کچلے ہوئے غنچے ۔۔۔۔ام عفان سید

خوش رنگ پھول پورے باغ میں رونق لگائے ہوئے تھے۔ سرخ ، عنابی، گلابی، پیلے، نیلے، ہرے، سفید حتی کہ کالے گلاب بھی اپنی چمکدار جلد کو سورج کی روشنی میں نمایاں کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ہلکے گلابی رنگ کی ننھی کلی نے ذرا سا سر اٹھایا، جائزہ لیتی نگاہیں گھمائیں تو اس کی نظریں ایک جانب کو ٹک گئیں۔ “ جنت میں خوش آمدید ننھی پری” ۔ آس پاس کے پتوں کی سرگوشی سنائی دی۔ “کک۔۔۔ کیا! جنت؟” ، ننھی پری دھیرے سے بولی۔ “حیران کیوں ہوگئیں میری جان؟ یہ باغ ہے، کیا ایسی دلکش خوبصورتی کہیں بھی دیکھی ہے؟”

پتوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا جیسے اسے ماحول سے مانوس کررہے ہوں۔ ننھی کلی ابھی تک حیران تھی۔ “یہ کون ہیں؟” اس نے حسین و جمیل پھولوں کی طرف اشارہ کیا جو اسے دیکھ کر خوش ہورہے تھے۔ “یہ تمہارے بھائی بہن ہیں، کچھ بڑے ہوگئے ہیں مگر کچھ ابھی تک ویسے ہی ہیں جیسے بچپن میں تھے اور شرارتی بھی۔” ایک پتے نے ہنستے ہوئے کہا: “یہ سرخ گلاب تو اتنی زور سے بازو ہلاتا ہے کہ مجھے لگتا میں گر ہی جاؤں گا” ۔ “لیکن گرے تو نہیں نا کبھی!” دوسرے پتے نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “ میرے پیارے بچے! دیکھو تو کیسے جلوہ دکھا رہے ہیں” سب نے حسین اور مہکتے گلابوں پر نظر ڈالی، وہ بھی یہیں دیکھ رہے تھے، نظریں چار ہونے پر سب مسکرا اٹھے۔

“یہ سب تو بڑے ہوگئے، میرے ساتھ کون کھیلے گا؟” ننھی کلی پھر اداس ہوگئی۔ “ارے ۔۔۔ ہم ہیں نا! ہم بچوں کے ساتھ بچے ہی بن جاتے ہیں ” آس پاس سے مختلف آوازیں آئیں۔ “پری! میرے ساتھ جھولا جھولو گی؟” نارنجی گلاب کی آواز پر ننھی کلی نے مڑ کر دیکھا اور دفعتاً مسکرا دی۔ اگلے دن موسم بہت خوشگوار ہوگیا تھا، ٹھنڈی ہوا تو صبح ہی سے چل رہی تھی، بوندا باندی بھی شروع ہوگئی۔ پورے باغ میں پھول پودوں کا موج مستی کا میلہ، ہلا گلا سا لگا ہوا تھا۔ گلاب کے پودے پر خصوصی بہار آئی ہوئی تھی۔ نئے نئے ادھ کھلے گلاب نے کوئی لطیف بات کہی تو پوری محفل زعفران زار بن گئی۔ پودوں کے کھلکھلانے میں ننھی کلی کے معصوم قہقہے بھی سنے جا سکتے تھے۔ بوندا باندی نے شعور کی منزل چھونے کے لئے اپنی رفتار بڑھائی اور تیز بارش کی شکل اختیار کرلی۔

تیز بارش میں جھولا جھولتی ننھی کلی سہم کر نارنجی گلاب سے لپٹ گئی۔ “ مجھے چھپا لو بھیا! مجھے پانی سے بہت ڈر لگتا ہے “ اب وہ رو رہی تھی۔ “نہیں بہنا، پانی سے نہیں ڈرتے ! یہ تو زندگی دیتا ہے، دیکھو تو سب کیسے نکھر گئے ہیں” نارنجی گلاب نے اسے دلاسہ دیا۔ “نہیں بھیا! پانی سب کچھ ختم کر دیتا ہے ، مجھے بچالو، بچا لو نا” یہ کہہ کر ننھی کلی نے منہ چھپا لیا اور سسک پڑی۔ “روؤو تو نہیں نا!” سرخ گلاب اپنی نئی چمچماتی پنکھڑیوں کو اس کے گرد لپیٹتے ہوئے بولا “اتنے سہانے موسم میں تم اتنی غمزدہ کیوں ہو؟ دیکھو تمہیں غمگین دیکھ کر ہمارے سب دوست بھی اداس ہوگئے ہیں”۔

سارے چھوٹے بڑے گلاب ارد گرد کھڑے ننھی کلی کو حوصلہ افزا نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور وہ بس یہی کہے جارہی تھی “ پانی سے سب ختم ہوجاتاہے۔ یہ حسین زندگی، سب کچھ ختم ہوجائے گا، ہم بکھر جائیں گے”۔ “ایسا کچھ نہیں ہوگا میری عزیز بیٹی! “ سورج مکھی کے پھول نے اس کا ماتھا اوپر اٹھا کر بوسہ دیا “یہ جنت ہے یہاں کچھ ختم نہیں ہوتا۔کوئی نہیں بکھرتا، کوئی موت نہیں آتی۔ یہاں ہمیشہ کی زِندگی ہے، ہم ایسی خوبصورت زندگی جیتے رہیں گے۔۔۔” وہ اسے اپنے قریب کرتے ہوئے گویا ہوا “دیکھنا کل تم ایک حسین گلاب بن جاؤگی، تمہاری خوشبو سے یہ پاک فضا معطر ہو گی، کبھی نہ ختم ہونے کے لئے”۔ “ہاں بالکل سچ کہا” نیلے، سرخ، سیاہ، پیلے، ہرے، عنابی ، سفید، نارنجی گلاب پتوں سمیت ہم آواز ہوئے۔ بارش رک چکی تھی۔ پھول کلیاں پتے پرسکون ہو چکے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگلی چمکدار صبح گلاب کے پودے پر سفید اور گلابی رنگ کا امتزاج لئے ننھی کلی سب سے مبارکباد وصول کررہی تھی۔ “قدرت کا ایک حسین شاہکار!” سرخ گلاب نے آنکھ کھلتے ہی پہلی نظر میں اسے سراہا۔ اس نے شرما کر نظر جھکائی تو نیچے پتوں کے درمیان چھپی ایک اور ننھی کلی پر نظر جا رکی۔ اس کی آنکھوں میں پچھلا منظر گھوم گیا۔ ننھی کلی حیران پریشان ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ سفید پنکھڑیاں سمیٹتے ہوئے ذرا سا جھک کر اس نے ننھی کلی کو چھوا۔”خوش آمدید” وہ مسکرائی۔ “تم کیسے پہنچی یہاں تک؟” ۔ “وہ میں۔۔۔ “ ننھی کلی کچھ سوچ رہی تھی “تمہاری ماں نے بھی پانی کے حوالے کیا تھا؟” سفید گلاب نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا اور مسکراتے ہوئے پوچھا “نن۔۔۔ نہیں میری ماں نے دودھ میں زہر ملایا تھا۔لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں لوگ ہمیں مارنا چاہتے ہیں؟” سفید گلاب اس کا سوال سن کر پھر پریشان ہوگئی تھی ۔ اس نے پھر کالے گلاب کی طرف دیکھا جو ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا ۔ پھر وہ گویا ہوا “ بیٹا ! دنیا میں رہنے والے انسان بڑے جلد باز ہوتے ہیں، بے صبرے، ذرا سی بات پر اللہ پر توکل کرنے کے بجائے گھبرا جاتے ہیں اور مرنے مارنے کی باتیں کرنے لگتے ہیں “۔ اس نے ننھی کلی کے سر پر ہاتھ پھیرا “انہیں اللہ سے اچھی امید رکھنی چاہئیے اور اس سے مدد مانگنا چاہئے” ۔ “ایک چیز دکھاؤں ؟” ننھی کلی بولی “وہ دیکھیں میرا بھائی !” وہ یک دم چہچہائی اور نیچے گہرائی کی طرف اشارہ کیا جہاں پتوں کے ہم رنگ بہت ہی چھوٹی سی کلی سوتے میں مسکرا رہی تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کچلے ہوئے غنچے ۔۔۔۔ام عفان سید

  1. بہت خوب ماشاءاللہ۔۔ تخیل بھی خوب نبھایا۔ خدا کریم مزید ترقیاں بخشیں۔ قلم کو پرواز ملے۔

Leave a Reply to Meer Osama Cancel reply