27فروری کوبھارت اسرائیل اور ایک اور ملک نے باہمی تعاون سے پاکستان پر حملے کی سازش کی جس کو پاکستان نے مکمل ناکام بناکر دشمنوں کے عزائم کوخاک میں ملا دیا۔ الحمد اللہ
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں بھارت اور اسرائیل سے مل کر کوئی بھی دشمن ملک پاکستان پر حملے کی سازش کرسکتاہے اس کا انکار ممکن نہیں لیکن حقائق کی رو سے جائزہ لیاجائے تو شک ابتدائی طور پر صرف پڑوسی ممالک کی طرف جاتاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ خطے میں پاکستان کے عدم استحکام سے سب سے زیادہ فائدہ بھی خطے کی قوتوں کو ہی ہوگا اور کوئی دورکا ملک یہ نہیں چاہیے گا کہ اس کی چوہدراہٹ ختم ہوجائے یا انڈیا اس کی جگہ نیا چوہدری بن جائے پھراسے امریکہ اور روس کی طرح مار کر کھا کراپنی قوت ضائع کرے اور حاصل کچھ بھی نہ ہو ۔
اس وقت بھارت کے اسرائیل سے مضبوط تعلقات ہیں اوراسی توسط سے فرانس بھارت کے تعلقات مضبوط ہورہے ہیں جس کی مثال رافیل طیارہ ڈیل ہے جو بھارت فرانس سے کرنے جارہاہے لیکن اس میں بھارت کے اندر ہی اختلافات موجود ہیں جو اس ڈیل میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہے ہیں ڈیل تو ویسےفرانس اور انڈیا کی ہوچکی ہے بعض مبصرین کا کہناہے کہ یہ تیسری قوت فرانس ہے جس نے رافیل ڈیل کو یقینی بنانے اوراسرائیل سے دوستی نبھانے کےلئے پاکستان مخالف اس سازش میں بھارت کا ساتھ دیا لیکن یہ بات درست اس لیئے نہیں ہوسکتی رافیل ڈیل میں رکاوٹ بھارتی اپوزیشن جماعتیں اوربعض سرمایہ کاراوربیوروکریٹس ہیں
،اسی طرح اسرائیل سے دوستی نبھانے کےلئے فرانس ساتھ دیتا تو پھرنام نہ لیکر پوری رپورٹ کو مشکوک بنانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
چائنا بھی اس سازش کا تیسرا شریک ہوسکتاہے لیکن ایسا ممکن اس لیے نہیں کہ چائنا کی بقا پاکستان کی بقاءہے اور چائنا بھارت کا حریف بھی ہے۔
اکثر قومی دانشوروں کا خیال یہ ہے کہ اس تیسرے ملک میں سعودی عرب یا ایران ہوسکتے ہیں لیکن نام ظاہر نہیں کرنے کی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ ان دونوں ممالک کا نام لینے سے ملک اندورونی طور پر خلفشار کا شکار ہوسکتا ہے،بدقسمتی سے ان دونوں ممالک کے آلہ کار اس ملک میں موجود ہیں جو باہم ایک دوسرے پر طعنے کس سکتے ہیں اور وہی طعنے ملکی سطح پر فرقہ واریت کو شدت سے بھڑکانے کا سبب بن سکتے ہیں بیرونی دشمنوں کے ساتھ اندر کے دشمنوں کو شے نہ مل جائے اسی لیے اس کو مبہم رکھا ہوگا۔
سعودی عرب پاکستان میں اس وقت بڑی سطح پر سرمایہ کاری کررہاہے اور پاکستان کے کشمیر موقف کی مکمل تائید بھی کرتاہے اور پاکستان اس کی ہر مشکل کا ساتھی بھی رہاہے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے وہ اپنے منصوبوں کو خود ہی ناکام کرکے ایک باعتماد سپر طاقت کی دوستی کوگنوا دیے،
واحد ایران رہ جاتاہے جس کے پاس بھارت کے ساتھ ملنے کی ایک نہیں ہزاروں وجوہات ہیں جولکھ دی تو بات طویل ہوجائے گی اس لیے اتنا ہی کافی ہے ،
اسی طرح ایران کی پاکستان سے دشمنی کی کئی وجوہات بھی موجود ہیں جس میں اہم وہ بیانیہ ہے جوپاکستان کیخلاف پلوامہ حملوں کے بعد سے بھارت کی جانب سے آرہاہے اور ایران بھی تائید بھی کرچکا ہے اس لیے بھارت اور ایران کےعزائم کسی حدتک ایک ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے ایران ہی وہ تیسرا ملک جس کے بیک ڈور اسرائیل سے معاہدے ہیں اور بھارت سے قرابت داری ہےاس لیے زیادہ شک ایران پر جاتاہے
رہی بات ایران ہو یا سعودی عرب بعید کچھ بھی نہیں لیکن ان ممالک کی وجہ سے اپنے ملک میں موجود اکائیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا یا ان کی جانب سے دلالی کرنا یہ نہ پہلے ہمارے ملک کے مفاد میں تھا اور نہ ہی آج ہوسکتاہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں