• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • دیوار گریہ کے آس پاس۔۔۔راوی : کاشف مصطفےٰ/ تحقیق و تصنیف : محمدّ اقبال دیوان/قسط13

دیوار گریہ کے آس پاس۔۔۔راوی : کاشف مصطفےٰ/ تحقیق و تصنیف : محمدّ اقبال دیوان/قسط13

(اسرائیل کا سفر نامہ ۔اپریل 2016 )
ادارتی تعارف
جناب محمد اقبال دیوان کی تصنیف کردہ یہ کتاب’’ دیوار گریہ کے آس پاس ‘‘کو مکالمہ میں خدمت دین اور فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی خاطر شائع کیا جارہا ہے۔
اس سفر نامے کا شمار اردو کی ان دنوں مقبول ترین کتب میں ہوتا ہے۔مشہور سیاح اور مصنف مستنصر حسین تارڑ بھی اسے پڑھ کر ششدر رہ گئے تھے۔
کتاب کے ناشر محترم ریاض چودہری کی پیرانہ سالی اور صوفیانہ بے نیازی کی وجہ سے سرورق پر دیوان صاحب کا نام بطور مصنف شائع ہونے سے رہ گیا جس سے یہ تاثر عام کیا گیا کہ اس کے مصنف کوئی اور امیر مقام ہیں۔
یاد رہے کہ یہ سفر اپریل 2015 میں جناب کاشف مصطفے نے کیا تھا۔
انگریزی میں تحریر ان کی سفری یاداشتوں کا ایک غیر کتابی سلسلہ تھا جو زیادہ تر مختصر پیرائے میں انگریزی زبان میں اسرائیل سے جناب دیوان صاحب کو بذریعہ ای میل موصول ہوئیں۔ ہمارے جگر جان ،محمد اقبال دیوان نے موصول شدہ ان ٹریول نوٹس کی مدد سے اپنے مخصوص انداز میں اسے اردو کے قالب میں ڈھالا۔ اسے ادارہ قوسین نے اردو کے مشہور جریدے سویرا کی وساطت سے کتاب کی صورت میں لاہور سے شائع کیا۔
اس کتاب کو لکھنے میں اور اس کی اشاعت و ترویح میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔یہاں  اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ یہ کاوش بیش بہا پہلے سے انگریزی یا کسی اور زبان میں کتاب کی صورت موجود نہ تھی۔ نہ ہی اس کا کوئی اور نسخہ اب تک کسی اور زبان میں معرض وجود میں آیا ہے۔ قارئین مکالمہ کی خاطر کچھ تصاویر جو کتاب میں موجود نہ تھیں وہ وضاحت مضمون کی خاطر نیٹ سے شامل کی گئی ہیں۔قسط مذکورہ میں ڈاکٹر صاحب کی اپنی تصویر کے علاوہ تمام تصاویر نیٹ سے لی گئی ہیں۔
ہما رے دیوان صاحب ڈاکٹر صاحب کے ہم زاد ہیں ۔سابق بیورو کریٹ اور صاحب طرز ادیب ہیں ۔ ان کی تین عدد کتابیں جسے رات لے اڑی ہوا، وہ ورق تھا دل کی کتاب کا اور تیسری پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ شائع ہوچکی ہیں۔ چوتھی چارہ گر ہیں بے اثر ان دنوں ادارہ قوسین کے پاس زیر طبع ہے۔ سرجن کاشف مصطفے جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں اور ان کا شمار دنیا کے نامور ہارٹ سرجنز میں ہوتا ہے۔بہت صاحب نظر اور اہل رسائی ہیں۔کاشف صاحب کوہ پیما ہیں،پیراک ہیں، میراتھن رنر ہیں اور دنیا کے ستر سے زائد ممالک کی سیر کرچکے ہیں۔تنہا سیر کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان دو دوستوں کی اس کاوش کی اشاعت ادارہ مکالمہ اپنے لیے باعث تفاخر سمجھتا ہے۔ قرآن الحکیم، بائبل اور تصوف کے حوالے دیوان صاحب کی اپنی تحقیق اور اضافہ ہے اور انگریزی ٹریول نوٹس میں شامل نہ تھا
ایڈیٹر ان چیف

انعام رانا

گزشتہ سے پیوستہ
Bait Hadassah Museum,  کے سامنے سے گزرتے ہوئے میری نگاہ انہی  سہمے ہوئے سیاحوں پر پڑی جنہیں میں نے بس سے اترتے دیکھا تھا ۔ ایک چالاک یہودی گائیڈ اب انہیں اس عجائب گھر کے بارے میں بتارہا تھا۔میرے لیے اس عجائب گھر میں داخلے کا امکان بہت کم ہے۔
یہاں موجود نواداررت کو اس انداز اور نقطہء نظر سے رکھا گیا ہے کہ یہودیوں کا اسرائیل پر حق ابتدائے آفرینش سے ثابت ہو گویا اسرائیل جنت کا حصہ تھا جہاں آدم علیہ سلام رہا کرتے تھے اور انہیں جنت سے بے دخل اس قطعہء مملکت سمیت کیا گیا۔عربوں کی بند دکانوں پر غلیظ عرب دشمن نعرے لکھے ہوئے تھے۔ایک جگہ بڑے الفاظ میں Free Israel کا نعرہ بھی درج تھا۔ یہ اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کی شدت پسند صیہونیت سوچ کا نعرہ ہے۔ ہبرون کے اکثر یہودی پناہ گیر آباد کار اس سوچ کے حامی ہیں۔ سڑک کے خاتمے پر ایک سمینٹ بلاک کی اوٹ مجھے ایک گول متھلو سا نوجوان نظر آیا یہ غسان تھا ۔ مجھے اسے پہچاننے میں اس لیے دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا مجھے اس کی تصویر دکھا دی گئی تھی۔

نئی قسط
Iشہدا اسٹریٹ کے اختتام پر ایک سیمنٹ بلاک کی اوٹ میں مجھے گول متھلو سا غسان دکھائی دے گیا۔چلتے وقت الخلیل کے ایچ ۔ون علاقے میں اس کا تعارف مجھے بہت تفصیل سے کرادیا گیا۔۔غسان میاں چالاک تھے۔ ایسے چالاک جو ذہانت بہت سینت سینت کر رکھتے ہیں۔مجھے بھی انہوں نے دور سے پہچان کر بہت سرعت سے پتلی گلی پکڑی۔ یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ ع
ملنا جلنا جہاں ضروری ہو
ملنے جلنے کا حوصلہ رکھنا
میں بھی بہت آرام سے ٹہلتا ہوا اس گلی میں چلا گیا۔وہ ایک لاتعلقی سے تیز تیز آگے بڑھتے ہوئے ایک ایسی جگہ آگئے جہاں کسی چھاپے کی صورت میں فرار کے بہت سے راستے تھے۔ میرے نزدیک آنے پر ایسے لپٹ گئے جیسے جنم جنم کی ملاقات ہو۔چند سو میٹر کی یہ پھرتی اس کی سانسوں کو بھاری پڑی تھی۔ وہ بری طرح ہانپ رہا تھا ۔ شاید خوف بھی تھا۔گلے ملنے اور سانسوں کے بحال ہونے تک حضرت نے ملاقات کی اس بے ضابطگی کا احوال اس وضاحت سے دیا کہ وہاں ملتے تو اسرائیلی فوجی اسے گرفتار کرلیتے اور مجھے شامل تفتیش کرکے ہراساں کرتے چندگلیاں چھوڑ کر جب ان کا محلہ اور گھر آگیاتومجھے لگا کہ یہ تو وہی شہدا اسٹریٹ کا پچھواڑہ ہے۔یہ درست تھا کیوں کہ اس کا مرکزی دروازہ بھی دیگر گھروں کی مانند ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیل کردیا گیا ۔ داخلے کی اجازت عقبی دروازے سے تھی۔ اس میں کسی قسم کی  کوئی رو رعایت نہ تھی۔

ایریا ایچ 2،اپنے گھر آمد

وہ مجھے لے کر چھت پر چلا گیا۔ وہ کہہ رہا تھا ۔ نارمل زندگی کسے کہتے ہیں اس کا ہمیں تو اب ادارک اور ذائقہ بھی نہیں رہا۔ہمارا ہر گھر بیت ال آلام ہے۔ ماتم کدہ رفتگاں و شہیدان وطن ہے۔شاید ہی کوئی فلسطینی گھر ایسا ہو جس کی میز پر کسی شہید کی تصویر نہ ہو۔کوئی ماں بہن بیٹی ایسی نہیں جس کی آنکھ اپنے بیٹے بھائی یا باپ  کے لیے اشکبار نہ ہو۔ ہم ایسے مجبور ہیں جو شہادت کے منتظر ہیں۔اس چھت سے بائیں جانب وہ جو گھر ہے وہ ام حبیبہ کا ہے ۔ ان یہودی پناہ گیر آباد کاروں نے اس کے میاں اور دو نوجوان بیٹوں کو مارڈالا۔یہ قاسم کا گھر ہے۔اس نے ایسے ہی کسی گھر کی جانب اشارہ کیا ،قاسم نابینا اور جھلسا ہوا ہے ۔اس کے چہرے پر کسی یہودی نے تیزاب پھینک دیا تھا۔ میں گھر کی جانب کیا دیکھتا۔میری آنکھیں دھندلا چکی تھیں کانوں میں سناٹے گونج رہے تھے اور ذہن ماؤف ہوچکا تھا۔ میں خود کو کوس رہا تھا کہ اس بستی کرب و بلا میں آنے کا فیصلہ میں نے آخر کیوں کیا۔ساری دنیا انہیں نظر انداز کیے بیٹھی ہے۔ انہیں مرنے دو۔ میں بھی ایسا کرلیتا۔
کسی دن ان کا تہوار ہوتا ہے تو یہ بہانے سے ہماری بستی میں آجاتے ہیں، اس قدر بے ہودگی اور ظلم کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ہم اقوام متحدہ کے فوجیوں کو درخواست کرتے ہیں کہ ایسے موقع پر وہ آجایا کریں۔ہمارے بچے بھی اب انہیں مبصرین کی نگرانی میں اسکول جاسکتے ہیں ، تنہا نہیں۔
’’تمہارے بچے ہیں ڈاکٹر صاحب‘‘ مجھے لگ کہ وہ یہ سوال شاید مجھے ڈی اسٹریس کرنے کے لیے پوچھ رہے ہیں۔ میں نے بھی اپنے  نارمل حالات میں لوٹنا مناسب سمجھا ’’ جی۔ دو‘‘
’’آپ یقیناًان سے پیار بھی بہت کرتے ہوں گے‘‘۔غسان نے اپنا بیان جاری رکھا۔ مجھے لگا کہ میں تو اسی خارزار میں بھٹک رہا ہوں
جی ہاں دنیا میں وہی میرے لیے سب کچھ ہیں۔میں نے بھی زندگی کی اس بڑی حقیقت کا اظہار ایک ایسی کیفیت میں کیاجس کی بے یقینی سے ان لمحات کی تلخی کے حوالے سے صرف میں ہی واقف ہوں۔
ان کی آواز اب ڈوب چلی تھی۔ایسا لہجہ ہوچلا تھا جو یا تو بہت پیار میں ڈوبی گھڑیوں کا ہوتا ہے یا ان کڑواہٹوں کو جو آپ کی صوتی رگوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔وہ کہہ رہا تھے ان سے پیار کرنا مت چھوڑیے گا۔ ہمارے بچوں کی زندگی کی سب بڑی خوشی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس شہدا اسٹریٹ پر کھیلیں کودیں دوڑیں بھاگیں ۔ وہ ہماری لاکھ احتیاط اور ممانعت کے باوجود ایسا کرتے بھی ہیں۔ انہیں موت کی مستقل مزاجی کا نہیں علم۔وہ سمجھتے ہیں کہ موت REVERSIBLE PHENOMENONہے۔ سارا دکھ تو زندہ رہ جانے والوں کے لیے ہوتا ہے۔وہ اس کو آزادی اور بغاوت سمجھ کر نکل جاتے ہیں۔ان کے نزدیک موت کا ہاتھ تھام کر اس سڑک پرنکلنا ہی زندگی ہے۔یہی آزادی ہے، بے حیثیت ہی سہی مگر اختیار تو اپنا ہے۔
میں نے گفتگو کا یہ الم انگیز بیانیہ حل اور تجزیے کی جانب موڑ دیا۔آپ تو بہت عمدہ موٹر مکینک ہیں ۔ یہ جگہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔H-1 یا کہیں اور کیوں نہیں چلے جاتے ۔ ہمارے دشمن ، یہ گھس بیٹھیے بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہم ان کی ان حرکات سے زچ ہوکر علاقہ چھوڑ دیں۔ ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے ہمارا یقین ہے کہ ہم نہ سہی ہماری  دوسری تیسری چوتھی نسل اس سرزمین پر ایک دفعہ پھر آزادی کا سانس لے گی۔اب اس کی آواز میں توانائی اور اعتماد تھا۔ ہر ظلم نے ایک دن مٹ جانا ہے ۔ ہر ظالم نے برباد ہوجاناہے۔
ہم وہاں سے نکل کر ایک گھنٹے تک عرب علاقوں میں گھومتے رہے۔یہاں ہر جانب غربت عیاں تھی۔ان کے غریبوں میں اور ہمارے غریبوں میں دو بڑے واضح فرق ہیں۔ اجتماعی شعور، اور بے پناہ صفائی ۔ ان کی خواتین، ان کے لباس سے غربت اور لمحات اندوہ کرب میں بھی پاکیزگی اور رکھ رکھاؤ دکھائی دیتا ہے۔وہاں جن سے بھی بات ہوئی ہر گھر سے وابستہ ایک داستان الم کے پیچھے اعتماد اور امید تھی۔یہ بڑے غازی اور مجاہد لوگ ہیں ، میں جب ایچ ون کی طرف واپس آرہا تھا تو اندر سے بہت کرچی کرچی ہوچکا تھا۔بہت سے سوال تھے جن کا میرے پاس اپنی زندگی کے حوالے سے ان کی زندگی کے حوالے سے کوئی جواب نہ تھا۔ آپ ٹی وی پر جو مناظر دیکھتے ہیں ان کے ساتھ گھر کا ایک احساس تحفط وابستہ ہوتا ہے ان جگہوں کو جب حقیقت میں وہاں جاکر دیکھتے ہیں تو آپ پر سچ کا بوجھ سنگِ گراں کی مانند آن پڑتا ہے۔
H-1 کے علاقے میں میری واپسی تک دوپہر ہوچکی تھی اور عبدالقادر میرا انتظار کررہے تھے۔انہوں نے یہ نہ پوچھا کہ وہاں میں نے کیا دیکھا یا میرے ساتھ کیا کچھ ہوا۔ٍایسا لگتا تھا میرا احوال میرے چہرے پر درج تھا جو اس نے بہت خاموشی سے پڑھ لیا ہے۔میں نے صلوۃ الجمعہ کا قصد کیا۔اس مقصد کے لیے ہم آہستہ آہستہ حرم ابراہیمی کی جانب بڑھنے لگے اسے یہودی Cave of Patriarchs, یعنی غار بزرگاں بھی کہتے ہیں۔
راستے میں تین ملٹری چیک پوسٹ آئیں۔ تیسری چیک پوسٹ سے گزر کر ہم ایک پختہ احاطے میں داخل ہوگئے۔اس احاطے میں بائیں جانب نصب turnstiles سے گزر کر فلسطینی داخل ہوسکتے ہیں۔انہیں یہاں سنگل قطار میں کھڑا ہونا ہوتا ہے ہر فرد واحد کو اسرائیلی فوجی اچھی طرح سے کھنگالتے ہیں۔مکمل جامہ تلاشی کے بعد انہیں مسجد میں داخل ہونے دیا جاتا ہے۔قادر کو چونکہ وضو کرنے کے لیے جانا تھا لہذا وہ مجھے اس ہدایت کے ساتھ کہ میں اس کے واپس آنے تلک اسی جگہ اس کا انتظار کروں چھوڑ کر چلا گیا۔مجھے خیال آیا کہ یوں ہی بے کار اس کی راہ تکنے سے تو بہتر ہے کہ میں ایک آدھ تصویر اس مقام کی کھینچ لوں۔میں نے قطار مجبوری میں کھڑے عربوں اور اس چیک پوسٹ کی تصویر کھینچ لی۔جیسے ہی میرا ارادہ دوسری تصویر کھینچنے کا تھا مجھے چار سو ایک یلغار سنائی دی۔اسی دوران مجھے پانچ اسرائیلی فوجیوں نے گھیر لیا۔ان کی بندوق کی نالیوں کا رخ میرے سر اور سینے پر تھا۔وہ عبرانی زبان میں چیخ رہے تھے۔ان کی گرفت سے مجھے لگ رہا تھا کہ مجھے ان رسوائے زمانہ فوجیوں نے حراست میں لے لیا ہے۔ میں نے اطمینان اور سکون سے ہاتھ اوپر کرلے اور انہیں آہستگی سے بتلایا کہ میں تو سیاح ہوں۔میرا پاسپورٹ بھی میرے داہنے ہاتھ میں تھا۔ایک فوجی نے میرا پاسپورٹ جھٹ سے چھین کر اس کا جائزہ لینا شروع کردیا.اس دوران اس کی نگاہیں گاہے بہ گاہے پاسپورٹ سے اٹھ کر میرے چہرے پر مرکوز ہوجاتیں۔یہاں کیسے آئے ۔ اس نے قدرے درشتگی سے پوچھا۔ ’’بذریعہ ٹیکسی ‘‘ میں نے جواباً وضاحت کی۔ڈرائیور کہاں اس نے اگلا سوال داغا مگر اس کا لہجہ اب قدرے نرم تھا۔میری نگاہ سامنے سے آتے ہوئے عبدالقادر پر پڑی تو یک گونہ اطمینان سا ہوا، مجھے یقین تھا کہ مقامی باشندہ ہونے اور اس طرح کے حالات کا مسلسل سامنا کرنے سے وہ بخوبی واقف ہوگا۔جیسے ہی انہوں نے قادر کو دیکھا وہ اس پر بے رحمی سے ٹوٹ پڑے اور اس کے ہاتھ اور گریبان قابو کرکے اس کا سر ایک دیوار سے لگا دیا۔ یہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا کہ ایک بوڑھا ڈرائیور میری وجہ سے اس عتاب بے جا کا نشانہ بنے۔ میرا خون کھول گیا۔ میں ان کے اور عبدالقادر کے درمیان کھڑا ہوگیا۔جس پر عبدالقادر نے چیخ کر مجھے ایک جانب ہٹ جانے کو کہا وہ کہہ رہا تھاDoc go away, stay away, I will handle it۔ میں نے بھی انہیں تقریباً چیخ کر یہ سمجھانے کی کوشش کہ اگر یہ کوئی جرم ہے تو میرا ہے وہ بے چارہ تو وہاں موجود بھی نہ تھے۔ جو معاملہ ہے مجھ سے کریں۔
عبدالقادر بے چارہ مریض قلب ہونے کی وجہ سے بری طرح ہانپ رہا تھا۔لائن میں کھڑے دیگر نمازیوں میں جو یہ سارا واقعہ دیکھ رہے تھے ایک بے چینی اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی وہاں سے صدائے احتجاج بلند ہونے لگی اور ایک ہنگامہ پھوٹ پڑنے کا امکان پیدا ہوگیا۔میری نگاہ اس دوران اقوام متحدہ کے دو مبصرین پر پڑی جو غار بزرگاں Cave of Patriarchs کی ڈھلوان پر کچھ فاصلے پر کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے ۔ میں نے جست بھری اور ان کے پاس جاپہنچا۔ان دو مبصرین میں ایک تو ڈنمارک کی خاتون تھی اور دوسرے صاحب کا تعلق جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن سے تھا۔میں نے انہیں جلدی جلدی اپنی بپتا سنائی۔یہ سنتے ہی وہ دونوں مجھے ساتھ لے کر تقریباً بھاگتے ہوئے ان اسرائیلی فوجیوں کی جانب جارحانہ انداز میں بڑھے ۔ موقع کی نزاکت بھانپ کر اسرائیلی فوجی ایک دم پیچھے ہٹ گئے۔ ایک نے ذرا فاصلے سے انہیں بتایا کہ میں ممنوع علاقے میں تصاویر لے رہا تھا۔میں چونکہ ایک سیاح ہوں لہذا  یہ ڈرائیور کی ذمہ داری ہے کہ مجھے وہ ان تمام مضمرات سے پہلے ہی آگاہ کرتا۔میں نے انہیں بتایا کہ قادر تو وضو کرنے گیا تھا اور ایک تاریخی اور سیاحتی اہمیت کی جگہ ہونے کے ناطے تصاویر لینے کا ٖفیصلہ خالصتاً میرا محرکاتی عمل تھا۔میرے ہم وطن جو واضح طور پر میرے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتا تھا اس نے تجویز پیش کی کہ فوجی میرا آئی فون دیکھ لیں اور وہ دو تصاویر جو میں نے اس احاطے میں کھینچی ہیں انہیں delete کردیں۔انہیں بھی یہ تجویز بھلی لگی اس پر فی الفور عمل بھی ہوگیا اور انہوں نے ہم دونوں کو مسجد میں صلوۃ الجمعہ کے لیے جانے دیا۔

مسجد کی راہداری تک پہنچتے پہنچتے قادر کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے مجھے کہا کہ میں تو ایک مجاہد ہوں ۔میں نے اسے کہا کہ میرا تعلق پاکستان کے علاقے پو ٹھوار سے ہے۔ ہمیں ویسے بھی غیر ضروری جنگوں کی بہت عادت ہے۔ہٹلر نے جب ہمارے سپاہیوں کو اتحادیوں کے لیے جان لٹاتے دیکھا تو اس نے جنرل رومیل کو کہا کہ اگر مجھے انگلش ٹینک اور پوٹھواری سپاہی مل جائیں تو دنیا فتح کرنا اتنا مشکل کام نہیں۔
مجھے لگا عبدالقادر کو  ہٹلر کی یہ حکمت عملی پسند آئی اور ہم مسکراتے ہوئے حرم ابراہیمی میں واقع صلوۃ ہال میں داخل ہوگئے۔

مجھے احساس ہوا کہ اسرائیلوں سے پاکستان کی پہلی جنگ میں جو عبد القادر فلسطینی کو چھڑانے کے لیے ہوئی تھی اس میں میرے منہ  پر ایک عدد زور دار مکا لگ گیا تھا جس کی وجہ سے مسوڑھوں سے ذرا خون آرہا تھا سو میں نے دوبارہ وضو کرنا ہی بہتر سمجھا۔ ویسے تو حنفی فقہ میں شہید کو غسل معاف ہے،میں وضو کرکے ایک مقدس مقبرے میں چلا گیا۔ سن 1994 سے یہاں اب ایک تقسیم کردی گئی ہے۔مسلمانوں کی طرف مسجد ابراہیمی ہے اور اہل یہود نے اپنا ایک Synagogue بنالیا ہےموجودہ احاطہ بادشاہ ہیر ڈ نے ان غاروں کے اوپر بنایا تھا جن کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں انبیا علیہ ا سلام اور ان کی ازدواج مدفون ہیں۔

ان تک رسائی نا ممکن بھی اور ممنوع بھی ہے۔ایک طویل عرصے سے کھوجی، نوادارت اور مذہبی جنونی ہمہ وقت اس کوشش  میں رہتے ہیں کہ کسی طرح ان غاروں تک چاپہنچیں۔ان کی دخل اندازی کو روکنے کی خاطر اب علامتی طور پر دو عدد سوراخ اس طرح چھوڑ دیے گئے ہیں کہ ایک ٹرے کے ذریعے ان سے زیر زمین مقابر پر پھول نچھاور کیے جاسکیں تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ بمشکل 28 سینٹی میٹر کی گول رسائی ہے۔ایک سوراخ مسجد میں سے دوسرے یہودی معبد میں موجود ہے۔

مسجد ابراہیم کا راستہ
مسلمانوں کا راستہ
مسجد ابراہیم کا ایک منظر
سیدنا ابراہیم علیہ سلام کا مزار
سوراخ جو زیر زمین مقابر میں جاتا ہے
سرجن کاشف مصطفٰی سیدنا یعقوب علیہ السلام کے مزار پر

ایک روایت کے مطابق یہاں سیدنا اسحق ،سیدنا یعقوب اور سیدنا یوسف علیہ   سلام کی قبور مبارکہ بھی انہیں زیر زمین غاروں میں موجود ہیں۔ان تک رسائی ناممکن ہے۔ ان تک رسائی کا راستہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے فتح یروشلم کے موقع پر پتھروں سے سیل کردیا تھا ۔ہر نبی محترم کی قبر کے پہلو میں ان کی زوجہ محترمہ  کی قبر بھی ہے۔مسجد میں داخل ہوتے ہی آپ کی نگاہ احاطہء صلوۃ میں  ان تعویزات ( وہ مقابر جو اصل قبر کے اوپر تعمیر کیے جاتے ہیں ) پر پڑتی ہے۔یہ تعویز سیدنا اسحق علیہ سلام اور ان کی اہلیہ بی بی ربیکا کے ہیں۔مسجد کے مین ہال میں داخل ہونے سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ سلام کی زوجہ محترمہ بی بی سارہ کی قبر آتی ہے ۔آپ سیدنا اسحق کی والدہ محترمہ تھیں۔
, موشے دیان جو سن1967 کی جنگ میں اسرائیل کے وزیر دفاع تھے وہ خیر سے ایک شوقیہ ماہر آثار قدیمہ بھی تھے۔انہیں اس مقام کے بارے میں جان کاری کا بہت ہوکا تھا سو انہوں نے بارہ برس کی ایک نازک بدن لڑکی Michal کو ایک پیمائشی فیتہ،سر پر ایک کھوجی بتی اور نوٹ بک کے ساتھ اس شہتیر والے سوراخ سے غار مزار کے اندر اتارا تھا۔اس موقعے پر سرکار کے اہم افسر، اسرائیل کے بڑے یہودی ربائی اور وہ خود بھی موجود تھے۔خود اسرائیلی فوج میں باقاعدہ طور پر ایک میجر جرنل شولوم گورین  ربائی کو چیف ربائی کا عہدہ ملا ہوا تھا ۔وہی سب سے پہلے یہاں جھنڈا لہرانے پہنچا تھا۔
جب وہاں موجود مفتی صاحب نے کہا کہ وہ اسے باقاعدہ طور پر حرم ابراہیمی کی چابیاں سونپ دیں گے اگر وہ اس مقام کو اس کی اصل حیثیت میں رکھنے کا معاہدہ کرے تو وہ تکبر کا مارا کہنے لگا کہ مفتی صاحب کا عہدہ ان کے کپتان سے بھی نیچے ہے۔مفتوحین کو معاہدے کی شرائط منوانے کا کوئی اختیار نہیں۔تصویر میں آپ اسے خود جلدی میں سیا ہوا جھنڈا لہراتا دیکھ سکتے ہیں۔ مشل اندر چلی گئی اور خوب جائزہ لیا۔
باہر آن کر اس نے بتایا کہ 16 عدد سیڑھیاں اتر کر ایک راہداری آتی ہے۔ اس راہدری سے آگے جائیں تو تین عدد بڑے پتھر ہیں جن میں سے وسطی پتھر پر آیت الکرسی درج ہے۔ لڑکی کو وہاں کرنسی نوٹ ،کاغذ پر لکھی دعائیں اور جلی ہوئیء موم بتیاں ملیں۔شہر الخلیل دو ہزار سال سے یہودیوں کے قبضے میں نہ تھا۔مسلمانوں نے اسے یروشلم کے ساتھ سیدنا عمرؓ کے دور میں عیسائیوں سے فتح کیا تھا اس سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے تک ایرانی رومی عیسائی سبھی اس پر قابض تھے۔

سیڑھیاں

سن 1967سے سات سو سال پہلے تک یہودی صرف ساتویں سیڑھی تک جاسکتے تھے۔ یہ مملوک بادشاہوں کا حکم تھا جس پر اتنا عرصہ تک عمل ہوتا رہا۔ لڑکی پر تا حال انٹرویو دینے کی پابندی ہے۔اس کے گھروالوں کا بیان ہے کہ اس لڑکی کی نفیساتی کیفیت اس واقعے کے بعد پہلے جیسی نہ رہی۔
موذن حسن جنہوں نے مجھے یہ کہانی سنائی ان کا خیال تھا کہ جن جگہوں کی حفاظت اللہ کرتا ہے وہاں انسانی مداخلت محض رسوائی، ذلت اور پریشانی کا سبب بنتی ہے۔ میں اسوقت سر جھکائے سیدنا ابراہیم کے مزار عالیہ پر کھڑا تھا دوسری جانب یعنی بلٹ پروف گلاس کے اس طرف مغربی سیاح اور یہودی عبادت گزار موجود تھے۔سیدنا ابراہیم علیہ سلام دنیا کے تینوں بڑے مذاہب یعنی یہودی، عیسائیت اور اسلام میں بڑی جلیل القدر ہستی سمجھے جاتے ہیں۔مجھے میری دوست اور موجودہ میزبان ڈاکٹر کلور لی یاد آئی جو مجھے اکثر کہا کرتی تھی۔ تم اس قبر عالیہ پر دیکھنا جو ہمارے جد امجد سیدنا ابراہیم کی ہے ان کے دو بیٹے ، دو بھائی تھے : اسحق اور اسمعیل ۔اب وہاں ایک شیشے کی دیوار ہے جس کے آر پار ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں سن اور سمجھ نہیں سکتے۔سمجھے۔
جب تک میں یہ سمجھنا چاہتا صلوۃ الجمعہ کی ساعت آگئی تھی۔۔

یہودی عابد سیدنا ابراہیم کے مزار پر

حرم ابراہیمی میں صلوۃ الجمعہ میرے لیے ادراک اور شعور سے پرے ، بہت انوکھا سا تجربہ تھا۔صف بندی کی وجہ میرا سیدھا کاندھا سیدنا اسحق کے مزار عالی کے تعویز کو چھو رہا تھا۔صف بندی کے دوران میں نے جب نمازیوں کی تعداد گنی تو وہ بمشکل پچاس تھی۔میرا موجودہ وطن جنوبی افریقہ گو کہ مسلمان ملک نہیں اور یہاں مسلمانوں کی تعداد دو فیصد سے بھی کم ہے مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی  کہ وہاں گجراتی اور ملائی مسلمان جنہیں گورے بطور غلام لائے تھے، ایسے جبرو مسلمان ہیں کہ وہاں بعض محلوں میں تہجد کی نماز بھی لوگ مسجد میں اسی کثرت سے پڑھنے آتے ہیں اور فرض نمازوں میں جماعت کی خاطر خواتین کی بھی کثیر تعداد محلوں کی مساجد میں آتی ہے۔صلوۃ الجمعہ میں تو دور دراز کے گاؤں کی مساجد میں بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔یہاں معاملہ بہت کرب کا تھا۔ اسلام کا چوتھا اہم مقدس شہر اور نمازیوں کی تعداد بمشکل تین درجن کے قریب۔ایسا نہیں کہ یہاں کے  لوگ جذبہء ایمان سے محروم ہیں مگر پناہ گیروں اور اسرائیلی افواج کے جبر مسلسل کے ہاتھوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی بے حسی کے  باعث اب وہ کچھ نڈھال سے ہوچلے ہیں۔ ایسے اجتماعات عام طور پر فسادات کا بہانہ بن جاتے ہیں۔اسرائیلی گولیاں مارنے میں اور نوجوانوں کو قید میں اذیت دینے سے باز نہیں آتے ۔الخلیل کے ایسے کئی سو نوجوان قید ہیں جن کی عمر بیس سال  سے بھی کم ہے۔
صلوۃ سے فارغ ہوکر باہر نکلے تو عبدالقادر اور میں ابو صبیح حلوائی کی دکان کی طرف چل پڑے جہاں کار کھڑی تھی۔یہ فاصلہ ذرا طویل تھا مگر مجھے یہ چہل قدمی یوں بھلی لگی کہ مجھے اس بہانے شہر کو دیکھنے کا موقع  مل رہا تھا۔ہم ایک تنگ سی مارکیٹ میں داخل ہوگئے۔یہاں کاروبار چل رہا تھا ۔ہیبرون والے فلسطین بھر میں اپنی کاروباری مہارت کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔جب ان کا کاروبار کنگ ڈیوڈ اسٹریٹ یعنی شہدا اسٹریٹ سے بزور جبر و استبداد لپیٹ دیا گیا تو وہ یہاں سوق میں اٹھ آئے۔یہاں ایک جگہ انار کا جوس نکالا جارہا تھا۔ ویسے تو ہیبرون کے سبھی پھل بہت ذائقے دار ہیں مگر ان کے انار اور انگوروں کا کیا کہنا۔سرخ میٹھے اور پھولوں کی خوشبو کو مات کرتے تازہ انار کا جوس دیکھ کر میری طبیعت مچل گئی۔

ہیبرون-شہر
بازار اور گھروں میں یہودی جو کچرا پھینکتے ہیں وہ دیکھا جاسکتا ہے –

ہم جوس پی کر آگے بڑھے تو اچانک میرے سیدھے کاندھے پر کوئی شے آکر گری۔کسی حرامزادی نے مجھ پر اپنے بچے کا غلیظ پوتڑہ پھینک دیا تھا۔میرا ارادہ تھا کہ اوپر جاکر ایک چانٹا اسے رسید کروں مگر قادر نے میرے ارادے کو بھانپ لیا اور مجھے کھینچ کر ایک طرف لے گیا۔’’ایسے موقعے پر الحمد و للہ کہتے ہیں‘‘۔اس نے مجھے نئی سناونی دی۔’’کیا کوئی مجھ پر گندگی اچھالے اور میں اس کو سبق سکھانے کی بجائے ایک بزدل کی طرح اللہ کا شکر اداکرنے میں لگ جاؤں‘‘۔میں غصے سے کھول رہا تھا۔اس نے مجھے اوپر دیکھنے کو کہا سارے بازار پر ایک جالی لگی تھی۔ اس جالی کے اوپر بازار کے دونوں طرف رہائشی عمارتوں کی تنگ کھڑکیاں قطار در قطار چلی گئی تھیں۔ان کھڑکیوں سے ہر طرح کا کچرا پھینکنے کی علامات اس جالی کے اوپر موجود تھیں ، پرانے جوتے، گندے کپڑے،پتھر، تھیلیاں جو ان عمارات کے مکینوں کے ذوق سلیم اور سماجی شعور کی نشانی تھیں۔

ان عمارتوں میں دنیا کے سب سے کمینے اور بے رحم یہودی پناہ گیر رہتے ہیں۔جب لوگ مسجد ابراہیمی سے نماز پڑھ کر آتے ہیں تو غلاظت   بڑھ جاتی ہے۔شراب کی بوتلیں تک پھینکی جاتی ہیں ، ہم اسے مکۃالمکرمہ میں ہمارے نبی کی ابتدائی ایام میں کفار مکہ کے ہاتھوں پہنچائی گئی اذیت پر آپ کی برداشت سمجھ کر اس طوفان گندگی پر اللہ کا شکر ادا کرنا سنت نبوی مانتے ہیں ۔اسٹیل کی جالی کی یہ چھت بے چارے دکانداروں نے تانی ہے تاکہ گندگی کے ان میزائلوں سے بچت ہوجائے۔مجھے یہ بات سن کر ایسی طمانیت ہوئی کہ میں نے اسی وقت دورد شریف پڑھ کر شکر الحمد و للہ کہا۔ذرا آگے بڑھے تو ایک بہت بڑا کچن نظر آیا جہاں لوگ برتن تھامے قطار میں کھڑے تھے۔یہ سوپ ابراہیمی ہے۔سیدنا ابراہیم علیہ سلام کو غریبوں کو کھانا کھلانا بہت اچھا لگتا تھا۔یہ ان کی سنت ہے۔ہر دن مختلف قسم کا سوپ یہاں سے تقسیم ہوتا ہے پیر کو مرغی اور جمعہ کو گوشت باقی دنوں میں سبزی کا سوپ۔پچاس ہزار سے ساٹھ ہزار لوگ جو بے حد غریب اور ضرورت مند ہیں ان کا اس اسکیم سے پیٹ بھر جاتا ہے۔اس پریشان حال بستی میں جہاں غربت ہر طرف عیاں ہے لوگوں کا تین ہزار سال پرانی سنت کو اس لیے زندہ رکھنا کہ اس سے کمزور اور معاشی طور پر مفلوک الحال افراد کا پیٹ بھر جائے منتظمین کے حق میں بے شمار د عاؤں کا حق دار ہے ۔ یہ نہ بھولیے کہ دنیا میں ہندوستانی، روہینگیا،چینی یوغور،شامی ،وسطی افریقہ اور فلسطینوں سے زیادہ مظلوم کوئی اور مسلمان اقلیت نہیں۔
“ہم آگے بڑھتے رہے۔کہیں فلسطین کی آزادی کے نعرے تھے تو کہیں الخلیل شہر آسیب کے۔ہم چلنے لگے تو وہاں میں موجود دونوں قبائل ابوصبیح اور ابو سنانا والے بضد تھے کہ بغیر لنچ کے نہ جائیں۔سفر لمبا تھا اور ہماری منزل ذرا دور سو ہم بمشکل اس وعدے پر کہ اگلی مرتبہ آؤں گا تو ایک ایک دن دونوں کے مہمان رہوں گا ان سے گلو خلاصی ہوئی۔سڑک پر آن کر اچانک عبدالقادر کو یاد آیا کہ الخلیل چھوڑنے سے پہلے وہ مجھے کسی سے ملوائے۔میرے جواب کا انتظار کیے بغیر اس نے تیزی سے بائیں جانب گاڑی موڑ لی۔۔۔۔ڈیرھ میل کی مسافت کے بعد ہم ایک ایسی خانقاہ کے پاس پہنچے جو بند تھی.اس کے کھلنے کے اوقات صبح نو بجے سے بارہ بجے واضح طور پر درج تھے مگر عبدالقادر کہا ں باز آنے والا تھا۔ وہاں موجود نوجوان گارڈ کے باپ کا رشتہ اللہ جانے کہاں سے ڈھونڈ نکالااسے بتایا کہ وہ تو پیدا بھی نہیں ہوا تھا جب اس کا باپ اور وہ سامنے والے باغ سے انگور چرا چرا کر کھاتے تھے۔ایسا پرانا اور گھناؤنا تعلق۔ گارڈ نے خاندانی کمزوری کو مزید تشہیر سے بچانے کی خاطر خانقاہ کے دروازے پھٹ سے کھول دیے۔ دروازہ کھلتے ہی ایک پلیٹ فارم پر نگاہ پڑی جس کے وسط میں شاہ بلوط کا درخت تھا اسے “Ibrahim’s Oak” یا بلوط ابراہیمی کہتے ہیں۔’

Advertisements
julia rana solicitors
جدو جہدازادی
نفرت انگیز نعرے
عربوں کو گیس چیمبر میں بند کرو
شہدا اسٹریت کی بندش کے خلاف مظاہرہ
بلوط ابراہیمی

اسے چاروں طرف سیاہ اینٹوں کی ایک دیوار نے گملے کی صورت میں گھیرا ہوا تھا۔اس درخت کے حوالے سے کئی روایات مشہور ہیں۔سیدنا ابراہیم علیہ سلام نے اسی کی چھاؤں میں ایک خیمہ میں اپنی عمر کا بڑا حصہ گزارا۔ یہیں آپ کو یہ بشارات ہوئیں کہ آپ کے دو عدد صاحبزادوں اور ایک کزن سیدنا لوط کو نبوت سے سرفراز کیا جائے گا اور یہ سلسلہ آپ کی دعا کے نتیجے میں سرزمین حجاز میں ہمارے محترم نبی آخر الزماں کی صورت میں محسن انسانیت کا روپ دھار کر پورا ہوا۔۔آپ ہی نے سیدنا لوط علیہ سلام کو یہیں سے صدوم اور گمراہ کی بستیوں کی جانب رخصت کیا تھا۔رشد و ہدایت کے پیغام کے ساتھ جب سیدنا لوط رخصت ہورہے تھے اور صحرائے یہودا کی مسافت سامنے تھی تو آپ کی آنکھیں بڑا بھائی ہونے کے ناطے اشکبار تھیں۔یہاں یہ خیال بھی بہت عام ہے کہ گو اس درخت کی عمرلگ بھگ ساڑھے تین ہزار برس لیکن ہر سال اس میں کوئی نہ کوئی ہری شاخ پھوٹ پڑتی ہے۔جس سال کوئی شاخ نہیں پھوٹے گی اس سال دجال دنیا میں قتال اور فساد کے لیے قرب و جوار سے نمودار ہوجائے گا۔ہم نے گارڈ کا شکریہ ادا کیا اور باہر چلے آئے۔

  • julia rana solicitors
  • merkit.pk
  • julia rana solicitors london

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply