ہمیں ابھے نندن کو نہیں مارنا۔۔۔۔ثاقب ملک

ہمارے ہاں یہ ماتم کثرت سے کیا جاتا رہا ہے کہ دیکھو بھارت میں جمہوریت روز اول سے قائم ہے، اسی وجہ سے وہاں کی جمہوری روایات مستحکم ہیں. میڈیا آزاد ہے، سپریم کورٹ متحرک ہے، فوج بیرکوں میں ہے، صدر مسلمان رہے ہیں، وزیراعظم سکھ رہے ہیں. لوگوں میں انتہا پسندی کم ہے. سیاست دان سلجھے ہوئے ہیں. بھارت دنیا میں” شائننگ انڈیا ” کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے. وہاں امن و برداشت کی نہریں بہہ رہی ہیں.

ساتھ ہی یہ ڈھول بھی دھڑا دھڑ پیٹا جاتا ہے کہ پاکستان میں فوج ہماری خارجہ پالیسی پر قابض ہے. پاکستانی انتہا پسند زیادہ ہیں. برداشت کم ہے. میڈیا غیر ذمہ دار ہے. عدالتیں نظریہ ضرورت کی پٹھو ہیں. سیاسی جماعتوں اور لیڈروں میں دانش کی کمی ہے.

پچھلے چند دنوں نے یہ متھ اڑا کر رکھ دی.

پاکستان میں شدید سیاسی اختلافات کے باوجود تمام پرو اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی قوتیں پاک فوج اور حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں. ادھر سرحد پار راج ٹھاکرے مودی پر پلوامہ حملے کا الزام لگا رہا ہے. محبوبہ مفتی پاکستان کی تعریفیں کر رہی ہے. مختلف ریاستوں کے وزراء اعلیٰ حکومت کے خلاف سخت احتجاج کر رہے ہیں. اتحاد نو دو گیارہ ہوچکا ہے.

پاکستانی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اپنی غیر ذمہ داری کی تاریخ کے باوجود حیران کن طور شاندار انداز میں مدبرانہ، اور برداشت پر مبنی رپورٹنگ کر رہا ہے. جدید سیکولر انڈیا کی حالت یہ ہے کہ میڈیا کی باچھوں سے جھاگ نکل رہی ہے. اپنے جنگلی پاگل پن کا مظاہرہ کررہا ہے. عوام جنگی رو میں بہہ کر باؤلے ہو رہے ہیں. ادھر کے حالات اتنے خراب ہے کہ ہمارے اوریا مقبول جان بھی امن و آشتی کے پیامبر لگ رہے ہیں. ہمارے لوگ بھی کسی جنگی جنون میں مبتلا نظر نہیں آتے. اکثریت کسی قسم کی جنگ کے حق میں نہیں ہے.

ہماری فوج کے ایڈونچرز پر بارہا تنقید ہوتی رہتی ہے. ماضی میں ایسا ہوا تھا. لیکن آج ہمارے فوجی ترجمان کی بات شروع امن سے ہوتی ہے اور ختم بھی امن پر ہوتی ہے. یہ صرف باتیں نہیں عملدرآمد بھی ہو رہا ہے. ابھے نندن ہمارے جوانوں کے اخلاق کی ستائش کر رہا ہے.

ہمارے وزیر خارجہ نے تین چار دنوں میں پوری دنیا میں پاکستانی موقف پہنچایا دیا. کوئی بھی کھل کر پاکستان کی مخالفت نہیں کر رہا. یہ سفارتی لحاظ سے کامیابی سمجھی جاتی ہے. پاکستان اور بھارت دونوں کو برابر ڈیل کیا جا رہا ہے. انڈیا کی وزیر خارجہ کے بیانات کا سر پیر ہی نہیں. سیکرٹری خارجہ سوالات لینے پر ہی تیار نہیں.

ایسا آخر کیوں ہے؟

ہمارے مدرسے کا دینی جوان اور ہمارے انگریزی تعلیم یافتہ چھوکرے دونوں ہی امن کی بات کر رہے ہیں. اکا دکا لوگوں کو چھوڑ کر سب ہی جنگی ہسٹریا سے محفوظ ہیں. بھارت میں بھی سدھو، سمیت کئی لوگ سلجھی بات کرنے رہے ہیں مگر انکی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے.

تفصیل سے تو پھر کبھی غور کیا جانا چاہئے. مختصراً میرا خیال ہے کہ جب اوپر سے لیکر نیچے تک لوگوں کو یقین ہو کہ ہم سچائی پر ہیں تو رویوں اور اخلاق میں خود بخود بہتری آ جاتی ہے. ہم سچے ہیں کیونکہ کشمیریوں کی مظلومیت حقیقت ہے. ہم حق پر ہیں کیو نکہ بھارت ظلم کررہا ہے.

ہمیں امن ہی درکار ہے. ہم سلامتی والے ہیں.

ابھے نندن تم اپنے گھر جاؤ. ہم نے کسی ابھے نندن کو نہیں مارنا . تم ہمارے مقبول حسینوں کو پاگل نہ کرنا.

بس ایک سوال ہے.

کیا ہی اچھا ہو کہ امن کی یہ چاہت اپنے سبز دیس کے مظلوموں کے لئے بھی اسی کشادگی سے پیدا کی جائے؟

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:یہ تحریر ثاقب ملک صاحب کی فیس بک وال سے کاپی کیا گیا ہے!

Facebook Comments

ثاقب ملک
رائٹر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply