امریکہ کے دوغلے معیار۔۔۔۔حسن بہشتی پور

امریکی ذرائع ابلاغ میں ٹرمپ حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر سعودی عرب کو جوہری ٹیکنالوجی کی منتقلی اور جوہری ری ایکٹر کی تعمیر پر مبنی فیصلے کی خبریں زوروں پر ہیں۔ لیکن اس بارے میں چند نکات خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا اہم نکتہ جس پر توجہ ضروری ہے وہ یہ کہ امریکی حکام کی جانب سے جوہری شعبے میں سامنے آنے والے بیانات کا بڑا حصہ ملک کے اندر سیاسی جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ لہذا ان کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ امریکہ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی ہیں۔ یہ جماعتیں آپس میں پائے جانے والے اختلافات کو سیاسی رنگ دے کر پیش کرتی ہیں۔ لہذا امریکہ کے اندرونی ایشوز کو علاقائی اور عالمی سطح پر پھیلانا درست نہیں۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ پرامن جوہری توانائی اس کا اور تمام ممالک کا مسلمہ حق ہے اور اقوام متحدہ کی جوہری توانائی ایجنسی آئی اے ای اے کے ساتھ ایران کا معاہدہ باقی ممالک کیلئے بھی رول ماڈل ثابت ہو سکتا ہے۔

اس بنیاد پر سعودی عرب یا خطے کا کوئی دوسرا ملک جب تک پرامن مقاصد کیلئے جوہری ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے کوشش کرتا ہے ایران کے خلاف کسی قسم کا خطرہ تصور نہیں کیا جاتا بلکہ آئی اے ای اے کی مناسب نظارت کے تحت جوہری میدان میں تعاون بھی ممکن ہے۔ تیسرا اہم نکتہ امریکہ کے دوغلے معیار ہیں۔ امریکہ نے اپنے مفادات کو دیگر ممالک کیلئے جوہری ٹیکنالوجی کے استعمال کی اجازت دینے کا معیار بنا رکھا ہے۔ سابق صدر براک اوباما کے دور میں امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ 16 جوہری ری ایکٹرز تعمیر کرنے کا معاہدہ کیا تھا جس کی لاگت 80 ارب ڈالر تھی۔ اس پراجیکٹ کا نام 123 رکھا گیا تھا۔ اس وقت امریکہ میں ہی مخالف دھڑوں نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ ان جوہری ری ایکٹرز کا ایندھن امریکہ فراہم کرے اور سعودی عرب میں یورینیم کی افزودگی انجام نہ پائے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو جوہری ایندھن کی پیداوار کی ٹیکنالوجی فراہم کرنا نہیں چاہتا بلکہ صرف بجلی پیدا کرنے کیلئے ری ایکٹرز تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جوہری ایندھن پیدا کرنے کے مختلف مراحل ہیں جو یورینیم کی معدن سے شروع ہو کر یورینیم آکسائیڈ یا زرد کیک اور پھر سینٹری فیوجز میں ان کی افزودگی پر مشتمل ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس حد تک جوہری ٹیکنالوجی کی فراہمی کوئی بڑا ایشو نہیں کیونکہ این پی ٹی کا رکن ہونے کے ناطے سعودی عرب اس کا حق رکھتا ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب میں یہ معاہدہ ماضی میں انجام پا چکا تھا لیکن اس کے بعد امریکی حکام شش و پنج کا شکار ہو گئے تھے۔ البتہ اس بار امریکی حکام سعودی عرب میں 40 جوہری ری ایکٹرز کی تعمیر کی بات کر رہے ہیں جو کچھ حد تک نامعقول نظر آتی ہے۔ اتنی تعداد میں جوہری ری ایکٹرز کی تعمیر تقریباً چالیس سال کا کام ہے جو مختصر مدت میں انجام پانا ممکن نہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں موجود جوہری ری ایکٹرز کی کل تعداد 448 ہے جن میں زیادہ تر امریکہ اور فرانس میں ہیں۔ فرانس اپنی بجلی کا 70 فیصد حصہ جوہری ری ایکٹرز سے حاصل کرتا ہے جن کی تعداد 100 ہے۔ پس سعودی عرب جیسا ملک جہاں ابھی تک جوہری ٹیکنالوجی کا آغاز ہی نہیں ہوا ابتدائی اقدام میں ہی کس طرح 40 جوہری ری ایکٹرز کا مالک بن سکتا ہے۔

لہذا امریکی حکومت اور حکومتی اداروں کی جانب سے دیگر ممالک کے بارے میں سامنے آنے والے موقف کی کوئی ٹھوس بنیاد موجود نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے مختلف موضوعات جیسے انسانی حقوق، دہشت گردی، آزادی اور جمہوریت وغیرہ سے متعلق امریکی موقف اپنی اہمیت اور حیثیت کھوتا جا رہا ہے۔ امریکہ ایک طرف تو اپنے وطن کا دفاع کرنے والی فلسطینی جہادی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جبکہ دوسری طرف حکومتی سطح پر ریاستی دہشت گردی میں مصروف اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت میں مصروف ہے۔ اسرائیلی رژیم کی جانب سے عام فلسطینی شہریوں کا قتل عام کس پر پوشیدہ ہے؟ لیکن اس کے باوجود امریکہ نہ صرف مالی میدان میں بلکہ سفارتی، فوجی اور اخلاقی میدان میں بھی اسرائیل کی مکمل حمایت کرنے میں مصروف ہے۔ آج تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف جتنی بھی قراردادیں پیش کی گئی ہیں امریکہ نے اپنی ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے انہیں بے اثر بنایا ہے۔ ایسا ملک اور ایسی حکومت کس منہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی علمبردار بنتی پھرتی ہے؟

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply