بامیان بودا کے عظیم الجثہ مجسمے ۔۔۔۔اسحاق محمدی

1997کے وسط میں بامیان کے عظیم بودا مجسموں کے متعلق میرا ایک طویل مقالہ روزنامہ جنگ کے “سنڈے میگزین” میں چھپا تھا جسے کافی سراہا گیا تھا۔ بعد میں جب مارچ 2001 میں طالبان کے ہاتھوں ان شاندار انسانی شاہکاروں کی تباہی کا دلخراش واقعہ رونما ہوا، تب بھی میں نے اس موضوع پر کئی مقالے لکھے جن میں سے کئی اب بھی مختلف ہزارہ ویب سائٹس پرموجود ہیں۔ لیکن چونکہ وہ انگریزی میں ہیں اس لیے اردوقاریئن کے اصرارپردوبارہ اردومیں لکھ رہا ہوں۔
یوچی، خانہ بدوش قبائل کا ایک جتھا تھا جو پانچویں صدی عیسوی( ق م) کے لگ بھگ شمالی قراقرم میں اپنے حریف قبایل سے شکست کھانے کے بعد مرکزی ایشیا کی طرف ہجرت پر مجبورہوا تھا۔ انکی نسلی شناخت کے حوالے سے مورخین میں اختلاف پایا جاتاہے ایک گروہ انہیں مغل نسب جبکہ دوسرا آریا نسب قرار دیتے ہیں۔ میں اس مسئلہ میں الجھے بغیراپنی بات کو آگے بڑھاتا ہوں۔ معتبرتاریخی شواہد کے مطابق پہلی صدی عیسوی کے دوران یوچی قبائل کی شاخ “کوشان” نے اپنے سردارہرایوس کی سرکردگی میں دریائے آموعبورکرکے قدیم خراسان (موجودہ افغانستان) میں ایک سلطنت کی بنیاد رکھی جسے حقییقی معنوں میں بڑھاوا اسکے جانشین کد فیزنے دی۔ بعد میں اسی سلسلے کے مقتدربادشاہ کنیشکا (120 تا 140ء) نے اسے ایک عظیم سلطنت میں بدل دیا جس کے قلمرو میں پورا مرکزی ایشیا، شمالی ہندوستان اورقراقرم تک کے وسیع علاقے شامل تھے۔ کنیشکا نے اپنے عروج کے دور میں بدھ مت اختیارکی اور اسی کے دور میں گوتم بدھ کی زندگی اور تعلیمات کو پتھر سمیت دیگر دستیاب اشیاء پرکندہ اور نقش کرنے کی ریت چل پڑی جس میں وادی بامیان کے عظیم الجسہ مجسمے بھی شامل تھے جو مارچ 2001 میں دہشت گرد طالبان کے ہاتھوں تباہ ہونے تک دنیا کے سب سے بڑے ایستادہ مجسمے تھے۔ یہاں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ اُس وقت کشمیر، ٹیکسیلا، پشاور وغیرہ کے علاقے یونانی ثقافت کے زیر اثر تھے اسی لیے جب گوتم بدھ کی تعلیمات اور زندگی کو نقش کرنے کی شروعات ہوئیں توبدھ مت کے پیروکاراس فن میں اس حد تک یونانیوں کے زیر اثرچلے گئے کہ وہ گوتم بدھ کو یونانی “دیوتا اپالو”کے روپ میں پیش کرتے رہے۔ مجسمہ سازی کے باقی شعبوں میں بھی وہ اسی طرح انکی پیروی کرتے تھے جس کی وجہ سے ماہرین گندھارا آرٹ کو “گریکو-باخترین” کا نام دیتے ہیں۔ کوشانیوں کے عروج کے دور میں وہ اس میں اپنے اثرات بھی شامل کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی وجہ سے بعض ماہرین اسے “گریکو-کوشا نو” بھی کہتے ہیں۔ اس موضوع کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ بعض ہزارہ لکھاری بامیان کےبودھا مجسموں کے بارے میں یہ لکھتے ہیں کہ چونکہ ان کی شکل مغلوں جیسی تھی اس لیے ہزارہ دشمن قوتوں نے ان کا چہرہ تراش دیا جوحقائق پر مبنی نہیں۔

بامیان کابل کے شمال مغرب میں 140 کلومٹرکے فاصلے پر ایک تنگ مگر سرسبز و شاداب وادی ہے جس کی لمبائی دس کلومیٹرجبکہ چوڑائی تین تا پانچ کلومیٹرہے۔ یہ اب ہزارہ نشین صوبہ بامیان کے دارلحکومت کے ساتھ ساتھ پورے ہزارستان (ہزارہ جات) کا مرکز بھی گردانا جاتاہے۔ ماضی بعید کے دوران، کوشان دور سلطنت میں جب یہ پورا خطہ امن کا گہوارہ تھا شاہراہ ریشم کے ذریعے چین اور ہند کا باقی دنیا سے تجارتی رابطے کا ایک اہم ذریعہ یہی بامیان تھا۔ چنانچہ تجارتی اشیاء سے لدے بڑے بڑے کاروان شب و روز یہاں سے آتے جاتے رہتے تھے۔ تاہم دوسری صدی عیسوی کے دوران سلسلہ کوشان کے سب سے مقتدرحکمران کنیشکا نے بدھ مت اختیار کی اور گوتم بدھ کے عظیم مجسموں اور دیگر بدھ خانقاہوں کی تعمیر کا کام شروع ہواجس کے بعد بامیان کی رونقیں مزید بڑھ گئیں۔
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق پہلا مجسمہ جو 35 میٹر اونچاہے اور جسے مقامی ہزارہ شاہ مامہ کے نام سے یاد کرتے ہیں، کی تعمیر کا آغاز دوسری صدی عیسوی یعنی کنیشکا کے دور میں ہوا اورتکمیل تیسری صدی کے دوران ہوئی۔ جبکہ سب سے بڑے مجسمے صلصال کی تعمیر چوتھی اورپانچویں صدی کے دوران ہوئی۔ یہ مجسمہ 53 میٹر اونچا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ شاہ مامہ مجسمہ کے باہمی اعضاء میں تناسب صحیح نہیں تھا یعنی تن کے مقابلے میں نچلا دھڑچھوٹا تھا (تصویر ملاحظہ ہو)۔ غالباً اسی نقص کے پیش نظر منتظمین نے دوسرا مجسمہ یعنی صلصال بنانے کا فیصلہ کیا ہوگا جوہر لحاظ سے فنِ سنگتراشی کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ ان دو بڑے مجسموں کے علاوہ ان کے درمیان دو چھوٹے مزیدمجسمے تراشے گئے تھے جو د میٹر اونچےتھے۔ ان کے اب صرف دھندلے آثار نظر آتے ہیں ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ شاہ مامہ بھی مہاتما بدھ کا ہی مجسمہ تھا۔ ان میں کوئی بھی عورت کا مجسمہ نہیں جیسا کہ عام لوگ خیال کرتے ہیں۔

بودھا کے چہرے

اب ایک اورنادرست تصورکا ازالہ کرنا بھی ضروری ہے۔ عام طورپر خیال کیا جاتا ہے کہ مسلمان فاتحین یا بعض ہزارہ لکھاریوں کے خیال میں متعصب پشتون حکمرانوں نے ان مجسموں کے چہرے ہزارہ شکل و صورت سے مماثل ہونے کی وجہ سے تراشے ہوں گے جو کہ صحیح نہیں۔ مجھے کئی آرکیالوجیکل مشنز کی رپورٹس دیکھنے کا موقع ملا ہے جن کے مطابق ان مجسموں کے چہرے تعمیر کے دوران ہی نچلے ہونٹ تک ہموار رکھے گئے تھے اور اوپر کے حصے کولکڑی کے فریم کی مد دسے مکمل کیا گیا تھا۔ جبکہ ان چہروں کو مختلف ہیرے جواہرات سے بھی سجایا گیا تھا۔ یاد رہے کہ اس چوبی فریم کے ٹکڑے مختلف کھدایوں کے دوران ماہرین کو ملے ہیں ۔ (1)
قارئین کی معلومات کے لیے ان میں سے ایک رپورٹ کا مطلوبہ صفحہ مضمون ہذا کے آخر میں منسلک کیا جاتا ہے جویونیسکواور اٹلی کی ایک یونیورسٹی کے اشتراک سے چھپی ہے۔ نیزان کی تشفی کی غرض سے دونوں مجسموں کی ایک مشترکہ تصویربھی دی گئی ہے جس سے اس نظریہ کی حقانیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ زبردستی کی توڑ پھوڑ کے دوران دونوں مجسموں کےچہروں کی اس طرح کی یکساں ہموار سطح کا ہونا غیرممکن ہے۔

فرنچ آرکیالوجیکل مِشن (1922-1924)، ان عظیم الجثہ مجسموں کے بارے میں لکھتا ہے کہ ” یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ چند مہینوں، سالوں یا ایک صدی کے دوران نہیں بلکہ صدیوں تک ہزاروں ماہر سنگ تراشوں نے شب و روز پہاڑکوکاٹ کر بنائے ہیں جوفن سنگتراشی کے اعلیٰ نمونے ہیں ۔ (2)
ان مجسموں کے آس پاس بدھ بھکشوؤں کیلئےسینکڑوں غاریں بھی کھودی گئی ہیں جن میں سے کئی ایک نہایت کشادہ اوربدھ تعلیمات کی خوبصورت تصویروں سے آراستہ تھیں جن کی باقیات اب بھی بعض غاروں میں موجودہیں، خاص طورپر دونوں بڑے مجسموں سے متصل تراشیدہ گنبدنما کشادہ کمروں کی دیواروں اور چھتوں پر رنگین نقش نگاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں جو صدیاں گذزرنے اورتمام تر تباہی وبربادی کا سامنا کرنے کے باوجود اب تک آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں۔ان میں یقیناً بڑے بھکشو رہتے ہوں گے۔ اسی طرح کے نقش و نگار بڑے مجسموں کی چھتوں اور دیواروں پربھی موجود ہیں۔ مشہور چینی زایر ہیوتُسا نگ، جو 630ء میں بامیان آیا تھا، نے ایک خوابیدہ بدھ مجسمہِ کا بھی ذکرکیا ہے جس کی لمبائی 1000 میٹرہے اس کے آثار کی نشاندہی افغان نژاد فرانسیسی ماہرآثار قدیمہ ڈاکٹرطرزی نے کئی سال کی کھدائی کے بعد 2008ء میں کی تھی لیکن فنڈز اور دیگرسہولیات کی عدم دستیابی کے باعث اب یہ پروجیکٹ تعطل کا شکارہے۔
اپنے عروج کے زمانے میں چونکہ بامیان کا شمار بدھ مذہب کے ایک اہم اور متبرک مراکز میں ہوتا تھا اس لیے دور درازکے علاقوں سے نہ صرف ہزاروں زائرین یہاں آتےرہتے تھے بلکہ اہم ترین شاہراہ ریشم کے سنگم پر واقع ہونے کی بنا پر یہاں سے بڑے بڑے تجارتی قافلے بھی گذرتے رہتے تھے۔ لہٰذا ان کی رہائش کیلئے نزدیکی درہ فولادی و ککرک میں ہزاروں غاریں کھودی گئی تھیں۔فرنچ آرکیالوجیکل مِشن ان کی تعداد بارہ ہزار بتاتا ہے۔ (3)
اس دور میں بامیان کی شان وشوکت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب چینی زائر ہیوتُسا نگ یہاں آیا تھا تواُس وقت سفید ہونز کی طوفانی بلا سے پورا خطہ ابھی تک سنبھل نہیں پایا تھا۔ ساتھ ہی ہندومذہب کی تحریکِ نشاۃ ثانی کی وجہ سے بدھ مت پرنقاہت کے آثار نمایاں تھے جس کا ذکر موصوف افسوس سے کرتا ہے۔ لیکن زوال کے اس دور میں بھی وہ بامیان کا ذکر یوں کرتا ہے۔ “مہاتما بدھ کے مجسموں کے ظاہری حصے یعنی چہرے ، ہاتھ، پاؤں سب طلا پوش ہیں اور ان سے متصل دیواروں پرزرین باف ریشمی پردے آویزاں ہیں۔ دن کے وقت ان پرنظریں جمانا مشکل ہے” جبکہ وہ شبِ بامیان کی منظرکشی اس طرح کرتا ہے۔ “مہاتما بدھ کے مجسموں اور انکے اردگرد کے غاروں میں فروزاں ہزاروں چراغ ومشعل اور وقفوں سے عظیم ناقوس کی پُرہیبت آوازیں انسان پرایک عجیب کیفیت طاری کرتی ہیں”۔(4)
چینی زایر کے مطابق اس وقت وادی میں سو بدھ خانقاہیں تھیں جن میں چھ ہزار بدھ بھگشو رہتے تھے۔(5)


بہرحال خراسان کے بعض حصے خلفیہ ثانی کے دورمیں فتح ہوئے لیکن بامیان کی خودمختاری نویں صدی کی چھٹی دہائی تک برقرار رہی۔ 870ء میں یعقوب بن لیث غفاری نے یہاں سے بدھ مت کا خاتمہ کردیا اور ساتھ ہی ان مجسموں کے ساتھ دیگربدھ مت آثار کو بھی جس حد تک ممکن تھا نقصان پہنچایا ۔(6)
تیرھویں صدی کے دوران(1221ء) مغل فاتح چنگیزخان بامیان آیا اور چونکہ اسکا چہیتا نواسہ موتوکُن بن چغتائی یہاں مارا گیا تھا اس لیے خان اعظم کے حکم سے بامیان شہرکواس طرح انتقام کا نشانہ بنایا گیا کہ صدیاں گذرنے کے بعد اب تک وہ شہر آباد نہیں ہوسکا ہے اور آج بھی “شہرغُلغُلہ” یعنی “فریاد کناں شہر”کے نام سے ملبے کا ڈھیر ہے۔ لیکن چونکہ چنگیز خان مذہبی لحاظ سے سیکولر تھا اس لیے اس نے بدھ مت آثارکوکوئی گزند نہیں پہنچایا۔
جدید تاریخ میں ایرانی حکمران نادرشاہ افشار(1736-1747ء) اور امیرکابل دوست محمدخان (1836-1863ء) نے بامیان کےمجسموں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ معروف مورخ غلام محمد غبار کے مطابق انہوں نےاس مقصد کے لیے باقاعدہ توپیں استعمال کیں ۔(7)
اگرچہ امیرعبدالرحمان کا دور (1880-1901ء) ہزارہ تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے جس کے دوران انکی 62٪ آبادی ختم کردی گئی اور تمام زرخیززمینیں، افغان قبائل میں تقسیم کردی گئیں، لیکن بامیان آثار کو نقصان پہنچانے کی بابت کوئی معتبردستاویزمیری نظرسے نہیں گذری ہے۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ایک طویل عرصہ، بے توجہی کے شکار ان مجسموں اوردیگرآثار کی طرف پہلی توجہ، اسی ظالم عبدالرحمان کے نواسہِ امیرامان اللہ خان کے دور (1919-1929ء) میں دی گئی۔ سب سے پہلے ان آثار کو قومی ورثہ قرار دے کر بڑے مجسموں اور دیگرغاروں سے عام لوگوں کو بے دخل کردیا گیا۔ یاد رہے کہ ان میں سے کچھ غاریں بطوررہائش جبکہ کچھ غلہ گودام کے طور پر زیراستعمال تھیں۔ 1922 اور 1924 کے دوران فرنچ آرکیالوجیکل مشن نے افغانستانی ماہرین آثار قدیمہ کے ساتھ ملکرسروے اور ابتدائی بحالی کے کام کروائے اورباقاعدہ رپورٹ مرتب کی۔ ظاہرشاہ کے 40 سالہ طویل دورمیں ان آثار کی بحالی کی طرف خاص توجہ نہیں دی گئی البتہ ایک سیاحتی مقام کی حد تک بامیان کوپروموٹ ضرورکیا گیا۔ داؤد خان کے دور میں البتہ بحالی کی طرف بھی توجہ دی گئی لیکن ان دونوں میں یہ بات مشترک تھی کہ انہوں نے ہزارہ دشمنی میں اسے عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل کرنے کی طرف قطعاً توجہ نہ دی، جس کے یہ عظیم الشان آثار حقدار تھے۔ روس نواز حکومتوں کے دور میں افغانستان سول نافرمانی کی زد میں آیا اور یہ آثار ایک بار پھرعدم توجہی کا شکار رہے۔
اگست 1988 میں کابل مخالف ہزارہ مجاہدین نے بامیان پر قبضہ کرلیا اور اگلے سال جولائی 1989 میں بابہ عدالعلی مزاری کی قیادت میں حزب وحدت کی تشکیل ہوئی جو ہزارہ تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ابتدائی چند سالوں میں انکی تمام تر توجہ سیاسی اور عسکری امور پر رہی۔ ان کے پاس دیگر امورکی طرف توجہ دینے کا وقت کم ہی تھا۔لیکن بابہ مزاری کی شہادت کے بعد جناب کریم خلیلی نے جب بامیان کو اپنا مرکز بنایا تو موصوف نے ان آثار کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے 1995 میں ان سے متصل قدیم بازار کو چند کلومیٹر دور مشرق کی طرف منتقل کردیا جو بلاشبہ امان اللہ خان کے اقدامات کے بعد سب سےاہم قدم گردانا جاتا ہے۔ ستمبر 1996تک، پاکستانی حمایت یافتہ شدت پسند وہابی ٹولہ، تحریک طالبان نے کابل سمیت افغانستان کے اسی فیصد حصے پرقبضہ کرتے ہوئے ایک نئی صورتحال پیدا کردی۔ ابتدا میں اس تحریک کے نام نہاد امیرالمومنین، ملا عمرآخوند نے جولائی 1999 میں بامیان کے بودھا مجسموں کی حفاظت کو امارات اسلامی کی ذمہ داری قراردیا کیونکہ بقول ان کے اب یہاں کوئی انکی عبادت نہیں کرتا۔ نیزیہ کہ ان سے ملک کو کافی زرمبادلہ کی آمدنی بھی ہوتی ہے۔ (8)۔ لیکن 26 فروری 2001 کو موصوف نے اچانک “بتوں” کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے ان کو تباہ کرنے کا فتویٰ جاری کردیا، جس نے دنیا بھر میں انسانی تہذیب وثقافت سے محبت کرنے والوں میں تشویش کی ایک لہردوڑا دی۔ اقوام متحدہ نے 54 اسلامی ممالک کی تنظیم، اسلام کانفرنس کے توسط اور مہذب دنیا کے دیگر ممالک نے براہ راست ملا عمرسے ایسا نہ کرنے کی اپیل کی لیکن یہ سب “کوہ جنبد نہ جنبد، ملاعمر نہ جنبد” ثابت ہوئیں۔ یوں 10 اور 12مارچ 2001 کے دوران، وہابی مکتبہ فکرکے انتہاپسندوں نے انسانی تہذیب کے ان شاندارنشانیوں کو ہزاروں من بارود کے ذریعے تباہ کردیا۔ افغانستان کےعوام اب ہر سال 11 مارچ کو اس دلخراش واقعہ کی یاد مناتے ہیں وہ اپنی حکومت،مقتدر ممالک وتنظیموں اور اقوام متحدہ سے اسکی دوبارہ تعمیر اور ساتھ ہی ساتھ تہذیب کُش عناصرکو کیفرکِردار تک پہنچانے کا مطالبہ بھی کرتے رہتے ہیں جو کہ بدقسمتی سے اب تک صدا بہ صحرا ثابت ہوئے ہیں ۔


سانحہ 11/9 کے بعد امریکہ نے 7 اکتوبر سے القاعدہ-طالبان اتحاد کے خلاف کاروائیاں شروع کردیں تو “غیبی امداد” کی پشت پناہی کے یہ دعویدار ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور دسمبرکے پہلے ہفتہ تک امیرالمومنین ساتھیوں سمیت اپنا مرکز قندھار چھوڑکر پاکستان کی راہ لینے پر مجبور ہوئے۔ 22 دسمبر کو حامدکرزئی نے بون معاہدہ کے مطابق کابل میں نئے عبوری صدرکی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ موصوف نےاپنےعبوری اور بعد ازآں پہلے باقاعدہ ادوار حکومت میں بامیان کےمجسموں کی دوبارہ تعمیرکے وعدے کئے لیکن عملی طور کچھ نہیں کیاجس کی اہم وجہ ان آثارکا ہزارہ قوم سےتعلق ہوناہی ہے۔ اس دوران یونیسکو کی طرف سے بھی کوئی خاص سرگرمی دیکھنے کونہیں ملی۔ تاہم 2003ء میں بامیان کے باقی ماندہ آثار کو عالمی ثقافتی ورثہ کی حیثیت دی گئی۔ اس سلسلے میں چین، جاپان، اٹلی، فرانس اور جرمن ماہرین کی طرف سے کافی مثبت سرگرمیاں نظر آئیں۔ بطورخاص جرمن ماہرین آثار قدیمہ نے توایک مکمل قابل عمل منصوبہ بھی بنایا ہے جس کے تحت دونوں مجسموں کی باقیات سے کم ازکم ایک مجسمہ کی دوبار تعمیرممکن ہے ۔(9)
اب صورتحال یہ ہے کہ:
1۔ کم ازکم بامیان کے ایک مجسمہ کی دوبارہ تعمیر میں کوئی قانونی، اخلاقی اور فنی رکاوٹ نہیں۔
2۔ فنڈز کی دستیابی کا مسئلہ بھی درپیش نہیں۔
3۔ ہزارہ قوم کی بھی دلی تمنا یہی ہے اور وہ بھی اس ضمن میں ہر قسم کے تعاون کے لیے بھی آمادہ ہیں۔
تو اب رکاوٹ کہاں ہے؟
اصل رکاوٹ افغان گورنمنٹ میں وہ طاقتورلابی ہے جوہزارہ نشین علاقے میں کسی بڑے پروجیکٹ کو برداشت کرنے پر اب تک آمادہ نہیں۔ چاہے وہ ترقیاتی ہو، تعلیمی ہو،ثقافتی ہو یا کوئی اور شعبہ۔ اسکا ثبوت گذشتہ 14 سال کی تاریخ ہے جس کے دوران اربوں ڈالرز کی بیرونی امداد میں سے ایک بھی قابل ذکرپروجیکٹ ہزارہ جات یا دیگرہزارہ نشین علاقوں کے لیے مختص کا نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ مرنجان مرنج ہزارہ نائب صدر دوم، کریم خلیلی کو کہنا پڑا کہ “خود دارالحکومت کابل کے جو علاقے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں سمجھ لینا وہ ہزارہ نشین ہیں” ۔(10) ، جس کی تائید اب سبھی داخلی و خارجی اخبارات و جراید و دیگر اہل قلم حضرات کرتے ہیں ۔(11)
تاریخی اور آرکیالوجیکل نقطہ نظرسے دیکھا جائے توپوری بامیان وادی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ہیوتُسانگ کے مطابق یہاں ایک ہزار میٹرلمباعظیم الجثہ خوابیدہ بدھا کےمجسمہ کے علاوہ، 100 خانقاہیں بھی تھیں۔ لازمی امر ہے کہ ان خانقاہوں میں بدھا کے مجسموں کے ساتھ ساتھ کتابیں ودیگر بے شمار دستاویزات بھی ہوں گی جن میں سے ایک بڑی مقدار دست بردِ زمانہ سے محفوظ رہی ہوگی۔ لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہزارہ اہل دانش اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے بین القوامی تنظیموں کے ساتھ پوری وادی کو ثقافتی ورثہ ڈیکلیرکرنے کے مِشن پرکام کریں۔

REFERENCES:
1 The Kingdom of Bamyan, p-205, Naples Rome 1989.
2. French Archaelogical Report (Persian) p-19-20, Iran 1993.
3. Ibid, p-16.
4. Ibid, p-26-27.
5. Bamyan Buddhas, p-9,D.H.Ahir, New Dehli 2001.
6. Ibid.
7. Afghanistan dar Masir-e-Tarikh, p-212, Mir Ghubar, , Iran 1980.
8. http://www.theguardian.com/books/2001/mar/03/books.guardianreview2
9. http://www.bbc.com/news/magazine-18991066
10. Monthly Ahd-e-Jadid (New Era) Vol:No.I,p-35, May 2002 – Kabul.
11. http://www.hazarapeople.com/fa/?p=6779

Advertisements
julia rana solicitors

مضمون نگار تاریخ کے طالب علم رہے ہیں اور نیو یارک امریکہ میں مقیم ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply