ایک مثالی طالب علم، قندیل بلوچ۔۔۔ایم اسلم گدور

کچھ لوگ فطری صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور جلد لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا کر چھا جاتے ہیں اور کچھ لوگ چھپا رستم بن کر اپنی محنت کو روزانہ کی بنیاد پر جاری و ساری رکھ کر نام کماتے ہیں اور کچھ لوگ طالب علم بن کر بستہ بغل میں دبا کر گھر سے دور ہو کر الفاظوں کی موتیوں کو چن کر دماغ کو علم کی طاقت سے لیس کر کے اوّل پوزیشن پہ آ کر سماج میں راج کرتے ہیں۔

ایسی ہی ایک شخصیت مسٹر غلام فاروق ہیں جو قندیل بلوچ کے نام سے جانے، پہچانے و مانے جاتے ہیں۔ مسٹر غلام فاروق عرف قندیل بلوچ نے مجھے اُس وقت اپنے نام ایک کالم لکھنے پر مجبور کیا جب میں نے 14 فروری کے دن گورنر بلوچستان کے ہاتھوں ٹاپ پوزیشن کی بنا پر گولڈ میڈل وصول کرتے دیکھا۔

قندیل بلوچ ضلع آواران کے تحصیل مشکے سے تعلق رکھتے ہیں. قندیل بلوچ مشکے آواران کے اُس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں تعلیم کی نہ کوٸی پہچان تھی نہ کوٸی ویلیو تھی اور نہ ہی وہاں کے بڑے اپنے بچوں کو تعلیم کی جانب راغب کراتے تھے۔ قندیل کے والد صاحب قندیل کی تعلیم و ترپیت کے لیے مجبور ہوا۔ حالانکہ قندیل کے والد سمیت پورے خاندان سے کوٸی پڑھا لکھا نہیں تھا اور نہ ہی کوٸی رہنما جو رہنماٸی کرتا کہ فلاں فلاں فیلڈ میں جاٶ پڑھو. یہ بھی آپ لوگوں کے ذہن میں ہو کہ اس پورے علاقے سے قندیل واحد اسٹوڈنٹ ہے جو تعلیم کے حوالے سے اس لیول تک آ پہنچا ہے. قندیل کے والد صاحب نے دوسرے علاقے کے تعلیم یافتہ لوگوں میں تعلیم سے پیدا ہونے والے شعور کو دیکھ کر اپنے بیٹے کو پڑھاٸی کی جانب کامیابی سے راغب کرا کر ایک قریبی پراٸمری سکول میں داخل کروایا.

مسٹر غلام فاروق عرف قندیل بلوچ نے اپنی ابتداٸی تعلیم پراٸمری سکول لاکھی مشکے اور میٹرک کی تعلیم ہاٸی سکول گجر مشکے سے حاصل کی۔ ایف ایس سی کی ڈگری انٹر کالج مشکے سے امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ والدین اور قریبی رشتہ داروں میں سے چونکہ کوٸی پڑھا لکھا نہ تھا تو قندیل نے جب ایف ایس سی کی ڈگری حاصل کی تو والدین کا خیال تھا کہ کہیں چھوٹی موٹی جاب ملے، قندیل کی زندگی سیٹ ہو. اِس جیسے سوچ کی بنیادی وجہ کوٸی تعلیمی رہنمائی کرنے والا نہ تھا مگر قندیل نے والدین سمیت سب کو راضی کر کے خود کو اور اپنی قوم کے نونہالوں کو سدھارنے کی خاطر اپنی تعلیم کو ترک کرنے کے بجائے لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین ساٸنسز (لومز) اوتھل کا رخ کر کے بی ایس انگلش (لینگویجز اینڈ لٹریچر) فیلڈ سلیکٹ کر کے تعلیم کی جانب سفر جاری رکھا.

اس شعبے کو منتخب کرنے کا مقصد اپنی ثقافت، بلوچی تاریخ و قدیمی لٹریچر، ادب اور کلچر وغیرہ جیسی چیزوں کو سمجھنے کے لیے غور سے پڑھ کر تجزیہ و اپنی لینگویج پر کام کرنا تھا، خصوصاً بلوچی لینگویج پر ریسرچ کرنا قندیل بلوچ کی دیرینہ خواہش تھی جس کی بنا پر لٹریچر میں ایڈمیشن لیا اور لینگویسٹک و لٹریچر دونوں سبجیکٹس پر مکمل مہارت حاصل کر کے ہر فلور پر اپنی یونیورسٹی، ڈپارٹمنٹ و ٹیچرز کا نام روشن کیا اور کئی کی سرگرمیوں کے دوران حصہ لے کر نمایاں رہے اور یہ سلسلہ چلتا گیا. بالآخر 14 فروری 2019 بروز جمعرات کا سورج قندیل بلوچ کے لیے ایک زندگی بھر نہ بھولنے والی خوشی لا کر چمکا. قندیل بلوچ نے ایم این اے لسبیلہ کی موجودگی میں قاپل عزت گورنر بلوچستان و وائس چانسلر سے گولڈ میڈل وصول کر کے اپنے و اپنے والدین کا نام روشن کر لیا جو کہ محنت و اپنے کام سے مخلصی کا منہ بولتا ثبوت ہے.

یہ سب کچھ لکھتے ہوئے دل نے سوچا کہ کیوں نہ قندیل بلوچ سے کوٸی سا ایک سوال پوچھا جائے تو میں نے قندیل بلوچ سے ایک سوال پوچھا کہ بطور گولڈ میڈلسٹ کوٸی Statement؟؟؟؟؟؟؟ قندیل بلوچ کا جواب تھا Believe in Yourself یعنی خود پر بھروسہ رکھنا.

اس کا مطلب کہ اگر آپ کوئی بھی کام کرنا چاہتے ہیں تو صلاحیت و مخلصی کے ساتھ اُس کام کو کرو کہ آپ خود سے مطمئن رہو، خود کو دھوکہ مت دو اور اپنے کام کو اس انداز سے کرو کہ آپ خود کو منوا سکو کہ میں نے جو کچھ کیا ہے میں اس پر مطمئن ہوں. خود سے بحث کر کے اپنی غلطیوں اور خامیوں کو دور کر کے اُس چیز میں کمانڈ حاصل کرنا چاہیے.

ایک اور سوال کے جواب میں قندیل بلوچ کا کہنا تھا کہ میں ایک اچھا انسان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے فیلڈ میں Specialist یعنی PhD کرنا چاہتا ہوں اور اپنی لینگویج کے بارے میں کام کرنا چاہتا ہوں۔

یہ سب کچھ لکھ ہی رہا تھا کہ میرے ایک دوست، صغیر احمد بلوچ”میرے کمرے میں داخل ہوئے جو قندیل بلوچ کے بھی جگری دوست ہیں اور کراچی کے علاقہ ملیر سے تعلق رکھتے ہیں. انہوں نے مُجھ سے پوچھا
کیا ہے یار؟؟؟؟
موباٸل میں اتنا مصروف ہو؟؟؟
تو میں نے اُسے کہا کہ میں ایک Ideal اسٹوڈنٹ پہ چند الفاظ لکھ کر سامعین کی خدمت میں شیئر کرنا چاہ رہا ہوں. اُس کے بے حد اصرار پر میں نے اُسے بتایا کہ میں اپنے انگلش ڈپارٹمنٹ کے ایک فارغ التحصیل قندیل بلوچ کے بارے میں لکھ رہا ہوں تو اُس نے بھی Excellent کہہ کر قندیل بلوچ کے بارے میں عرض کرنا چاہا.

صغیر بلوچ کا کہنا تھا کہ مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار LUAWMS آیا اور لائبریری جوائن کیا تو جب میں لائبریری گیا تو وہاں میں بیٹھ کر اسٹڈی کر رہا تھا تو ایک لڑکا میرے ساتھ بیٹھ کر ناول پڑھ رہا تھا اور 2 گھنٹے کے اندر میں تو باہر گیا، جب واپس آیا تو وہ لڑکا اُسی طرح اُسی ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر رات کے 10 بجے تک بیٹھا اور گہراٸی اور توجہ سے ناول پڑھ رہا تھا اور ناول پڑھنے میں اس قدر گہراٸی میں جا چکا تھا کہ لائبریری کا وقت ٹائم ختم ہوا اور سارے طلبا چلے گئے مگر قندیل بلوچ بیٹھا تھا.

Advertisements
julia rana solicitors

آخرکار لائبریری کے ایک ملازم نے قندیل سے کہا کہ ٹائم ختم ہے، ہم لوگ لائبریری بند کر رہے ہیں. پھر اُس کے کہنے کے بعد قندیل اپنی بُکس اٹھا کر ہاسٹل کی جانب گامزن ہوا. صغیر نے کہا کہ میں تو اُسی دن سمجھ گیا تھا کہ اگر کوٸی اپنی پڑھاٸی یا کسی بھی کام کے ساتھ اتنا مخلص ہو تو اسے ضرور ایک دن اُس کی کامیابی کا پھل ملے گا. آج میں قندیل کو بطور گولڈ میڈلسٹ دیکھتا ہوں تو مجھے وہی دن یاد آتے ہیں

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply