فرائض کے دائرے ۔۔۔ مہر ساجد شاد

“میری بیوی نیک ہو گئی ہے”
اسلم نے ایک ایک لفظ بڑا زور دے کر بولا۔
تنویر صاحب نے حیرت سے اسلم کی طرف دیکھا اور بولے۔۔
“ تو اس میں مسلۂ کیا ہے”
اسلم جھینپ کر بولا سر آپ سمجھے نہیں، اصل میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر خاوند کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بیوی اسے اچھی لگے خوبصورت لگے وہ اپنی بیوی کو دیکھے تو اسے سکون مل جائے۔
تنویر صاحب نے پوچھا “اچھا تو بیوی نیک ہو جائے تو اس کی خوبصورتی کو کیا ہو جاتا ہے”۔
اسلم اب قریب ہو کر بولا سرجی میری بیوی ہر وقت تسبیح ہاتھ میں لئے حاجن بنی بیٹھی ہوتی ہے، ایسے تو بندہ اس کے ساتھ ہنسی مذاق نہیں کر سکتا ناں !!
اُسے آواز دیتے ہوئے بھی لگتا ہے کہ کہیں اسکی عبادت میں خلل ڈال کر گناہ گار ہی نہ ہو جاؤں ۔
سر جی ! یہ تو اب اُسے سوچنا چاہیئے ناں کہ خاوند گھر آیا ہے کچھ تو بناؤ سنگھار کر لے، کچھ تو سرخی پوڈر لگا لے، دن میں نہ سہی رات کو تو اپنی تسبیحات اور وظائف کو ختم کر کے بستر پر لیٹا کرے۔
سرجی یقین جانیں اب تو مجھے اس کی پھونکوں سے خوف آنے لگا ہے۔
تنویر صاحب نے ساری بات سُنی تو بولے اچھا اب سمجھا، لگتا ہے خاتون کو پارسائی کا بخار چڑھا ہے، لیکن اسلم صاحب اگر آپ کی بیوی عقیدت محبت اور آخرت کے خوف سے یہ عبادات کر رہی ہے تو یہ درست ہے لیکن وہ اپنی دوسری ذمہ داریوں سے غافل نہ ہو ادھر اس کی توجہ مبذول کروانی ہے۔
اسلم کی آنکھوں میں چمک آگئی۔
بولا جی سر یہی تو میں کہہ رہا ہوں وہ نماز پڑھے وظائف کرے لیکن یہ بھی تو یاد رکھے کہ اس کی شادی میرے ساتھ ہوئی ہے، میں اس کا خاوند ہوں میرے بھی کچھ حقوق ہیں ، جب میں اس کے حقوق اس کی ضروریات پوری کر رہا ہوں تو وہ میرا خیال کیوں نہیں رکھ رہی !!
تنویر صاحب نے اسلم کو کہا بھائی اپنی بیوی کو اس کے موجودہ مزاج کے مطابق ہی سمجھاؤ گے تو وہ سمجھے گی۔ اسے قرآن و حدیث سے بیوی کے فرائض شوہر کے حقوق بتانا پڑیں گے اس کے لئے یہ کتاب آپ لے جائیں اپنی بیوی کو تحفہ دیں۔ مذہب سے ان کی قربت ہے تو مذہب ہی انہیں اپنے فرائض کی جانب متوجہ کر سکتا ہے۔
اسلم نے تنویر صاحب سے کتاب لے لی اور دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ اللہ کرے اس کی بیوی کو اپنے وظائف سے کچھ وقت اس کتاب کو پڑھنے کیلئے بھی مل جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply