“میجر عدنان ” ہمیں تم پہ ناز ہے ۔۔۔۔علی اختر

ِمملکت خدا داد پاکستان کی حفاظت اور اسکے دشمنوں کے خاتمے کے لیے جہاں ہماری مسلح افواج نے میدان جنگ میں ، ہماری نیوی نے سمندر میں تو ہماری ایئر فورس نے فضائی راستوں کی حفاظت کے لیئے قربانیاں دی ہیں وہیں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جسکا کردار ملک و قوم کی حفاظت کے لیئے بہت اہم لیکن قربانیاں منظر عام پر نظروں سے اوجھل ہے۔

جی ہاں میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی” آئی ایس آئی” کی بات کر رہا ہوں ۔ ویسے تو ہماری خفیہ ایجنسی نے بہت سے گمنام ہیرو پیدا کیئے لیکن آج میں “آئی ایس آئی” کے اس بہادر افسر کی بات کر رہا ہوں جس نے ایجنسی 88 میں جذبہ حب الوطنی  سے سرشار ہوکر محض ہمارے بد ترین دشمن انڈیا کی بربادی کی نیت سے جوائن کی ۔

جیسا کہ  ہمارے علم میں ہے کہ ہماری کمانڈو ٹریننگ کے دوران بھوکا  رکھا جانا، تشدد سہنے کی ٹریننگ، سانپ بچھو اور دیگر زہریلے جانور کھانا ، بھاگنے اور تیرنے وغیرہ کی ٹریننگ ضرور دی جاتی ہے ۔ بھاری بھرکم تن و توش رکھنے والے میجر عدنان کو دیکھ کر یہ کوئی  نہیں کہہ سکتا تھا کہ  وہ اتنی سخت ٹریننگ کر پائیں گے ۔ لیکن اس دوران کچھ ایسے انکشافات ہوئے جن سے ثابت ہوا کہ  یہ ہونہار نوجوان اس فیلڈ میں بہت آگے جائے گا ۔

سب سے پہلا انکشاف اتفاقیہ طور پر ہوا جب اسے اور اسکے ساتھ ٹریننگ کرنے والوں کو دو دن بھوکا رکھ کر کھانے کے لیئے محض سانپ، بچھو، مینڈک وغیرہ دیئے گئے ۔ باقی سب نے تو بمشکل ایک آدھ سانپ کھایا لیکن عدنان کو دو دن کی بھوک نے وحشی درندہ بنا دیا تھا ۔ یہ نہ صرف سانپوں کے پنجرے میں موجود چار سو زہریلے سانپ زندہ ہڑپ کر گیا بلکہ بارہ سو چوہے اور ان گنت زیلے بچھو بھی نگل گیا تھا ۔ ان سب کے باوجود ہل من مزید کا نعرہ لگا رہا تھا ۔ اسکے ساتھ ساتھ بھاگنے کی رفتار گو سست تھی لیکن بھاگنے کے دوران اسکا قدم جس جگہ پڑتا وہاں کی زمین بنجر ہو جاتی تھی اور کسی بھی قسم کی فصل اگر اُگی ہوتی تو تباہی سے دوچار ہو جاتی ۔

اسکی اور بھی بہت سی خوبیاں تھیں جیسے اگر عدنان کو پانی میں ڈالا جاتا تو وہ ہوا بھری ٹیوب کی طرح سطح پر ہی رہتا تھا ۔ اسکی اس خاصیت سے نا صرف عدنان بلکہ اسکے ذریعے اور بہت سے لوگوں کی جان بھی بچائی  جا سکتی تھی اور اسے دوران ٹریننگ سیفٹی ایکوپمنٹ کے طور پر بھی کئی  مرتبہ استعمال کیا گیا ۔

ایک اور خوبی اسکی موٹی کھال تھی جس پر ڈنڈے ، چھتر، اسٹیل ، تلوار، گولی وغیرہ کا اثر نہ ہوتا تھا ۔ سب سے آخر میں اسکی کیموفلاج (آ س پاس کے ماحول میں خود کو چھپا لینا) کرنے کی صلاحیت تھی جو کہ سینئرز پر ظاہر ہوئی ۔ اسے با آ سانی گینڈوں ، ہاتھیوں وغیرہ کے درمیان کیموفلاج کرایا جا سکتا تھا۔ یہ ان جانوروں کے درمیان ایسے ایڈجسٹ ہو جاتا کہ  جانور خود بھی پہچاننے سے  عاری ہو جاتے ۔ ایک بار تو دشمنوں کا ایک ہاتھی اسے ہتھنی سمجھ کر سیما پار بھی کر گیا تھا ۔ جسے ہمارے رینجرز کے جوانوں نے گرفتار کر کے چڑیا گھر پہنچایا
جہاں وہ آج تک اپنی خوابوں کی ہتھنی کا انتظار کر رہا ہے۔

جیسا کہ  سب کو معلوم ہے کہ  خفیہ ایجنسیوں کے لوگ مختلف روپ لے کر سوسائٹی میں ایسے گھل مل جاتے ہیں کہ انہیں پہچانا نہ جا سکے اسی طرح عدنان سمیع   کو بھی کوئی  خاص روپ دینا تھا ۔ اس مرحلے پر بہت سے پیشے زیر غور آئے لیکن اسکی شخصیت اور دلچسپی وغیرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے گانے بجانے والے یعنی ماہر موسیقی کا روپ دینے کا فیصلہ ہوا ۔

سب سے پہلے پی ٹی وی پر ایک پروگرام میں اس کی باقائدہ ڈپلائمنٹ ہوئی  جسکا نام “بہتا دریا ” تھا ۔ اس پروگرام میں “میجر” بچوں کو موسیقی سکھایا کرتے تھے لیکن بہت ہی جلد بچوں میں بڑھتی ہوئی خودکشی کی شرح کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پروگرام کو بند کرنا پڑ گیا ۔ بعد ازاں کچھ فلاپ فلموں اور البمز کی ریلیز کے بعد یہ بھارتی مداہوں کی نظروں میں آہی گیا اور باقائدہ اپنے مشن پر بھارت روانہ ہو گیا۔

وہاں اس نے سب سے پہلے تو غذائی  قلت پیدا کرنا شروع کردی اور کھڑی فصلیں ڈانس وغیرہ کی شوٹنگ کے بہانے روندنا شروع ہو گیا باقی بچ جانے والا گندم یہ کھا کر ختم کر دیتا تھا ۔
بھارت میں قحط سالی کا امکان ہو گیا ۔ اناج مہنگا ہونا شروع ہوا تو لوگ بھوکے مرنے لگے ۔ بلاآخر یہاں سے “ہائی  کمان ” کو کہنا پڑا کہ بھائی  ہماری دشمنی بھارتی عوام سے نہیں ہے ۔ یہ کیا کر رہے ہو میاں ۔ ہم سب نے خدا کو منہ دکھانا ہے ۔ تم بس انفارمیشن وغیرہ دیدو کافی ہے ۔ یہ ظلم تو نہ کرو یار ۔ پھر کہیں جا کر اس نے بس کی ۔

“میجر” پر اپنے فرض کو پورا کرنے کے دوران کئی  بار قاتلانہ حملے ہوئے جنہیں اسکی گینڈے نما موٹی کھال نے ناکام بنا دیا ۔ اسے پہاڑوں سے دھکا دیا گیا لیکن یہ کسی فٹبال کی مانند لڑھکتا ہوا ہموار زمین تک پہنچ گیا ۔ غرض “میجر عدنان ” نے ملک و قوم کی خاطر بہت سی قربانیاں دیں ۔ ہاں میں مانتا ہوں کہ اپنی پہچان چھپانے اور انڈیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیئے اسے کئی  بار پاکستان مخالف بیان بھی دینے پڑے ۔ جس پر پاکستانی عوام کی نفرت کا شکار بھی ہونا پڑا لیکن یہ سب بھی اس نے ملک کے مفاد میں ہی کیا۔

آج جب پاکستان ہی کے کچھ نالائقوں کی بدولت انکی اصلیت پوری دنیا کے سامنے کھول دی گئی ہے اور سب کو پتا چل گیا ہے کہ وہ “میجر عدنان” ہیں ۔ ہم یہ دعا کرتے ہیں    اور پاکستانی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ  “میجر” کو آفیشلی اون کریں اور “ستارہ ذلالت” یا “نشان بے غیرتی و حرام خوری” عطا کیا جائے ۔ شکریہ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:یہ تحریر خالصتاً مزاح کے طور پر لکھی گئی ہے،اس کے کسی کردار کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply