• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شہ رگ: ایک پاکستانی قصبہ جس میں لڑکے مردوں سے محفوظ نہیں ہیں۔” اکبر نوتیزئی “

شہ رگ: ایک پاکستانی قصبہ جس میں لڑکے مردوں سے محفوظ نہیں ہیں۔” اکبر نوتیزئی “

بعض اوقات بعض جگہوں میں آپ ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جو انسانی شکل میں بھیڑیے ہوتے ہیں۔
شہ رگ کا قصبہ ایسی ہی ایک جگہ ہے۔
شہ رگ بلوچستان میں ضلع ہرنائی کی ایک وادی میں واقع ہے جس میں 300 سے 400 تک مقامی کانیں ہیں جن میں 3000 مرد کام کرتے ہیں۔ ان کانوں میں بچے بھی کام کرتے ہیں لیکن یہ سرکاری گنتی میں شمار نہیں ہوتے۔
اس ضلع میں بنیادی طور پر پشتون آباد ہیں لیکن یہاں کے پہاڑی علاقوں میں مرئی بلوچ بھی بکھرے ہوئے ہیں۔ شہ رگ میں قبائلی علاقوں کی ملکیت پشتون کے پاس ہے جو کہ قصبے میں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ شہ رگ تحصیل کا جنوبی حصہ وہاں ہے جہاں کوئلے کے پہاڑ موجود ہیں۔ اور یہی جگہ ہے جہاں مرئی رہتے اور کام کرتے ہیں۔
شہ رگ میں مقامی رہائشی پشتون کے الفاظ میں “ان پہاڑوں کی مہربانی سے کوئی بھی بے روزگار نہیں رہ سکتا۔ اگر کوئی 200 آدمی ابھی میرے پاس لائے تو میں انہیں مقامی کانوں میں اسی وقت کام پر رکھ سکتا ہوں۔”
یہی وجہ ہے  کہ یہاں زیادہ تر کارکن خیبر پختونخوا  اور پنجاب کے ہیں۔ یہاں کارکنوں کی ایک بڑی تعداد افغان بارڈر سے بھی آئی ہے۔ ایک ساتھ یہ 80 فیصد ورک فورس فراہم کرتے ہیں جبکہ باقی 20 فیصد کارکن مقامی اور بلوچ ہیں خاص طور پر مرئی قبیلے کے ہیں۔
شہ رگ روائتی طور پر ایک محب وطن معاشرہ ہے اور مذہبی بھی ہے۔ عورتیں بہت کم گھروں سے باہر آتی ہیں اور گھروں میں مردوں کی سربراہی چلتی ہے۔
لیکن شہ رگ مکمل طور پر بلوچستان سے ہٹ کر ہے۔ یہاں کوئی نہیں جانتا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ نہ ہی ملک میں کسی کو شہ رگ کی فکر ہے۔
اس تنہائی میں شہ رگ نے اپنے ایک بڑے اور گندے راز کو چھپا کر رکھا ہوا ہے اور وہ راز یہ ہے کہ اس کے بچے مردوں سے محفوظ نہیں ہیں۔
ذمہ داری کے نام پر  جب اس سال کے آغاز میں 13 سالہ کلیم دیر سے کوئلے کی کانوں میں پہنچا تو اسے اپنے پہنچنے پر زیادہ خوش آمدید کی امید نہیں تھی۔ لیکن کان میں موجود لوگوں کی ایک پوری کالونی اس دن کے انتظار میں تھی۔
لیکن جیسے ہی اس نے پہاڑ کی الگیلانی شاخ پر قدم رکھا جہاں تقریبا ً آٹھ کوئلے کی کانیں موجود ہیں، تو جوش حد سے بڑھ گیا۔ یہ خبر کہ دھیر کے کوئلے کے کان کے کارکن ایک نئے لڑکے کو کانوں میں ساتھ لائے ہیں آگ کی طرح پھیل گئی۔ وہ قصبے کے لوگوں کی باتوں کا مضمون بن گیا حتی کہ دوسری کانوں کے لوگ بھی اسے دیکھنے آئے۔ کلیم ایک نئی دلہن نہیں تھی لیکن جلد ہی ایک ایسا نیا لڑکا بن گیا جس کی کھوج میں کئی مرد تھے۔
میں شہ رگ شہر سے نکل کر ایک دن سویرے سویرے کلیم سے ملنے پہاڑوں پر گیا جس کے بارے میں مجھے ایک مقامی نے بتایا تھا۔ 20 دوسرے لوگوں کے ساتھ، جن میں اس کی عمر کے دو لڑکے بھی تھے کلیم پہاڑ کی چوٹی پر ایک پتھر اور گارے کی ایک جھونپڑی میں مقیم تھا۔ وہ صرف دو رہائشی کمرے اور ایک کچن ہے۔ جس کمرے میں ہم بات چیت کرنے بیٹھے وہاں جلنے والے چولہے کی روشنی کے علاوہ کسی قسم کی روشنی نہیں تھی۔
کلیم نے ایک پیلی سپورٹس شرٹ کے اوپر کالی شلوار قمیص پہنی ہوئی ہیں۔ قسمت سے اس وقت شام کے 3 بجے وہ گھر میں اکیلا ہے کیوں کہ اس کے بڑے ساتھی غالبا 1700 فٹ نیچے کوئلے کے گڑھے میں کام پر لگے ہوئے ہیں۔
چولہے پر ایک بڑا چائے کا برتن پڑا ہے جس میں پانی ابل رہا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ پچھلے ہفتے سے شہ رگ میں موسم کافی ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ چولہے کے قریب اکیلے بیٹھے ہوئے وہ صاف ستھرا دکھائی دیتا ہے، اور اس کے کالے بالوں کو درمیان سے کنگھی کی ہوئی ہے۔ ہمیں خوش آمدید کہنے کے بعد وہ کوئی لفظ نہیں بولتا، اس کے بجائے وہ 2 کپ دھونے کے لیے باہر نکل جاتا ہے۔ کچھ کہے بغیر وہ ہمیں قہوہ پیش کرتا ہے۔
کلیم بہت شرمیلا ہے۔ وہ پوچھے گئے تمام سوالات سے بچنا چاہتا ہے۔ زبردستی جوابات دینے کے ایک سلسلے کے بعد وہ پھٹ پڑتا ہے: ”میرے والد نہیں ہیں۔ میں یہاں دیر میں موجود اپنی فیملی کی مالی معاونت کے لیے کام کرنے آیا ہوں۔”
کس قسم کا کام؟
“میں یہاں ایک باورچی ہوں”، وہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتا ہے۔
کلیم شہ رگ میں اپنے بھائی کی جگہ پر آیا ہے۔ وہ چار بھائی ہیں۔ اس کے مطابق وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ پرائمری تک پڑھا ہے لیکن فیملی کی غربت کی وجہ سے اسے سکول چھوڑنا پڑا۔
“میرے سمیت تمام بچے یہاں اس لیے کام کرتے ہیں کہ یا تو ہمارے والدین نہیں ہیں یا وہ مفلوج ہیں،” کلیم مزید بتاتا ہے۔ “مجھے ماہانہ 10000 روپے تنخواہ ملتی ہے۔”
شہ رگ کی کوئلے کی کانوں کی گندی حقیقت یہاں آتی ہے۔
کلیم کی طرح کے بچوں کو خیبر پختونخوا سے اور حتی کہ افغانستان سے بھی یہاں ہم جنسی کے مقصد کے لیے لایا جاتا ہے۔ انہیں بڑے کارکنوں کے لیے جنسی ساتھی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لڑکے یا تو انکار ہی نہیں کرتے یا پھر جنسی تعلقات کے عوض پیسے لیتے ہیں۔
پہلے کلیم اپنی اس حالت کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ اگر اس سے پوچھا جاتا کہ اس کے جسم کو بُرے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے تو وہ کوئی جواب نہیں دیتا۔ بس وہ کمرے سے باہر نکل جاتا۔
کانوں میں پہلی شفٹ شام 3 بجے سے تھوڑی دیر بعد ہی ختم ہوتی ہے اور کارکن باہر آنا شروع ہوتے ہیں۔ وہ سب ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ہم جلدی سے اپنا موضوع بدل دیتے ہیں۔ اب بات کارکنوں کو درپیش خطرے کے بارے میں شروع ہوتی ہے۔ جیسے ہی ہم نکلنے لگتے ہیں میں کلیم کو ایک پتھر پر ایک مرد کے ساتھ بات کرتے دیکھتا ہوں۔
“کلیم ہمارا خاص لڑکا ہے”، میرے ساتھ موجود ایک کارکن بتاتا ہے۔ “اسے جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ اس کے ساتھ ہم جنسی کی دی جاتی ہے نہ کہ کام کی۔ وہ اسے مقامی کانوں میں جانے تک نہیں دیتے تا کہ وہ کالا نہ ہو جائے۔”
ایسا سلوک 16 سالہ شاہ فرمان کے ساتھ نہیں کیا جاتا جو 2017 میں سوات سے یہاں آیا ہے۔ تب سے وہ 35000 روپے تنخواہ پر کوئلے کو کاٹنے کا کام کرتا رہا ہے۔ لیکن جب کہ وہ کانوں میں ہوتا ہے تو اسے باقاعدہ مرد اپنی حوس کا شکار بناتے ہیں۔ کوئی بھی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا جو شاہ فرمان کے ساتھ ہر روز ہوتا ہے۔ “وہ مجھے بتاتے ہیں کہ یہ معمول ہے۔”
جنسی زبردستی کرنے والے ہر شکل اور سائز میں ملتے ہیں۔ لیکن وہ خود کو عام زندگی گزارنے والے عام انسان کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر ثاقب کو لیجیے جو تقریبا 40 سال کا مقامی کارکن ہے۔ وہ ایک لمبے قد کا آدمی ہے۔ اس کی داڑھی اور مونچھوں میں سفید دھبے ہیں۔ ایک دن ہم اس سے ملتے ہیں، اس نے ایک سفید ٹوپی پہنی ہوئی اور ایک پرانی چادر لپیٹی ہوئی ہے۔ وہ پچھلے پندرہ سالوں سے کان کے کاروبار میں ہے۔
ثاقب ہمیں شہ رگ شہر سے ہٹ کر ہرنائی روڈ کے نزدیک ایک کھیل کے گراؤنڈ میں ملتا ہے۔
“جو معلومات آپ مجھ سے حاصل کرنا چاہتے ہیں عجیب ہے،” وہ چلاتا ہے جب میں اس سے سوال پوچھتا ہوں۔ “میں کیسے آپ کو ان لڑکوں کے بارے میں بتا سکتا ہوں جن کے ساتھ جنسی زبردستی کی جاتی ہے؟”
لیکن جب اس کے اوسان بحال ہوتے ہیں وہ بات کرنا شروع کرتا ہے۔
“ہاں میں نے کوئلے کی کانوں میں اور باہر بھی لڑکوں کے  ساتھ ہم جنسی کی ہے،” ثاقب کہتا ہے۔ “یہ نئے سواتی اور افغانی نہیں ہیں جو ان کے جنسی ساتھی ہیں۔ میرے پاس کوئی ساتھی نہیں ہے کیوں کہ میں مقامی ہوں۔ میرے پاس اس کی گنجائش نہیں ہے۔”
کوئلے کی کانیں 6000 فٹ سے زیادہ گہرائی پر ہیں۔ ثاقب کے مطابق بچوں کو بھی وہاں جانے نہیں دیا جاتا۔
“ہمارے ساتھ کوئلے کی کانوں میں 2 یا 3 لڑکے کام کرتے ہیں،” ثاقب بات سے پردہ اٹھاتا ہے۔ “کوئلے کی کان کی انتہائی گہرائی میں کوئلے کو کاٹنے کے وقت بڑی عمر کے کارکن ان کے ساتھ ہم جنسی کرتے ہیں۔ اور یہ وہ روزانہ کرتے ہیں۔”
وہ رک کر دور تک نظر دوڑاتا ہے۔
“جتنا آپ کوئلے کی کان میں کام کرتے ہیں اتنی ہی اس سے نفرت ہونے لگتی ہے۔”
لگتا ہے وہ کہنا چاہتا ہے کہ جنسیت کام سے جان چھڑانے کا ایک بہانہ ہے۔
شہ رگ میں اس سرگرمی کی سب سے مرکزی جگہ ایک بس سٹاپ ہے، جو لوگ کوئلہ پہاڑوں سے قصبے میں لاتے ہیں یا قصبے سے نکلنا چاہتے ہیں وہ چائے اور ریفریشمنٹ کے لیے ایک اڈے پر رکتے ہیں۔
ہم اڈے میں ایک ریسٹورنٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمارے اردگرد درجنوں چھوٹے بڑے ٹرک ہیں۔ ان میں سے کچھ کانوں سے واپس آ چکے ہیں اور اگلی منزل کی طرف روانہ ہونے کو ہیں۔ اس چہل پہل میں ہم ایک شخص سیرا پیشی ‘ریڈ کیٹ’ کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
سیرا پیشی اصل میں ایک 56 سالہ بزرگ ہے جو اس علاقے میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے حوالے سے بدنام شخص ہے۔ اڈے میں اسے ریڈ کیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے کیوں کہ اس کی جلد، داڑھی اور مونچھیں لال رنگ کی ہیں۔ وہ ایک کونے سے باہر آتا ہے اور اس نے کالی چادر لپیٹی ہوئی ہے، ایک لال افغانی ٹوپی اور کوٹ پہنے ہوئے ہیں۔ وہ ہم سے ملتا ہے اور کچھ نہیں کہتا۔ میں اپنا چائے کا کپ اس کے سامنے رکھتا ہوں جس کو لینے سے وہ انکار کر دیتا ہے۔ اس کے بجائے وہ اپنی قمیص کی جیب سے چند بادام نکالتا ہے، پتھر کے ساتھ ان کا چھلکا اتارتا ہے اور انہیں چبانا شروع کر دیتا ہے۔
“آپ کو لگتا ہے کہ میں پاگل ہوں جو ایک ایسے بندے سے بات کروں گا جس کے ہاتھ میں قلم اور کاپی ہوں؟”
سیرا پیشی بادام کھاتا رہتا ہے اور انتظار کرتا ہے جب تک کہ میں اپنا قلم اور کاپی اپنے بیگ میں واپس رکھ دوں۔ آخر کار ثاقب کی طرح وہ بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے کا جرم قبول کر لیتا ہے۔
“بعض اوقات بچے خود ہی آتے ہیں،” سیرا پیشی دعویٰ کرتا ہے۔ “اگر نہیں آتے تو میں بوجھ لیتا ہوں کہ کون سا بچہ زیادتی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔”
اس کی یہ بات مجھے حواس باختہ کر دیتی ہے۔ اڈے میں بچوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ بعد میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ان میں زیادہ تر بچے 17 سے 18 سال کے ہیں۔ ان میں سے کتنے خطرے میں ہیں؟
اگر سیرا پیشی پر یقین کیا جائے تو ان سب بچوں کے ساتھ کسی نہ کسی نے جنسی زیادتی ضرور کی ہے۔ اس کے شکاروں میں ایک 9 سالہ ذوالفقار ہے جو کوئلے میں سے گارا، ریت اور پتھر چھاننے کا کام کرتا ہے۔ وہ تب سے کام کر رہا ہے جب 6 سال کا تھا۔
“یہ (جنسی زیادتی) کوئی نئی چیز نہیں ہے،” ذوالفقار جنسی زیادتی کے سوال کو ایک طرف موڑ دیتا ہے۔ “کیوں کہ ہمیں صرف پیسے سے غرض ہے۔ ہمارے والدین ہمیں یہاں پیسہ کمانے بھیجتے ہیں، اس کا کوئی مسئلہ نہیں کہ اسے کیسے کمایا جائے۔”
ذوالفقار کے 4 بھائی اور ایک بہن ہے۔ اس کے والد بوڑھے ہیں اور کام کے لائق نہیں۔
اور وہ اڈے میں کام پر لگ جاتا ہے کیوں کہ اس کی والدہ کی خواہش ہے کہ وہ جلد سے جلد کچھ نہ کچھ کمانے لگ جائے۔
“ایک مرتبہ میری والدہ نے پڑوسیوں کے ایک بچے کو کام پر جاتے دیکھا،” 9 سالہ ذوالفقار بتاتا ہے ۔ “میری والدہ دیکھتی ہے کہ یہ بچے آ کر اپنی ماں کو پیسے پکڑاتے ہیں جو انہوں نے اڈے میں کام کر کے کمائے ہوتے ہیں۔ تو وہ مجھے بھی کام پر بھیجنا شروع کر دیتی ہے۔”
ذوالفقار کا خاص کام روزانہ ٹرک لوڈنگ میں مدد کرنا ہے، وہ اپنے چھوٹے کندھوں پر کم از کم 60 کلو کوئلہ اٹھا سکتا ہے۔
“یہ سب میں خود کرتا ہوں، میں دوسرے بچوں کے ساتھ روزانہ 4 ٹرک لوڈ کرتا ہوں،” وہ سردی سے بچنے کے لیے چادر لپیٹتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے۔
“ہر ٹرک کے لیے چار لڑکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بدلے ہمیں روز کے 400 روپے ملتے ہیں۔”
لیکن ایسے کاموں کے لیے مردوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر کیسز میں انہیں بڑے مردوں کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کا اپنے جسموں سے اختیار ختم ہو جاتا ہے اور مرد غیر مناسب انداز سے ان کے جسموں کو استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ اس کی کم از کم حد ہے جو کہ ریپ سے بھی زیادہ ہے۔
“میں ایک ٹرک ڈرائیور بننا چاہتا ہوں،” ذوالفقار بتاتا ہے، “اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔”
اس کے خوابوں کے بارے میں جانچتے ہوئے گندی حقیقت آشکارا ہوتی ہے: ٹرک ڈرائیور اپنے ساتھ ایک لڑکا رکھتے ہیں جسے وہ جنسی طور پر اپنی مرضی سے استعمال کر سکیں۔۔ مثال کے طور پر 12 سالہ فقیر۔ پورا دن وہ ٹرک کی ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھتا ہے اور اسے مردوں کی طرف سے صرف ہم جنسی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے روزانہ کا 400 روپے معاوضہ ملتا ہے۔
اگرچہ بچوں کو اڈے پر کوئی نہ کوئی کام مل جاتا ہے، لیکن جب وہ کوئی کام نہیں کرتے، تو جنسی زیادتی کی آپشن ہمیشہ سے ان کے لیے موجود ہوتی ہے۔ سیرا پیشی دعوی کرتا ہے ایسے بچے بھی ہیں جو اس کے پاس خود آتے  ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ انہیں اس کی قیمت دے گا۔ ایسے 20 بچوں کے انٹرویو سے بھی یہ تجویز ملتی ہے کہ خالی ہاتھ گھر لوٹنے کے ڈر سے وہ جنسی زیادتی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ بعض معاملات میں، بچوں کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں یا انہیں کسی تحفے کا وعدہ دیا جاتا ہے۔ ریڈ کیٹ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ایک بچے کو موبائل دینے کے وعدے پر روزانہ استعمال کرتا ہے۔ ان سبز باغات میں منشیات بھی شامل ہیں۔
شہ رگ کے بچوں کے بیک گراونڈ انٹرویوز سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے والدین زیادہ تر ان کی جنسی زیادتی سے با خبر ہوتے ہیں۔ لیکن وہ ایسی کسی شکایت کی صورت میں اپنے کان بند کر لیتے ہیں کیوں کہ بچے پیسے کما رہے ہیں۔ اور انہیں ہر حال میں پیسہ چاہیے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہ رگ کے بچوں کی دوستی اپنے والدین کی عمر کے مردوں کے ساتھ ہوتی ہے۔
اسی طرح سیرا پیشی ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ٹرک کے پاس کھڑے بچوں کو استعمال کرتا ہے۔ ایک بچہ اس کا پسندیدہ ہے، وہ روزانہ اسے سہ پہر میں بلاتا ہے۔ جنسی عمل سیرا پیشی کے گھر کی چار دیواری کے اندر ہوتا ہے جہاں بچوں کو لگتا ہے کہ وہ محفوظ ہیں۔
لیجنڈ بتاتا ہے کہ “12 سالہ ناصر ایک خوبصورت اور ہینڈ سم بچہ تھا جیسے زیادہ تر افغانی لڑکے ہوتے ہیں۔”اس کا خاندان افغانستان سے آیا تھا اور پاکستان میں آباد ہوا تھا۔ کمائی کے لیے ناصر کان کے کارکنوں کو روز مرہ کی اشیا بیچتا تھا۔ کارکن اسے حوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے۔ وہ اس سے انکار کرتا لیکن اکثر اسے اسی بندے کے پاس جانا پڑتا کیوں کہ اسے فیملی کے لیے اخراجات کی ضرورت ہوتی۔
ناصر کا بد ترین خواب ایک دن ٹوٹ جانا تھا۔
وہ خود ہی ایک کان میں گیا اور واپسی پر راستے میں غیر قانونی طور پر دو افغانی کارکنوں کے ہاتھوں اغوا کر لیا گیا۔ اس کے ساتھ تشدد آمیز زیادتی کے بعد انہوں نے اسے پولیس اور انتقام کے ڈر سے اسے قتل کر دیا۔ انہوں نے اسے ایک قریبی کان میں دفن کر دیا تا کہ پولیس اور اس کی فیملی کو اس کا پتہ نہ چل سکے۔ اس سے پہلے کہ اس کی قبر کسی کو ملتی ملزمان قندھار افغانستان کی طرف بھاگ چکے تھے اور انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اس کہانی کو کچھ مقامی لوگ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ زیادہ تر جنسی زبردستی کے واقعات کانوں اور ارد گرد کے علاقوں میں ہوتے ہیں نہ کہ شہ رگ قصبے میں۔ باقی لوگ واضح کرتے ہیں یہ صرف ایک بہانہ ہے۔
ہرنائی روڈ کے ساتھ شہ رگ ٹاؤن میں پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا دفتر واقع ہے۔ اس کی ویب سائٹ پر پی ایم ڈی سی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے شہ رگ میں 6551 ایکڑ زمین لیز پر لی ہوئی ہے۔ بلیک ٹی کا ایک کپ پینے کے بعد نوجوان آفس اسسٹنٹ شاہ عباس شاہ دعوی کرتے ہیں کہ قصبے میں اس ڈیپارٹمنٹ کے پاس 300 سے 400 کوئلے کی کانیں ہیں لیکن ان میں صرف 500 یا اس سے زائد ملازمین رجسٹرڈ ہیں۔
اگرچہ شاہ ای اوز کو بتاتے ہیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر کانوں میں حفاظتی اقدامات کی نگرانی کرتے ہیں، اسی طرح وہ کانوں میں کام کرنے والے بچوں کے تحفظ کا خیال بھی رکھتے ہیں، لیکن کانوں کے اندر کی حقیقت بالکل مختلف ہے۔ ایک اقدام جو حکومت کی طرف سے لیا گیا یہ ہے کہ انہوں نے کانوں میں کام کرنے والے کارکنوں کے بچوں کے لیے ایک سکول کھولا ہے۔ اگرچہ یہ ایک ہائی سکول ہے لیکن دیکھنے میں یہ کسی خستہ حال ریاست کا کوئی پرائمری سکول دکھائی دیتا ہے۔ اس کی عمارت کی دیواریں ہلی ہوئی ہیں۔ نہ ہی اس میں پانی ہے اور نہ باتھ روم (نہ بچوں کے لیے اور نہ اساتذہ کے لیے)۔ پھر بھی یہ بچوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے، زیادہ تر اسلامیات کے استاد حافظ بشیر کی محنتوں کی وجہ سے۔
بشیر سفید کپڑوں پر ایک کالی واسکٹ کے ساتھ ساتھ ایک سفید پگڑی پہنتے ہیں۔ ان کے ساتھ اساتذہ کے درمیان وہ ایک سلجھے ہوئے استاد کہلاتے ہیں۔ وہ کوئلے کی کانوں میں جاتے ہیں اور کارکنوں کو بتاتے ہیں کہ اپنے بچوں کو سکول بھیجیں بجائے اس کے کہ انہیں کام پر لگائیں۔ بعض اوقات کارکن ان کی بات پر اثر لے لیتے ہیں اور بعض اوقات انہیں وہان سے بھگا دیا جاتا ہے۔
بشیر کہتے ہیں کہ “کسی بھی چیز سے بڑھ کر کانوں میں کام کرنے والوں کے بچوں کو سکول بلانے کا ان کا اہم مقصد ان کو معاشرتی برائیوں سے بچانا ہے۔” وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان بچوں کے ساتھ باقاعدگی سے جنسی زبردستی کی جاتی ہے۔ یہی چیز ہمیشہ ان کی تشویش کا باعث رہتی ہے۔

شہ رگ بلوچستان کے ان مقامات میں سے ہے جہاں بچوں کو جنسی زبردستی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جنسیت ان کے لیے یا تو کمائی کا ذریعہ ہے  یا کسی پریشانی سے بچنے کے لیے ملازمت حاصل کرنے کا ذریعہ۔ اور بچوں کے درمیان جنسی زبردستی کو اس حد تک عام کر دیا گیا ہے کہ بچے خود اس چیز کی خواہش کرتے ہیں۔ حتی کہ یہ خواہش ان میں 16 سال کی عمر سے پہلے پیدا ہو جاتی ہے۔

بشیر بتاتے ہیں کہ “جب وہ پہلی بار یہاں داخل ہوئے تو انہیں کچھ نہیں آتا تھا ۔ انہیں باہر کی دنیا یا تہذیب کا کچھ پتہ نہیں  تھا۔ یہ ایسے ہے جیسے کوئی پتھروں کی دنیا میں رہ رہا ہو۔ تعلیم کے ذریعے ہم انہیں اچھائی برائی کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم انہیں ان کے حقوق سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔”

حکومت پاکستان نے شہ رگ میں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے بھی سکول کھولے ہیں۔ ان سکولوں کے علاوہ ٹاؤن میں مدرسے بھی ہیں۔ کچھ والدین سے انٹرویو لینے کے بعد کہ انہوں نے اپنے بچوں کو سکول کی بجائے مدرسے میں کیوں بھیجا، تو زیادہ تر جواب یہ ملا کہ مذہبی تعلیم ان کے لیے بہتر ہے تا کہ وہ قیامت والے دن کامیاب ہو سکیں اور جنت میں جا سکیں۔ یہ زیادہ عام وجہ ہے کہ ان کے بچے سکول میں نہیں بلکہ مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔

اسلامیات ٹیچر ہونے کے باوجود بشیر خود بھی والدین کو اس بات پر آمادہ کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ وہ انہیں مدارس کے بجائے سکول بھیجیں۔ ایک اہم وجہ کہ والدین کیوں ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں، دھیر کے عابد صدیق نام کے ایک طالب علم کا ایک کیس ہے۔

صدیق 2008 تک سکول کا پوزیشن ہولڈر تھااور اس نے وہاں سے اپنی میٹرک پاس کی تھی۔ اگرچہ اس کے اساتذہ کو اس سے بڑی امیدیں اور توقعات تھیں، وہ اب الگیلانی پہاڑوں پر واپس کوئلے کی کانوں میں ہے جہاں وہ بچپن میں کام کرتا تھا۔

اپنی گفتگو کے دوران استادنے شہ رگ میں بچوں کے نفسیاتی کمزوری کا راز بھی افشا کیا۔ جن لڑکوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے وہ آگے کسی اور کے ساتھ زیادتی کریں گے، ویسے ہی جیسے ان کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی جب وہ بچے تھے۔ ایک بڑی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کے ساتھ کی گئی زبردستی نسل در نسل چلتی ہے۔ زیادتی کا یہ دائرہ ان لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے جن کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی ہو کیوں کہ جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو وہ بھی زیادتی کرنے والے بن جاتے ہیں اور بچوں کو اس کا شکار بناتے ہیں۔

لیکن شہ رگ میں اس بارے میں کوئی نفسیاتی یا قانونی رد عمل نہیں ہے۔ کوئٹہ کے رہنے والے کانوں کے چیف انسپکٹر انجینئر  افتخار احمد خان ای اوز کو بتاتے ہیں کہ “شہ رگ میں کانوں میں کوئی بچہ کام نہیں کرتا۔”
یہ تسلیم کیے بغیر کہ ایسا بحران موجود ہے، کیسے کوئی کاروائی ہو سکتی ہے؟
لڑکوں اور نوجوانوں کے ساتھ جنسی زبردستی صرف شہ رگ تک ہی محدود نہیں ہے۔ اسلام آباد  میں موجود  ساحل نامی ایک این جی او بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات  پر تحقیق کا  کام کرتی ہے، اس کے 2018 کی رپورٹ کے مطابق  3445 بچے، 2077 لڑکیاں اور 1368 لڑکے 2017 میں پاکستان میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔ بلوچستان نے جنسی زیادتی کی تعداد صرف 139 ریکارڈ کروائی۔ ان واقعات کی رپورٹیں ابھی تک پریس کو ملتی رہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ نہ رپورٹ کیے گئے کیسز کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو۔
یہ رپورٹ یہ دعوی کرتی ہے کہ رپورٹ کیے گئے کیسز میں سے 467 کیس ریپ کے تھے، 366 کیس بچوں کے ساتھ جنسیت کے تھے، 158 کیس گینگ ریپ کے تھے، 180 کیس بچوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے تھے اور 206 کیس بچوں کے ساتھ زیادتی کی کوشش پر تھے۔ یہ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ 29 لڑکے اور 36 لڑکیوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ تقریبا 961 زیادتی کا نشانہ بننے والے 11 سے 15 سال کی عمر میں تھے جب کہ 640 کیسز میں بچے جن کو بچا لیا گیا کی عمر 10 سال تھی۔ 16 سے 18 سال کی عمر میں 351 کیس رپورٹ کیے گئے۔

شاید جو چیز شہ رگ کو بلوچستان سے الگ رکھے ہوئے ہے وہ بچوں کے ساتھ زیادتی کا معمول ہے۔ مثال کے طور پر حکومتی ریکارڈ کو دیکھا جائے۔  مائینز ڈیپارٹمنٹ نے شہ رگ میں کانوں میں کام کرنے والے  مردوں کی تعداد رپورٹ سے کم بتائی ہے۔ اصل میں ان تخمینوں میں کانوں میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد ریکارڈ نہیں کی گئی یا ان بچوں کی تعداد جنہیں گھروں میں کام کے لیے رکھا گیا وغیرہ وغیرہ۔
دوسری طرف پاکستان کا قانون بچوں کے تحفظ کے کچھ اقدامات تجویز کرتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان پینل کوڈ میں اپریل 2017 میں ترمیم کی گئی تا کہ بچوں کو نشانہ بنانے والے جرائم پر قابو پایا جا سکے۔ سیکشن 292-اے بچوں کو منشیات میں پھنسانے کو جرم قرار دیتی ہے۔ اسی طرح سیکشن 328۔اے کہ بچوں کے ساتھ ظلم کا جرم اوراس کی سزا کو بیان کرتی ہے۔ سیکشن 377۔اے اور 377۔بی خاص طور پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کی سزا کے بارے میں ہیں۔
مسئلہ نفاذ کے خاتمے کے بعد آتا ہے
شہ رگ میں بچوں اور مزدوروں کے ساتھ جنسی زیادتی کو جسٹیفائی کرنے کے  لیے بچوں کی معاشی تباہی اور اخلاقی گراوٹ کا جواز دیا جاتا ہے ۔ حکومت نہ تو کانوں میں کام کرنے والے بچوں کا ریکارڈ رکھتی ہے اور نہ ہی عملے کا تعاون کرتی ہے۔ اور معمول کی وجہ سے بچوں کے تحفظ کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے۔
”بعض اوقات اساتذہ کی طرح ہم بھی نا امید ہو جاتے ہیں،” حافظ بشیر بتاتے  ہیں۔ “میں نے سوچا کہ عابد صدیق کوئلے کے کانوں میں موجود بچوں کے لیے رول ماڈل ہو گا اور وہ کسی حکومتی شعبے میں افسر بنے گا۔ ان توقعات کے بر عکس اس نے دوبارہ کوئلے کے کارکن کے طور پر کام شروع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کوئلے کی کانوں کے بچے مجھے اس کی مثال دیتے ہیں جب میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکول میں آئیں۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ دنیا پاکستان

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply