’’ذرا ہٹ کے‘‘ پر ذرا ہٹ کے۔۔۔ عمار کاظمی

’’ذرا ہٹ کے‘‘ کی ٹیم کی نیت پر شک نہیں، نہ ہی ان پر کوئی تہمت باندھنا چاہتا ہوں، لیکن کیا ہے کہ آپ ہر دوسرے مہینے ’’ہم سب‘‘ کے آرٹیکلز کے حوالے دے کر اس کی لبرل سیکولر برانڈنگ کرتے ہیں اور کبھی بلاگرز کو موقع بے موقع کوریج دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک عرصے سے نوٹ کر رہا ہوں کہ آپ کے نزدیک نواز کے حامیوں کے علاوہ لبرل ازم اور جمہوریت پسندی کا کوئی دوسرا بیانیہ موجود ہی نہیں۔ مطلب حد ہوتی ہے ہر بات کی کہ آپ عرصہ دراز سے لبرل سیکولرز کے ایک ہی ہم خیال دھڑے کا بیانیہ پروموٹ کرتے چلے جا رہے ہیں، ایسے کہ جیسے، پاکستان میں اس نواز، نواز جمہوری سوچ کے علاوہ کوئی دوسرا روشن خیال یا جمہوریت پسند ہو ہی نہیں سکتا۔ مطلب یہ کونسی صحافت ہے کہ آپ ایک ہی نقطہ نظر کو پروموٹ کرتے ہی چلے جائیں؟ یعنی ہم کیا گلی میں جالی والی ٹوپیاں پہن کر گھومتے ہیں؟ میں ذاتی طور پر بلاگرز کو ایک عرصہ سے آبزرو کر رہا ہوں، ان کے حق میں لکھا اور ان کے پکڑے جانے سے پہلے سائبر لاء کے کالے قانون کیخلاف لکھا بھی اور اپنی حیثیت  کے مطابق سڑک پر مظاہرے بھی کیے۔ سلمان حیدر کے توہین پر پکڑے جانے پر  شدید احتجاج کیا، اس سکیورٹی اسٹیٹ میں رہتے اپنی جان کو رسک میں ڈالتے  ہوئے اس کے لیے کالم بھی لکھا، لوگوں کو سوشل میڈیا سے لے کر اخبار تک ہر فورم پر باور کروایا کہ وہ تو خود ایک اچھا شاعر ہے، شان شیر خدا میں لازوال نظم لکھ چکا ہے، ایسا شخص توہین مذہب کا مرتکب کیسے ہو سکتا ہے؟ اور آج بھی کہتا ہوں کہ اس پر توہین مذہب کا الزام جھوٹ تھا۔

تاہم اتنا عرصہ آبزرو کرنے کے بعد ایک   بات واضح طور پر اٹھائے جانے والے بلاگرز کی اکثریت پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہمیشہ سے نواز کی طرف کنی کھاتے رہے ہیں اور عمران کی ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے بھد اُڑاتے رہے ہیں۔ یہ ان کا اٹھائے جانے سے پہلے کا معمول تھا۔ آپ ان میں سے کسی ایک کی ماضی اور حال کی سوشل میڈیا پوسٹس اٹھا کر دیکھ لیجیے آپ کے سامنے  خود دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں سے کسی نے بھی فوج پر یا عدلیہ پر ہمارے برابر تنقید نہیں کی ہوگی، مگر شاید کمپنی کی مشہوری کے لیے اٹھائے جاتے ہیں۔ یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ڈرامہ رچا یا گیا اور اٹھائے جانے کے بعد پھر انھیں بھرپور میڈیا کوریج دی گئی،اور اس کار خیر میں ’’ذرا ہٹ کے‘‘ والے تمغہ جرات کے مستحق ہیں۔ جس کے چار سو فالورز تھے اس کے اٹھائے جانے کے بعد چالیس ہزار ہوئے اور جس کے پانچ ہزار تھے وہ ایک لاکھ سے اوپر چلے گئے۔ یہی برانڈنگ ہوتی ہے۔

ان ڈان نیوز والوں کو ہم کیوں نظر نہ آئے جب ہم چھ صحافی دوست پانچ سات دیگر دوستوں کے ہمراہ لاہور پریس کلب کے سامنےسائبر لا ء کے کالے قانون کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے؟ ہمیں تو ایسی کوئی کوریج نہ ملی؟ یا کہہ دیں ا ن کو بھی سائبر لاء  درست لگتا تھا؟ اور ان کی لبرل سیکولر انڈرسٹینڈنگ کے عین مطابق تھا؟ مطلب عجب ڈرامہ لگا رکھا ہے ’’سائبر لا ء پاس کرے نواز حکومت، بلاگرز اٹھائے جائیں نواز حکومت میں اور بلاگرز کریں مخالفت نواز کے مقابلے میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی‘‘۔ حضور لوگوں کو آپ پاگل سمجھتے ہیں کیا؟ ایک سرمایہ دار اور جانے مانے بنیاد پرست سیاستدان کی صبح شام لبرل برانڈنگ کا کام جاری ہے، اسے جمہوریت کی آخری اُمید ثابت کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی جا رہی ہے، اس شخص کو جمہوریت اور حریت کا استعارہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جو کبھی امیر المومنین بننے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے، کبھی عام  آدمی کے حق آزادی اظہار پر سائبر کرائم لاء  پاس کر کے ڈاکہ ڈالتا ہے، اور ایسے شخص کی حمایت کو آپ جمہوریت پسندی اور روشن خیالی کا نام دیتے ہیں۔

ذرا ہٹ کے والے مبشر زیدی بھائی کہتے ہیں یہ جمہوری کاز ہے، ارے بھائی نواز کی بے جا حمایت کونسی جمہوری خدمت ہے ؟ذرا ہمیں بھی پتہ چلے؟ سائبر لا ء جنرل ضیا کی شوریٰ نے پاس کیا تھا؟ اسی نوازی لبرل دھڑے کی سرکردہ رہنما اور افتخاری چوہدری جیسے سینئر  ترین پی سی او جج کے خلاف  نعرے مارنے والی عاصمہ بی بی کو آج نواز کیخلاف فیصلہ آنے پر پی سی او جج یاد آ رہے ہیں۔ جناب یہ کون سی اینٹی اسٹیبلشمنٹ آوازیں ہیں؟ سائبر لا ء والی یا امیر المومنین والی؟ یا پھر سرمائے کے تحفظ اور منی لانڈرنگ والی؟ سب با خبر لوگ اندر سے جانتے ہیں کہ کرپشن ثابت ہو چکی تھی، لیکن اگر میاں صاحب کو پانامہ کی منی لانڈرنگ میں دھرا جاتا تو پانامہ لیکس میں شامل دوسرے نام بھی گھیرے میں آ جاتے۔ اصولاً تو آج عمران خان سمیت سب نام نہاد کرپشن مخالف اصول پسندوں اور روشن خیالوں کا مطالبہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ ’’نواز کا ٹرائل تو آپ نے کر لیا اب پانامہ لیکس میں شامل باقی ناموں کا بھی ٹرائل فوری طور پر شروع کیا جائے‘‘۔ مگر کیا ہے کہ عدالتی فیصلے اور نواز کی اندھی محبت نے اس طرف بھی اُن عقل مندوں کو جانے نہ دیا جو آج کہتے ہیں کہ ہم نواز کے نہیں جمہوریت کے سپورٹر ہیں۔

عدالت نے جیسے ہی اقامہ پر فیصلہ دیا تو ان سب نے موقع غنیمت جانتے ہوئے نواز کو معصومین میں شمار کر لیا۔ مانا کہ کسی بھی با شعور مہذب ریاست کے وزیر اعظم کی نا اہلی ثابت کرنے کے لیے اقامہ بھی کافی تھا مگر ہمیں تو خود یہی اعتراض ہے کہ جب بڑے جرائم موجود تھے تو اس میں کیوں دھرا؟ پانامہ میں شامل باقی ناموں کو کیوں سپئیر کیا؟ ہم تو کسی بد عنوان کو جمہوریت کا تاج پہنانے کی خواہش نہیں رکھتے۔ ابھی کل افتخار چوہدری جیسے بندے کے لیے پوری قوم کو بیوقوف بنایا گیا، آج آپ سب کرائے کے لبرلز پھر قوم سے ویسی ہی ایک اور غلطی کروانے چلے ہیں، ہمیں جھوٹے ڈرامہ انقلاب کے ایسے کون سے لوز موشنز لگے ہیں کہ ایسے لوگوں کو رہنما بنا کر روز روز دھوکے کھائیں جن کا ماضی اسٹیبلشمنٹ کی ہمجولی کے طور پر گزرا ہے اور مستقبل کا کنڈکٹ دیوار پر لکھے جیسا ہے؟

افتخار چوہدری کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا، نظر آ رہا تھا کہ قوم کو دانستہ غلط جدو جہد پر لگایا جا رہا ہے، اور قوم بھی جانتے بوجھتے دھوکہ کھا گئی، سب عیاں تھا، مگر بھلا ہو اس وکلا تحریک کی لیڈرشپ کا کہ جس کے جھوٹے روپ کے درشن نے لوگوں کو رول آف لا ء کے جھوٹے نعرے پر پاگل بنا دیا۔ تو جب ابھی چند سال پہلے یہی دھڑا قوم کو جھوٹے خواب دکھا کر منہ کی کھا چکا ہے، تو ہم اس کے ساتھ مل کر لوئر مڈل کلاس روشن خیال یوتھ کو بار بار پاگل کیوں بنائیں؟ اگر میں اپنی بات کروں تو میں ایک دن بھی وکلا تحریک کے جھوٹے نعروں اور افتخار چوہدری سے متاثر نہیں ہوا۔ کبھی اس سے رول آف لا ء کی امید نہ رَکھی، رب کا شکر ہے کہ اس نے اتنی بصیرت دے رکھی تھی کہ دیکھ سکتے تھے کہ سب فراڈ اور دھوکا ہے۔ ابھی حالیہ برسوں میں قوم کو ’’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘ اعتزاز سُنا چکے تھے اب کیا سُننا باقی رہ گیا تھا؟ سرمایہ دار کی جمہوریت ہوگی باپ کے جیسی؟ کیا یہ سننا باقی رہ گیا ہے؟ کیا ہم سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے لوئر مڈل کلاس یوتھ کو سڑکوں پر ڈنڈے، لاٹھیاں اور گولیاں کھانے کے لیے چھوڑ دیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

قابلِ احترام وسعت اللہ خان، مبشر زیدی اور ضرار کھوڑو صاحب، ہمیں آپ لوگوں پر کوئی غصہ نہیں، کوئی الزام نہیں، بس سیدھی سی بات ہے، آپ لوگ جانے انجانے تسلسل کے ساتھ یکطرفہ طور پر پرو نواز لبرلز کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ اور یہ سب کرنے کے بعد اگر آپ ہم سے اُمید رکھیں کہ ہم آپ کو لبرل سیکولرز کا غیر جانبدار نمائندہ گردانیں تو یہ ہم نہیں کر سکتے۔ آپ کے ریڈیو پر ایک ہی سٹیشن لگتا ہے اور وہ ہے پرو نواز لبرلز کا۔ آپ کے نزدیک اس روٹ کے بغیر لوگ چاہے وہ پیپلز پارٹی کے ہوں، تحریک انصاف کے ہوں یا ہم جیسے آزاد منش، سب کے سب دائرہ ء  لبرل ازم سے خارج ہیں۔ جناب آپ بھی اپنی طرز کے مُلا ہی ہیں۔

Facebook Comments

عمار کاظمی
عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔ آپ سماجی مسائل پر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply