عظیم کاسترو خدا تم پر رحم کرے!

جنوبی امریکہ کے انقلابی شہید چی گو ویرا کا ساتھی، لینن کا سپاہی اورکمیونزم کے سرخ انقلاب کا آخری سرخ ستارہ بھی بلآخر روپوش ہو گیا۔
کمیونسٹ نظریے کے حامی، فیڈل کاسترو مرتے دم تک سرخ انقلاب کی شمع کو روشن کیے رکھے۔اُنہوں نے جنوبی اور شمالی امریکہ کے عین درمیان اپنے چاروں طرف استعماری طاقتوں کے نرغے میں گھرے ایک نکتے کی مانند کیوبا کو ایک لمحے کے لیے بھی جھکنے نہیں دیا۔ بلاشبہ کامریڈ کاسٹرو انقلاب، غیرت، جدوجہد کا استعارہ تھے۔ سوویت یونین کی شکست اور متحدہ روس کے بکھرنے کے بعد جب دنیا بھر کے کمیونسٹوں نے راتوں رات اپنا قبلہ تبدیل کیا تو یہ سرخ مجاہد ایک چٹان کی طرح جم کر کھڑا ہوا تھا۔
اس کے دور حکومت میں امریکہ کے نو صدر تبدیل ہوئےاور کہا جاتا ہے کہ ان سب نے کامریڈ کاسترو کو قتل کرنے کے لیے 638 قاتلانہ حملے کرائے۔ امریکی سی آئی اے اس کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے نصف صدی تک ناکام کوششیں کرتی رہی لیکن یہ عزم مصمم کا استعارہ ایک لمحے کے لیے نہیں جھکا۔ میرے دل میں اس کی عزت اس لیے بھی بے انتہا ہے کہ جب میں سوچتا ہوں کہ دنیا کی ایک ایٹمی طاقت کے کمانڈو سربراہ نے محض ایک فون کال پر امریکہ کے سامنے ڈھیر ہونے کا عالمی تاریخی ریکارڈ قائم کیا تو آخر کامریڈ کاسترو کس قسم کا مرد آہن ہو گا کہ نصف صدی تک جس نے امریکہ کی عین ناک کے نیچے بیٹھ کر اس کے نو صدور کو اپنے غیرت مند ہونے کا ثبوت دیا۔ آج ایٹمی طاقت کا کمانڈو دبئی میں اپنی غیرت بیچنے کی وصول شدہ قیمت کی بنیاد پر عیاشی کر رہا ہے اور اس کی قوم بےغیرتی اور ذلت کی انتہاؤں میں گری ہوئی ہے۔ دوسری طرف کامریڈ کاسترو اپنے سفر آخرت پر عزت و وقار کے ساتھ روانہ ہوئے ایسے ریکارڈ کے ساتھ کے انہوں نے اپنی قوم سے خوشحالی ، روٹی کپڑے اور مکان کا جو وعدہ کیا تھا وہ اپنے پورے دور اقتدار میں نبھا کر گئے۔
آج کیوبا ہیلتھ اور ایجوکیشن میں دنیا کا نمبر ون ملک ہے۔ دنیا بھر کے انقلابیوں نے انہیں اس سفر آخرت پر سرخ سلام بھیجا ہو گا لیکن میں انہیں سبز سلام پیش کرتا ہوں ۔ میں اگرچہ نظریاتی اعتبار سے کمیونسٹ نہیں ہوں لیکن میں سرمایہ درانہ نظام کے مقابلے میں اشتراکیت کو بہتر سمجھتا ہوں۔ کامریڈ کاسترو کو خراج عقیدت پیش کرنا ایسا ہی ہے جیسے عظیم صلاح الدین ایوبی نے برطانوی سپہ سالار رچرڈ کو شیر دل کہہ کر اُس کی بہادری کوتسلیم کیا تھا۔ اور جوابًاپوری یورپی دنیا صلاح الدین کی عظمت کو تسلیم کرتی ہے۔ آپ کامریڈ ہیں یا نہیں ہیں لیکن ایک ایسے انسان کو خراج عقیدت پیش کرنا اس لیے بھی ضروری ہےکہ اس کی پوری زندگی کا مقصد و محور اُس مخلوق کی خدمت کرنا تھا جو اُس خدا کی تخلیق تھی جسے وہ نہیں مانتا تھا۔ ممکن ہے خدا کریم اسے اپنی مخلوق کی محض خدمت پر ہی معاف کر دے اور بہت ممکن ہے کہ دو ہزار پانچ کے کشمیر زلزے میں اہل ایمان کی خدمت پر ایک ہزار ڈاکٹروں کو بھیجنے پر ہی وہ سلامتی کا حقدار ٹھہرے۔
دعا ہے کہ خدا ایک انقلابی ، عوام دوست اور غریبوں کے خیر خواہ پر سلامتی نازل کرے۔

Facebook Comments

زاہد علی خان
فری لانس رائٹر، شوقیہ فوٹو گرافر، سیاح اور کوہ نورد۔ کراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا اور بعد ازاں ایریا اسٹڈی سینٹر فار پورپ سے ایک سال کا کورس ورک برائے ایم فل مکمل کیا۔ پیشے کے اعتبار سے پبلشر اور ایک پرٹنگ ھاؤس کے مالک۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply