ہم کہاں غلطی کررہے ہیں؟۔۔۔۔ریحان خان

پلوامہ حملوں کے بعد ملک سوگ کی کیفیت میں ہے۔ ایسے معاملات قومی المیہ ہوتے ہیں جن پر سیاسی سطح سے بالاتر ہوکر سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن حملوں کے بعد 49 لاشوں پر بھی سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش کی جارہی ہیں جو افسوسناک ہے۔ حملوں کے تعلق سے بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں جن کا سامنا بہرحال حکومت کو کرنا ہے۔ سب سے بڑا سوال کے کشمیر جیسے علاقے میں جہاں ہر مشکوک فرد کی باقاعدہ تلاشی ہوتی ہو وہاں بڑی مقدار میں دھماکہ خیز مواد کی منتقلی کیوں کر عمل میں آسکتی ہے وہ بھی اس علاقے میں جہاں فوجی دستے موجود ہوں۔ یہ سوال داخلی سیکورٹی کے لحاظ سے اٹھتا ہے لیکن بدقسمتی سے اسے سیاسی تناظر میں دیکھتے ہوئے جواب دہی سے بچنے کی کوشش ہورہی ہے۔ داخلی سیکورٹی پر اٹھنے والے سوالات کا سامنا حکومت کو ہی کرنا ہوتا ہے خواہ وہ بی جے پی کی ہو یا کانگریس کی یا کوئی اور حکومت، ماضی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر نریندر مودی بھی یہی سوالات منموہن سنگھ حکومت سے کرچکے ہیں جن سوالات کے جوابات آج ان سے طلب کیے جارہے ہیں۔ نہ ماضی میں ان سوالات کے جوابات مل سکے تھے اور نہ ہی آج ملنے کی توقع ہے۔ یہاں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے بس سوال کرنے والے اور جن سے سے سوال کیا جارہا ہے ان کے چہرے بدل گئے ہیں اور سوال بدستور باقی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حملوں کے بعد سوشل میڈیا کا ردعمل بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جہاں جم کر سیاسی روٹیاں سینکی گئیں گِدھوں کی طرح 49 لاشیں نوچی جاتی رہیں۔ یہ حملوں کا سب سے کریہہ اور افسوسناک ردعمل تھا۔ کسی نے کہا ‘اگر میرے ووٹ سے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک ہوتی ہے تو میرا ووٹ بی جے پی کو’ یہ حرکت بلاشبہ آئی ٹی سیل کی جانب سے کی گئی جسے وزیر اعظم کی اس تقریر سے استثنیٰ حاصل ہے جس میں انہوں نے کہا کہ حملے کو سیاسی اغراض و مقاصد سے بالاتر ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جمعہ کے روز ملک بھر میں حملوں کے احتجاجی مظاہرے ہوئے جس میں اکثر مقامات پر مودی کی جے جے کار کے نعرے لگے۔ 49 خاندانوں سمیت ملک بھر پہ غموں کا پہاڑ ٹوٹ گیا لیکن جے جے کار کے مخصوص نعرے بھی اس غم سے بے نیاز ہیں جنہیں دیکھ کر شہیدوں کیلئے صدق دل سے غم کا اظہار کرنے پہنچے افراد خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرنے لگے۔ وہ تو آئے تھے کہ شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرسکیں، ان کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کرسکیں، ان کے دکھ میں شریک ہوسکیں، قومی اتحاد کا جزو بن سکیں لیکن ان تمام سے پرے وہ محض سیاسی جے جے کار کے نعروں میں استعمال کرلیے گئے۔ بے شک سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا، اگر ہوتا تو کتنا ہی سخت کیوں نہ ہوتا 49 لاشوں پر ضرور پسیج جاتا۔
نیوز چینلس کا رویہ بھی اس سلسلے میں حسب روایت مایوس کن ہے۔ اظہار غم اور چیز ہے اور فرسٹریشن پھیلانا اور چیز، نیوز چینلز نے حملوں کے بعد رپورٹنگ اور اظہار غم کے نام پر دل کھول کر فرسٹریشن پھیلائی اور اسی فرسٹریشن کے نتیجے میں سوشل میڈیا یوزرس دن بھر جنگ کا مطالبہ کرتے رہے۔ جنگ کا مطلب کیا ہوتا ہے شاید انہیں علم نہیں، 49 لاشیں اس جنگ کا نمونہ ہیں جس کا مطالبہ آپ کررہے ہیں۔ آپ کی مطلوب جنگ ان لاشوں کی تعداد میں اضافہ کرے گی۔ جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے وہ کیا کسی مسئلے کا حل دے گی۔ جنگ میں آپ کی تسکین کا محض اتنا سا سامان ہوگا کہ آپ اپنے فوجیوں کی لاشوں کے ساتھ دشمن کے فوجیوں کی لاشیں بھی دیکھ سکیں گے۔ ایسی تسکین انسان کی حیوانی جبلت کی تسکین کہلاتی ہے اور ایسی تسکین حاصل کرتے ہوئے ہم بھی اسی سطح پر پہنچ جائیں گے جہاں سے پلوامہ میں فوجی دستوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جب ان میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں رہ جائیگا اور یہ ہماری سب سے بڑی شکست ہوگی خواہ ہم جنگ جیت ہی کیوں نہ جائیں۔ سوشل میڈیا پر جنگ کا مطالبہ کرنے والی نسل وہی ہے جو اس صدی کے پہلے دہے کے اواخر میں بالغ ہوئی ہے اور جنگ کی تباہ کاریوں کے ادراک سے محروم ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں الیکٹرانک میڈیا نے جو روش اختیار کی ہے ایسے ہنگامی حالات میں ان سے گریز کرنا بہتر ہوگا اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ غمگین شہری کم از کم فرسٹریشن سے محفوظ رہے گا۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے لاکھ اختلاف لیکن حملوں کے بعد ان کا ردعمل وہی ہے جو کسی ملک کے سربراہ کا ایسے حالات میں ہونا چاہیے۔
مبینہ خود کش حملہ آور کا نام عادل احمد ڈار ہے جو کشمیری نوجوان ہے۔ اس نے 2018 میں جیش محمد میں شمولیت اختیار کی تھی اور اسے جیش کی ‘سی’ کیٹیگری میں رکھا گیا تھا۔ ایسے معاملات میں جیش کے اعلیٰ عہدیداران پیادوں کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ خود ان کے بچے ان کی تباہ کاریوں سے محفوظ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہ دوسروں کے بچوں کو اپنی درندگی کا ذریعہ اور نام نہاد جہاد کا ایندھن بناتے ہیں۔ اگر کوئی کشمیری نوجوان جیش محمد کو جوائن کرتا ہے تو اس کی ذمہ داری بہت حد تک ہم پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہم نے کسی موڑ پر سنگین غلطیاں ضرور کی ہوں گی جس کی بنیاد پر عادل احمد ڈار پرامن شہری بننے کی بجائے سرحد پار بیٹھے جیش لیڈران کے ہاتھوں کا کھلونا بن گیا۔ ٹائمز آف انڈیا نے شدت پسندوں کا آلہ کار بننے والے نوجوانوں پر ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2010ء میں 54 کشمیری نوجوان دہشت گردوں کا آلہ کار بنے تھے جو 2013 تک بتدریج کم ہوتے ہوئے 16 نوجوانوں تک محدود ہوگئے۔ 2014ء انتخابی سال ہوتے ہوئے کشمیر میں تشدد میں اضافہ ہوا اور 53 نوجوان شدت پسندوں کے آلہ کار بنے اس کے بعد یہ گراف تیزی سے اوپر گیا ہے جس میں 2015 میں 66، 2016 میں 88 کشمیری نوجوانوں نے شدت پسندی کی راہ اختیار کی۔ پھر ‘نوٹ بندی’ سے کشمیر میں شدت پسندوں کی ‘کمر توڑ دی گئی’ اس لیے 2017 میں یہ 126 تک جاپہنچی۔ اس کے 2018ء میں شدت پسندوں کے رابطے میں 191 کشمیری نوجوان آئے جن میں سے ایک پلوامہ معاملہ کا خودکش حملہ آور عادل احمد ڈار بھی تھا۔ سی کیٹیگری کے پیادوں سے فوجیوں کے خون کی ہولی کھیلنے والے شاطروں کو سزا ضرور ملنی چاہیے لیکن اس سے زیادہ اس سمت میں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیوں کشمیری نوجوان تشدد کی راہ اختیار کررہے ہیں۔ ہم کہاں غلطی کررہے ہیں جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply