شہزی آپا۔۔۔۔رفعت علوی/قسط 1

برف زاروں میں لگنے والی محبت کی آگ کا قصہ۔۔۔۔
بطور خاص دلداروں اور شہریاروں کے لئے ۔۔۔

میرے دل پہ گرفتگی نے حملہ کردیا تھا، ملگجی سی شام ویران لگ رہی تھی فضا پر جیسے جمود سا طاری تھا، بےحرکت بادل کب سے گھنے جنگل پر جمے کھڑے تھے، گھروں کی سرخ کھپریل والی ترچھی چھتوں پر لگی چمنیوں سے دھواں اٹھ رہا تھا، بلیو پائن اور وہائیٹ اوک کے گھنے جنگلوں کی چلمن کی اوٹ میں شہ نشیں پر برجمان آسمان کو چھوتا ہمالیہ سیاہ بادلوں کی دھند میں گم تھا، زمین پر جھکے کالے سیاہ بادلوں سے ڈھکے آسمان پر اونچائی پر اڑتی چیلیں کبھی کبھی گلائڈر کی طرح بغیر پر ہلائے تیرتی دور تک چلی جاتیں، ہماری پہاڑی رہائشگاہ سے بہت دور نیچے وادی میں کھلونا سی ریل گاڑی دھواں اڑاتی میدانوں کی طرف چھک چھک کرتی چلی جا رہی تھی، خنک ہوا کے جھونکے میرے چہرے سے ٹکراتے تو مجھے بڑا لطف آتا، میں نے کھڑکی سے آدھا لٹک کر ایک بار پھر گہری سانس لی ۔۔۔۔
یہ پاپا کا ٹرانسفر شہر میں کب ہوگا آخر، پانچ سال تو ہوگئے شملہ کی برف پھانکتے، ایک ایک ندی ایک ایک جھرنا ایک ایک موڑ ایک ایک گھرانہ سارے تفریح مقامامات اب تو زبانی یاد ہو گئے تھے،

میں نے ہزاروں بار خود سے کیا ہوا  سوال دل ہی دل میں ایک بار پھر دوہرایا ۔۔کیا مصیبت ہے بھئی، صبح صبح یخ ہوا کے جھکڑ کھاتے ٹھٹھرتے ہوئے کالج جانا ہے تو نیچے جاؤ، کبھی گاڑی فرخ کے پاس ہےتو ہتھ رکشہ سے دھکے کھاتے ہوئے اوپر واپس آؤ جس کو نیچے سے اوپر لانے میں دو آدمیوں کو کھینچنا پڑتا تھا، کوئی فلم دیکھنی  ہے تو پرپیچ راستوں سے گزرتے ہوئے دو گھنٹے کے بعد نیچے وادی میں پہنچو، شفا خانہ جانا ہے تو نیچے چلو، پوسٹ آفس بھی آدھے راستے پر، ٹیلیفون کی لائن اتنی خراب کہ طویل فاصلے کی کال کنکٹ ہونے میں اتنی دیر لگتی کہ بندہ خود وہاں  جا کر واپس لوٹ کر  آ جائے ،پھر جب بارش کی جھڑی لگتی تو لگتا کبھی سورج نکلے گا ہی نہیں، جب بارش رکتی تو دھند اور نمی گھر میں گھس آتی، پہاڑی ندی نالے بھر جاتے، آبشاریں چٹانوں سے سر پٹختیں، دور پھیلے ہوئے تاریک جنگل میں بجلی چمکتی تو بھیانک آوازیں آتیں، بادل گرجتے تو اسکی کڑک سے پوری پہاڑی  ہل سی جاتی اور یہ فرخ بھی کہاں مر گیا، میں نے کھڑکی سے سر نکال کر ایک طویل انگڑائی لی۔

بوریت۔۔۔۔۔بوریت۔۔۔۔۔ اُدھر اپنے کمرے میں شہزی آپا ریکارڈ پلیئر پر “آئے گا آنے والا آئے گا” کا ریکارڈ بجائے چلی جا رہی تھیں، میں اپنی پسندیدہ کھڑکی پر ایک بار پھر لٹک گئی، دفعتاً ہماری پہاڑی کے اوپر آنے والے بل کھاتے راستے کے ایک موڑ پر خاکی رنگ کی سفید دھواں چھوڑتی ایک جیپ نمودار ہوئی، اس کے پیچھے چار پانچ جیپیں اور بھی تھیں فوجی کنوائے۔۔۔۔۔مگر کیوں؟؟؟جنگ ختم ہوئے تو زمانہ ہوا، اب فوجی نقل و حرکت کس سلسلے میں ہے، میں نے خود سے سوال کیا، اونہہ مجھے کیا۔۔۔۔میں نے سر جھٹک کر سوچا ساری جیپیں ہونکتیں لڑکھڑاتیں شور مچاتیں دھواں چھوڑتیں گورنر  ہاؤس کی قدیم بلڈنگ کی طرف مڑکر نظروں سے اوجھل ہو گئیں، اسی وقت پورٹیکو میں فرخ کی اسکوٹر کی پھٹ پھٹ سنائی دی، عجیب لڑکا تھا یہ فرخ بھی موٹر سائیکل کا سائیلنسر خود ہی توڑ رکھا تھا فلسفہ یہ تھا کہ مجھے کہیں بھی ہارن دینے کی ضرورت نہیں پڑتی ،سڑک پر چلتے ہوئے سب کو معلوم ہوجاتا کہ مابدولت آ رہیں خود راستہ چھوڑ دیتے ہیں میرا۔۔۔۔۔پاگل کہیں کا۔۔۔

شملہ کمیونٹی کلب میں بہت رونق تھی، کلب کے آتشدانوں سے نکلتی پرکیف حرارت میں ڈائیننگ روم سے قہقہوں کی آوازیں آ رہی تھیں ،پیانوپر   بیٹھی گوا کی کالی سی لڑکی بڑے بڑے پھولوں والی فراک پہنے کی بورڈ پر تیزی سے انگلیاں چلا رہی تھی، لاؤنج میں سناٹا تھا، کاؤنٹر پر ہر وقت موجود رہنے  والا یوپی کا خوش شکل منیجر آج اپنی جگہ موجود نہ تھا، ہم تینوں یعنی فرخ، شہزی آپا اور میں بوریت سے بچنے کے لئےگھر سے ڈنر کرنے کے بعد رات گئے کلب آ ئے تھے، اور اب میں ایزی چیئر پر نیم دراز شہزی آپا کی منتظر تھی  جو فرخ کے ساتھ بلیئرڈ روم میں ٹیبل ٹینس کھیل رہی تھیں۔ تین لیمپوں کی مدھم روشنی لاؤنج کا اندھیرا دور کرنے کے لئے ناکافی تھی، باہر اندھیرے کی حکمرانی تھی، آکلینڈ گرلز اسکول کی عمارت خاموشی میں لپٹی سو رہی تھی، کبھی کبھی کسی تیز رفتار کار کی آواز آتی، سناٹے میں کار کی آواز تیزی سے قریب آتی اور زن سے آگے نکل جاتی، پھر باہر کے گھور اندھیرے میں سناٹا چھا جاتا، دفعتاً  پورچ میں کسی گاڑی کے بریک چرچرائے، اسکا دروازہ زوردار آواز سے کھل کر بند ہوا کچھ نقرائی قہقہوں کے ساتھ کسی مرد کی باتیں کرنے کی آواز آئی، لاؤنج کا دروازہ کھلا، پہلے فوجی وردی میں لفٹینیٹ کے بیجزز لگائے سنہرے بالوں اور سیاہ آنکھوں والا ایک دراز  قد ورزشی بدن والا نوجوان اندر داخل ہوا جس کے ایک ہاتھ میں فوجی کیپ تھی اور دوسرے ہاتھ سے وہ اپنے سنہری بال درست کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اسکے پیچھے کھلتے ہوئے رنگت کی دو لڑکیاں شلوار قمیض میں ملبوس بےتکان گفتگو کرتیں نظر آئیں، اندھیرے کونے میں ایزی چیئر پہ بیٹھی میں ان کو نظر نہیں آئی، وہ یونہی لا پرواہی سے گفتگو کرتے ڈائیننگ روم کی طرف بڑھ گئے. خالص ہندوستانی چہرہ جس کی رنگت میں ترکی خون کی آمیزش چھلکتی ہے، میں نے دل میں سوچا، اف اللہ توبہ۔۔۔۔۔کیا یہ ڈسٹربنگ بندہ فوجی کنوائے کے ساتھ آیا ہے؟ کون ہیں یہ لوگ۔۔۔۔ان لڑکیوں کو پہلے تو ان پہاڑیوں میں نہیں دیکھا، نیچے وادی میں بھی کبھی نظر نہیں آئیں، ہم سے زرا دور تیسری پہاڑی پہ کچھ فیملیز رہتی تھیں یہ ان میں سے بھی نہیں ہوسکتیں، میں یونہی چپ چاپ بیٹھی سوچتے سوچتے سو گئی، پھر آنکھ اس وقت کھلی جب لاؤنج میں کسی نے تیز پاور کے بلب روشن کر دیئے، کھانا ختم ہوچکا تھا، کچھ لوگ کافی اور سگرٹ نوشی کے لئے ریٹائرنگ روم کی طرف چلے گئے تھے، کچھ گھروں کو واپسی کے لئے اپنی گاڑیوں کے منتظر کھڑے مسلسل باتیں کئے جا رہے تھے پھر مجھے شہزی آپا دکھائی دیں جن کے پیچھے فرخ کسی سے باتیں کرتا چلا آ رھا تھا
میں نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا یہ تو وہی سنہرے بالوں والا ڈیشنگ فوجی تھا، میں نے بے چینی سے پہلو بدلا اور ایزی چیئر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔

جب رات گئے ہم لوگ کلب سے واپس آ رہے  تھےتو ہمارے سروں پہ بادل گرج رہے تھے، سڑک پر پھسلن تھی، دھند اور بادلوں کی دبیز لہر بار بار ھماری گاڑی میں گھس آتی، کلب سے سیون اسپائیز کی مدھر خوشبو بھی میرے ساتھ چلی آئی تھی، آج میں نے شملہ کی گھاٹیوں میں، کلب کے لاؤنج کی ملگجی روشنی میں کالی سیاہ بھور آنکھوں والے ایک اجنبی لڑکے کو دیکھا تھا جو کسی عجیب سی مہک والے پرفیوم میں بسا ہوا تھا، جانے کون تھا یہ اجنبی، اس کا پس منظر کیا تھا اور یہ کب تک یہاں رکے گا، میں بےخیالی میں سوچے گئی، فرخ تو اس سے بہت گھل مل کر باتیں کر رہا  تھا اور شہزی آپا بھی تو اس سے یوں بےتکلفی سے باتیں کررہی تھیں جیسے اس کو بہت دنوں سے جانتی ہوں۔۔۔ اُس وقت سنہرے بارڈر والی کالی ساڑھی میں لپٹا انکا سرخ و سفید چہرہ کیسا دمک رہا تھا۔ غیرارادی طور پر میں نے اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا ،وہی معمولی سا ہلکے گلابی رنگ کا جمپر شلوار اور شانوں پر وہی پرانی کالے فر کی شال، میں دل ہی دل میں خود کو برا بھلا کہنے لگی میں اس کے بارے میں کچھ جاننے کے لئے بے چین تھی مگر فرخ اور شہزی آپا سے کیسے پوچھتی۔۔۔ پتہ نہیں دونوں کیا سوچتے، راستے بھر میرا جی الجھتا رہا، گھر پہنچ کر سونے سے پہلے فرخ کسی کام سے میرے کمرے میں آیا تو خود ہی اس لیفٹیننٹ کے بارے میں باتیں کرنے لگا، جب وہ اسکے بارے میں گفتگو کر رہا تھا تو میرے دل میں بے نام سی گدگدی سی ہو رہی تھی، میں اس کے بارے میں کچھ اور بھی جاننا چاہتی تھی مگر میں نے بڑی چالاکی سے کسی اشتیاق کا اظہار کئے بغیر جیسے بڑی لاپرواہی سے فرخ کی باتیں سنتی رہی۔۔۔ فرخ نے بتایا کہ لفٹینٹ علی رضا کا تعلق دہلی کے ایک صاحب ثروت ایرانی النسل خاندان سے ہے جس کو پاپا بھی جانتے ہیں، علی اور اسکا پلاٹون برما اور سنگاپور کے محاذ پر لڑ چکا ہے، وہ لوگ یہاں تین ماہ کی کسی ٹریننگ پر آئے ہیں، اسکے بعد وہ کلکتہ کے کسی دوردراز علاقے میں پوسٹنگ پر چلے جائیں گے اوہ اچھا۔۔۔۔۔اگر پاپا کا جاننے والا بھی ہے تو اسکا مطلب ہے اب اس سے ملاقاتیں رہیں گی، میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔

اس دن بھی میں اپنی پسندیدہ کھڑکی پہ آدھی جھکی لان پہ لگے شفتالو کے پیڑ پر آنکھ مچولی کھیلتی پھولی ہوئی دم والی شریر گلہریوں کو دیکھ رہی تھی دور پہاڑیوں کے پیچھے سورج کا لال گولا آدھا چھپ چکا تھا، میں نے شام کو کالج سے آکر کاہلی میں یونیفارم بھی چینج نہیں کیا تھا، ماما گرما گرم بھاپ اڑاتی چائے کا مگ کھڑکی کی چوکھٹ پر رکھ گئی تھی جس کی نرم نرم بھاپ کی ٹکور مجھے بہت اچھی لگ رہی تھی۔ دور سے مجھے کسی گاڑی کی آواز آئی اور آن کی آن میں کھڑکھڑ کرتی سفید دھواں چھوڑتی خاکی جیپ ہمارے گھر کے دروازے پر رکی اور وہی مغرور سیاہ آنکھوں والا لفٹیننٹ علی رضا جیپ سے اتر کر ہمارے گھر کی گھنٹی بجانے لگا۔۔۔۔۔۔ فرخ گھر پہ ہی تھا اس نے باہر نکل کر گرم جوشی سے اس سے ہاتھ ملایا  ،۔۔اسی وقت شہزی آپا بھی دروازے پر نمودار ہوئیں، مسرت اور خوشی سے انکا چہرہ تمتما رہا تھا، پیچ کلر کی شلوار قمیض میں انکے سیاہ بال تیز ہوا سے اڑ رہے تھے فرخ اور علی ہنستے باتیں کرتے میری کھڑکی کے نیچے سے گزر رہے تھے کہ فرخ کی نظر کھڑکی پہ آدھی لٹکی مجھ پر پڑی اور اس نے چلا کے کہا نیلو باجی جلد نیچے آؤ، علی صاحب آئے ہیں۔۔۔۔ میں بوکھلاہٹ میں پیچھے ہٹی تو چائے کا مگ مع چائے لڑھک کر کھڑکی سے باہر گرا اور گرم گرم چائے سرد فضا میں تیرتی سیدھی لفٹیننٹ کی یونیفارم پر گری، میرے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہوگئے، میں چور سی بن گئی اور جلدی سے بھاگ کر واش روم میں گھس گئی، جانے کیا سوچتا ہوگا اپنے اس استقبال پر، جانے ڈریس خراب ہونے پر اسکا کیا ری ایکشن ہوگا، مجھے کتنا بد تمیز سمجھا ہوگا اس نے، میں کھڑی کھڑی سوچتی رہی۔ ذرا ہی دیر بعد ماما مجھے بلانے آگئیں ، میں یونہی اسی طرح کالج کا شکن آلود ڈریس پہنے ڈرائنگ روم میں چلی گئی کیا آپ ہمیشہ اسی طرح کھڑکی پر برجمان رہتی ہیں یا آج کوئی خاص تقریب تھی۔۔۔اس نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا ۔۔میں جل ہی تو گئی اس طرز تخاطب پر، نہ جان نہ پہچان نہ تعارف نہ پہلے کی کوئی بےتکلفی۔۔۔۔۔ جی میں اکثر کھڑکی پر کھڑی رہتی ہوں وہ میری پسندیدہ جگہ ہے۔۔۔میں تنک کر بولی کیا خاص بات ہے آپ کی اس پسندیدہ جگہ میں۔۔۔ جی ہاں، وہاں سے مجھے دنیا نظر آتی ہے فطرت کی رعنائیوں کے نظارے شعور کی آنکھیں کھولتے ہیں، پھر وسیع اور بیکراں آسمان اس پر بھاگتے دوڑتے کالے سفید اودے بادل اور ان بادلوں سے بھی اوپر تیرتے پنکھ پھیلائے آزاد پرندے، یہ سب مجھے بہت فیسینیٹ کرتے ہیں، اکثر قوسِ و قزح کی کمان بنتی ہے تو لگتا ہے ہمارے گھر سے دور پہاڑوں تک پل بن گیا ہے۔۔۔۔۔میں سانس لینے  کو رکی اور اس کھڑکی کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہاں سے لٹکے لٹکے گھر آئے مہمان کی یونیفام کو چائے پلائی جاسکتی ہے، اس نے مجھے بیچ میں ٹوک دیا وہ تو۔۔۔۔۔۔۔وہ تو، مجھے فوراً  کوئی جواب نہ سوجھا ۔۔۔خیر اب تو آپ میری یونیفارم کے بجائے مجھے ہی چائے پلادیں، آپ کی شہزی آپا نے تو اب تک پوچھا ہی نہیں ۔۔۔۔۔میں اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی۔۔

پہلے وہ ہمارے گھر کبھی کبھی آتا تھا، جب فرخ اور شہزی آپا سے دوستی اور بےتکلفی بڑھی تو روز آنے لگا، پاپا وزارت دفاع میں ہونے کی وجہ سے  ایک طرح سے اس کے باس بھی ہوتے تھے، کبھی وہ ان سے ملنے آجاتا، کبھی فرخ سے گپیں لڑانے، کبھی برج کھیلنے اور کبھی دارجلنگ کی مخصوص مہک والی چائے پینے جو پاپا بطور خاص اپنے لئے منگواتے تھے، شہزی آپا اس کو دیکھ کر ہمیشہ کھل اٹھتیں اور انکا چہرہ تمتمانے لگتا، وہ ہمیشہ انکی محفلوں میں شریک ہوتیں، بڑی بےتکلفی سے بحث و مباحثہ میں حصہ لیتیں اپنے دلائل بھی دیتیں، اکثرانکی محفل دیر تک جمی رہتی یا پھر وہ سب ساتھ کلب یا نیچے سینما دیکھنے چلے جاتے۔ شہزی آپا کے حسن اور خوبصورتی کا کیا کہنا، میں نے افسانوں اور کہانیوں میں سروقد، میدہ شہاب رنگت، نرگسی متوالی آنکھیں اور مست زلفوں والوں بہت سی ہیروئنوں کی داستانیں پڑھی تھیں مگر ہماری شہزی آپا ان سب سے بڑھ کر حسین تھیں۔ انکے مزے بھی بہت تھے وہ دہلی یونیورسٹی میں سوشل آرٹ میں ماسٹر کر رہیں تھیں اور وہیں گرلز ہوسٹل میں رہتی تھیں، ایک بااعتماد اور پرجوش طالبہ ہونے کی وجہ سے انکے بےشمار لڑکے لڑکیاں دوست تھے جو کبھی کبھی ان کے حسن کی تپش سے آنکھیں سینکنے کے لئے شملہ بھی پہنچ جاتےتھے، آپا کو اپنے حسن کی حشرسامانیوں کا بخوبی اندازہ تھا۔ وہ ہر ایک کو آسانی سے لفٹ بھی نہیں کراتی تھیں۔ میں نے پہلی بار خود ان کو صنف مخالف کی سمت اس طرح پیش قدمی کرتے دیکھا تھا۔ مگر پتا نہیں کیا بات تھی کہ مجھے انکا یہ رویہ کچھ اچھا نہیں لگتا تھا ۔۔

ایک روشن اور چمکدار اتوار کو پکنک کا پروگرام بنا، پاپا کے کچھ آفس کے لوگ انکی فیملیز اور ھم، شہزی آپا کی خواہش پر علی کو بھی مدعو کیا گیا، وہ آیا اور بڑی شان سے آیا، آج پہلی بار وہ فوجی یونیفارم کے بجائے سول ڈریس میں تھا، پیلے رنگ کی ٹی شرٹ میں اسکی بازو کی مچھلیاں بہت نمایاں تھیں ،گلے میں ایک شوخ رنگ کا مفلر اور سنہرے بالوں پہ گولف کیپ، وہ اپنی جیپ بھی لایا تھا اپنے آفیسر کی اجازت سے، بزرگ لوگ دو گاڑیوں میں بیٹھ گئے ہم  پانچ چھ جوان لڑکے لڑکیاں علی کی جیپ میں ٹھس گئے اس طرح کہ آگے علی کے ساتھ شہزی آپا اور فرخ اور پچھلی سیٹوں پر ہم دو لڑکیاں اور انکا چھوٹا بھائی۔ سب گاڑیاں چلیں تو تھیں ایک ساتھ ہی آگے پیچھے مگر بزرگوں کی گاڑیاں بہت جلد گم شدہ ہوگئیں، جانے یہ بزرگوں کا قصور تھا یا علی کی شرارت کہ اس نے وہ راستہ اختیار کیا جو آپس میں طے نہیں ہوا تھا، اور ہم لوگ بہت جلد راستہ بھٹک گئے، جب ہم خوب بھٹک چکے، دھوپ چڑھنے اور بھوک مزاج پوچھنے لگی تو میں نے آگے جھک کر چپکے سےفرخ سے کہا کہ جب ڈرائیور کو راستے کا علم نہ تھا تو بزرگوں کے ساتھ انکے پیچھے پیچھے چلنا چاہیے تھا۔۔ بات بہت آہستہ سے کہی گئی تھی مگر علی نے سن لی، ڈرائیور؟۔۔۔۔۔۔کون ڈرائیور؟۔۔۔۔۔ایک لفٹیننٹ کرنل جو بہت جلد کرنل کے عہدے پر فائز ہونے والا ہے اپنی اس تنزلی پر سخت احتجاج کرتا ہے، اس نے سخت برا مانا جب کرنل ہونگے تب ہونگے ابھی تو راستہ تلاش کریں، میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا شہزی آپا نے پیچھے مڑ کر مجھے ملامتی نظروں سے دیکھا نیلو۔۔۔۔۔وہ تنبیہی انداز میں بولیں ہوگا لفٹیننٹ، مجھے کیا اونہہ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے منہ پھیر لیا، آپا کی حمایت مجھے ایک آنکھ نہ بھائی، یہ آپا بھی نا، ابھی کل تک تو ہر وقت میری نیلو میری نیلو کرتی رہتی تھیں آج ایک غیر آدمی کے لئے مجھے آنکھیں دکھا رہی ہیں، مجھے بہت ناگواری ہوئی اور علی کی طرف سے میرے دل میں ایک بدگمانی سی آگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply