• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ابھی نندن کی رہائی جنگی قیدیوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں۔۔۔ڈاکٹر شہباز منج

ابھی نندن کی رہائی جنگی قیدیوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں۔۔۔ڈاکٹر شہباز منج

پاکستان نے اپنی طرف سے علامت امن و آشتی (Peace Gesture) کے طور پر بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو رہا کرنے کا اعلان کیا تو مختلف حلقوں کی طرف سے اس انتہائی اہم اور مستحسن اقدام کو بھی ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ تنقید کرنے والوں میں لبرل دانش ور بھی تھے اور روایتی اہلِ مذہب بھی ۔ اس قسم کی بے جا تنقید، کسی کی جانب سے بھی ہو محض حکم رانوں سے اندھے تعصبات اور مخالفت کا نتیجہ ہی قرار پاتی ہے۔ہمارے حکمرانوں کو آئیڈیل ہم بھی نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے مختلف اقدامات پر کھل کر تنقید بھی کرتے ہیں، لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ حق بات کی تعریف و تحسین کی جائے۔اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ آدمی اپنے تعصبات میں کھو کرایسے بدیہی اچھے اقدام کو سراہنے سے بھی قاصر ہو، جس کی تعریف کرنے پر دشمن بھی مجبور ہو۔ اس اقدام پر اعتراض کے لیے کوئی حقیقی شرعی و اخلاقی بنیاد موجود نہیں، تاہم بعض لوگوں کی طرف سے سامنے آنے والے بعض اعتراضات کا ہم یہاں جائزہ لیتے ہیں بالخصوص اس اعتراض کا کہ یہ اسلامی تصورِ غیرت و حمیت کے خلاف ہے ، اس سے پاکستان کی کمزوری کا اظہار ہوگا اور دشمن کو شہ ملے گی۔
میں نے اپنی ایک مختصر تحریرمیں بھارتی پائلٹ کی رہائی کو اسلام ، مسلمانوں اور پاکستان کی امن پسندی کا اظہار قرار دیا تو بعض احباب نے اعتراض فرمایا کہ یہاں امن ومحبت کا مظاہرہ کرنے اور قیدی سے حسن سلوک کرنے والوں نے فلاں شخص کو قیدی کیوں بنایا، اس سے فلاں قسم کا سلوک کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال انتہائی بودا اور فضول ہے ۔کیا معترضین یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر بھارتی قیدی کو آزاد کرنا ہے تو پاکستان کے سارے قیدی کو رہا کر دیں! یہاں جس نے مذہبی، انتظامی ، سیاسی جس حوالے سے بھی قوم و ملک کا نقصان کیا ہے، اسے پروٹول کے ساتھ ان کے گھروں میں چھوڑ آنا چاہیے! یہ تعصب کم از کم ان لبرل دانشوروں کوتو ہر گز زیب نہیں دیتا جو امن امن کا نعرہ لگاتے تھکتے نہیں۔ان لوگوں کو اور کچھ نہیں ملا تو وہ کہنے لگے ہیں کہ بس یویہی چاہے کی پیالی میں امن و محبت گھول کر فلاں فلاں پاکستانی طبقوں کو بھی پلا دیں۔ ان لوگوں کا یہ رویہ اور بھی افسوس ناک ہے۔ اللہ کے بندو! بات یوں بھی تو کی جا سکتی ہے کہ جس طرح بھارتی قیدی سے اچھا سلوک ہوا، اپنے ملک میں قید لوگوں سے بھی ہونا چاہیے، لیکن اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ بھارتی قیدی سے اچھا سلوک غلط ہے۔ فرض کریں اپنے قیدیوں کے معاملے حکومت کا رویہ آئیڈیل نہیں تو بھی اس کا یہ مطلب کیوں کر لیا جا سکتا ہے کہ بھارتی یا غیر ملکی قیدیوں سے اچھا سلوک کرنا گناہ ہے۔ ایک غلط کام دوسرے غلط کام کا جواز کیسے ہو سکتا ہے!
پھر یہ بات بھی ہمارے یہ دانش ور اور اہلِ مذہب نہیں سوچتے کہ قیدیوں سے سلوک کے حوالے سے ملکی مسائل اور بھارتی پائلٹ کے مسئلے میں زمین آسمان کا فرق ہے، یہاں دو ملکوں کی کڑوڑوں کی آبادی کا مسئلہ ہے۔کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ملک کے چند قیدیوں سے آپ وہ سلوک نہیں کر سکتے جو بھارتی پائلٹ سے کر رہے ہیں تو کڑوڑں انسانوں کو ان ملکی قیدیوں یا محروم طبقات سے بھی بری حالت میں دھکیلنے کی کوشش کریں۔ حیرت اور افسوس ہے تمھاری اس “امن پسندی “پر۔ اس ضمن میں اس حقیقت کو بھی ان لوگوں نے یکسر نظر انداز کر دیا ہے کہ جنگی قیدی کو رہا کرنا حکومت اور عسکری قیادت کا فیصلہ تھا، کسی عدالت کا فیصلہ نہیں تھااور ملکی قیدی جو پاکستان کی عدالتوں میں ہیں انھیں حکومت یا عسکری انتظامیہ اپنے کسی فیصلے سے رہا کرنے کی مجاز نہیں ، انھیں قانون کے مطابق مقدمات کا سامنا کرنا ہے، اور عدالت ہی کے ذریعے اپنے لیے کوئی راہ تلاش کرنی ہے۔(یہ الگ بات کہ ابھی نندن کی رہائی کے خلاف درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی ان ریمارکس کے ساتھ خارج کر دی ہے کہ اپنی قیادت کے فیصلوں پر اعتماد کریں اور اس کی حب الوطنی پر شک نہ کریں)
بعض حضرات بعض آیا ت کا حوالہ دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو سستی نہ کرنے کا حکم ہے اور فرمایا گیا ہے کہ تم ہی غالب رہو گے،(فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ۔محمد 47: 35) لہذا پائلٹ کو چھوڑ کر سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرآنی احکام کی گویا خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اس پر عرض یہ ہے کہ ہم نے سستی نہیں دکھائی ، اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کر دیا۔ لیکن عسکری و اخلاقی فتح حاصل کرنے کے بعد دشمن سے عفو و درگزر اسلام کی روح ہے۔پھر محولہ آیت مبارکہ کا مذکورہ مطلب اس مذہبی سطحی ذہنیت کا شاخسانہ ہے، جواس طرح کی آیات و تعلیمات کو ان کے تناظر اور سلف کے فہم سے کاٹ کر دیکھنے کی عادی ہے۔ مفسرین سلف کے ہاں اس کا مطلب کہیں بھی یہ نہیں لیا گیا کہ مسلمانوں کو کبھی امن و صلح کی پیش کش نہیں کرنی چاہیے۔ان کے نزدیک اس آیت کا مفاد دیگر نصوص کی روشنی میں یہ ہے کہ امام ضرورت محسوس کرے تو دشمن پر غلبے کے لیے جنگ جاری رکھ سکتا ہے اور ضرورت محسوس کرے تو مسلمانوں کی مفاد میں معاہدہ امن و صلح کر سکتا ہے۔ ابن کثیر کے مطابق جنگ جاری رکھنے کا حکم اپنی قوت و کثرت کے وقت ہے اور اگر اس کے برعکس قوت و کثرت کا جھکاؤ دشمن کے حق میں ہو اور امام صلح و امن میں مصلحت محسوس کرے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں امام کے کے لیے معاہدۂ صلح و امن کا جواز حضورﷺ کے معاہدۂ حدیبیہ سے ثابت کیا ہے۔ ابن کثیر کے الفاظ ہیں:
فلا تهنوا وتدعوا إلى السلم وأنتم الأعلون۔  أي : في حال علوكم على عدوكم ، فأما إذا كان الكفار فيهم قوة وكثرة بالنسبة إلى جميع المسلمين ، ورأى الإمام في المعاهدة والمهادنة مصلحة ، فله أن يفعل ذلك ، كما فعل رسول الله – صلى الله عليه وسلم – حين صده كفار قريش عن مكة ، ودعوه إلى الصلح ووضع الحرب بينهم وبينه عشر سنين ، فأجابهم إلى ذلك .
بعض حضرات کہتے ہیں کہ کچھ لے دے کے چھوڑنا چاہیے تھا یونہی مفت میں بدر کے قیدی بھی آزاد نہ کیے گئے تھے! تو بھائیو! اس سے بڑھ کر کیا لینا ہے کہ پوری دنیا میں ہماری اخلاقی فتح ہوئی ، دنیا نے آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ہم نہتے لوگوں کو دبوچ کھا والے نہیں ، ان سے حسن سلوک کرنے والے ہیں۔ پلوامہ حملے میں فوجیوں کو مارنے والے ہم کیسے ہو سکتے ہیں! ہمارا رویہ تو اپنے ملک پر حملہ آور ہونے والے پائلٹوں سے عفوو درگزر کیا ہے! ان دانش وروں کو کون سمجھائے کہ فی زمانہ “لینا دینا” یہی نہیں ہوتا کہ آپ کچھ “رقم” لے لیں یا بعض دیگر ناقابلِ ذکر مطالبات لے کر بیٹھ جائیں، آج کے زمانے میں انٹرنیشنل کمیونٹی کو اپنی امن پسندی (چاہے سیاسی تناظر ہی رکھتی ہو) پر قائل کرلینا بہت کچھ” لینا دینا”ہے۔ اور بھارتی پائلٹ کو رہا کر کے پاکستان نے یہ “بہت کچھ لے دے” لیا ہے ، جس کا اقرار دیگر ممالک ہی نہیں خود بھارت کے بہت سے سیاست دانوں اور صحافیوں کو بھی کرنا پڑا ہے۔
پھر اسلام کی تعلیم صرف یہی نہیں کہ آپ لازماً کچھ “لے دے” کر ہی چھوڑیں، بلکہ احساناً چھوڑنے کی بھی تعلیم موجود ہے۔ سورہ محمد میں میں ارشاد ہے:
حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً (محمد 47: 4)
حتی کہ جب تم خون ریزی کر چکو تو قیدی بناؤ، پھر انھیں احساناً چھوڑ دو یا فدیہ لے لو۔
اس آیت میں قیدیوں کی احساناً رہائی کو فدیے سے مقدم رکھا گیا ہے، جس سےاحساناً رہائی کا آپشن فدیے کہ مقابلے میں قابلِ ترجیح ٹھرتا ہے۔رسول اللہ کے اسوے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ آپ انتہائی خطرناک قیدیوں کو بھی احساناً رہا فرما دیتے تھے۔ حدیبیہ کے سال 80 افراد آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کو قتل کرنے کے ارداے سے تنعیم سے اتر کر آئے لیکن آپﷺ نے نمازِ فجر کے وقت انھیں زندہ پکڑ لیا، مگر پھر انھیں بلا فدیہ رہا کر دیا (ابوداؤد، باب فی المن علی الاسیر بغیر فداء) حضورﷺ کی سیرت کے اور بھی متعدد واقعات قیدیوں کی احساناً اور بلا شرط رہائی کا پتہ دیتے ہیں۔ مثلاً ہوازن کے چھے ہزار قیدیوں کو ان کے مسلم و غیر مسلم سرداروں کی درخواست پر بلا شرط چھوڑا گیا۔ بنو قریظہ کے ایک ہزار قیدیوں کو حضرت ثابت بن قیس اور ام منذر کی سفارش پر رہا کیا گیا۔ مدینے پر حملے کا منصوبہ بنانے والے بنو تمیم کے قیدیوں کو ان کے رؤسا کے وفد کی درخواست پر رہا کردیا گیا۔ حنین کا معرکہ جس نے ایک بار مسلمانوں کی جمعیت بکھیر دی تھی ، کے قیدیوں کو بھی حضورﷺ نے قبائل کے وفد کی سفارش پر بلا شرط و معاؤضہ رہا فرما دیا تھا۔قبیلہ طے کے بت “الفُلس ” کی مہم میں حاتم طائی کی بیٹی سفانہ قید ہو کر آئی تو آپ نے اسے اپنی چادر عنایت فرمائی کہ اپنا جسم ڈھانپ لے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تمھارا فدیہ دینے والا کون ہے ، تو اس نے عرض کیا: ھلک الوالد وغاب الوافد فامنن علی من اللہ علیک” میرا والد ہلاک ہو گیا ، میرا فدیہ دینے ولا بھاگ گیا، آپ مجھ پر احسان کریں ، اللہ آپ پر احسان کرے گا۔”آپﷺ نے فرمایا تیرے باپ میں مومنوں جیسی صفات تھیں، میں تم کو آزاد کرتا ہوں۔ پھر آپ نے سفانہ کو سواری اور لباس عطا فرما کر عزت سے رخصت کیا۔
حضورﷺ نے اپنی حلیمی و کریمی اور عفو ودرگزر کے رویے ہی سے دشمنوں کو اپنا گرویدہ بنایا تھا۔ قرآن نے واضح کیا :
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ (آل عمران 3: 159)
اللہ کی رحمت سے آپ ان کے لیے نرم ہیں ، اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے ارد گرد سے بھاگ جاتے۔
احسان کا رویہ کبھی بے نتیجہ نہیں رہتا ۔ قرآن نے یونہی نہیں کہا:
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ (سورہ فصلت 41: 34)
نیکی اور برائی برابر نہیں ہو سکتیں، برائی کو اچھائی سے دور کریں، آپ دیکھیں گے کہ وہ شخص جس کے اور آپ کے درمیان عداوت تھی وہ گہرا دوست بن چکا ہے۔
قیدیوں کے معاملے میں حضورﷺ کے حسن سلوک اور احسان کے رویے نے آپﷺ کے بڑے بڑے اور دشمن قیدیوں کو بھی آپ ﷺ پر ایمان لانے پر مجبور کر دیا۔اہل یمامہ کا سردار ثمامہ بن اثال گرفتار ہو کر آیا تو اسے مسجد نبوی کے ستون سے باندھا گیا۔ حضورﷺ تشریف لائے تو ثمامہ سے پوچھا: کیا خبر ہے ؟ اس نے جواب دیا: یا محمد(ﷺ)! میرے پاس خیر ہی خیر ہے۔ اگر آپ مجھے قتل کریں تو یہ ایسے شخص کا قتل ہو گا ، جس کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔ اگر احسان فرمائیں تو شکر گزار پر احسان ہو گا۔ اگر مال کا رادہ ہے تو مانگیے، جو مانگیں گے دے دوں گا۔ اس دن آپ ﷺ نے ثمامہ کو اسی حال میں چھوڑدیا۔ اگلے روز وہی سوال کیا تو ثمامہ نے پھر وہی جواب دیا۔حضورﷺ نے حکم دیا کہ ثمامہ کو آزاد کر دو۔ ثمامہ رہائی پا کر قریب موجود ایک باغ میں گیا ، غسل کیا اور مسجد میں آکر کلمہ شہادت پرھ کر مسلمان ہو گیا اور کہا: یا محمد(ﷺ)! خدا کی قسم !آج سے پہلے روئے زمین پر مجھے آپ کے چہرے سے مبغوض کوئی اور چہرہ نہ تھامگراب آپﷺ کا چہرہ سب سے زیادہ محبوب ہو گیا ہے۔اور اللہ کی قسم اس سے پہلے آپ ﷺ کے شہر سے ناپسندیدہ مجھے کوئی شہر نہ تھا مگر اب آپ کا شہر مجھے سب شہروں سے زیادہ پیارا لگنے لگا ہے۔(بخاری ومسلم)
احسان کا جو رویہ انڈین پائلٹ ابھی نندن کے حوالے سے پاکستان نے اپنایا، وہ کیسے بے نتیجہ رہ سکتا تھا ۔اس کا فوری خوش کن نتیجہ ہر صاحب نظر سامنے دیکھ سکتا ہے۔ بھارت کے روشن خیال ہی نہیں ، متعصب دانش ور صحافی بھی وزیر اعظم عمران خان کی تعریف میں رطب اللساں ہیں۔ راجدیپ سریسائی نے کہا کہ شاید یہ بات بھارتیوں کو پسند نہ آئے، لیکن یہ عمران خان کی اخلاقی فتح ہے۔بھارتی مصنف کرشن پرتاپ سنگھ نے اقرار کیا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے مودی کو شکست دے دی ہے۔بھارت کے سابق آرمی کرنل اور دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا نے کہا ہے کہ حقیقی جنگ میں جو بھی ہو پاکستان نے اخلاقی و نظریاتی جنگ جیت لی ہے۔صحافی نیدی ورما کا کہنا ہے کہ یہ عمران خان کی جانب سے فل ٹاس نوبال پر چھکا لگا کر میچ جیتنے کی طرح کا قدم ہے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی جیت کا یوں اعتراف تو شاید ایٹمی جنگ کے بعدبھی کوئی نہ کرے۔ تو کیا یہ معمولی فتح ہے!
اس احسان کا بہترین نتیجہ انڈیا پاکستان میں ہولناک جنگ کے منڈلاتے ہوئے بادلوں کاچھٹ جانا ہے۔ کچھ کم نظر اہلِ مذہب اور نوجوانوں کو جنگ میں بڑا رومانس نظر آتا ہے۔ حالانکہ جنگ اسلام کے نقطۂ نظر سے خواہش نہیں مجبوری کی قبیل سے ہے۔ حضور ﷺ کا واضح فرمان ہے:
أَيُّهَا النَّاسُ، لا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ، وَاسْأَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ (بخاری و مسلم)
لوگو! دشمن سے ملنے (یعنی جنگ ) کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت طلب کرو۔
یہ اسلامی رویہ تو ان جنگوں کے تناظر میں ہے ، جن کے اثرات انتہائی محدود تھے۔ زیادہ تر مدمقابل فوجیوں اور لشکروں کا ہی نقصان ہوتا تھا اور وہ بھی وقتی ۔ ذرا سوچیے اس جنگ کے بارے میں اسلای رویہ کیا ہوگا، جس کے اثرات دو لشکروں تک نہیں آدھی دنیا تک ہوں اور صدیوں اور نسلوں تک منتقل ہونے والے ہوں۔حق یہ ہے کہ آج کے دور میں اور بالخصوص دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ عسکری قوت کے بل پر کوئی بھی نہیں جیت سکتا۔ خدا نخواستہ جنگ ہوئی تو دونوں ملکوں کی موجودہ نسلیں ہی نہیں آئندہ کئی نسلیں بھی ہار جائیں گی۔
جی ہاں ! ایٹمی طاقت ہم اس لیے نہیں بنے کہ ایٹم بم آزمائیں بلکہ اس لیے بنے ہیں کہ کوئی ہم پر ایٹم بم نہ گرا سکے۔قرآن نے اپنی ہمت کے مطابق طاقت جمع رکھنے کا حکم اسی لیے دیا ہے کہ دشمن کے دل میں رعب بیٹھا رہے اور وہ آپ کو تر نوالہ نہ سمجھ لے:
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ (الانفال 8: 60)
اور ان کے لیے جس قدر ہو سکے قوت اور گھوڑوں کی چھاؤنیاں تیار رکھو جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو خائف رکھ سکو۔
ترھبون کے لفظ سے مترشح ہو رہا ہے کہ طاقت جمع رکھنے کا مقصد لازمی جنگ کرنا نہیں بلکہ دشمن کو خائف رکھنا ہے تا کہ اسے اقدام اور جنگ کی ہمت نہ ہو، اور دنیا کا امن برقرار رہ سکے۔ہاں اگر جنگ مسلط کی جائے یا جارحیت کا ارتکاب کیا جائے تو اسلام نہ صرف مقابلے کی اجازت دیتا ہے بلکہ اس پر ابھارتا اور مجاہدین راہِ خدا کو اللہ تعالیٰ کے محبوبیت کا مژدہ سناتا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ (الانفال 8: 65)
اے نبی ! مومنین کو راہِ خدا میں جنگ کی ترغیب دو
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ (الصف 61: 4)
بلاشبہ اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند جنگ لڑتے ہیں۔
فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلالِ السُّيُوف۔،(بخاری و مسلم)
جب (دشمن سے ) ملاقات ہو جائے (جنگ لڑنا ہی پڑ جائے) تو صبر سے کام لو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔
بھارتیوں نے پاکستان پر جارحیت کا ارتکاب کیا تو ہماری فورسز نے ان کو منہ توڑ جواب دیا ، ان کے طیارے گرائے اور ان کے پائلٹ کو قیدی بنایا۔بھر پور جواب اور فتح کے بعد، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ زیادتی نہیں احسان ہونا چاہیے اور اپنی امن پسندی کا اظہار۔ یہی ابھی نندن کو رہا کر کے پاکستان نے کیا۔ لہذا اس طرز عمل کو اسلام کے نام پر غلط یا بزدلانہ قرار دینا افسوس ناک ہے۔
بعض لوگوں نے ابھی نندن کی پاکستان کی قید میں چائے پیتے ہوئے ویڈیو کو مذاق بنایا ہوا ہے، حالانکہ قیدی کو کھلانا پلاناقرآن کی رو بہت بڑی نیکی ہے، قرآن نے اسے اللہ کے نیک بندوں کی صفت شمار کرتے ہوئے کہا ہے:
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا (الانسان 76: 8)
اور وہ اللہ کی محبت میں مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔
قیدی سے سلوک کے حوالے سے “لینے دینے” کی رٹ لگانے والوں کے لیے اس سے اگلی آیت میں بھی ایک خوب صورت سبق ہے کہ کھلانے پلانے والے اللہ کے یہ نیک بندے کسی صلے کے لالچ میں نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے پلاتے ہیں:
إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الانسان 76: 9)
ہم تمھیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں، تم سے کسی بدلے اور شکر گزاری کے خواہش مند نہیں۔
اسلامی تعلیمات کے یہی تناظر تھا جس میں صحابہ کرام قیدیوں سے اتنا اچھا سلوک کرتے کہ کھانے پینے کے معاملے میں ان کو اپنے آپ پر بھی ترجیح دیتے ۔حضرت مصعب بن عمیر کے بھائی ابوعزیز بن عمر اپنی قید سے متعلق بیان کرتے ہیں کہ میں انصار کے جس گھر میں تھا ان کا یہ حال تھا کہ صبح و شام جو تھوڑی بہت روٹی ہوتی وہ مجھ کوکھلادیتے اور خود کھجور کھاتے، میں شرماتا اور اصرار کرتاکہ روٹی آپ لوگ کھائیں لیکن وہ نہ مانتے اور کہتے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے ہم کو قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ (مجمع الزوائد،6/86)
معاف کرنا یہی تو ہوتا ہے کہ آپ بدلے یا ظلم و زیادتی کی پوزیشن میں ہوں لیکن اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ظلم و زیادتی نہ کریں بلکہ معاف کر دیں اور اس سے بھی بڑھ کر قیدی سے حسن سلوک اپنائیں۔ دوسرے پر اپنی اخلاقی برتری ثابت کرنا اسلام کا انتہائی مطلوب رویہ ہے۔سیرت کا درس یہ ہے کہ دشمن پر قابو پانے کے بعد اس سے درگزر کیا جائے۔ایک بار کسی دشمن نے بیت المال کی اونٹنیاں چرا لیں ، سلمہ بن اکوع نے واپس چھین لیں۔ پھر انھوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ دشمن پر حملہ کر کے اسے ہلاک کیا جائے تو حضور ﷺ نے فرمایا: یاابن الاکوع ملکت فاسجح یعنی اے ابن اکوع جب تم قابو پا چکے ہو تو اب عفو و درگزر سے کام لو۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نریندر مودی دہشت گرد اور گھٹیا آدمی ہے اسے اور اس کی شہ پر جنگ آزما ہونے والوں کو معاف نہیں کیاجانا چاہیے۔ لیکن ان لوگوں کو بات اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے کہ گھٹیا شخص کو اس سے زیادہ تکلیف کسی اور چیز کی نہیں ہوتی کے اس کو معاف کر دیا جائے۔ وہ تو یہی چاہتا ہوتا ہے کہ دوسرا گالم گلوچ کرے اور جنگ آزما ہو تا کہ وہ جواباً اپنے گھٹیا پن کامظاہرہ کر سکے۔اس لیے ایسے گھٹیا کو معاف کر کے جواب دینا زیادہ کار گر ہوتا ہے۔ ایک قدیم عرب شاعر نے اس مضمون کو کیا خوب ادا کیا ہے:
وَما شَيءٌ  أَحَبَّ  إِلى  لَئيمٍ
إِذا سَبَّ الكِرامَ مِنَ  الجَوابِ
مُتارَكَةُ  اللَئيمِ  بِلا   جَوابٍ
أَشَدُّ عَلى اللَئيمِ مِنَ السِبابِ

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply