• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہندوستانی صحافت میں مارکیٹ اور مندر کا بڑھتا دبدبہ۔۔۔ابھے کمار

ہندوستانی صحافت میں مارکیٹ اور مندر کا بڑھتا دبدبہ۔۔۔ابھے کمار

صحافت کا مقصد کیا ہو؟ اس سوال پر لوگوں کی ایک رائے نہیں رہی ہے۔ کچھ لوگ اس کو خالص منافع کمانے سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ دیگر کاروبار کی طرح ہے ۔مگر دیگر افراد جمہوریت کی کامیابی کیلئے آزاد پریس کا ہونا ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں صحافت کو سماج اور ملک میں ایک خبر دار کرنے والے سپاہی کی طرح تصور کیا جاتا ہے ،جس کا کام یہ ہے کہ طاقتور لوگوں کی زیادتی اور بدعنوانیوں کو منکشف کرے اور مظلوم عوام اور محروم طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے مسلسل کام کرتا رہے۔

جب لبرل ڈیموکریسی طرز کی حکومت بننی شروع ہوئی تو اخبار اور میڈیا کو اس نظام کا ایک اہم قتب مانا گیا۔ لبرل نظریہ طاقت یعنی پاور کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور یہ مانتا ہے کہ جمہوریت کی کامیابی کےلیے آزاد پریس کا ہونا ضروری ہے کیونکہ آزاد پریس ارباب اقتدار لے کرپشن کا انکشاف کرتا ہے ۔مگر منافع کمانے والے اپنے حریف گروپ کے اصولی باتوں کو پریکٹیکل نہیں سمجھتے۔

تاریخ کے صفحات کو الٹنے پر معلوم ہوتا ہے کہ منافع خوری بنام اصول کی جدوجہد صحافت میں چلتی رہی ہے۔ جب خبررساں ایجنسی اور بڑے بڑے اخبارات وجود میں آئیں تب ان کا مقصد تجارت سے تعلق خبروں کو شائع کرنا تھا۔ اس دور میں اخبار نکالنا کوئی ‘مشن ‘ نہیں تھا۔ مگر دھیرے دھیرے لبرل اور لیفٹ نظریہ مضبوطی کے ساتھ سامنے آیا اور صحافت کا کام سرکار کی نگرانی رکھنا اور انسانی حقوق کا تحفظ کرنا سمجھا جانے لگا ۔ جب جدید مملکت وجود میں آئی تو صحافت کا استعمال ارباب اقتدار کی آئیڈیا لوجی کو پھیلانے اور حکومت کے کاموں کو صحیح دکھانے کے لئے بھی کیاجانے لگا ۔

کچھ اسی طرح انگریزوں کے دور حکومت میں بھی، صحافت کے تعلق سے لوگوں کی رائے الگ الگ تھیں۔ اس زمانے میں کے بہت سارے اخبارات انگریزی حکومت کی تعریف کرتے تھے اور اس طرح اپنے آپ کو سسٹم سے جوڑ کر اس سے فائدہ حاصل کرتے تھے۔ مگر ایک دوسرا گروپ باغیوں اور انقلابیوں کا تھا جو صحافت کے ذریعے اپنی آوازوں کو دور دور تک پہنچاتے تھے۔ برٹش سامراج کے خلاف لڑ رہے ان مجاہدین آزادی کا ایک بڑا طبقہ سیاسی پرچہ بھی نکالتا تھا۔ مثال کے طور پر مولانا آزاد کا اخبار’ الہلال’ آزادی کیلئے صدائے احتجاج بلند کرنے میں پیش پیش تھا۔ ‘ انقلاب زندہ باد’ کا نعرہ دینے والے حسرت موہانی اپنی انقلابی صحافت کے لئے کئی بار جیل گئے۔ مہاتماگاندھی، بال گنگا دھر تلک، بابا صاحب امبیڈکر بھی سیاسی پرچہ شائع کرتے تھے۔

آزادی کے بعد بھی اخبارات اور میڈیا اپنے اپنے رول کو لے کر بٹے ہوئے تھے ۔کچھ صحافت کا مقصد ملک کی تعمیر و ترقی سے جوڑ کر دیکھتے تھے۔مگر دیگر افراد اس کو کاروبار سے۔ صحافت کا رول سرکار کی امیج کو بہتر بنانے کے لیے بھی کیا گیا۔

مثال کے طور پر ۱۹۶۰ اور ۱۹۷۰ میں واقع ہوئے سبز انقلاب کے دوران میڈیا نے بڑا رول ادا کیا اور سرکاری پالیسیوں کو عوام تک پہنچایا۔ ان کو جدید ٹیکنالوجی سے بھی باخبر کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ میڈیا منافع خوری کی خاطر طاقتور لوگوں کے مفاد کی نمائندگی بھی کرتا رہا ۔ صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے غیرضروری مفادات کو بھی پورا کرنے میں میڈیا کا ایک بڑا حصہ لگا رہا ہے۔ یہ اس لیے بھی ہوا کہ میڈیا میں پیسہ اکثر انہیں سرمایا داروں کا لگا ہوتا تھا اور وہ دولت کی طاقت سے نیوز روم کو کنٹرول کرتے تھے۔ سیاست دانوں کو اپنی شبیہ بنانے کے لئے اخبار کا سہارا لینا پڑتا تھا اور اس کے لئے ان کو سرمایہ داروں کو خوش رکھنا پڑتا تھا۔

اس دوران اخباروں میں کام کرنے والے یزیادہ تر صحافی کا تعولق بڑی ذات سےتھا اور وہ برہمنی سسٹم آج بھی نیوز روم میں دکھتا ہے۔ دلت ، پچھڑے ، آدی واسی، آج حی شاید ہی ڈھونڈنے سے کہی ملتے ہیں۔ یہی بڑی وجہ تھی اور آج بھی ہے کہ ہندو شدت پسند اور فرقہ پرست طاقتوں نیوز روم کو اپنے فائدہ میں استعمال کر رہی ہیں۔ ان کا نظریہ بڑی آسانی سے اخبار میں جگہ پا جاتا ہے ۔نچلی ذاتی اور دیگر محروم طبقات کی واجب نمائندگی کے فقدان کی وجہ سے ہندو فرقہ پرست موقف ملک کا موقف بن جاتا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑی تیزی سے ہندو شدت پسند تنظیم سے وابستہ لوگ میڈیا ہاؤسز میں بڑے منصب پر بیٹھنے لگے اور پھر مارکیٹ اور مندر کا دبدبہ سب پر بھاری پڑنے لگا ہے ۔ یہ ۱۹۸۰ کی دہائی سے صاف دکھنے لگا، جو آج اور بھی زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔ آج مارکیٹ اور مندر کا ایجنڈا سب کا ایجنڈا بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔

کون دیش دروہی ہے؟ کون غدار وطن ہے؟ کس نے آرمی’ توہیں’ کی ہے؟ یہ سارے سوالات میڈیا میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ رام مندر کی تعمیر ، گائے، بیف کی خبروں کو ترجیح دی جاتی ہے جبکہ عوام مسائل جیسے روٹی، کپڑا اور مکان پر کبھی کبھار ہی بحث ہوتی ہے ۔

صحافت میں مارکیٹ اور مذہب کا دبدبہ پورے ملک میں بڑا ہے۔ ایسا ہی کچھ امریکہ اور یوروپ میں دیکھا جا رہا ہے ہے جہاں شدت پسند عناصر اپنے عروج پر ہیں ۔ آج کے دور میں اپنا کام کروانے کے لیے شدت پسند عناصر کا سہارا لے رہی ہے۔ اس کے اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ لبرل اور لیفٹ صحافیوں کی تعداد ہر روز کم ہوتی جا رہی ہے۔

کچھ لوگ سوشل میڈیا کے ‘انقلاب ‘ اور اسمارٹ فون کی آمد کو صحافت میں طاقتور لوگوں کی ٹوٹتی ہوئی مونوپولی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ سچ بھی ہے کہ اب خبروں کو دبانا پہلے کی طرح آسان نہیں رہا کیونکہ سوشل میڈیا نے سچ کو سامنے لانے کا ایک راستہ دے دیا ہے ۔اب کوئی بھی اپنی بات کو ریکارڈ کر یا لکھ کر پھیلا سکتا ہے۔ مگر ہمیں سوشل میڈیا کی کمزوریوں کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر سوشل میڈیا پر کنٹرول آج بھی بڑی بڑی کمپنیوں کا بنا ہوا ہے، جس کا استعمال منافع کمانے کیلئے کے لیے ہو رہا ہے ۔ساتھ ہی ساتھ لوگوں کی پرائیویسی بھی توڑی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ منافع کی خاطر یہ کمپنیاں کسی خبر کو یا کسی مواد کو بڑی تیزی سے پھیلا دیتی ہیں۔ بہت سارے معاملے میں دیکھا گیا ہے کہ جو مواد حکومت کے خلاف ہوتا ہے اس پر وہ روک لگا دیتی ہیں تاکہ حکومت وقت ناراض نہ ہو۔ مگر سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر خبروں کی سچائی جانچنے کا کوئی کارگر سسٹم نہیں ہے ،جس کی وجہ سے جھوٹی خبریں بڑی تیزی سے گشت کر رہی ہیں۔ حکومت انھیں روکنے میں نہ صرف ناکام ہے بلکہ کچھ صحافیوں نے کتاب لکھ کر باقاعدہ یا کہا ہے کہ برسراقتدار جماعت کے پاس بھی سوشل میڈیا کی بڑی ٹیم ہے جو اپنے مخالفین کا ‘ ٹرول’کرتی ہے۔

دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہےکہ اخبار میں میں بازار اور سرمایہ داروں کی مداخلت پہلے سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ ایک بڑی کمپنی نہ جانے کتنی ٹی وی چینلوں اور اخبارات کی مالک بن بیٹھی ہے اور سب کچھ مالک کمپنی کے مفاد کو دھیان میں رکھ کر کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر دو سال پہلے ملک میں اچانک نوٹ بندی ہوئی۔ زیادہ تر میڈیا نے اس وقت ایک ہی پہلو کو دکھایا تھا۔

آج پہلے سے کہیں زیادہ ایڈیٹر اور صحافیوں کے اوپر پریشر ہے ۔اچھے رپورٹر زکو در کنار کیا جا رہا ہے اور وہ میڈیا سےت غائب ہو رہے ہیں۔ خبروں میں پریس رلیز اور ‘ پیڈ نیوز ‘ کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب بنی بنائی خبریں نیوز روم تک پہنچائی جا رہی ہیں۔ ادب اور سماجی علوم سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے اوپر مینیجر اور ٹیکنو کریٹس کو ترجیح دی جاری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ صحافیوں کو چھوڑ کر دیگر صحافیوں کی تنخواہ بڑھنے کی بجائے کم کردی گئی ہے۔ صحافت کے پیشے میں نوکریاں ٹھیکے پر کردی گئی ہے ،جس کی وجہ سے صحافیوں میں ہمہ وقت پریشر بنا رہتا ہے۔ اگر ان سارے پہلوں پر دھیان نہیں دیا گیا تو یہ صحافت کے لیے ہی نہیں بلکہ ہندوستانی جمہوریت کے لیے بھی انتہائی مضر ثابت ہوگا۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply