سوشل میڈیا پہ کمی نہیں ان لوگوں کی جو مصنوعی بہادری کے قصے بیان کرکر کے ہمارے جرنیلوں کو ایک الف لیلوی کہانی کاکردار ثابت کرتے رہتے ہیں- اس طرح کی پالش ہم جیسے اوسط درجہ کی ذہنی استعداد رکھنے والوں کو نہ صرف گمراہ کرتی ہے بلکہ ایک ایسا بیانیہ متشکل ہوتا ہے جو اس تصویر میں متواتر وہ رنگ بھرتا رہتا ہے جو پتہ دیتا ہے کہ سویلین نہ صرف کرپٹ بلکہ بزدل اور غبی ترین ہوتے ہیں-پروفیشنل ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ ادارے یا افراد کبھی بھی اپنے دائرہ کار سے باہر نہیں جاتے اور آئینی طور پہ سپریم اداروں اور افراد کے سامنے جھک جانے کو اپنی توہین نہیں سمجھتے- اندازہ کرلیجئے کہ ہماری افواج کیا کرتی رہی ہیں -ہم بڑا پختہ ایمان لائے ہوئے ہیں کہ سیاست اور سیاستدان اگر کوڑے کا بدبودار ڈھیر بھی بن جائیں تو بھی مسلمہ پروفیشنل عسکری ادارہ نہ تو اپنی ٹانگ قومی سیاست میں اڑاتا ہے اور بلکہ سول اتھارٹی کے سامنے جھکا بھی رہتا ہے-جدید اور کامیاب جمہوری ممالک اسی خوبی سے مزین نظر آتے ہیں-
ہم کتنی آسانی سے فرمان جاری کردیتے ہیں مشرف نے کافی اورسگار پیتے اور وار فئیر اسٹریٹیجیز نامی کتابیں پڑهتے ہوئے امریکہ کو افغانستا ن کی دلدل میں پهنساکر ایک جینئس جرنیل ہونے کا ثبوت دیا-سبحان اللہ! یہی “جینئیس “جرنیل تها جس نے سول قیادت کی آنکھ میں دهول جهونک کر کارگل کا ایڈونچر شروع کیا اور پهر انڈیا کے جوابی وار کی صورت میں “ڈرتا ورتا” کمانڈو کے ہاتهوں کے طوطے اڑے ہوئے تهے-
جو بندہ کارگل جیسی چهوٹی سچوایشن کو ہینڈل نہیں کرسکا کیا اُس سے توقع رکهی جاسکتی ہے کہ افغان وار جیسی گریٹ گیم کا ‘ایتهن ہنٹ'(ٹامکروز) بن گیا ہوگا-کرسٹوفر میکری نے اعلان کیا ہے کہ مشن امپاسیبل فلم سیریز کی چهٹی انسٹالمنٹ کے بعد وہ ‘مشن امپاسیبل مش’ سیریز شروع کرنے والا ہے-ان کا کہنا تها کہ اس سیریز میں سہولت یہ ہوگی کہ کہانی سوچنی نہیں پڑے گی،کردار تخلیق نہیں کرنے پڑیں گے اور ایڈونچر یہ ہوگا پینسٹهہ اکہتر اور افغان وار میں ادا کیے گئے مشرف کے جرات و بہادری پہ مبنی کردار کو ہی مختلف انسٹالمنٹس کی شکل میں پیش کیاجائے گا-ان کا فرمانا یہ بهی تها کہ سوشل میڈیا کے چنیدہ پالش ماروں کو نیویارک کے سینما گهروں میں پریمئیر شو میں شرکت کی دعوت فلم کمپنی کے خرچہ پہ دی جائے گی-دعا گو ہوں سورج مغرب سے طلوع ہو!
لطیفہ سن لیجئے؛ جنرل شاہد عزیزکا دعویٰ اپنی کتاب ” یہ خاموشی کہاں تک ” ہے کہ کارگل آپریشن کے شروع ہونے کا ڈی جی ایم او تک کو نہیں پتہ تها-جب ہمارے کمانڈو جنرل کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے، اور کارگل سیکٹر میں ہماری حالت انتہائی پتلی تھی تو جنرل شاہد عزیز نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ فضائیہ کی مدد سےکشمیر سیکٹر میں ہلکی بمباری کی جائے تاکہ دشمن پہ دبائوبڑھے – تو کمانڈو صاحب نے چڑچڑے پن سے کہا کہ پہلے ہی پریشان ہیں تم اور پریشان نہ کرو!
یاد رکھئے جنرل شاہد تب خود ہی ڈی جی ایم او تھےاور تمام فوجی آپریشنز کی پلاننگ اور ممکنہ نتائج کی پیشن گوئی ملٹری آپریشنز کا ہی کام ہوتا ہے-
Facebook Comments