد کو بِٹھا دیا جاتا ہے اور پھر مباحثے کے نام پر جان بوجھ کر آپس میں لڑایا جاتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ ریٹنگ حاصل کی جا سکے۔قوم جب اپنے لیڈروں کو اس حد تک گالی گلوچ کرتے دیکھتی ہے تو اس کی نوجوان نسل میں بھی عدم برداشت کے رویے فروغ پانے لگتے ہیں۔ جس کا نتیجہ معاشرتی تفریق اور بدامنی کی صورت میں نکلتا ہے۔کچھ یہی حال سوشل میڈیا کا بھی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں سیاسی سطح پر ہونے والے مباحثے اور مذہبی سطح پر مناظرے کو ختم کر کے کُلی طور پر مکالمے کو فروغ دیا جائے۔
صرف اپنی بات پر اڑے رہنے اور زبردستی منوانے کی بجائے ایک دوسرے کی بات کو تحمل کے ساتھ سُنا جائے اور تنقید کی صورت میں برداشت کا مظاہرہ کیا جائے۔پاکستان میں اگر مکالمے کو اس کی اصل روح کے مطابق رائج کر دیا جائے تو میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پوری قوم کو یکجا ہو کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ مختلف طبقات اپنے اپنے مکتبہ فکر میں رہ کر بھی طے شدہ مشترکات پر باہم شیر و شکر ہو کر رہ سکتے ہیں۔اور یوں مکالمے کے ذریعے پرامن پاکستان کے اس خواب کو تعبیر دی جا سکتی ہے جو ستر سال پہلے مکالمے کے ذریعے ہی دیکھا گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گویا یہ بات طے شدہ ہے کہ پرامن اور مستحکم پاکستان کے لیے ملک میں مکالمے کو ہر سطح اور ہر پلیٹ فارم پر رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ خواہ سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا۔ ۔ ۔ان حالات میں سوشل میڈیا پر انعام رانا کی جانب سے “مکالمہ” کا اجراء ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔
برادرم انعام رانا صاحب نے مکالمہ ویب سائیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کھول کر بارش کے اس پہلے قطرے کا کردار ادا کیا ہے جس کے بعد ہر قطرے کو زمین پر برسنے کی ہمت ملتی ہے اور یوں سالوں کی پیاسی زمین راحت و فرحت سے شاداب ہو جاتی ہے۔
مجھے امید ہے کہ انعام رانا صاحب کی جانب سے شروع کیا گیا مکالمے کا سلسلہ اب رکے گا نہیں۔ اور لوگ بھی اس میں آگے آتے جائیں گے اور کاررواں بنتا جائے گا۔ان شاءاللہ جلد یا بدیر “مکالمہ” پاکستان کا قومی سطح پر سب سے بڑا پلیٹ فارم بن کر ابھرے گا۔ اور پوری قوم کو یکجا کرنے میں وہ کردار ادا کرے گا۔ جس کا تذکرہ میں نے مضمون کی گزشتہ سطروں میں کیا ہے۔
اس سال اگست کے مہینے میں مکالمے کی سطح پر قائم ہونے والا پاکستان جہاں اپنی سترہویں سالگرہ منا رہا ہے تو وہیں انعام رانا کا “مکالمہ” اپنی پہلی سالگرہ منا رہا ہے۔میری طرف سے انعام رانا صاحب کو اور ان کی پوری ٹیم کو دونوں کی مبارکباد۔ ۔ ۔دعا ہے کہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے اور ہر سال ترقی و کامیابی کی منازل طے ہوتی رہیں۔ آمین!

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply