نئے پاکستان کا پرانا عمران۔۔۔ آصف محمود

رات جو عمران بولا ، یہ وزیر اعظم عمران خان نہیں تھا ۔ یہ وہ پرانا عمران تھا جسے کبھی لوگوں نے چاہا تھا کہ وزیر اعظم بن جائے۔ مصلحتوں میں گھرے نئے عمران خان کو کہنی مار کر جب کبھی پرانا عمران خان سامنے آتا ہے ، اچھا لگتا ہے۔

یہ لہجہ بھی عمران خان کا نہیں تھا ۔ اس نے شاید ہی کبھی اس اسلوب میں کسی سے التجا کی ہو ۔ انگریزی تو وہ رسان سے بولتا ہے ، پھر بھی وہ اٹک رہا تھا ۔ الفاظ گویا زبان پر نہیں آ رہی تھے ۔ ’’ آئی جسٹ وانٹ ٹو سے‘‘ ، یہ فقرہ اس نے غالبا چار مرتبہ ادا کیا ۔ جو عمران کو جانتے ہیں ، وہ جانتے ہیں درخواست اور التجا کرنا اس کی عادت نہیں ۔ وہ خود سر ہے اور نرگسیت کی حد تک ۔ ساری عمر جو پورے طنطنے سے جیا ، بھری محفل میں وہ ایک درخواست کر رہا تھا۔

شاید سفارتی تقاضے بھی یہی کہتے ہوں کہ وزیر اعظم کو یوں بھری محفل میں سب کے سامنے ولی عہد سے درخواست نہیں کرنی چاہیے تھی ۔ کوئی اور طریقہ اور مقام اختیار کیا جا سکتا تھا ۔ نجی محفل میں بات کی جا سکتی تھی ۔ جب عمران ولی عہد کی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس جا رہے تھے تب بھی راستے میں کہیں اس خواہش کا اظہار کیا جا سکتا تھا ، سفارتی ذرائع سے یہ درخواست ولی عہد تک پہنچائی جا سکتی تھی ۔ پہلے سے طے ہوتا کہ ولی عہد سے یہ مطالبہ کرنا ہے تو شاید ایسا ہی کوئی راستہ اختیار کیا جاتا یا کم از کم بات کہنی عمران کے لیے اتنی مشکل نہ ہوتی ، وہ پہلے ہی سے موزوں الفاظ کا انتخاب کر چکا ہوتا ۔ لیکن یہ سب تب ہوتا اگر پہلے سے طے ہوتا۔

یہاں تو معاملہ ہی اور تھا ۔ معتبر لوگ روایت کرتے ہیں کہ ایسا کچھ طے تھا نہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے درمیان اس پر پہلے بات ہوئی تھی کہ ولی عہد سے یہ مطالبہ کرنا ہے ۔ ہاں برسوں پہلے جو عمران گلی گلی خواب لیے پھرتاتھا وہ یہ کہا کرتا تھا کہ جومزدور تلاش روزگار کے لیے اہل خانہ سے دور چلے گئے ہیں ، ہمیں ان کے دکھ درد کا احساس کرنا چاہیے ۔ اسی عمران نے کل اچانک وزیر اعظم عمران خان کو کہنی ماری اور ہتھیلی پر رکھا خواب محمد بن سلمان کے سامنے رکھ دیا ۔ سفارتی تقاضے ، رسوم اور آداب پیچھے رہ گئے۔

یہ وزیر اعظم عمران خان نہیں بول رہا تھا ، یہ وہ عمران تھا جسے افتادگان خاک نے چاہا تھا کہ وزیر اعظم بن جائے۔ وہ اپنے لیے کچھ نہیں مانگ رہا تھا ۔ اپنے خاندان کے لیے کچھ لینے کی ہوس نہیں تھی ۔ نہ اسے اقامہ چاہیے تھا نہ کاروباری امکانات کی تلاش تھی ۔ مانگا بھی تو کیا مانگا ؟ میرے مزدور میرے دل سے قریب ہیں، انہیں اپنا سمجھیے، انہیں قید سے آزاد کر دیجیے ۔ اللہ آپ سے راضی ہو گا ۔ عمران کی نفرت کے جہنم میں جلتا کوئی شخص سعودی عرب جائے اور ان پاکستانیوں سے پوچھیے انہیں کیسا محسوس ہوا جب کسی نے اسلام آباد سے انہیں احساس دلایا کہ آپ لاوارث نہیں ہیں۔

عمران کے سوال سے جو خوش گوار حیرت ہوئی ، ولی عہد کے جواب نے اسے دوچند کر دیا ۔’’ آپ مجھے سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھیے، ہم پاکستان کو انکار نہیں کر سکتے ، جو ہو سکا کریں گے‘‘۔ صبح سو کر اٹھے تو یہ خبر ہم جیسوں کی منتظر تھی کہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر محمد بن سلمان نے دو ہزار سے زائد قیدیوں کی رہائی کا حکم جاری کر دیا ہے ۔ کہاں گئے مایوسی کے وہ سفیر جو اٹھتے بیٹھتے قوم کو سفارتی تنہائی سے ڈرایا کرتے تھے؟

سفارت کاری کی دنیا بڑی نازک ہوتی ہے ۔ یہاں ایک ایک حرکت کاحساب رکھا جاتا ہے۔ کس کے ساتھ سپاٹ انداز سے بات کرنا ہے ، کس کے ساتھ مسکرانا ہے ، کسے گلے لگانا ہے ، کسے ریڈ کارپٹ بچھا کر خوش آمدید کہنا ہے ، یہ سب طے ہوتا ہے اور چہرے کے تاثرات تک کی اپنی زبان ہوتی ہے ۔ اب ذرا سوچیے سعودی عرب کا جواں سال ولی عہد کہہ رہا ہو ’’ آپ مجھے سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھیں‘‘ تو یہ کتنا غیر معمولی موقف ہے ۔ بھارت کے ساتھ تناؤ کے اس ماحول میں جس انداز سے ولی عہد پاکستان کے آرمی چیف سے ملے کیا اس میں کوئی پیغام پنہاں نہیں تھا؟

ایک جانب اتنی غیر معمولی پیش رفت ہو رہی تھی اور دوسری جانب ناقدین کرام اس بات پر تنقید فرما رہے تھے کہ اتنی زیادہ تعداد میں خیر مقدمی بینرز کیوں لگائے گئے ۔ این جی او کے دانش گردوں کی تکلیف الگ تھی ، سیاسی عصبیت کا آزار بھی اس میں شامل ہو گیا ۔ سوشل میڈیا پر اس طبقے نے مل کو جو تعفن پھیلایا اس نے بہت سارے سوالات کو جنم دے دیا ۔ ہم آزادی رائے کی بات تو کرتے ہیں کیا ہمیں معلوم ہے قانون میں آزادی رائے کی حدود کیا ہیں ؟ کیا ریاست ففتھ جنریشن وار کی اس تباہ کاری میں بروئے کار آئے گی اور آئے گی تو کب آئے گی؟ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ آزادی رائے کے نام پر ریاست کو سینگوں پر لے لیا جائے۔

ہمارے ہاں مگر الگ ہی تماشا جاری ہے ۔ پہلے مذہب کو ٹارگٹ کیا گیا ۔ اب پاکستان کا نام لینا بھی ’’ آؤٹ آف فیشن‘‘ قرار پا چکا ہے ۔ حب الوطنی کوبھی گالی بنایا جا رہا ہے۔ مگر بڑے ہی کائیاں انداز سے اوربظاہر اچھی اصطلاحات کے استعمال سے۔ تازہ بیانیہ یہ ہے کہ ’’ ہم ایک گلوبل فیملی کے رکن ہیں‘‘۔ پہلے مرھلے میں مذہب کی بات کرنے والے جنونی قرار پائے اب پاکستان سے محبت بھی جنون کے باب میں لکھی جا رہی ہے ۔ برہان تازہ یہ ہے کہ ہمیں سوچ کو گلوبل کرنا چاہیے ۔ یعنی ہمیں پاکستان کے بارے زیادہ حساس ہونا چاہیے نہ زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ففتھ جنریشن وار عروج پر ہے ۔ ریاست کے حق میں بات کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔اداروں کی آپ تذلیل نہیں کرتے تو آپ ’’ گل خان ‘‘ ہیں ۔ بطل حریت وہی ہے جو ریاست اور اس کے اداروں کو دن میں دس مرتبہ گالی دے ۔ مطالعہ پاکستان کی اصطلاح اب بطور تمسخر استعمال کی جانے لگی ہے ۔ ان کے نزدیک ہر خرابی پاکستان میں ہے اورپاکستان کے عوام کو ہر وقت احساس جرم کے ساتھ زندہ رہنا چاہیے کیونکہ ان کی تاریخ میں کوئی ایسی چیز نہیں جس پر فخر کیا جا سکے ۔ یہ سب کچھ آزادی رائے کے نام پرکیا جا رہا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس روز آزاری رائے کی ضمانت فراہم کرنے والا آرٹیکل 19 اس ملک میں درست طور پر نافذ کر دیا گیا اس روزایک چوتھائی دانش گرد اڈیالہ میں بیانیے کو سہلا رہے ہوں گے اور ایک چوتھائی کسی ہسپتال کے گائنی وارڈ میں پڑے ہوں گے۔

Facebook Comments

آصف شہزاد
سرٹیفائڈ پاکستانی | درویش سّید | نِکما فوٹو گرافر | کاتبِ حق | ناکام لکھاری | بے قائدہ صحافی | بھگوڑا شاعر | نالائق طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply