جون ایلیا سے ملیے۔۔۔۔انور احسن صدیقی کی خود نوشت سے انتخاب

سید محمد تقی اور رئیس امروہی کے تذکرے کے بغیر کراچی کی تہذیبی اور مجلسی زندگی کا ذکر نامکمل رہے گا۔لہذاا س موقع کی مناسبت سے اس احوال کو میں بیان کردینا چاہتا ہوں۔
وہ چار بھائی تھے۔ سب سے بڑے رئیس امروہی ، اس کے بعد سید محمد تقی ، اس کے بعد محمد عباس جو بچھن کہلاتے تھے اور پھر جون ایلیا۔ اس خاندان کا تعلق یوپی ہندوستان کے شہر امروہہ سے تھا ۔یہ لوگ امروہہ سے ہجرت کرکے جب کراچی آئے تو انھیں ہندوستان میں چھوڑی ہوئی جائیداد کے کلیم میں کراچی میں گارڈن کے علاقے میں ایک بہت بڑی کوٹھی الاٹ ہو گئی جو متروکہ جائیداد میں سے تھی۔یہ چاروں بھائی اس میں رہنے لگے۔رئیس امروہوی اور سید تقی شادی شدہ اور بچوں والے تھے۔ چنانچہ ان دونوں بھائیوں نے اس کوٹھی کے آدھے حصے کو اپنے تصرف میں لے لیا۔بھائی بچھن کوٹھی میں ایک چھوٹی جگہ پر قائم ہو گئے اور کوٹھی کے پچھلے حصے میں واقع سرونٹ کوارٹرز کا ایک کمرہ جون ایلیا کے حصے میں آیا۔
سید محمد تقی روزنامہ جنگ کراچی کے ایڈیٹر تھے جو کراچی کا سب سے بڑا اردو اخبار تھا۔ رئیس امروہی اس اخبار میں روزانہ سیاسی نوعیت کا ایک قطعہ لکھا کرتے تھے۔ بعد میں رئیس امروہی نے اتوار کے اتوار جنگ میں مضمون نگاری کا سلسلہ شروع کیا ۔ ان کے مضامین سیاسی نوعیت کے نہیں ہوتے تھے بلکہ نفسیاتی موضوعات پر ہوتے تھے۔
جون ایلیا ’انشا‘ کے نام سے ایک ادبی ماہ نامہ نکالتے تھے جس کا دفتر کوٹھی کے پچھلے حصے میں جون کے چھوٹے سے کمرے کے قریب ایک کمرے میں تھا ۔
یہ سارے بھائی بڑے کھلے دل کے روشن خیال اورسیکولر ذہن کے لوگ تھے۔ اس گھر کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ یہ کراچی ادیبوں،شاعروں اور دانشوروں کی ایک بہت بڑی تعداد کا مرجع تھا۔کراچی کے تقریبا سنیئر شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں کی یہاں آمد کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ان میں جن لوگوں کو میں نے وہاں برابر آتے جاتے دیکھا ان میں پروفیسر کرار حسین، پروفیسر ممتاز حسین،ان انشا، انجم اعظمی ، الطاف احمد انسان( اب احمد الطاف) ابوالفضل صدیقی اور دوسرے بے شمار شاعر اور دانشور شامل تھے۔ ا ن محافل میں نوجوان آنے والے زیادہ تر جون ایلیا کے دوست تھے ۔ ان محفلوں میں جون ایلیا ضرور موجود ہوتے تھے جن کے تمام نوجوانوں کے ساتھ بڑے تعلق تھے۔
’انشا‘ کی اشاعت میں رئیس امروہی اور سید محمد تقی بھی گہری دلچسپی لیتے تھے۔جون ایلیا ’انشا ‘کے مدیر تھے۔ انشا ایک ادبی پرچہ تھااور یہ جون ایلیا کے لئے معقول آمدنی کا کوئی زریعہ کبھی نہ بن سکا۔تب جون ایلیا نے اس کے مافیا کو بدلنے کا فیصلہ کیا اور سیدھے بھوتوں،پریوں کی دنیا میں چھلانگ لگادی۔’انشا‘ ختم ہوگیا اور اس کی جگہ ’عالمی ڈائجسٹ‘نے لے لی۔’عالمی ڈائجسٹ‘ میں بھوتوں،پریوں،چڑیلوں،پچھل پریوں، جادو منتر اور ذہنوں کو زنگ آلود کردینے والی اوہام پرستی پر مبنی کہانیاں شایع ہونے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی اشاعت کہیں سے کہیں پہنچ گئی اور پرچہ بکنے لگا۔پاکستان اور ہندوستان میں اردو جرائد کی دنیا میں ’عالمی ڈائجسٹ‘ وہ پہلا ماہنامہ تھا جس نے اوہام پرستی اور خرد دشمنی پر مبنی بے سروپا مواد کی بڑے پیمانے پر اشاعت کا آغاز کیا۔ ’سب رنگ‘ کے مدیر شکیل عادل زادہ اس زمانے میں’ عالمی ڈائجسٹ ‘ میں ملازمت کرتے تھے۔جلد ہی انھوں نے ’عالمی ڈائجسٹ‘ سے علیحدگی اختیارکرلی اور ’سب رنگ ڈائجسٹ‘کے نام سے اپنا ایک الگ رسالہ نکالنے لگے۔ یہ رسالہ منفی مواد کی اشاعت میں عالمی ڈائجسٹ سے کہیں زیادہ آگے نکل گیا اور پھر اس کے بعد تو جیسے کراچی میں ڈائجسٹوں کی وبا پھیل گئی جن میں مافوق الفطرت اور ماورائی قصے کہانیوں پر سب سے زیادہ زرو دیا جاتا تھا۔ڈائجسٹوں کے مالکان نے خوب خوب کمائی کی۔
جون ایلیا کا عالمی ڈائجسٹ بھی ایک عرصے تک بحران کا شکار رہنے کے بعد بالآ خر بند ہوگیا۔
زاہد حنا عالمی ڈائجسٹ میں ملازمت کرتی تھیں اور پھر ان کی جون ایلیا سے شادی ہوگئی لیکن جون ایلیا مزاجا ایک لا ابالی ،منتشر الخیال حقائق زندگی کا سامنا کرنے سے گریز اں اور بہت سے اندرونی تضادات اور باطنی پیچیدگیوں کا شکار تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک اعلیٰ پائے کے شاعر تھے اور ان کے پاس فکر اور اسلوب کی زبردست قوت موجود تھی لیکن عملی زندگی میں وہ ناکام انسان تھے۔ شائد وہ زیادہ بہتر زندگی گزار سکتے تھے اگر وہ شادی نہ کرتے۔ وہ شادی کی ذمہ داریوں کو نبھاہ نہ سکے۔ زاہد ہ سے ان کے مسلسل جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ عالمی ڈائجسٹ کے بند ہوجانے کے بعد جون کا کوئی مستقبل ذریعہ آمدنی نہیں رہا تھا۔انھوں نے کئی جگہ چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں لیکن وہ کہیں بھی جم کر کام نہ کرسکے۔ان ملازمتوں سے حاصل ہونے والی رقم اور مشاعروں میں حاصل ہونے والی آمدنی ہی ان کا ذریعہ معاش رہی او ر ظاہر ہے اس کا دائیرہ زیادہ وسیع نہیں تھا۔
جون کی ذاتی زندگی ایک پر پیچ المیہ تھی ۔وہ ایک مشکل انسان تھے۔ وہ اپنی زندگی میں کوئی توازن نہ پیدا کرسکے۔ان کے اندر کسی کو چاہنے سے زیادہ چاہے جانے کی خواہش ہمیشہ شدت کے ساتھ موجود رہی اور ان کی اس اناپرستی نے ان کی شخصیت کو بہت نقصان پہنچایا ۔ وہ زندگی بھر ایک اندورنی کرب میں مبتلا رہے اور بری طرح تڑپتے رہے۔ اس کرب کا موثر ترین اظہار وہ اپنے اشعار میں کرتے رہے۔
وہ کہتے تھے کہ انھیں اپنے ہاتھوں اپنی تباہی پر کوئی ملال نہیں ۔ جون اور زاہدہ کی شادی بالآخر طلاق پر منتج ہوئی اور جون نے بیوی اور تین بچوں ، دوبیٹوں اور ایک بیٹے کے ساتھ زاہدہ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ طلاق کے بعد سے جون اور بھی زیادہ احساس محروی ، اندرونی کرب اور رقیق القلبی کا شکار ہوگئے۔ وہ بات بات پر رونے لگتے اور ٹیلی فون پر بات کرتے وقت بھی بعض اوقات اس قدر روتے کہ ان کی ہچکیاں بندھ جاتیں۔مجھے آج بھی ان کے یہ الفاظ جوں کے توں یاد ہیں۔انھوں نے فون پر مجھ سے کہا تھا’’ انور، تم خوش قسمت ہو کہ تمہارے اولاد نہیں ہے، میں بدنصیب ہوں کہ میری اولاد نے مجھے جوتے مارکر گھر سے نکال دیا ‘‘ اور اس کے بعد وہ بلک بلک کر رونے لگے اور بڑی دیر تک روتے رہے۔
جون کی شادی سے پہلے ہی رئیس امروہی اور سید محمد تقی نے کوٹھی کا جو چاروں بھائیوں کی مشترکہ ملکیت تھی آپس میں بٹوارہ کرکے بیچ میں دیوار کھینچوا دی تھی۔ آدھی کوٹھی رئیس امروہی نے اپنی تحویل میں لے لی تھی اور آدھی سید محمد تقی نے، محمد عباس عرف بچھن تقی صاحب والے حصے میں ایک ذرا سی جگہ میں رہنے لگے اور جون رئیس امروہی والے حصے میں ایک گوشے میں منتقل ہوگئے۔ شادی کے بعد بھی جون کچھ عرصے تک رئیس امروہی والے حصے میں ہی مقیم رہے۔
طلاق کے بعد جون نے اپنے آپ کو رہی سہی فکروں اور ذمہ داریوں سے بھی آزاد بھکرالیا۔اب وہ دم نقد اور تن نتہا تھے اور ان سے ان کے روز و شب کی تسبیح کے دانوں کا حساب لینے والا کوئی نہیں تھا۔وہ داخلیت پرستی کا شکار ہوتے چلے گئے۔وہ اس کوٹھی کے پچھلے اجاڑ حصے میں ایک پرانے اور بوسیدہ کمرے میں پڑے رہتے ۔ اس کمرے تک پہنچنے کا راستہ بھی بہت ٹوٹا پھوٹا اور دشوار گذار تھا۔جون کے شب و روز یہیں گزرتے تھے۔ کوٹھی کا یہ حصہ رئیس امروہی کے خاندان کی تحویل میں تھا اور جون نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ وہ یہاں پے انگ گیسٹ کے طور پر رہتے ہیں۔
پھر و ہ کوٹھی بک گئی۔تقی صاحب اپنے خاندان کے ساتھ پہلے ہی ڈیفنس میں منتقل ہوچکے تھے۔رئیس امروہی کے خاندان نے بھی کوٹھی خالی کردی اور جون اپنے کسی رشتہ دار کے پاس انچولی سوسائٹی میں منتقل ہوگئے۔ جب تک جون اس کوٹھی کے پچھلے حصے میں رہتے تھے میرا برابران کے پاس آنا جانا رہتا تھالیکن ان کے وہاں سے منتقل ہوجانے کے بعدان کی نئی رہائش گاہ پرمیری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔صرف فون پر گفتگو رہتی تھی۔کوٹھی میں جون کے قیام کے آخری دنوں کے دوران جون کے پاس آنے جانے والا کوئی شخص ان کا وہ رجسٹر چرا کر لے گیا جس میں ان کی غزلوں کا تحریری ذخیرہ موجودتھا۔جون نے مجھے فون پر اس سانحے کی اطلاع دی اور وہ زار و قطار رو رہے تھے۔ مجھے بہت دکھ ہو اور میں نے جون کو مشورہ دیا کہ وہ اس شخص کے دوسرے دوستوں کے ذریعے اس پر دباو ڈلوایں کہ وہ ان کی بیاض واپس کردے۔ شکر ہے کہ بعد میں وہ بیاض مل گئی اور جون کی جان میں جان آئی۔
کوٹھی بک گئی۔بہت بڑی کوٹھی تھی اور اس جگہ کی کمرشل ویلیو بہت زیادہ تھی۔تمام تر خاندانی جھگڑوں کے تصفیے کے بعد جون کے حصے میں چالیس پینتالیس لاکھ روپے کی رقم آئی۔جون نے اپنی زندگی میں کبھی اتنی بڑی رقم کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ان کی زندگی بالعموم عسرت اور تنگدستی میں گزری۔ان کے پاس رہنے کے لئے نہ کوئی ذاتی مکان تھا ، نہ کوئی پلاٹ تھااور نہ کوئی اور جائیداد۔ شادی سے پہلے یا شادی کے بعد انھوں نے اپنی بیوی بچوں کے لئے بھی ان ضروریات پر کبھی غور نہیں کیا۔ وہ شادی اور اولاد کی ذمہ داریوں کو نبھا نہیں سکے اور ان سب سے نجات حاصل کرکے اپنی ذات کے خول میں سمٹتے چلے گئے۔
جون نے ایک بار کہیں اپنے اکلوتے بیٹے زریون کو دیکھا جو اب ایک نوعمر لڑکا تھا۔ جون اس کو بالکل ہی نہیں پہچان سکے اور بیٹے نے ان کو پہچان لینے کے باوجود ان کی جانب کسی خصوصی التفات کا مظاہر نہیں کیا۔۔ جون حد درجہ دل شکستہ و ملول ہوئے اور اسی رات انھوں نے آنسووں میں ڈوب کر اپنی معرکتہ الآ را نظم ’درخت زرد‘ لکھی۔ جون نے یہ نظم لکھ کر اپنے پاس رکھ لی تھی اور کسی کو نہیں سنائی تھی۔ پھر انھوں نے فون کرکے مجھے بلایا اور مجھ سے کہا کہ وہ مجھے ایک نظم سنانا چاہتے ہیں۔ کوٹھی کے پچھواڑے اس اجاڑ اور ٹوٹے پھوٹے کمرے میں ،جہاں بہت سارے کاٹھ کباڑ کے ساتھ جون کا پلنگ بھی پڑا ہوا تھا، جون نے مجھے پہلے تو اس نظم کا پس منظر سنایا اور پھر یہ نظم سنانی شروع کی۔ ان کی حالت یہ تھی کہ دھاروں دھار روتے جاتے تھے اور نظم پڑھتے جاتے تھے ۔جون کی صحت بہت خراب ہوگئی تھی۔ وہ باتیں کرتے کرتے ہانپتے لگے تھے اور ذرا سی دور چلنے سے ان کا سانس پھولنے لگتا تھا۔ کثر ت شراب نوشی ان کی پہلے سے خراب صحت کو بری طرح تباہ کئے ڈال رہی تھی۔وہ دن بھر اپنے کمرے میں ہی اکیلے رہتے ،شام کو کوئی بھولا بھٹکا دوست آجاتا اور ان کے ساتھ مے نوشی میں شامل ہوجاتا ۔ رات کو وہ اس ڈھنڈار اور اجاڑ کمرے میں تنہا ہوتے اور آدھی آدھی رات تک جاگ کر غزلیں لکھتے رہتے۔ وہ شدید اعصابی کمزوری کا شکار ہوتے چلے جارہے تھے۔
کوٹھی کی فروخت کے بعد جب ان کے پاس بھاری رقم آگئی تو اس کے بعد میر ی ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ تاہم یہ معلوم ہوچکا تھا کہ ان کو بہت بڑی رقم ملنے والی ہے۔ جون اس بات سے بہت خوش تھے۔تب ایک عجیب اور افسوس ناک بات ہوئی۔ جون کے بعض دوستوں نے انھیں یہ پٹی پڑھانی شروع کردی کہ وہ دوسری شادی کرلیں۔جون اس تجویز سے بہت خوش ہوئے اور انھوں نے بڑے جو ش و خروش کے ساتھ مجھ سے اس کا تذکرہ کیا ۔ میں نے ان سے کہا ’جون بھائی آپ سب سے پہلے اپنی صحت کی طرف توجہ دیں۔آپ بولتے ہیں تو ہانپنے لگتے ہیں ۔چلتے ہیں تو کانپنے لگتے ہیں ۔جون نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے علاج کی طرف توجہ دیں گے۔جون کے بعض دوستوں نے ا ن پر ظلم کی انتہا کردی۔انھوں نے جنگ اخبار میں ضرورت رشتہ کے کالم میں جون کی شادی کے لئے اشتہار چھپوا دیا۔ اگرچہ اس اشتہار میں جون کا پتہ یا فون نمبر وغیرہ نہیں دیا گیا تھا لیکن جون سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والا بھی کوئی شخص اس اشتہار کو پڑھ کر فورا سمجھ سکتا تھا کہ یہ کس کے لئے ہے۔ اس اشتہار کے جواب میں کسی لڑکی کے سر پرست ’’لڑکے‘‘ کو دیکھنے اور اس سے ملاقات کرنے کے لئے آتے تو وہ ایک بیمار ،نحیف و نزار ہانپتے کانپتے عمر رسیدہ شخص کو دیکھتے ہی الٹے پیروں واپس لوٹ جاتے۔
پیسے ملنے کے بعد جون سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ کوٹھی کی فروخت کے بعد جون کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور وہ انچولی سوسائٹی میں اپنے کسی عزیز کے پاس چلے گئے تھے۔وہاں جانے کے بعد وہ زیادہ عرصے تک زندہ نہ رہے۔ ایک دن میں نے اخبار میں خبر پڑھی کہ گزشتہ شب جون کا اسپتال میں انتقال ہوگیا۔۔۔۔ جون کی ہزار ہا خاردار پیچ و خم سے گزرتی ہوئی داستان حیات بالآخر اپنے انجام کو پہنچی۔
جون زندگی بھر اپنے آپ سے لڑتے رہے اور اپنے آپ کو مناتے رہے۔ شائد وہ یہ فیصلہ کبھی نہ کرسکے کہ انھیں کیا کرنا ہے اور اسی گومگو کی حالت میں وہ دنیا سے سدھار گئے۔
یہ تحریر انور احسن صدیقی کی خود نوشت ’ دل پر خوں کی ایک گلابی سے‘ سے منتخب کی گئی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply