پا ک سعودی روایتی اتحاد۔۔۔۔عمیر فاروق

شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ  پاکستان پہ ہمارے میڈیا کے تبصروں اور تجزیوں سے کافی تشنگی کا احساس ہوا کچھ کنفیوژن بھی نظر آئی۔
بہرحال یہ تو آمد کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کن معاہدوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ اس کی گہرائی اور گیرائی کو اس کے پس منظر سمیت سمجھا جائے تاکہ کم سے کم کنفیوژن دور ہو۔
شہزادہ محمد کا پاکستان، انڈیا، ملائشیا، انڈونیشیا اور چین کا حالیہ دورہ اس وسیع تر سٹریٹیجک ری بیلنسنگ کی ایک کڑی ہے جس کا آغاز دو سال قبل شروع ہوچکا تھا۔
ایم بی ایس سعودیہ کی امریکہ اور مغرب پہ انحصار کی روایتی پالیسی کو کب کا خیر باد کہہ چکا تھا۔ پہلی سطح پہ سعودیہ نے چین کے ساتھ اپنے ٹھنڈے اور روس کے ساتھ خراب تعلقات کو  قریبی گرم جوش تعلقات میں بدل دیا ۔چین اور روس کے سعودیہ کی طرف سے سلفی شدت پسندی ، جہادی نظریات کے پھیلاؤ اور مدارس کی فنڈنگ جیسے خدشات کو دور کرکے انہیں  اعتماد میں لیا گیا اور ان  سے قریبی تعلقات قائم کئے گئے۔
یہ پالیسی سعودیہ کی اندرونی تبدیلیوں کی پالیسی سے بھی پوری طرح ہم آہنگ تھی۔ یوں اپنی تاریخ میں پہلی بار سعودیہ سکیورٹی کے لئے صرف امریکہ کا محتاج نہ رہا تھا۔
اس کے بعد دوسرے مرحلہ کا آغاز ہوا جس کے آثار سال قبل چین کے ساتھ تیل کو یوآن میں فروخت کرنے کے معاہدہ سے ہی ہوگیا تھا۔
سعودیہ اور گلف اس سے قبل اپنی سرمایہ کاری بھی مغرب تک محدود رکھتے تھے اب وہ پالیسی تبدیل ہورہی ہے۔
ایسا نہیں تھا کہ امریکی اس پالیسی شفٹ کو نہیں سمجھ رہے تھے انہیں بھی اندازہ تھا وہ اس پہ برافروختہ بھی تھے جس کا اظہار انہوں نے کئی مواقع پہ کیا تھا۔ ٹرمپ اور ایم بی ایس کی لفظی جنگ بھی ہوتی رہی تھی جس میں شہزادہ محمد نے باقاعدہ الزام لگایا تھا کہ سلفی وہابی شدت پسندانہ جہادی نظریات وہ امریکہ کے اشارے پہ ہی پھیلاتے رہے تھے۔
سعودیہ میں عالمی سرمایہ کاری کانفرنس کے انعقاد کے موقع پہ امریکی ناراضی کھل کے سامنے آئی اور جمال خشوگی کے قتل کو جواز بنا کر اس کا نفرنس کو ناکام کرنے کی کوشش ہوئی لیکن سعودیہ اسی وجہ سے امریکی دباؤ میں نہیں آیا کہ اب سکیورٹی کے سلسلہ میں اسے بیک وقت چین، پاکستان اور روس کا اعتماد حاصل تھا۔
ایم بی ایس کے موجودہ دورہ کو سعودیہ کی اس گرینڈ سٹریٹیجی کا تسلسل سمجھنا چاہیے جس میں وہ اپنی مستقبل کی سرمایہ کاری کا رخ مغرب کی بجائے مشرق کی طرف موڑ رہا ہے۔ اسی سلسلہ میں اگلی عالمی سرمایہ کاری کانفرنس پاکستان میں  منعقد ہونے جارہی ہے۔ انہیں یہ بھی خوب سمجھ ہے کہ مستقبل میں انکی تیل کی بڑی مارکیٹ یورپ اور امریکہ نہیں  بلکہ جنوبی، جنوب مشرقی اور مشرقی ایشیا ہوگا لہذا وہ اپنی سرمایہ کاری کا رخ بھی اس جانب موڑنا بہتر سمجھ رہے ہیں۔
اگلا سوال ہے کہ اس عمل میں پاکستان کی اہمیت کیا ہے اور خود پاکستان کے لئے اس کی کیا اہمیت ہے؟
پاکستان سعودیہ کا روایتی اتحادی رہا ہے جب خشوگی والے معاملہ پہ امریکہ نے سعودی کانفرنس کو ناکام بنانے کی کوشش کی تھی تو پاکستان نے سعودیہ کا بھرپور ساتھ دیا تھا اس کے علاوہ پاکستان چین کا بھی سب سے بڑا اتحادی ہے ، مستقبل کے کسی منظرنامہ پہ چین کا کردار بہت حاوی ہوگا۔ چین ہی مستقبل میں سعودیہ اور خلیج کے تیل کی سب سے بڑی مارکیٹ ہوگا جبکہ پاکستان کا زمینی راستہ چین تک تیل کی برآمد کا سستا اور تیز رفتار راستہ ہے۔ دونوں کا پرانا دفاعی اتحاد ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ دفاعی پیداوار میں بھی شرکت میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
اسی طرح پاکستان جو گزشتہ سالوں میں بدامنی کے باعث سرمایہ کاری میں کمی کا شکار رہا ہے اس کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ سعودی سرمایہ کاری کی آمد دیگر ممالک کو بھی دلچسپی لینے پہ مجبور کرے گی۔ سی پیک میں سعودیہ کی شراکت سے چین کی اجاراداری کا تاثر ختم ہوگا اور مزید ممالک کی شرکت کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔
اس دورہ میں کیا کیا معاہدہ جات ہوتے ہیں اس بارے میں حتمی بات انکے اعلان اور تفصیلات جاری ہونے کے بعد ہی کی جاسکتی ہے

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply