حقیقت کی دُنیاسے۔۔۔ایم ۔اے۔صبور ملک

پاکستان نیا نیا قائم ہوا تھا،بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل کے عہدے پر فائز تھے،برطانیہ کے بادشاہ کا بھائی پاکستان کے دورے پر آرہا تھا،قائد اعظم اسکے استقبال کے لئے کہا گیا،نظم وضبط پر قائم جناح نے جواب دیا کہ کل اگر میرا بھائی برطانیہ کے دورے پر جائے تو کیا بادشاہ میرے بھائی کے استقبال کے لئے آئے گا؟جواب نفی میں تھا لہذا بانی پاکستان نے برطانیہ کے بادشاہ کے بھائی کے استقبال کے لئے ائیر پورٹ جانے سے انکار کردیا،قائد اعظم کے اس انکار نے پاکستان کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھ دی،یعنی کہ پاکستان ایک آزاد و خودمختار مملکت ہوگی ،جہاں کے حکمران کسی کے تھلے لگنے والے نہیں بلکہ اپنی غیرت وحمیت پر قائم رہتے ہوئے عالمی برادری کے ساتھ تعلقات برابری کی بنیاد پر رکھیں،نہ کہ کسی کے باجگزار یا کسی کی چاپلوسی کرکے ملک کی غیرت و حمیت کو داغ لگا دیں ۔

بانی پاکستان کا یہ واقعہ مجھے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرکے جانے والے سعودی شہزادے محمد بن سلمان کے استقبال ،پاکستان میں دو دن قیام کے دوران آؤ بھگت اور مہمان داری نیز معمول سے زیادہ پروٹوکول دینے پر یاد آیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ مہمان داری ہماری ثقافتی اور دینی راویت ہے گھر آئے دشمن کو بھی خوش آمدید کہنا ہماری تہذیب ہے،لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ،خصوصاًا س صورت میں جب خدشہ ہو کہ آنے والا مہمان بعد از رخصت ہمارے بارے میں کیا رائے دے گا ،وہی ہوا جس کا خدشہ تھا ،ہمارا میڈیا ،ہمارے حکمران ،فوجی قیادت اور اپوزیشن سمیت سعودی عرب کے کاسالیسوں نے محمد بن سلمان کے استقبال کے لئے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ،پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو نے سے واپسی تک احساس کمتری کے شکار حکمرانوں نے جس طرح کا مظاہر ہ کیا ،سعودی شہزادے نے ہمارے روایتی حریف بھارت کی سرزمین پر جاتے ساتھ کشمیر کے حوالے سے ہمارے موقف کے برعکس بیان دے کر پاکستانی غبارے سے ہوا نکال دی،وہی محمد بن سلمان جسکے لئے پاکستان نے دل دیدہ فرش راہ کیا ،اسی محمد بن سلمان کو بھارت کے دورے پر روایتی پروٹوکول دیا گیا،پاکستان کے مقابلے میں 55ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے ،اورپاکستان کے لئے صرف ایم او یوز سائن،اصل میں ہم پاکستانی اپنے میڈیا،اپنے حکمرانوں،اور درسی کتابوں میں لکھے گئے جھوٹ نیز مسلمان ہونے کی حیثیت سے خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں ،اور ہمیں اس بات کا قوی یقین ہے کہ فرشتے ہماری مدد کو اتریں گئے،جبکہ حقیقت کچھ اور ہے جب ہمارے تین پڑوسی ہمارے ساتھ ناراض ہوں ،تو خرابہ پڑوسیوں میں ہی نہیں بلکہ کہیں نہ کہیں غلطی ہمارے اندر بھی ہے،بھلے ہماری فوج بھارت کے مقابلے میں صلاحیت بہتر ہے،ہماری ایٹمی صلاحیت دشمن کے مقابلے میں کہیں زیادہ اعلی،ہمارا میزائل پروگرام بھارت کے مقابلے میں زیادہ موثر،لیکن جناب ہمارے اقتصادی حالت بھارت کے مقابلے میں صفر ہے،موجودہ دور اقتصاد کا ہے ،بھارت کا تعلیمی نظام ہم سے کہیں گنا زیادہ بہتر ہے،یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کی بڑی کمپنز اور دنیا کے بڑے ممالک کے ہر اہم عہدے پر کوئی نہ کوئی بھارتی بیٹھا ہے،جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی لابنگ بھارت کے مقابلے میں کم ہے،اور ہمارے بجائے بھار ت کی آواز زیادہ سنی جاتی ہے،آج بھی مشرق وسطی خصوصاً عرب ممالک جن کے ساتھ ہم اپنا اسلامی برادرانہ تعلق نبھاتے نہیں تھکتے وہاں پاکستانی کم بڑھے لکھے مزدور بھارتی ڈاکٹرز،انجینئرز اور اعلی پیشہ وارانہ صلاحیت کے حامل بھارتیوں کے آگے محنت مزدوری کرتے نظر آتے ہیں،دنیا کے بڑے اخبارات میں بھارتی صحافی،پیپسی کولا،مائیکرو سافٹ،سیلکون ویلی کے ڈائرایکڑز بھارتی،رایڈی

ڈاس،نائیکہی،ہشپپز،جیسی کمپنز کے آفسز بھارت میں ،برٹش ائیر ویز کا سارا نظام دہلی سے کنٹرول ہوتا ہے،برطانیہ کا سرکاری برٹش ٹیلی کمیونکیشن کا نظام بھارتی چلا رہے ہیں،دنیا کی سب سے بڑی منڈی بھارت میں ،کیا وجہ ہے کہ ایک ساتھ آزادی حاصل کرنے والے دوممالک بھارت اور پاکستان میں اتنا تفاوت کیوں؟کیوں بھارت آج انڈسٹری ،ہیومین ڈویلپمنٹ ،آئی ٹی اور پیداوار میں ہم سے آگے ہے؟وجہ کوئی فیثا غورث کا مسئلہ نہیں ،وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے تعلیم اور اپنے لوگوں کی تربیت ،جبکہ ہمارے ہاں ابھی تک یہی فیصلہ نہیں ہوا کہ ہماری تعلیمی پالیسی کیا ہو گی،ملک کے کئی علاقوں میں آج بھی عورتو ں کی تعلیم پر پابندی ہے،تعلیمی شعبے کے ساتھ ہر آنے والا حکمران اپنی مرضی سے نت نیا تجربہ کرکے چل دیتا ہے،حقیقت کی دنیامیں جنگیں صرف جذبے سے نہیں لڑی جاتیں ،اس کے لئے اپنے آپ کو ہر لحاظ سے مضبوط بنانا پڑتا ہے،ہمارے ہاں ابھی تک مغل حکمرانوں کے طور طریقے رائج ہیں،ہم پاکستانی عوام کو ابھی تک جذبات اور محض طفل تسلیوں سے بہلا رہے ہیں،کیونکہ ہم ابھی تک پاکستان میں وہی ماحول وہ تعلیمی نظام نہیں پیدا کرسکے جو ملک اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ہر میدان میں کامیابی دلا سکے،ہمارے ہاں جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو نے اور جدید دنیا کے ساتھ چلنے والے اہل ہنر اب پیدا ہونے بند ہوچکے ہیں،

Advertisements
julia rana solicitors

ایک وقت تھا جب ہمارے ائیر لائن کا دنیا میں نام تھا،ہمارے 5سالہ اقتصادی منصوبے کی دنیا میں مانگ تھی،ہماری دھرتی اہل ہنر پیدا کرتی تھی لیکن پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی پرائی جنگوں خاصا کر ایک نام نہاد جہاد نے ہمیں وہاں لاکھڑا کیا کہ آج ہم قوم کے بجائے ہجوم بن کررہ گے ہیں،اور ابھی تک اسی خواب میں پڑے سو رہے ہیں،میرے اس کالم کو شاید کچھ لوگ بھارت کا قصیدہ سمجھ لیں ۔لیکن جو حقیقت ہے اس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں،ہمیں دشمن کے مقابلے میں عسکری طور پر مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدا ن خصوصا جدید اور اعلی تعلیم میں یکتا ہو نے ہوگا،پا کستان میں ایسا ماحول بنا نا ہو گا جہاں نفرت ،انتہا پسندی کی بجائے مذہبی رواداری اور برداشت کا کلچر ہو،پھر ہی ہماری بات کو دنیا میں سنا بھی جائے گا اور دنیابھر سے سرمایہ کار بلا کسی خوف اور بلاکسی کی منت ترلا کرنے کے پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے،ورنہ ایک سعودی شہزادے کو چھوڑ کر اگر ساری دنیا کے حکمران بھی یہاں دورہ کرجائیں تو ملنا کچھ نہیں،سرمایہ کار بہت ہوشیار ہو گے ہیں،جو ماحول اور جو حکومتی پابندیاں کسی بھی نئے آنے والے کیلئے ہمارے ہاں بیورو کریسی اور فیتہ مافیا کی شکل میں پائی جاتی ہیں،ان میں سرمایہ کاری نہیں ہو تی بلکہ امداد دے کر جان چھڑائی جاتی ہے،

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply