کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار۔۔۔عثمان افسر

لفظ جنت کے ساتھ ہی ذہن میں  جو نقشہ ابھرتا ہے وہ  امن و سکون ،لا محدود نعمتوں کا سلسلہ، ہر خواہش کا ذہن میں کوندھنے سے پہلے آنکھوں کے سامنے ہونا، ہر طرح کے برائی ، جبر و استحصال ،حاکم و محکوم کے تصور سے نا آشنا سماج ،حیاتِ جاوداں لیے ان گنت رعنائیاں تصور میں گھومنے لگتی ہیں۔ ایسی ہی ایک بہشت ارضی بھی تھی جس کا مقابل شائید ڈھونڈنا بہت مشکل تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس جنت میں ایک لاوا اُبل پڑا جس کی حدت نے کئی انسانی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ،دھوپ کی شدت میں سایہ دینے والے چنار سُلگ اُٹھے ،دودھ و شہد کی نہروں کے بجائے یہاں خونِ انسان کی نہریں بہنے لگیں، زاعفرانی مہک سے بھری فضا میں لہو اور بارود کی بُو بس گئی دل کو لبھانے والی ہواؤں کی جگہ بپھری ہوئی آندھیوں نے لے لی ،اپنی ہر اِک لہر میں محبت کے سُر بسائے ڈل ماتمی نوحے سنانے لگی ۔بہار میں شادابی اور سرد راتوں میں برف کی سفید چادر اُوڑھے ہوئے ہر لمحہ فلک کا منہ چڑاتے دلنشین پہاڑ خوف کی علامت بن گئے کیونکہ ان پہاڑوں کے بیچوں بیچ موجود سبزہ زاروں کے سبزے کی آبیاری خون سے ہونا شروع ہو گئی تھی، جو موجودہ لمحے تک جاری ہے ۔

جنت سے جنم زار کا سفر 22 اکتوبر 1947 کے خون آشام دن سے شروع ہوا جس نے کشن گنگا کے نیلے پانی کو انسانی خون سے سرخ کردیا جنتِ ارضی دولخت ہوئی صرف زمین کی تقسیم نہیں ہوئی بلکہ انسانیت تقسیم ہوئی، بھائی چارے ،امن و سکون اور محبت بھرے معاشرے کی جگہ یکا یک مذہبی رنگ و  انجانا پن غالب آگیا تھا ،باوجود اس کے ان دردناک لمحات میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے جنہوں نے مذہبی تفریق کیے بنا اپنے دیش واسیوں کو بچاتے ہوئے اپنی جانیں وار دیں۔ ایک دردناک کہانی ہے جس کا انت مستقبل قریب میں بھی  بہت مشکل نظر آتاہے خیر کہانی جاری ہے ۔جموں کشمیر کی جبری تقسیم کے بعد سے اب تک خاص کر وادی کے اندر تشدد ایک لہر نکل پڑی ملی ٹینسی کی شروعات کے بعد جب اس تحریک پر جہادی عناصر کا سایہ پڑا پھر تو جیسے ایک الاؤ دہک اُٹھا جس کا دھواں حقیقی آزادی کی راہ میں ابھی بھی حائل ہے  جس کے نتائج انتہائی گمراہ کن برآمد ہورہے ہیں۔

سن 2016 میں پرتشدد کاروائیوں میں ایک بار پھر تیزی آئی، سُلگتی چنگاری پھر سے بھڑک اُٹھی ۔ بھارتی فورسز کو بھی کُھل کر کھیلنے کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آیا ،جس کا استعمال خوب کیا گیا ،سینکڑوں لوگ بڑی بے دردی سے بینائی سے محروم کیے گئے، جس میں خواتین سمیت بچے بوڑھے سبھی شامل رہے ۔وادی کا نوجوان پھر سے بندوق اُٹھانے پر مجبور ہوا یا کردیا گیا ،منان وانی جیسے پی ایچ ڈی اسکالرز بھی قلم کو چھوڑ کر بندوق اُٹھا کر مارے گئے ۔گزشتہ ماہ پلوامہ حملے کے بعد یہ پورا خطہ ایک دفعہ پھر خوفناک جنگ کے دہانے پر کھڑا نظر آیا بلکہ ابھی بھی ہے جس کے  ممکنہ چانس انڈیا کے لوک سبھا کے الیکشن تک ہیں۔ جہاں یہ جنگ کی صورتِ حال پیدا ہوئی وہاں بہت سے سوالات نے بھی جنم لیا ،آخر وادی کا نوجوان بندوق کیوں اُٹھا رہا ہے خاص کر پڑھا لکھا نوجوان جو کہ حالات کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ خود کیوں بدل رہا ہے؟

اس سارے منظر نامے میں جموں کشمیر کی عوام اور سیاسی پارٹیاں جنگ بندی لائن کے دونوں اطراف ان کا کیا رول رہا؟ جب پوری دنیا کی توجہ کشمیر گھاٹی کی طرف مبذول تھی کیا اصل مسئلہ کی طرف کسی کی توجہ گئی؟ اور اس حملے کی ذمہ داری جیش نے ہی کیوں قبول کی؟ ایسے کئی سوالات ہیں جن کے جواب تلاش کرنے بے حد ضروری ہیں ۔ پلوامہ حملے کا فائدہ سب سے زیادہ ہندوستان کو ہوا ایک طرف جہاں وادی میں قتلِ عام کا کھُلا ٹکٹ ملا دوسری طرف یہ بھی واضح تاثر دیا گیا کہ وادی کے اندر صرف اور صرف دہشتگردی کی تحریک ہے کس کو کچلنا انتہائی ضروری ہے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ پیلٹ گن سے لوگوں کو اندھا کیا جائے یا کسی انسان کو گاڑی کے آگے باندھ کر ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کیا جائے ۔ اگر تو حملہ خود ہندوستانی سرکار کا پلان تھا تو کیا کیا نتائج حاصل کیے گئے یا کرنے کی کوشش کی گئی؟ جیسا کہ بہت سے لوگوں نے اس بات کا کھل کر اظہار بھی کیا۔۔۔

اروندھتی رائے لکھتی ہیں کہ ہم نے مہینوں پہلے کہا تھا کہ الیکشن کے قریب ایسا کوئی واقعہ  ہوگا جس کو الیکشن جیتنے کی سیڑھی کے طور پر استعمال کیا جائے گا جبکہ بعض حلقوں نے اسے انڈیا کے  حساس اداروں کی ناکامی سے تعبیر کیا اور بعض کے مطابق 350 کلوگرام بارود کا جمع کرنا اس شبہے  کو تقویت دیتا ہے کہ یہ باقاعدہ ہندوستانی حکومت کی ملی بھگت کی کارستانی ہے۔ اور جہاں تک جیش کے ذمہ داری قبول کرنے کی بات ہے کیا ممکن  نہیں کہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش تھی کیونکہ حافظ سعید اور سید صلاح الدین کو پہلے ہی عالمی دہشتگرد تسلیم کیا جا چکا ہے جبکہ مسعود اظہر کو ہر بار چین کی مدد سے بچایا جاتا رہا ،کیا مسعود اظہر کو عالمی دہشتگرد منوانے کے ساتھ ساتھ چین پر بھی دباؤ بنانے یا اس کو غلط ثابت کرنے کی کوشش تھی؟

پھر میڈیا کو خوب استعمال کیا گیا ہندوستانی الیکٹرانک میڈیا  ہو یا سوشل میڈیا ٹی وی چینلوں کے نیوز  روم میں موجود حضرات توپیں تانے جنگ کا آغاز کرچکے تھے ۔رائے عامہ کو پاکستان پر ایک اور سرجیکل اسٹرائک کی  خبر سننے کے لیے بے چین کردیا گیا جس کا ڈراپ سین چند دنوں بعد ائیراسٹرائک کی صورت میں ہوا۔ دوسرے دن پاکستان نے ابھی نندن کو چائے پلا کر بظاہر بازی پلٹ دی جو کہ مودی سرکار کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی ۔ انڈین اپوزیشن کا گرفتار پائلٹ کی واپسی کا شور اور فضائی حملے میں مارے جانے والے دہشتگردوں کے ثبوت مانگنا ہندوستانی حکومت کے  گلے کی ہڈی بن گیا جس کو یہ کہہ کرنگلنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ثبوت مانگنا ہماری افواج کی صلاحیتوں پر شک کرنے کے مترادف ہے اور شک صرف اینٹی نیشنل کرسکتے ہیں اور اب تو خیر سے رافیل طیاروں کی ڈیل کے متعلقہ دستاویزات کی چوری کی خبر بھی انڈین گورنمنٹ دے چکی ہے ۔

خیر اصل بات یہ کہ جموں کشمیر نے کیا پایا، اس دوران جنگ بندی لائن کے دونوں اطراف لاشیں  اُٹھانے ،ہجرتوں کے بوجھ تلے دبنے کے علاوہ ؟ دونوں طرف کی  سیاسی قیادت کا کردار  انتہائی عجیب رہا ،محبوبہ مفتی صاحبہ اور عمر عبداللہ  انڈین حکومت کو لتاڑتے رہے جبکہ اس طرف والے کچھ تو سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس پر جہاز گرائے جانے کا جشن مناتے رہے جبکہ وزیراعظم  فاروق حیدر صاحب تو سرے سے ہی منظر نامے سے باہر رہے، بس ایک تصویر انکی یورپ کی سیر کے بعد شہباز شریف صاحب کے ساتھ انکی رہائش گاہ پر ملاقات کی نظر آئی ۔جہاں یہ صورت حال انتہائی خطرناک تھی وہاں جموں کشمیر  کے پاس بھی بھرپور موقع تھا کہ اپنا کیس خود عالمی دنیا کی آنکھوں کے سامنے لے آئے ۔ اب جبکہ ونگ کمانڈر صاحب کے واپس جانے کی خوشی کا دھمال واہگہ پر ڈالا جا چکا ہے مگر پھر بھی جنگ بندی لائن کے دونوں اطراف انسانی جانوں ،املاک اور جانوروں کا قتلِ عام جاری ہے ۔ جو لوگ ملی ٹینسی کو بیرونی قبضے کا حل سمجھتے ہیں انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر استعمال ہوکر جموں کشمیر کے اصل مسئلے کو مزید گہرائیوں میں دفن کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہم وطنوں کا جینا حرام کررہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسوقت جتنی ضرورت قلم کی ہے شاید ہی کسی اور ہتھیار کی ہو  ،آپ کے پاس اتنا طاقتور ہتھیار ہے جس کی  دھار تخت اُلٹنے اور بازی پلٹنے میں عصرِ حاضر  کے اندر اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔ اپنی صلاحیتوں کا استعمال خود اپنے لیے  اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیجیے  نا کہ لاحاصل ثمر کےسراب میں بھٹکتے رہیے ۔ہندوستان اور پاکستان کی جنگ صرف جموں کشمیر کی سرزمین تک ہی محدود رہے گی اور سچ تو یہ ہے کہ مفادات کی بھینٹ اسی دیس کے باسیوں کو چڑھنا ہے ۔ پاکستان اور ہندوستان کی محنت کش عوام ہی وہ قوت ہے جو اپنی اپنی حکومتوں کو   جموں کشمیر کی سرزمین پر جاری جنگی مشقوں سے باز رکھ سکتی ہے پر اس کے لیے ضروری ہے اس عوام تک اپنی بات پہنچانا ۔ کھینچا تانی ،کاسہ لیسی  چھوڑ کر اپنا مقدمہ خود لڑنا محکوم و مظلوم قوم کو اس کی پیروی کے لیے تیار کرنا مسائل اور وسائل کو سمجھ کر سفر جاری رکھنا  اگر  اولین ترجیح   ہوگی تو ایک دن  ایسا ضرور آئے گا جب آزادی ہمارے دروازے پہ دستک دے رہی ہوگی ورنہ یہ کشت و خون جاری رہے گا ،چناروں کی دھرتی لہو سے سیراب ہوتی رہے گی ، جس کا انجام سوائے ہلاکت کے اور کچھ نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply