وقت اے وقت! ٹھہر جا (ڈاکٹر انور سجاد سے ایک ملاقات)

بعض واقعات انسان پر کچھ ایسے اثرات چھوڑ جاتے ہیں جو بظاہر محسوس نہیں ہوتے لیکن جن پر گزرتے ہیں وہ اس کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر انور سجاد سے ہونے والی ملاقات بھی ایک ایسا  ہی واقعہ   ہے۔ یہ ملاقات ایک استعارہ ہے۔ کیس اسٹڈی ہے۔ واقعہ  کسی اور پر گزر رہا ہو تو اس کا زیادہ بہتر مشاہدہ ممکن ہے۔ میری علمی ادبی لوگوں سے ملاقات خاصی کم ہے۔ ایک صدف آپی المعروف نانی ہیں جو ہر بار پاکستان آ کے فون کرتی ہیں کہ ملنے پہنچو۔ اسی بہانے کسی صاحب کتاب کے ساتھ کچھ وقت گزر جاتا ہے۔ ورنہ سچی بات ہے غم روزگار اور ہستی نے کتاب اور صاحب کتاب دونوں سے ہی دور کیا ہوا۔

ڈاکٹر انور سجاد کی بیگم سے اجازت لیکر ان کے گھر پہنچی۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت لیک سٹی کے ایک گھر میں “مقید” ہیں۔ میں نے لفظ “مقید” کیوں استعمال کیا، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے گھر کے راستے میں آپ سوچتے ہیں ارے واہ بڑے پر فضا مقام پر بسیرا ہے۔ شہر سے دور خاموشی اور تنہائی میں خود کو وقت دے رہے ہیں۔ پھر ان کا گھر دیکھ کے بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ غالباً جوانی میں کمایا کام آ رہا ہے۔ گھر کے ارد گرد زیادہ آبادی نہیں ہے۔ کچھ گھر بن رہے ہیں۔ شاید ایک آدھ بنا ہوا ہے۔ لیکن ان میں کوئی رہتا ہے یا نہیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
ایسے میں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ان جگہوں پر cost of living اور ایک بیمار اور نحیف شخص کے لیئے طبی سہولیات کی فوری فراہمی کی کیا صورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی بیگم سے ملنے تک میں بھی ایسی ہی سوچوں میں غلطاں تھی۔ یہ سب سوال میں نے ان سے بھی کیے۔ بیگم صاحبہ کا اصلی نام نصرت ہے۔ البتہ ان کا قلمی نام اور گھر کا نام رتی سجاد ہے۔ رتی سجاد اس وقت عمر کے تو نہیں معلوم کس حصے میں ہیں لیکن وہ بچپنے کو لوٹ رہی ہیں۔ ان کی شخصیت میں منفیت نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی محبت ان میں کتنی زیادہ ہے یہ مجھے اسی لیئے سمجھ آ سکتی ہے کیونکہ میں نے خود کسی کے لیئے عمر دان کر رکھی ہے۔ رتی سجاد بچے کی طرح کوئی بات سن کر پرجوش ہوتی ہیں۔ مشرقی عورت کی طرح اپنی محبت کے پیر سے بندھی رہتی ہیں۔ کبھی بے اختیاری میں آنسو مچل جاتے ہیں تو پھر خود کو ایک دم سے بچے کی طرح ہی بتاتی ہیں کہ وہ بہت بہادر ہیں اور ان کو رونا نہیں ہے۔

زندگی کے بہت سے غم ایسے ہیں جو بہت منفرد ہوتے ہیں۔ وہ ہر ایک کی سمجھ میں آنے والے نہیں ہوتے۔ رتی سجاد ان غموں کی آشنا ہیں۔ ان کو شاید یاد نہ رہے، میں نے اپنے سے تعارف دیا تو کہنے لگی “مجھے آپ سے بات کر کے بہت اچھا لگے گا۔ ہم ایک جیسے غموں سے شناسا ہیں” میرے لیئے یہ بہت بڑا جملہ ہے۔ میں اسے شاید بہت دیر نہ بھولوں۔
ڈاکٹر صاحب شاید اب ان جھمیلوں میں الجھنے کے لیئے بہت ضعیف ہیں کہ وہ کہاں رہتے ہیں، وہ وہاں کیوں رہتے ہیں۔ ان کے کیا مسائل ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر محسوس ہوا وہ یہ بھی نہیں جانتے وہ اس وقت جن محرومیوں کا شکار ہیں۔ انہیں اس وقت واحد کمی رتی کی محسوس ہوتی ہے۔ رتی کو کمرے سے باہر بیٹھنا بھی دوبھر ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحب سوتے میں بھی جاگ جائیں تو ان کو سب سے پہلے یہ پوچھنا ہوتا ہے رتی کہاں ہیں۔

رتی سجاد، ایک مضبوط عورت، لیکن دنیا سے اتنا کٹ چکی ہیں کہ اب وہ کسی معاملے کو بڑھ کے ڈیل نہیں کر سکتی۔ قیدی پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ اپنی کال کوٹھڑی میں ایک دنیا آباد کر لیتا ہے۔ پھر اسے لگتا ہے یہی دنیا بہترین ہے۔ باہر سب غیر محفوظ ہے۔ یہی ان میاں بیوی کا عالم ہے۔

ڈاکٹر صاحب سے ملاقات پر میں نے ضد اس لیئے نہیں کی کہ وہ بیمار ہیں۔ لیکن ان کے خدمت گار نے انہیں جگا ہی لیا۔ میں نے جا کے سلام کیا۔ میں نے سوشل میڈیا پر ان کی جو ویڈیوز دیکھی تھی ان سب میں مجھے شدت سے محسوس ہو رہا تھا کہ یہ شخص خوددار ہے۔ یہ کسی صورت مانگنا نہیں چاہتا۔ اس کے منہ میں الفاظ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن وہ اس حالت میں بھی اپنے لیئے نہیں مانگ رہا۔ اور سچ کہوں تو مجھے جب یہ ذمےداری دی گئی تو میں گئی بھی اسی اپنی سوچ کے تجسس میں تھی۔ مجھے بہت اچھا لگا یہ دیکھ کر کہ میری سوچ درست تھی۔

میں نے اپنی بساط میں ڈاکٹر صاحب سے نپے تلے سوالات پوچھے تھے۔ میں نے پوچھا ماضی کی کسی چیز کو یاد کرتے ہیں؟ یا زندگی میں کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے؟ اگر وہ سب ویڈیوز جو نیٹ پر شیئر کی جا رہی ہیں ان کے حساب سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر صاحب کو شکایت کے انبار لگا دینے چاہیے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی وجاہت کو برقرار رکھا اور جو جوابات دئیے وہ کسی صورت بھی کسی غیر مطمئن انسان کے جواب نہیں تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی جو بات میرے خزانے میں جمع ہوئی وہ یہ تھی، “میں کسی کو نصیحت نہیں کرتا۔ نصیحت وہی ہے جو انسان کے اندر سے نکلتی ہے۔ لیکن اس کے لیئے غلطی کرنی پڑتی ہے”

Advertisements
julia rana solicitors london

میں اب اس ملاقات کی اس داستان کو کیسے سمیٹوں، مجھے خود بھی سمجھ نہیں آ رہی۔ مجھے کوئی اپیل نہیں کرنی کیونکہ درد کی اتنی بکھری داستانیں ہیں کہ میں کس کس کے لیئے اپیل کروں۔ لیکن شاید رتی سجاد نے اپنے آنے والی کتاب سے جو اقتباس سنایا تھا، وہی اس ملاقات کا بہترین اختتام تھا۔ میں یہاں بھی وہی دے رہی۔۔۔
اکثر میں نے سنا ہے زندگی نے مجھے کیا دیا۔ یا life is not exciting. زندگی ہو ایکسائیٹنگ بنانا ہوتا ہے۔ موسیقی کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ
Music should strike fire from the heart of a man and tears from the heart of a woman.
تو انور سجاد زندگی کے بارے میں کہتے ہیں،
Life is drama.
زندگی کرنا ہے اور کر گزرنا ہے۔ ہنسنا رونا کس کی زندگی کا حصہ نہیں؟ ڈاکٹر نے بھی بیمار ہونا ہے۔ کروڑ پتی بھی زندگی کی کسی تلخی پر آنسو بہا رہا ہوتا ہے اور سب کچھ بے معنی ہو جاتا ہے۔ زندگی کو وسیع کینوس پر دیکھ کر ہی تقویت ملتی ہے۔ انور سجاد نے بھی جیل کاٹی، قرضدار رہے، بیمار ہوئے، لیکن بطور انسان میں نے انہیں ہمیشہ پر امید پایا۔ مجھے صرف کہتے بس تم دعا کرو۔ ان کی تحریروں سے زیادہ ان کو بہتر جانتی ہوں۔ سب سے نمایاں خصوصیت ان میں ہمدردی ہے جو یہ پیسہ اور وقت دونوں دے کر نچھاور کرتے ہیں۔ اور بھرپور جینے کا ولولہ آپ کے سامنے ہے۔ بطور فنکار اور ادیب ان کا کوئی ڈرامہ مجھے اچھا لگتا تو میں ان کی میز پر گلاب کا پھول رکھ دیتی۔ انور سجاد کراچی چلے گئے تو میں اپنے آپ کو ملکہ ثریا محسوس کرنے لگی۔ اس لیئے کہ ہم دونوں (ملکہ ثریا اور میرا) درد ایک تھا۔ اس کے بارے میں پڑھ کر دل ہل جاتا۔
Two moments unforgettable in the life of Surraiya . One was when she stood by the side of his majesty Shah Iran at the age of 18 and became Empress. The other was the day she stood at the steps of the plane taking her to Europe and after his life, forever. She could not give Shah son and heir he wanted. The story of Shah and Queen Surraiya is one of the most prominent in modern history.
اور میں۔۔۔ میں اب زندگی کے آخری حصے میں ان کیساتھ ہوں۔ اور ان کی تنہائی کو سحر کی فضا دینا چاہتی ہوں۔ کبھی نرس بن کر۔ کبھی دوست بن کر اور کبھی بیوی۔ آنے والے وقت کے سائے میں یہ ایسا وقت ہے جسے کہنے کو جی چاہتا ہے “وقت اے وقت! ٹھہر جا”

Facebook Comments

سعدیہ سلیم بٹ
کیہ جاناں میں کون او بلھیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”وقت اے وقت! ٹھہر جا (ڈاکٹر انور سجاد سے ایک ملاقات)

  1. تشنہ کام۔۔۔۔نہ کچھ معلومات بڑھیں۔نہ ھی کچھ تسکین ملی۔۔۔صاحبہ مضمون کچھ زیادہ تاثر نہ چھوڑ گئیں۔۔۔کہ آئندہ کیلیے منتظر رہا جائے۔۔۔کوشش کے طور پر قابل قبول۔۔۔

Leave a Reply