کونسی جنگ ، کیسی جنگ ؟۔۔۔۔نذر محمد چوہان

کل مجھے میرے دانشور دوست اور مایہ ناز جرنلسٹ میک لودھی نے ایک کتاب پڑھنے کو کہا ۔ اس کتاب کو پہلے بھی میں نے لائبریری میں دیکھا تھا لیکن چھوڑ دیا ۔ آج سوچا کہ  کیوں نہ میک صاحب کی خواہش پوری کر دوں ۔ کتاب ایک دہریہ ، رچرڈ ڈاکنز نے لکھی ہے اور نام بھی اس نے رکھا ۔۔The God Delusion
اس کتاب میں دہریہ ہونے کے ناطے رچرڈ ڈاکنز تمام مذاہب کو بہت شدید رگیدتا ہے اور خوامخواہ اس بیانیہ پر مشہوری لینے کی بھی کوشش کرتا ہے ۔ کارل مارکس ، ان دہریوں کے باپ نے ، بہت پہلے مذاہب کے معاملات کو تقلیدی اور غریب کی opium کہہ  کر جُھٹلا دیا تھا اور اہمیت کے قابل ہی نہ سمجھا ۔ رچرڈ ڈاکنز نے اس کتاب میں اپنے بیانیہ کا بہترین دفاع مذہب کی بنیاد پر جنگوں سے کیا ہے ۔ اور اس میں برصغیر کی اور فلسطین کی پارٹیشن کی مثال بھی دی ہے اور خالصتا ً مذاہب کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا ہے ۔

اس وقت پاکستان اور ہندوستان میں مسئلہ جنگ نہیں ہے ، بلکہ موت کی صورت میں غرُبت کا رقص ہے ۔ دونوں طرف کے حکمران طبقہ یا رُولنگ ایلیٹ نے اتنی لُوٹ مار کی کہ  اب بارڈر کے دونوں طرف کروڑوں لوگ بھوک اور ننگ سے بلک بلک کر مر رہے ہیں ۔ کھانے کو روٹی نہیں ، پہننے کو کپڑے نہیں ، علاج معالجہ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر اور تعلیم برائے نام۔ اب جب دونوں طرف کے حکمرانوں کے پاس بیچنے کے لیے کچھ نہیں رہا تو سوچا چلو جنگ جنگ کھلواتے ہیں ۔ بالکل جِم جونز والی اجتماعی خودکشی کی مانند۔ ٹالسٹائے نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ، وار اینڈ پیس ، میں کہا تھا کہ ؛
“If everyone fought for their own convictions, there would be no war .. “
جنگ آپ پر مسلط نہیں کی جاتی بلکہ آپ خود مسلط کرتے ہیں ۔ دونوں ملکوں میں نہ بجلی ہے ، نہ پانی ، ماحول کی آلودگی سے نت نئی  بیماریاں پھیل رہی ہیں اور بموں سے کھیلنے کا شوق ، سوائے حماقت کے کچھ نہیں ۔

ایک گڈ ریا افریقہ کے صحرا میں اپنے اونٹ پر سفر کر رہا تھا کہ  اس نے راستے میں ایک غزال دیکھا ۔ اس کے بیٹے کو وہ غزال بہت پسند آیا اور اس نے تعاقب کی اجازت مانگی ۔ باپ نے اسے تو روک دیا لیکن خود شکار کی خاطر ہرنوں کے پیچھے چڑھ دوڑا ۔ اتنے میں پیچھے سے غزال نے اس کے بیٹے پر حملہ کیا اور اسے کھا گیا ۔ گڈ ریا جب واپس آیا تو یہ ماجرا دیکھ کر بہت ہی پریشان ہوا ، ابھی کچھ دور سفر کیا ہی تھا کہ  اسے وہ غزال نظر آیا ، اس نے اسے مارا اور اس کا جب پیٹ چاک کیا تو بیٹے کو وہیں پایا ۔ گھر گیا بیوی کو کہا کہ  ساتھ والے گھروں سے کوئی  بڑا پتیلا یا دیگ لاؤ اس غزال کو پکانا ہے ۔ بیوی گھر گھر جاتی ہے ہر کوئی  یہ کہتا ہے کہ  ہمارے ہاں تو اتنی دیر ہو گئی  فلاں مرا تھا تو دیگ لائے تھے ۔ تھک ہار کر گھر لوٹتی ہے اور یہ جب گڈریا کو بتاتی ہے تو وہ اسے چادر کھول کر غزال اس کے ہلاک شدہ بچے  سمیت دکھاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ جناب یہ برصغیر میں جنگ بھی قدرت کے اصولوں کے خلاف اس طرح کی بھونڈی کوشش ہے ۔ دونوں ملک عوام اور دنیا کو لڑنے کا منجن بیچنے کی کوشش میں ہیں ۔
یہ جنگ ہے  ذاتیات کی ۔ یہ جنگ ہے مادہ پرستی کی ۔ مذاہب کا اس سے کیا لینا دینا ۔ مذاہب تو پیار محبت کا درس دیتے ہیں ، روحانیت کی بات کرتے ہیں ۔ کشمیر کے لیے جنگ کیا کوئی  مذہب کی بنا پر جیتے گا ؟ لہٰذا  جنگ ونگ کوئی  نہیں ہونی ، ہاں البتہ دونوں طرف شدید صفائی  ستھرائی  کا معاملہ عروج پکڑتا دکھائی  دے رہا ہے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے سعودیہ کی یمن پر جنگ ، شہزادہ سلمان کو اندرونی صفائی  ستھرائی کے لیے مجبور کر رہی ہے اور اب ایک خاتون کو امریکہ میں سفیر لگا دیا ہے ۔ مودی سرکار علیحدگی پسند گروپوں اور غربت کے ستائے کروڑوں ہندوستانیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتے دکھائی  دے رہے ہیں ۔ اصل جنگ دونوں ملکوں کے اندر ہے ۔ راشی سیاستدانوں کے خلاف ، کرپٹ سول اینڈ ملٹری بیوریوکریسی کے خلاف اور کارپوریٹ ٹھگوں کے خلاف ۔ جنگ بنتی ہے نواز شریف کے خلاف ، زرداری کے خلاف اور ان تمام گماشتوں کے خلاف جنہوں نے اربوں کھربوں لُوٹا ۔ ہاں مجھے یقین ہے کہ  اب کہ ایسا ہی ہونے جا رہا ہے ۔ انشا ء اللہ یہ والی جنگ جلد شروع ہونے والی ہے اور اس جنگ کی پشین گوئی  ، جناب اوریا صاحب ، قرآن شریف اور احادیث میں موجود ہے ۔ آپ اور زید حامد والی جنگ کی پشین گوئیاں محظ من گھڑت کہانیوں کے سوا کچھ نہیں ۔ اسلام کبھی بھی تلوار کے زور پر نہیں پھیلا اور نہ ہی مستقبل میں پھیلے گا ۔ آپ اور زید حامد کیوں نئی  نسل کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ بہتر ہوتا اگر آپ دونوں نے یہ نعرہ لگایا ہوتا کہ  کرپشن کے خلاف محاز آرائی  کی جائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مشہور کنزرویٹو امریکی جریدے “ نیشنل ریویو “ میں ، کیون ولیمسن ، نے اس اتوار کے روز ایک بہت زبردست مضمون؛
The war in South Asia
کے عموان سے لکھا ۔ ضرور پڑھیں ، اس دن میری سالگرہ تھی لہٰذا میں نے اپنی ٹائم لائین پر شئیر نہیں کیا تھا ، کہ  خوامخواہ رنگ میں بھنگ نہ پڑے ۔ اس کے مطابق یہ ساری ڈیویلپمنٹ اور چپقلش اسی طرف جا رہی ہے کہ کسی طرح پاکستان پر sanctions لگائی  جائیں ۔ نہ کہ  جنگ ۔۔ ویلیمسن ، کے نزدیک جنگ ممکن نہیں کیونکہ اس سے چین کو فائدہ ہو گا، اس کے اپنے الفاظ میں ؛
“Is not pleasant to think what opportunities China might discover in an all-out war on the subcontinent .. .
ابھی دونوں ملکوں کے لیے جانز ٹاؤن والی پوزیشن نہیں آئی  ، جب جم جونز کو اپنی اور ان نو سو لوگوں کی موت کے سوا کوئی  چارہ نظر نہ آیا تو اس نے اجتماعی خودکشی کا اعلان کیا ۔ ابھی تو برصغیر میں پارٹی شروع ہوئی ہے جناب ۔ چین نے CPEC اور ایک بیلٹ ایک روڈ منصوبے مکمل کرنے ہیں ۔ روس نے تیل کے معاہدے کرنے ہیں اور سعودیہ نے تیل کی ریفائنریاں لگانی ہے ۔
ابھی تو سارے انٹرنیشنل کھلاڑی تماشا دیکھ رہے ہیں، ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ برصغیر کے لوگوں کی طرح ۔ ٹالسٹائے کے قول پر   ہی ختم کروں گا ؛
The two powerful warriors are patience and time ..
بہت خوش رہیں ۔ پاکستان پائندہ باد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply