آسودہ ہجر۔۔۔یاسر حمید

ایمبولینس کی آواز قریب آتی جا رہی تھی۔ اچانک یہ آواز رک جاتی ہے۔ گاڑی ہمارے گھر کے گیٹ کے سامنے رکتی ہے۔
میں نیم بیہوشی کی حالت میں کچھ دیکھ نہیں پا رہا تھا۔ مجھے تیز چلتے قدموں کی آواز سنائی دی، چند لمحوں بعد ایک اجنبی آواز کانوں میں ٹکراتی ہے۔
“کیا ہوا ہے؟”
میں سنتے ہوئے بھی کچھ بولنے کی کوشش کرتا ہوں مگر بول نہیں پاتا۔
پھر تابش کی آواز مدہم سے انداز میں کانوں میں گردش کرتی ہے  کہ بھائی کے سینے میں زبردست قسم کادرد ہے، درد سے چیخ رہے تھے تو میں نے آپ کو کال کر دی۔
ریسکیو کے رضا کار مجھے اٹھاتے ہیں اور سٹریچر پر ڈال کر میرے جسم کے گرد ایک بیلٹ لگا دیتے ہیں۔ میری آنکھیں پھر بند ہوجاتی ہیں۔
میں سب محسوس کر رہا ہوتا ہوں۔ دماغ میں تسلی سی محسوس ہوتی ہے کہ اب میں بچ جاؤں گا۔ ہسپتال جاؤں گا تو جلد ہی شفایاب ہو جاؤں گا۔
تابش ایمبولینس میں ساتھ بیٹھ جاتا ہے۔ رضا کار میرا بلڈ پریشر چیک کر رہا ہوتا ہے۔ ایمبولینس کا سائرن تیز آواز میں گونجے لگتا ہے۔ گاڑی آگے بڑھ جاتی ہے۔

تابش ریسکیو اہلکاروں کی رہنمائی کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ ہمیں نزدیکی سیکٹر کے مرکز میں موجود ہسپتال لے کر جایا جائے۔ وہاں پہلے ہی بھائی کا علاج ہو رہا ہے۔
میں خاموشی سے سب سن رہا ہوتا ہوں۔
تابش میرے آفس میں جونیئر کولیگ ہے۔ اور میری بہت عزت کرتا ہے۔ میرے لیے چھوٹے بھائی جیسا ایک دوست ہے۔ ہم نے یہاں رہائش کے لیے مل کر ایک گھر لیا ہوا ہے۔

دل کا درد حاوی ہوتا جا رہا تھا، اور دل گویا کہ پھٹ رہا تھا۔
میں کافی عرصہ سے ادوایات کھا رہا تھا مگر کچھ دنوں سے غمِ زندگی نے گھیر رکھا تھا، نتیجتاً پچھلے دو دن سے سینے میں ہلکی درد محسوس ہوتی رہی، اور آج درد نے اچانک اس نوبت کو پہنچا دیا۔
سانس تھی کہ سینے میں قید نکلنے نہ پا رہی تھی۔ جسم میں کھچاؤ اور سر بار بار چکرا رہا تھا۔ میرے منہ میں ایک گولی رکھ دی گئی جس سے میں کچھ سکون محسوس کر رہا تھا۔
میں بچپن سے ہی دل کے مرض میں مبتلا تھا۔ دل کا  ایک وال بند ہونے کے ساتھ ساتھ بلڈ سرکولیشن سسٹم بھی آہستہ ہو جاتا تھا۔ زیادہ ڈپریشن اور پریشانی میرے لیے نقصان دہ تھی۔
دوبارہ آنکھ کھولی تو مجھے سٹریچر پر آئی سی یو منتقل کیا جا رہا تھا۔

یہ سیکٹر کے مرکز میں موجود انٹرنیشل ہسپتال تھا۔ آئی سی یو ایک بڑا ہال تھا جس میں شیشے کے کیبن نما کمرے تھے۔ ایک کیبن کا دروازہ کھولا گیا اور مجھے بیڈ پر شفٹ کیا جا رہا تھا کہ ڈاکٹر بھی تیزی سے چلتے ہوئے آگئے۔
میں ڈاکٹر کو دیکھتے ہی پہچان گیا۔ آخری بار ان سے کافی گپ شپ رہی تھی۔ مگر اب کے میں بول نہیں پا رہا تھا۔

تابش ڈاکٹر کو صورت حال بتا رہا تھا اور میں بیڈ کے سامنے دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھ رہا تھا۔ رات کے دو بج رہے تھے۔ افسوس ہو رہا تھا کہ میں نے تابش کی نیند بھی خراب کر دی۔

ڈاکٹر نے نرس سے فوری کوئی انجیکشن لگانے کا کہا، چند لمحوں بعد میرے بازو میں سرنج کی سوئی گُھستی محسوس ہوئی۔ کچھ دیر انتظار کیا اور نرس آ گئی۔ اس نے انجیکشن لگایا اور کچھ دیر بعد سر چکرانے لگا اور میرا دماغ گہری کھائیوں میں گرنے لگا۔ کئی آوازیں گونجے لگی میں کوشش کرنے لگا کہ میں سن سکوں مگر شدت درد نے اچانک دماغ پر پردہ ڈال دیا۔

میں مرکزی پنجاب کے ایک شہر سے ہوں۔ مگر پچھلے پانچ سال سے جاب کے سلسلے میں اسلام آباد مقیم ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی چھٹیاں گزار کر گھر سے آیا تھا۔

نجانے کتنی دیر بعد آنکھ کھُلی میرے پاس کچھ دوست جو کہ میرے آفس کولیگ بھی ہیں موجود تھے۔ میں کچھ دیر تو یہی سوچتا رہا کہ میں یہاں کیسے ہوں؟
پھر آہستہ آہستہ کچھ کچھ سمجھ آنے لگا کہ میں دل میں درد کی وجہ سے ہسپتال ہوں۔ میرے دوستوں نے طبیعت کا پوچھا اور آرام کرنے کا کہا۔ اچانک نظر سامنے گھڑی پر رکی تو دن کے گیارہ بج رہے تھے۔ مجھے ابھی بھی درد محسوس ہو رہا تھا۔ میرے داہنے بازو پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ کیبن کے شیشے سے تمام ہال نظر آتا تھا۔ کیبن کے پردے پیچھے کئے ہوئے تھے۔ میں ہال میں باقی مریضوں کو بھی دیکھ رہا تھا۔

کچھ دیر بعد بائیں جانب موجود آئی سی یو کا دروازہ کھلا اور نرس اندر داخل ہوئی۔ وہ ہاتھ میں کچھ ادویات اور فائل تھامے لمبے لمبے ڈگ بھرتی میرے کیبن کے قریب آنے لگی۔
بیڈ کے قریب آ کر مجھے پھر سے درد کا انجیکشن لگانے لگی۔ مجھے معلوم تھا کہ درد کا انجیکشن لگتے ہی مجھے نیند بھی آجائے گی۔ دوستوں سے باتیں کرتے کرتے کچھ وقت گزر گیا اور وہ دوبارہ آنے کا کہہ کر جانے لگے۔ ان کے جانے کے بعد میں آنکھیں بند کر کے اپنی رات کو ہونے والی تکلیف محسوس کر رہا تھا۔ انجیکشن کا اثر شروع ہو چکا تھا۔ میرا دماغ غنودگی کی طرف جا رہا تھا۔

آئی سی یو کا دروازہ کھلا اور وہاں ایک نرس اور عورت ایک لڑکی کو تھامے چلاتے ہوئے بیڈ کے قریب لانے لگے۔ میرے بیڈ کے ساتھ پردہ کر دیا گیا۔ میں نے لڑکی کو دیکھنے کی بہت کوشش کی مگر چہرہ دھندلا ہوتا گیا۔ میرا دماغ پر نیند حاوی ہو رہی تھی تو میں نے آنکھیں موند لیں۔ اور خود کو نیند کے حوالے کر دیا۔

دوبارہ آنکھ کھلی تو سامنے شام کے چار بج رہے تھے۔ اب میں پہلے سے کافی ریلیکس محسوس کر رہا تھا۔
تابش نے حال چال پوچھا۔ فریش جوس آ چکا تھا، تابش نے کندھے سے سہارا دیا اور جوس پلانا شروع کیا۔ جسم میں پہلا گھونٹ جاتے ہی جسم میں طاقت سی آگئی تھی۔ کئی گھنٹے گلے سے کچھ نہ گزرا تھا تو اب ایک گھونٹ گزرنے پر ہی گلا درد کر رہا تھا۔
تابش آفس کی اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے تھے۔ سب مریضوں کی حالت بتا رہے تھا۔ اور مجھے جلدی ٹھیک ہونے کا کہہ رہے تھا۔

اسی دوران وہ بتانے لگا کہ ساتھ کیبن میں لڑکی بھی کافی سیریس کنڈیشن میں ہے۔ اسے خون کی ضرورت ہے۔ بھوکی رہ رہ کر کمزور ہو گئی ہے۔ ڈپریشن کا شکار ہے۔ اس کے گھر والے پریشان ہیں فوری خون کا بندوبست نہیں ہو رہا۔
پھر تابش کو اس کے گھر سے فون آگیا اور وہ مجھے دیکھتے ہوئے کال پر بات کرنے لگا۔ میں نے آنکھیں موند لیں۔ اور اچانک آنکھوں میں اس کا عکس نظر آیا۔ ایک لمبے عرصے بعد اس کا عکس نیلے کپڑوں میں ملبوس پھولوں کی پتیوں پر کھڑے نظر آیا۔
اس فرحت بخش لمحے کو محسوس کرتے ہی شدید تکلیف کے باوجود میرے لبوں پر مسکراہٹ تیرنے لگی۔
پھر اچانک تابش نے کال کاٹی اور کہنے لگا کہ بھائی آپ دے دو خون کی بوتل۔ میں نے اچانک آنکھ کھولی اور اسے گھورنے لگا۔ وہ تھوڑا گھبراتے ہوئے کہنے لگے: ویسے کہا ہے بھائی۔
میں خاموش ہی رہا اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

اور اچانک وہ پھولوں پر کھڑی میری طرف ہاتھ بڑھانے لگی وہ کمزور ہو گئی تھی اور اس کے ہاتھ سے خون نظر آنے لگا۔ میں خیالوں میں کھویا غور سے دیکھنے لگا۔ مگر سب دھندلا سا تھا۔

تابش کی بات سوچتے سوچتے اچانک میرا خیال اسی وقت پر گیا۔ جب میں نیم غنودگی میں دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا اور نرس ایک لڑکی کو تھامے اندر لا رہی تھی، جو بہت کمزور تھی۔ میں نے بہت پہچاننے کی کوشش کی اس لیے کہ پہلی نظر میں مجھے چہرہ جانا پہچانا سا لگا تھا۔ مگر سب کچھ دھندلا ہونے کے باعث دیکھ نہ سکا۔
یہ سب سوچتے ہی میں نے دوبارہ آنکھیں کھولیں اور دائیں جانب دیکھا مگر وہاں کیبن کے گرد پردہ کر دیا گیا تھا۔ بہت کوشش کی کہ جان سکوں وہ چہرہ کہاں دیکھا جو ابھی تک دھندلا سا ہے۔ اچانک دل ڈوبنےلگا۔ جیسے کسی نے سر سے دل تک چیر کر گہری کھائی میں پھینک دیا ہو۔ میرے دل کی دھڑکن تیزی سے حرکت کرنے لگی۔ میں اٹھنے کی کوشش کرنے لگا مگر جسم جیسے ساکت ہو گیا تھا۔ وہ ساتھ والے بیڈ پر تھی۔

آئی سی یو میں آنے والی لڑکی وہی تھی۔ کچھ دیر تک تو لگا جیسے درد دل چیرتا ہوا پورا جسم میں سے کھینچ لیا گیا ہے۔ سانس جیسے اچانک تھم گئی ہو۔ میں سانس لینا چاہ رہا تھا مگر سانس نہیں آ رہی تھی۔ اچانک آئی سی یو کا دروازہ کھلا اور نرس بھاگتی ہوئی اس کیبن میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد نرس باہر آئی اور اس کے ساتھ اس کے بابا تھے۔ میں نے ایک نظر بابا کو دیکھا اور منہ دوسری جانب کر لیا۔ زندگی ہمیں پھر سے ایک جگہ لے کر آ گئی ہے۔

نرس کہہ رہی تھی کہ حالت بہت نازک ہے ایچ بی بہت کم ہے۔ فوراََ خون لگے گا۔
ان الفاظ کو سن کر مجھے لگا کہ میرے دل کے کسی نے ٹکڑے کر کے رکھ دیے ہوں۔ جی چاہا کہ چیخ کر کہوں کہ میں خون دوں گا۔ مگر آواز حلق میں رک گئی تھی۔ میں نے تابش سے کہنے کی کوشش کی مگر آواز تو جیسے کسی نے سلب کر لی تھی اور میری بات سینے میں دب کر رہ گئی تھی۔ میں نے ہاتھ بڑھایا اور تابش کے ہاتھ کو ہلایا۔ وہ موبائل کی جانب متوجہ تھا اٹھ کر فوراََ میرے قریب ہو گیا اور پریشان ہو کر پوچھنے لگا کیا ہوا؟ سب ٹھیک ہے؟ درد ہو رہا ہے کیا؟ میں نے کہا میں اب بالکل ٹھیک ہوں۔ بلڈ کی ضرورت ہے تو دے دیں۔

تابش کہنے لگا کہ بھائی میں نے مذاق میں کہا تھا۔ آپ کی تو طبعیت پہلے ہی ناساز ہے۔ آپ بلڈ نہیں دے سکتے۔ میں نے بضد ہو کر کہا کہ مجھے ضرور دینا ہے۔ ان کی ضرورت ہے۔ تابش کہتا دیکھ لیں اپنی حالت۔میں نے کہا میں بلکل ٹھیک ہوں۔ تم ڈاکٹر کو بُلاؤ۔ تابش نے قریب نرس سے کہا جو کہ کسی دوسرے مریض کو چیک رک رہی تھی۔ اس نے کہا ڈاکٹر کسی دوسری جگہ مریض چیک کر رہے ہیں دس منٹ میں آ جائیں گے۔ دس منٹ کا سن کر میں مایوس ہو گیا۔ وہ دس منٹ  میں ساری زندگی میری گھومنے لگی۔ وہ اور اس کی یادیں۔ پہلی ملاقات۔ راول لیک۔ دامن کوہ۔ پنڈی ائیر پورٹ۔ اور پھر اسکے گھر سرپرائز ملاقات۔
اس کی تمام یادیں میرے دماغ میں گھوم رہی تھیں

یہ دس منٹ میرے لیے کسی تکلیف سے کم نہ تھے۔ خدا خدا کر کے ڈاکٹر آئی سی یو میں داخل ہوا اور سیدھا اس کے کیبن میں چلا گیا۔
وہاں سے مدہم مدہم آوازیں آ رہی تھیں۔ ڈاکٹر انہیں کسی بات پر قائل کرنے کے لیے زور دے رہا تھا۔ اچانک ڈاکٹر کیبن سے نکلے اور میری طرف مسکراتے ہوئے بڑھنے لگے۔
تو جناب آپ پھر سے بیمار ہو کر آ گئے۔ میں ہلکا مسکرایا۔ اور مدہم آواز میں بولا ڈاکٹر صاحب بس ڈپریشن کی وجہ سے۔
ڈاکٹر میرے ٹیسٹ چیک کرنے لگا۔ میں نے تابش کو دیکھا تابش میری آنکھوں کا اشارہ سمجھ کر کر ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب بھائی بلڈ تو دے سکتے ہیں۔ ان کا بھی بلڈ گروپ ملتا ہے پہلے بھی دے چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جو میرے ٹیسٹ دیکھتے ہوئے تابش کی بات سن رہے تھے چونک کر میری طرف دیکھنے لگے۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوئے۔
کمزور ہو گئے ہیں آپ۔ بلڈ دینے کی ضرورت نہیں۔ میں کچھ بولنے کی کوشش کرنے لگا تو آواز گلے تک محدود ہو گئی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ میں کچھ مزید ٹیسٹ لکھ کر اور ساتھ طاقت کا انجیکشن دے رہا ہوں۔ جب تک بہتر نہیں ہو جاتے آرام کریں اور چاہیں تو یہاں ہی رک جائیں ایک دو دن۔
ڈاکٹر میری طرف متوجہ تھا اور میری صحت یابی کا نسخہ دے رہا تھا جبکہ میں دل و دماغ کی تمام حسیات کے ساتھ اس دشمنِ جاں کی حالت سوچ سوچ کر اَدھ موا ہونے کو تھا۔ بالآخر میں نے ہمت کی اور مدہم آواز میں بولا ڈاکٹر صاحب مجھے بلڈ دینا ہے وہ مجبور ہیں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔

تبھی ڈاکٹر نے مجھے کن اکھیوں سے دیکھا اور نرس کو جو پیچھے آ کر کھڑی ہو گئی تھی کہنے لگے ان کا بلڈ پریشر چیک کرو۔ اگر نارمل ہے تو بلڈ سیمپل لے لو۔

ڈاکٹر کی بات سن کر میں نے اطمینان کی سانس لی۔
وقت گزرتا جا رہا تھا۔ میری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کے بابا آئی سی یو میں داخل ہوئے۔ پریشانی کی حالت میں تھے۔ چہرے پر سرد موسم میں بھی پسینہ نمایاں نظر آ رہا تھا۔

کچھ دیر بعد لیب اسسٹنٹ داخل ہوا اور سیدھا میرے بیڈ کی جانب آیا۔ میں نے کمزوری کے باوجود تیزی سے ہاتھ اس کی جانب بڑھایا۔ اس نے بلڈ کا سیمپل لیا اور چلا گیا۔
اب میرے سینے میں درد شائد ختم ہو چکا تھا یا شاید ‘اُس’ کے درد کے احساس نے میرا درد کم کر دیا تھا۔
اس وقت میرے لیے سب سے زیادہ اس کی زندگی عزیز تھی۔ تابش مجھ سے آفس کی باتیں کرنے لگے۔ اور میں آئی سی یو کے داخلی دروازے کی جانب نظر رکھے ان کی باتیں سن رہا تھا۔

کچھ دیر بعد اچانک دروازہ کھلا اور لیبارٹری انچارج اور اس کے بابا داخل ہوئے ان کے چہرے پرکچھ تسلی تھی وہ تیزی سے میری طرف بڑھے۔ بیٹا آپ کا بلڈ میچ ہو گیا ہے آپ بلڈ دیں گے؟
میں نے کانپتے جسم کے ساتھ ہاں میں جواب دیا۔ اس کے بابا میرا شکریہ ادا کرنے لگے۔ ان آنکھوں کی چمک مجھے اطمینان بخش رہی تھی۔

دروازہ کھلنے کی آواز آئی سب نے مڑ کر دیکھا نرس کمرے میں داخل ہوئی ہاتھ میں بلڈ بیگ تھا۔
وہ تیزی سے قریب آئی لیبارٹری انچارج نے بھائی اور مجھے کہا کہ آپ کے ٹیسٹ کلیر ہیں اور ایچ بی بھی نارمل ہے آپ بلڈ دے سکتے ہیں۔ میں نے بازو آگے بڑھا دی۔ دل کی یہ حالت تھی جیسے بند ہوتے ہوتے اس کو سہارا مل گیا ہو۔
بلڈ کی بوتل بھرنے لگی اور اس کے بابا باتیں بتانے لگے کہ صبح سے ڈھونڈ رہے ہیں فوری بلڈ دستیاب نہیں ہو رہا تھا۔ وہ بار بار میرا شکریہ ادا کر رہے تھے۔

میں کیبن کی جانب دیکھ رہا تھا۔ گزرے وقت کے قیمتی لمحات ذہن میں یکبارگی تازہ ہو رہے تھے۔ جب وہ میرے ساتھ ہوتی تھی۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور اس سے اپنی ملاقات کو یاد کرنے لگا۔ ان ہی دنوں ہم دامن کوہ ملے تھے۔
دامن کوہ میں اس کا ہاتھ تھامے پیدل چلتے چلتے جب تھک گئے تو لکڑی سے بنے چبوترے کے نیچے بیٹھ گئے تھے وہ ہاتھ تھامے میری چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔

اچانک میرے بازو کو کسی نے پکڑا اور سوئی کھینچ ڈالی۔ میں نے آنکھیں کھولی تو لیبارٹری انچارج نے بلڈ کی بوتل کو پکڑ رکھا تھا۔ نرس نے روئی سے سرنج والی جگہ پر دباؤ ڈالا ہوا تھا۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر داخل ہوا۔ اور ہم سب کو یہاں دیکھنے چلا آیا۔ اس نے رپورٹ دیکھی اور نرس کو فوری بلڈ لگانے کو کہا۔ اس کے بابا بھی نرس کی پیچھے کیبن کی جانب چل پڑے۔
ڈاکٹر قریب آئے اور طبعیت کا پوچھا میں نے کہا کہ اب بلکل ٹھیک ہو۔ ڈاکٹر نے کہا کچھ گھنٹے آرام کریں اور سو جائیں۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا اور آنکھیں بند کر لیں۔ اگلی صبح آنکھ کھلی تو میں بہت بہتر محسوس کر رہا تھا۔

تابش فارمیسی سے ادویات لینے چلا گیا اور میں وقت کے پہیوں کے ساتھ گھومتا پھر ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے لگا۔
وہ میرا ہاتھ تھامے باتیں کر رہی تھی اور میں اسے دیکھے جا رہا تھا۔
ہم ساری دنیا سے بے خبر ایک دوسرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔
وقت جیسے تھم سا گیا تھا۔ اس کی من موہنی صورت مجھے دنیا بھر کے دُکھوں سے بے نیاز کر دیتی تھی۔

تابش آ چکا تھا میں نے اسے چلنے کا کہا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر صاحب بھی وہیں تھے۔ مسکراتے ہوئے قریب آئے کہنے لگے کہ جناب آپ اپنے علاج پر توجہ دیں اور سٹریس لینا بند کر دیں۔
میں نے مدہم مسکراہٹ کے ساتھ آنکھیں جھکا لیں۔ اب ان کو کیا بتاتا کہ رگِ جاں کس کس روگ کے زیر اثر ڈوبی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے خدا حافظ کہا اور اپنے کمرے کی جانب چلے گئے اور میں لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ آگے بڑھنے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تابش نے مجھے کندھے سے تھام لیا۔ اس کے کیبن کے قریب پہنچ کر دروازے سے اندر دیکھا تو اسے بلڈ لگ چکا تھا اس کے بابا اور ماں اس کے دونوں جانب کھڑے تھے۔ میں نے ایک نظر اسے دیکھا۔ اس پر نظر پڑتے ہی دل کو اداسی کے جذبات نے گھیر لیا۔
پھیکا رنگ، بکھرے بال اور کمزور چہرہ۔
مجھے یاد تھا کہ ایک بار اس نے کہا تھا مجھے کبھی تنہا مت کرنا، تمہارے دَم سے ہی میری سانسیں چلتی ہیں۔ میں تمہارے بغیر ادھوری ہو جاؤں گی۔ میرا دل تمہارے ہی نام سے دھڑکتا ہے۔ اس نے ٹھیک کہا تھا۔۔۔ میرے بغیر اس کی حالت پریشان کن ہو گئی تھی۔
لیکن اب مجھے تسلی تھی کہ میرا خون اس کی رگوں میں دوڑنے لگا ہے۔
اب وہ زندہ رہے گی
خوش رہے گی
اور میرے بغیر رہے گی
شاید وہ اپنی اس خوشی کو جو میرے بغیر ہوگی درست نہ سمجھے۔ لیکن اس کو کیا معلوم کہ یہ میں ہی ہوں جو اس کے پاس نہ ہوتے ہوئے بھی اس کے انتہائی قریب ہوں۔
شاید اس کو تا عمر معلوم نہ ہو پائے کہ یہ میں ہی ہوں جو اس کی رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہا اور اس کو انجانی خوشی سے دوچار کر رہا ہوں۔
اور یہی میری چاہ تھی کہ وہ میرے بغیر بھی زندہ رہے، خوش رہے، آباد رہے۔
اس لیے کہ میرا عشق وصل سے زیادہ محبوب کی خوشی چاہتا ہے۔
آنکھوں میں آنسو مگر دل میں اطمینان لیے میں نے ہسپتال سے باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔
کبھی نہ  ملنے کی  حسرت  کے ساتھ
اور ہمیشہ اس کے پاس رہنے کی امید کے ساتھ.!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply