اب یا کبھی نہیں۔۔۔۔سید عارف مصطفٰی

آج 2 مارچ ہے ، اور یہ میرے سب سے چھوٹے بیٹے سعد شہریار عارف کی سترہویں سالگرہ کا دن ہے اور چونکہ الحمد للہ وہ میرے پاس ہے چنانچہ میں اسکی خوشی کے اس دن کو اسکے ساتھ منارہا ہوں ۔۔۔ وہ اپنی سالگرہ کے دن کا بیتابی سے انتظار کرتا ہے کیونکہ یہ اسکی ‘بدمعاشی’ کا دن ہوتا ہے کیونکہ ہماری گھریلو روایت کے مطابق کسی بچے کی سالگرہ والے دن اسی کی  مرضی کا کھانا پکتا ہے (نمکین بھی اور میٹھا) اور اسی طرح اسکی پسند کی مطلوبہ شے اسے بطور تحفہ دی جاتی ہے ، اس معاملے میں اسکا باپ یعنی یہ خاکسار بھی کسی بچے سے کم نہیں اور دو روز بعد جب اسکی سالگرہ 4 مارچ کو آتی ہے تو اس روز وہ بھی اس حق کا استعمال کرتے ہوئے اہلخانہ کو مچھلی بریانی کھانے پہ مجبور کردیتا ہے جو کہ اسکی خاص پسند ہے

لیکن یہاں مجھے یاد آرہا ہے کہ یہی 2 مارچ تو ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی سینتالیسویں سالگرہ کا بھی دن ہے جو پاکستان سے اغواء کرکے افغانستان کی بڈگرام جیل میں خفیہ طور پہ قید کردی گئی تھیں اور شدید سختیاں جھیل رہی تھیں لیکن ایک برطانوی صحافی ایوان ریڈلی جنہوں‌ نے طالبان کی قید سے چھوٹنے کے بعد برضا و برغبت اسلام قبول کرلیاتھا ، انکی نشاندہی پہ ڈاکٹر عافیہ کے وہاں مقید ہونے کا انکشاف ہونے پہ اس ناموس وطن کو امریکی اپنے دیس لے گئے تھے اور ایک نام نہاد مقدمے کے فیصلے کی آڑ میں انہیں 86 برس کے لیئے امریکی زنداں میں محبوس کردیا گیا تھا ۔۔ اب انکی قید کو 16 برس ہو چلے ہیں لیکن ضمیر کی یہ معصوم قیدی وہاں پڑی سسک رہی ہے اور امت مسلمہ کے لیئے ایک اچھا و کامیاب پروفیشنل مسلمان بنانے والے نظام تعلیم کا نصاب مرتب کرنے کی پاداش میں یہ قابل فخر دختر وطن قید تنہائی جیسی سخت ترین سزا بھگت رہی ہے ۔ ایسا ہرگز نہیں کہ اس دختر وطن کو وطن واپس لانے کے مواقع نہیں ملے ، ریمنڈ ڈیوس سے لیکر کرنل جوزف کی حوالگی تک متعدد مواقع میسر آئے لیکن زرداری سے لیکر نواز شریف اور اب عمران خان ، سبھی نے اس حوالے سے بیشرمی کی چادر اوڑھے رکھی ۔ تاہم اب بھی یہ امکانات ختم نہیں ہوئے کیونکہ غدار وطن ڈاکٹر شکیل آفریدی تاحال ہمارے ہی پاس قید میں ہے کہ جسکے بدلے ہم اپنا یہ قابل فخر اثاثہ امریکا سے واپس لاسکتے ہیں   لیکن اصل معاملہ سچے عزم اورمخلصانہ نیت کا ہے۔

ہاں تو بات ہورہی تھی سالگرہ کی ، ایک ہی روز یعنی 2 مارچ کو ہونے والی ان دونوں سالگرہوں میں بلحاظ اظہار مسرت زمین آسمان کا فرق ہے کیونکہ سالگرہ کے موقع پہ میرا سعد میرے پاس ہے اور اس روز کی مسرت و رعنائی کو میں پوری طرح محسوس کرسکتا ہوں لیکن دوسری طرف سالگرہ تو دور عافیہ اپنے تینوں بچوں کے لمس سے بھی محروم ہے اور اسکی اولادیں اپنی ماں کے سایہء شفقت کو ترس رہی ہیں ۔ عافیہ کی بوڑھی ماں عصمت صدیقی نے اپنی بیٹی کے بغیر ان 16 برسوں میں 32 عیدیں بھی دیکھ لیں جو انکے لیئے یوم ماتم اور مقام نالہ و شیون بن کے اتریں – یہ انہی کا حوصلہ ہے کہ وہ متعدد بار شدید بیمار ہونے کے باوجود بھی قوم کے سوئے ضمیر کو جگانے میں مسلسل کوشاں ہیں اور اس مد میں عافیہ کی بڑی بہن اور انکی بڑی بیٹی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی انکا دست و بازو بن کے قوم کو خواب غفلت سے جھنجھوڑنے میں ہر طرح سے سرگرداں و مصروف ہیں ۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ قوم کی اس بیٹی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا اس ضمن میں جو مجاہدانہ کردار ہے وہ بہت سے مردانگی و غیرت کے ٹھیکیداروں کو عرق ندامت کے تالاب میں ڈبونے کے لیئے کافی ہے ۔ قوم کی یہ بیٹی ملک کی معروف ترین نیورو سرجن ہے اور ملک کے سب سے معروف نجی ہسپتال آغا خان سے منسلک ہے لیکن اپنی انتہائی شدید پروفیشنل مصروفیات کے باوجود وہ اپنی بہن کی رہائی اور وطن واپسی کے لیئے شب و روز برسر پیکار ہے۔

درحقیقت ڈاکٹر فوزیہ صدیقی مورچے پہ موجود کسی بھی مستعد محافظ سے زیادہ چوکسی و سرفروشی سے دفاع وطن کی ایک ایسی چومکھی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں جس میں انکے مقابل کئی ایسے بھی خنجر بکف ہیں جو کہنے کو تو اپنے ہیں مگر اندرونی طور پہ کسی دشمن سے بھی زیادہ سفاک ہیں   کیونکہ ان میں سے کئی تو عافیہ کی رہائی کی مہم کو اپنے سیاسی مفادات کے شجر کی آبیاری کے لیئے استعمال کرنے میں مصروف ہیں ایسا نہ ہوتا تو سوائے ریلیاں نکلنے کا مشورہ دینے اور اسکے اسٹیجوں پہ چڑھ کر آتشیں بھاشن دینے کے وہ اس سے آگے جاتے اور کسی اہم جگہ پہ دھرنا دے ڈالتے ۔ اس وقت عملی صورتحال یہ ہے کہ عافیہ کی رہائی کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنانے والے عمران خان بھی اب قطعی مہر بہ لب ہیں اور انکے سب پرجوش ساتھیوں کو بھی جیسے سانپ نے سونگھ لیا ہے اور اس تلخ حقیقت کا عکاس انکے وزیر خارجہ کا وہ مکروہ رویہ ہے کہ جس کے تحت انہوں نے تو ڈاکٹر فوزیہ کے ہمراہ ان سے ملاقات کے لیئے اسلام آباد آنے والے وفد سے ملنے سے قطعی انکار کردیا تھا اورانکے وفد کے ارکان کو واپس لوٹا کے انکی جو تذلیل کی تھی، اس بدسلوکی کا لگایا زخم آج بھی ہر محب وطن کے سینے میں رستا ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے جو کہ متعدد حلقوں میں ‘ امریکا کے خاص آدمی ‘ کے طور پہ معروف ہیں نےصرف ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے اکیلے میں ملاقات کی حامی بھری تھی –

اسکے بعد ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور شاہ محمود قریشی کے مابین جو بات چیت ہوئی اسکا حاصل وزیرخارجہ کی جانب سے بے بسی کے کھلے اظہار اور ملفوف طور پہ مزید کچھ کرسکنے کی بابت انکار اورمعذرت خواہی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔ ایسے میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی بابت فیصلہ کن کوشش کرنے کے وعدے کا معاملہ بھی عمران خان کا ایک بڑا یو ٹرن ہے اور کھلی وعدہ خلافی کے اس آئینے میں انکی حب الوطنی کے دعووں کی حقیقت کو بخوبی سمجھی جاسکتا ہے – اب جبکہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی مہم کے سلسلے میں ہزاروں بیانات دیئے جاچکے ، سیکڑوں مضامین لکھ دیئے گئے اوردرجنوں ریلیاں نکالی جاچکیں ، بیشمار جلسے بھی منعقد کردیکھے گئے اور ہر صاحب اختیار کے دروازے کو کھٹکھٹا کے دیکھ لیا گیا ہے۔۔ تو اب یوں لگتا ہے کہ ہر طرف مایوس بال کھولے سو رہی ہے کیونکہ اک ایسا سنا ٹا چھا گیا ہے کہ اب اپنی آواز بھی اجنبی سی محسوس ہوتی ہے ۔ایسے میں بے حسی کی یہ چادر لیرا لیرا کردینے کے لیئے بس اک جرآت رندانہ مطلوب ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں واضح طور پہ یہ محسوس کرتا ہوں کہ اب اس سلسلے میں انتہائی قدم اٹھالینے کا وقت آگیا ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی اور حل بچا ہی نہیں اور نہ ہی کسی کو اس مد میں کوئی تشویش ہے ۔ سب طرف اک عجب سی خاموشی ہے اوربلاشبہ اس وقت عافیہ صدیقی مہم کے وابستگان کی دل شکنی عروج پہ ہے اور انکی کمر ہمت ٹوٹبے کے درپے ہے ۔ ایسے میں اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں کہ سربکف ہوجایا جائے ۔ لاریب یہی وہ مرحلہ ہے کہ اقتدار و انصاف کےرکھوالوں کا گھیراؤ کیا جائے اور ان بلند ایوانوں کے سامنے پڑاؤ ڈال دیا جائے – اوریقینی طور پہ اس اقدام سے سیاسی و دینی و سماجی جماعتوں کے ان رہنماؤں کے چہرے بیے نقاب کرنے کا وقت بھی آگیا ہے کہ جنہیں اس مہم سے اس سے زیادہ کوئی بھی دلچسپی نہ تھی کہ اس ‘ایکٹیویٹی’ سے وہ پریس کؤریج کا حصہ بن پاتے ہیں اور اس کے احتجاجی مظاہروں و جلسوں میں اسٹیج پہ براجمان ہونے اور جوشیلے بھاشن جھاڑکے مکہ لہراتے فوٹو شوٹ کرانے کے ہدف کو پالینے میں کامیاب رہتے ہیں ۔
یاد رکھیئے کہ اب مزید بیوقوف بننے کا یارا نہیں کیونکہ اب خدا کے سوا کوئی سہارا نہیں اور بلاشبہ ہمارے سوا کوئی ہمارا نہیں ۔۔۔ اور سی لیئے میرا کہنا یہ ہے کہ ”یہ اب یا کبھی نہیں کا مرحلہ ہے وگرنہ آگے تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے “ ۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply