بلال رشید کی شاعری کی عارفانہ جہتیں۔۔۔۔ابو سہل شعیب

بلال رشید کی عارفانہ شاعری کے تین بنیادی زاویے ہیں:
الف۔خالق ارض وسما کی حمد
ب۔رسالت مآ ب ؐ کی نعت
ج۔اہل بیت کی منقبت
اپنے شاعرانہ مزاج میں بلال رشید مجسم محبت اور سراپا اخلاص تخلیق کار ہیں جو جذباتی وابستگی و وارفتگی سے شعرکہتے رہے اور ان کے عشق پرور قلم سے جو لفظ قرطاس پر منتقل ہوتے رہے ، ان کی والہانہ عاشقانہ مٹھاس بھری تاثیر سے قاری نہ صرف ان کی قوت سخن کا گرویدہ ہوتا ہے بلکہ شاعر کے محبت بھرے اسلوب سے سرشار ہو اٹھتا ہے ۔فیس بک اور سوشل میڈیا کی برکات میں سے ایک بلال رشید جیسے عمدہ ونفیس تخلیق کار سے تعارف اور ان کے کلام سے رابطہ بھی شامل ہے۔ان کی زود گوئی اور تخلیقی قوت کا اعتراف عارف امام ، صفدر ہمدانی، وصی الحسن نقاش ، حسنین اکبر اور ارشد منیر نقشبندی جیسے اہم شاعروں،اور صاحبان دانش نے کیا ہے۔بلال رشید سے باضابطہ  تعارف  ان کی کتاب “مرج البحرین” کے وسیلے سے ہوتا ہے۔جہاں ان کے کلام کے عارفانہ رنگ آب وتاب سے نمایاں ہیں۔۔۔۔۔گذشتہ د و تین ماہ سے پیارے حمد نویس و نعت گو اور منقبت نگار شاعر ”بلال رشید“ کی کتاب ”مرج البحرین“ پر لکھنے کا ارادہ کرتا رہا جو انہوں نے اس فقیر کو بھجوائی تھی۔مگر تاخیر ہوتی گئی ۔22 حنوری 2019 کو حب مضمون مکمل کر کے اسے بلال رشید کے ایڈریس پر بھیجا تو بعد میں ان کی وال سے پتہ چلا کہ ہم سب کے پیارے ”بلال رشید“ طویل عرصہ بیمار رہنے کے بعد 30 دسمبر 2018 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بلال رشید کی “حمد” کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ذات باری تعالی کی حمد وثنا خالص توحید اور عبادت کے درجہ اخلاص کے بغیر ممکن نہیں۔اور یہ درجہ ہر “ماسوا” سے دل کو پاک کرنے کا ہے۔یہ وہ مقام ہے جب کسی انسان سے محبت بھی اسی ذات کی خوشنودی کے لیے ہوتی ہے اور کسی سے عقیدت بھی اسی ذات احد کی رضا کے لیے ہوتی ہے۔بلال رشید کے یہاں ” یزیدیت” دراصل شرک اور مقاصد نظام نبوت سے بغاوت ہے جب کہ ” حسینیت” خالص توحید اور مقاصد نبوت کی تکمیل کا استعارہ ہے۔
بلال رشید کے ہاں عبادت اور اطاعت الگ الگ جز و کی بجائے نظام توحید کے کل سے عبارت ہیں جس کا سر چشمہ عقل اور تدبر ہے۔وہ تدبرو تفکر کو ذات شناسی سے حق شناسی تک کے سفر کا اہم وسیلہ گروانتے ہیں۔ان کو اشعار میں تخلیق کائنات کے پس پردہ کا رفرما علوم اسرار کے کئی بلیغ اشارے ملتے ہیں۔وہ تخلیق کائنات کو اور پھر نظم کائنات کو معرفت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
یہ رنگیں کہکشائیں ، چاند تارے سبھی
کر رہے ہیں بیاں قدرت لم یزل
ذکر جس کا ازل سے ابد تک رہے
اک ایسا بیاں قدرت لم یزل
یہ جنگلات اوران میں پھیلے درخت
سب ہیں ترے نشاں قدرت لم یزل
رات، دن، اور موسم کی تبدیلیاں
تیرے فن کا بیاں قدرت لم یزل
بزم ہستی سے نظم کو نین تک خلاق کون و مکاں کی قدرت کے جلوے “حمد” کا وسیع سلسلہ ہیں اور یہ بھی حقیقت بلال رشید بخوبی جانتے اور بیان کرتے ہیں کہ زبان وبیاں مالک کی ثنا کا حق ادا کرنے سے عاجز ہیں۔جس کے مظاہر چار طرف ہرسو روشن ہیں،اس ذات حق کی تعریف کو چند لفظوں میں سمجھنا یقینی طور پر انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ حمد وثنا ذات باری تعالیٰ کے خاص کرم، نصرت و تائید کے بغیر نہیں ہو سکتی۔
وہ تیرگی کو اجالا خیال کرتے ہیں
ترے سوا جو کسی سے سوال کرتے ہیں
ہے ذکر مشرق و مغرب میں تیرا ہی جاری
تری ہی حمد جنوب و شمال کرتے ہیں
جو صرف کرتے ہیں حمد و ثنا پہ اپنا سخن
سخن وری میں وہ شاعر کمال کرتے ہیں
روائے لطف و کرم ہم پہ تان دیتا ہے
بیان تجھ سے جو ہم اپنا حال کرتے ہیں
اسی کے لطف و کرم کا یہ سلسلہ ہے بلال
جو حمد کہنے کی ہم بھی مجال کرتے ہیں
“نعت گوئی” بلال رشید کی تخلیقی شخصیت کا دوسرا بڑا حوالہ ہے۔ایک سچے مسلمان کی طرح ذات و صفات پیمبر ؐ سے والہانہ لگاؤ ،وابستگی اور جڑت بلال رشید کے ہاں ملتی ہے۔حضور آقائے دو جہاںؐ کی ثنا خوانی کی خواہش ہر عاشق رسولؐ شاعر کے یہاں ملتی ہے اور جناب ابوطالب اور حضرت حسان بن ثابت سے لے کر اب تک نعت کی زرخیز شعری روایت موجود ہے۔ بلال رشید نعت کو ہی اپنا تخلیقی وصف بتاتے ہیں کہ:
مرے عزیز تو غزلیں ہمیشہ کہتے رہے
مرے قلم سے رقم مصطفیؐ کی نعت ہوئی
ہمیشہ نعت ومناقب میں پیش کرتا رہا
مری تو صرف اسی کام میں حیات ہوئی
بلال رشید کی نعت پڑھتے ہوئے لفظی شعبدہ گری اور صنائع بدائع سے عبارت کمالات کی بجاۓ سادگی اور خلوص متاثر کرتے ہیں۔وہ سیدھےسا دھے مستقیم انداز میں دل کی بات پورے ایقان کے ساتھ رقم کرتے ہیں تو نعت بن جاتی ہے ۔ان کی زمینیں ،قوافی ،ردیفیں اس بات کی شاہد ہیں کہ ان کے ہاں تصنع اور بناوٹ کی بجائے صرف تخلیقی وفور ہے۔بلال رشید جانتے ہیں کہ شرف نعت اگر نصیب ہو جائے تو یہ شاعر کے احترام اور عزت کا موجب ہے کیونکہ جناب رسالت مآب ؐ کو تو ہماری مدح ورائی کی احتیاج نہیں بلکہ یہ ایک امتی ان سے نسبت اور تعلق کی استواری کا بیانیہ ہے۔
سخن وری کو شہ ویںؐ کے نام کرتا ہوں
سوا اپنے آپ کو ذی احترام کرتا ہوں
ہوائیں مجھ سے پیمبرؐ کی تعت سنتی ہیں
میں جب بھی شہر نبی میں قیام کرتا ہوں
کہاں ثنائے پیمبرؐ کہاں مرے الفاظ
کہاں پہ ساقی کوثر کہاں مرے الفاظ
بتول آپ کے بابا کی نعت کیسے لکھوں
کہاں وہ طیب واطہر کہاں مرے الفاظ
بلال رشید کی نعت گوئی آقائے دو جہاں ؐ سے محبت اور وابستگی کا اظہاریہ ہے جس میں عشق و محبت کے بلند آہنگ نعروں اور اعلانات کی بجائے وہ عجز ، تواقع ، انکساری اور تعظیم کے صیغوں میں تخاطب کرتے ہیں اور عشق کو محض زبان و حلق کا وظیفہ بنانے کی بجائے ایک قلبی و ذہنی تجربہ کی حیثیت دیے ہیں بلال رشید کی نعت اپنی الگ پہچا ن بنا نے کی صلا حیت رکھتی ہے۔
بلا ل رشید کی ایک اہم تخلیقی جہت یہ ہے کہ انہو ں نے اہل بیت کر امؑ کی مدح میں بہت سے منا قب لکھے ہیں اور نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے ۔جنا ب امیر المو مینین حضرت علی ؑ سے محبت ان کا خا صہ ہے ۔اگر چہ بلا ل رشید بنیا دی طو ر پر سنی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک مذہبی و علمی گھر انے سے تعلق ہے وہ ” مر ج البحر ین” میں لکھتے ہیں:
” میر ا تعلق ایک مذہبی اور تصو ف سے و ا بستہ خا ند ان سے ہے۔میر ے والد کے نانا مو لا ناعبد الرحمن ٰمظفر آبا د کی مر کز ی جا مع مسجد کے ایک مدت تک ڈسٹر کٹ خطیب رہے۔ان کے بر ادر قا ری عبدا لا حد سے پو رے شہر نے قرآن کی تعلیم حا صل کی۔ہم حنفی اھل سنت ہیں لیکن ہر سا ل یو م عا شو ر کے جلو س سے قبل میر ے والد صا حب آقا حسینؑ کی با ر گا ہ میں جلو س سے قبل سلا م پر ھتے تھے،پھر (ان کے بعد)شعیہ خطیب صا حب اپنی تقر یر شر وع کر تے ۔”
(ص 13 )
حضرت علی ؑ کی شا ن میں منا قب جو “مر ج البحر ین ” میں شا مل ہیں،ان کی تعدا د چالیس ہے،حضرت سیدہ فاطمہ کی مدحت میں مناقب کی تعداد چوبیس اور جنا ب حسنین ؑ شر یفین کے منا قب با ئیس اور متفرق منا قب چو الیس ہیں۔یہ تعداد مر ج البحر ین میں شا مل منا قب کی ہے۔اس سے اندا زہ ہو تا ہے کہ بلا ل رشید بلا شبہ اردو شا عری میں منقبت نگا ر ہو نے کی انفر ادی شا ن رکھتے ہیں اور انہو ں نے حضرت خد یجہ ،حضرت جعفر طیا ر،حضر ت ابو طا لب،حضر ت وبا س ،حضرت ام مسلمہ ،حضرت امیر حمزہ،حضرت زین العا بدین اور دیگر شخصیا ت جن کا تعلق خا ندان خا تم النبین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہے ،کے بے پنا ہ مناقب لکھے ، بلا ل رشید کی منقبت نگا ری میں فنی و شعر ی کما لا ت اپنے عروج پر دکھا ئی دیت ہیں ۔وہ محبت اور عقیدت سے اسلامی تا ریخ کی ان بر گز یدہ شخصیا ت کو اپنے شعری تجربہ  میں ڈھا لتے ہیں دنیا وی ما لی منفعت اور افا دے کی خا طر محا فل میں پڑ ھے ،سنا ئے جا نے والے منظو ما ت ( منا قب و مر اثی )سے ہٹ کر راہ اپنا تے ہیں اور تخلیقی عمل کو عشق کی آنچ سے سنجیدہ فکری  زاویہ عطا کرتے ہیں۔وصی الحسن نقا ش نے اپنی رائے (شمولہ  مر ج البحر ین )میں اسے خا لق ارض و سما کی خا ص عطا شما ر کیا ہے کہ “۔۔۔۔۔ان کے رزق سخن کے دروازوں کو وا کر دیا ہے ورنہ کہا ں ممکن ہے کہ ایک شا عر کے پا س ایک ہزار سے زا ئد مناقب  کا ذخیر ہ ہو اور اس میں روز بر وز اضا فہ ہو رہا ہو۔”
کچھ منا قب سے یہ شعر ملا حظہ ہو ں:
ہر حو الے سے علی ہیں بعد آقا منفر د
ان کے بیٹے منفر د ہیں ،ان کی زوجہ منفرد
وہ علی ؑ یکتا لگے کیوں کر نہ پھر دارین میں
جس کا ہو انسا نیت میں سب سے شجرہ منفر د
——————
نا ز کر تی ہے عبا دت سید سجا دؑ پر
ختم ہے صبرو اطا عت سید سجا د پر
یہ کہا با قر نے صا دق سے مر ے نو ر نظر
سر بہ سر ہے تیر ی صو رت سید سجا د پر
—————
ام لیلیٰ کے مصا ئب کیسے ہو ں مجھ سے بیا ں
بعد تیر ے جو علی اکبر ؑسدا روتی رہی
شا م کے با زار کی اتنی سی بس تا ریخ ہے
اشقیا ہنستے رہے ، آل عبا روتی رہی
مدحتوں سے معطر شعر بلال رشید کی شعری کا ئنات ترتیب دیتے ہیں۔ان کے ہاں شعر محبت و عقیدت کی تصویر بن کر عشق کے روحانی کینوس پر جگمگاتے ہیں اور لا ریب یہ عطاۓ ربانی ہے ۔
ــــــــــــــ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply