• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان بمقابلہ بھارت،عمران خان بمقابلہ نریندر مودی۔۔۔۔فراست محمود

پاکستان بمقابلہ بھارت،عمران خان بمقابلہ نریندر مودی۔۔۔۔فراست محمود

لفظ ” پاکستان بمقابلہ بھارت” جب بھی نظروں سے گزرتا ہے ایک عجیب سی سنسنی دونوں ملکوں کے باشندوں کے جسموں میں ایسے دوڑنے لگتی ہے کہ پھر ” جوش سے نہیں ہوش سے” مشورہ دینے اور کہنے والے بھی خود اتنے جوش میں آ جاتے ہیں کہ تان مقابلہ کرنے پہ ہی ٹوٹتی ہے۔کہتے ہیں جہاں محبت زیادہ ہوتی ہے وہاں پہ اگر نفرت جنم لے لے تو پھر وہ نفرت محبت سے شدید ہوا کرتی ہے۔چونکہ پاکستان اور بھارت کے باسی ایک عرصہ تک پیار و محبت جیسے اندھے جذبے میں ایسے گندھے رہے ہیں کہ درمیان میں مذہب و مسلک اور وطن کی دیوار تک قائم نہ تھی بلکہ انسانیت اور انسانی اقدار کی بنیاد پہ معاشرہ قائم تھا اور جونہی وطن و مذہب کی بنیاد پر یہ لوگ جدا ہوئے ہیں تو پھر دونوں اطراف میں ایسی پختہ نفرت نے جنم لیا ہے کہ ایک ساتھ رہنے والوں نے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے سے بھی گریز نہ کیا۔
اگست 1947 سے لے کر فروری 2019 تک سوائے نفرت کے کوئی چیز بھی مشترک نظر نہ آئی۔کھیل کے میدان ہوں یا صنعتی شعبے ،سماجی سیاسی اور مذہبی تہواروں میں بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں مصروف نظر آئے۔حتی کہ دونوں ممالک عالمی سطح پہ دو ہمسائے کے طور پہ نہیں دو دشمن کے طور پہ پہچانے جانے لگے اور پاکستان بھارت حالیہ کشیدگی بھی اسی نفرت کے تناظر میں پھیل گئی ہے جو سالوں سے لاوہ بن کر پل رہی ہے۔
سیاست کی بات کی جائے تو نریندر مودی ایک متعصب ہندو اور پُر تشدد لیڈر کے طور پہ وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جو کہ مسلمانوں خصوصاً پاکستانی مسلمانوں سے اندھی نفرت سے بھی زیادہ نفرت کرتے نظر آ رہے ہیں جب کہ عمران خان صاحب جن کی سیاست بائیں بازو سے شروع ہوئی اور وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے بعد دائیں اور بائیں دونوں بازوؤں کے درمیان جھول رہی ہے چونکہ ہمارا موضوع فی الحال سیاست نہیں بلکہ پاکستان بمقابلہ بھارت حالیہ کشیدگی ہے اس لئے حالیہ کشیدگی پہ بات کرنے کے  لئے دونوں وزرائے اعظم کی سوچ کا مختصر تعارف کرانا پڑا۔سیاسی موازنہ پھر کبھی تفصیل سے کیا جائے گا۔
پلوامہ حملے کے بعد بھارت جو عالمی سطح پہ پاکستان کو شکست دینا چاہتا تھا جو پاکستان کو پلوامہ حملے کا عالمی برادری کی نظروں میں   ذمہ دار ٹھہرانا چاہتا تھا مکمل طور پہ ناکام ہوا اور ذہنی طور پہ  شکست خوردہ   نظر آیا۔
بھارت میں چونکہ الیکشن قریب ہیں تو مودی ایک بار پھر متعصب سوچ کو پروان چڑھا کر منصب پہ براجمان ہونا چاہتا تھا مگر عالمی سطح پہ مودی پاکستان کو اس حملے کا  ذمہ دار قرار نہ دلوا سکا تو مودی کو ایسا ذہنی جھٹکا لگا کہ  وہ اپنی شرمندگی اور شکست کو چھپانے کے لئے جنگی حملوں کا سہارا لینے گا اور بھارتی عوام کی نظروں میں سر خرو ہونے کے لئے عقلی بصارت سے محروم ہو کر جنگی جنون میں ایسا مبتلا ہوا کہ منگل کے روز بالا کوٹ کے علاقے میں ایک ناکام سا حملہ کرنے کی حماقت کر بیٹھا۔اور پھر بدھ کو دوبارہ دو جہاز پاکستان  کی سرحد  کے پار بھیج دئیے جنہیں پاکستانی فضائیہ نے نہ صرف مار گرایا   بلکہ اپنے مضبوط دفاع کا بھی مظاہرہ کیا ۔
عمران خان صاحب وزیراعظم پاکستان ایسے وقت میں بالکل مختلف روپ میں نظر آئے ہیں جو ایک اشتعال انگیز کرکٹر سے ایک سلجھے ہوئے عوامی اور عالمی لیڈر کے طور پہ سامنے آئے ۔ جو دشمن مودی کو بھی عقل و حکمت کا مشورہ دے رہے ہیں جو پاکستانی اور بھارتی دونوں قوموں کو مشترکہ سمجھاتے نظر آئے کہ جنگ مسئلوں کا حل نہیں بلکہ مسائل کا گڑھ ہوا کرتی   ہے اور علاقوں اور قوموں کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔میدان جنگ سجا ہو اور سپہ سالار لشکر مخالفین کو پھر بھی جنگ سے روکنے کا مشورہ دے رہا ہو امن کا درس دے رہا ہو نفرت مٹانے کی بات کر رہا ہو تو یقیناً ایسا شخص نہ صرف عوامی بلکہ عالمی سطح پہ محبتوں کا مستحق ٹھہرتا ہے جو اپنے گھر کے ساتھ ساتھ ہمسایوں اور دنییا کی بہتری کو مد نظر رکھے۔
وزیراعظم پاکستان کا پیغام نہ صرف بھارت بلکہ عالمی ممالک کو باور کرانے کے لئے کافی ہے کہ پاکستان دہشت گرد ی کی نہ صرف مزمت کرتا ہے بلکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہمیشہ مثبت کردار ادا کرتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply