(اسرائیل کا سفر نامہ ۔اپریل 2016 )
ادارتی تعارف
کتاب دیوار گریہ کے آس پاس کو مکالمہ میں خدمت دین اور فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی خاطر شائع کیا جارہا ہے۔
کتاب کا شمار اردو کی ان دنوں مقبول ترین کتب میں ہوتا ہے۔مشہور سیاح اور مصنف مستنصر حسین تارڑ بھی اسے پڑھ کر ششدر رہ گئے تھے۔
یہ سفر اپریل 2015 میں جناب کاشف مصطفے نے کیا تھا۔یہ انگریزی میں تحریر سفری یاداشتوں کا ایک غیر کتابی سلسلہ تھا جو زیادہ تر مختصر پیرائے میں اسرائیل سے جناب دیوان صاحب کو بذریعہ ای میل موصول ہوئیں۔ ہمارے جگر جان ،محمد اقبال دیوان نے موصول شدہ ان انگریزی ٹریول نوٹس کی مدد سے اپنے مخصوص انداز میں اسے اردو کے قالب میں ڈھالا۔ اسے ادارہ قوسین نے اردو کے مشہور جریدے سویرا کی وساطت سے کتاب کی صورت میں لاہور سے شائع کیا۔اس کتاب کو لکھنے میں اور اس کی اشاعت و ترویح میں ان کا بہت حصہ ہے۔یہان اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ یہ کاوش بیش بہا پہلے سے انگریزی یا کسی اور زبان میں کتاب کی صورت موجود نہ تھی۔ نہ ہی اس کا کوئی اور نسخہ اب تک کسی اور زبان میں معرض وجود میں آیا ہے۔ قارئین مکالمہ کی خاطر کچھ تصاویر جو کتاب میں موجود نہ تھیں وہ وضاحت مضمون کی خاطر نیٹ سے شامل کی گئی ہیں۔قسط مذکورہ میں ڈاکٹر صاحب کی اپنی تصویر کے علاوہ تمام تصاویر نیٹ سے لی گئی ہیں۔خالد جمعہ کی نظم ،مارشل ایپل وہائٹ کی تصاویر اور بیان دیوان صاحب کا اضافہ ہے۔

ہما رے دیوان صاحب ڈاکٹر صاحب کے ہم زاد ہیں ۔سابق بیورو کریٹ اور صاحب طرز ادیب ہیں ۔ ان کی تین عدد کتابیں جسے رات لے اڑی ہوا، وہ ورق تھا دل کی کتاب کا اور تیسری پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ شائع ہوچکی ہیں۔ چوتھی چارہ گر ہیں بے اثر ان دنوں ادارہ قوسین کے پاس زیر طبع ہے۔ سرجن کاشف مصطفے جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں اور ان کا شمار دنیا کے نامور ہارٹ سرجنز میں ہوتا ہے۔بہت صاحب نظر اور اہل رسائی ہیں۔کاشف صاحب کوہ پیما ہیں،پیراک ہیں، میراتھن رنر ہیں اور دنیا کے ستر سے زائد ممالک کی سیر کرچکے ہیں۔تنہا سیر کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان دو دوستوں کی اس کاوش کی اشاعت ادارہ مکالمہ اپنے لیے باعث تفاخر سمجھتا ہے۔ قرآن الحکیم اور تصوف کے حوالے دیوان صاحب کی اپنی تحقیق اور اضافہ ہے اور انگریزی ٹریول نوٹس میں شامل نہ تھا۔
ایڈیٹر ان چیف
انعام رانا


گزشتہ سے پیوستہ
دنیا بھر کے قدیم شہرو ں دمشق، روم، قاہرہ ، استنبول، بغداد، لندن ، کوئیو ٹو ، دہلی ، شنگھائی ، نان جنگ ،تو ایک بات ان میں بڑی مشترک ہے کہ ان کی آبادی اتنی کم جتنی شہر جیریکو کی ہے یعنی کل پچیس ہزار کے لگ بھگ۔ جب کہ اس کا ذکر نئی پرانی دونوں بائبلوں میں ملتا ہے ۔ وہ اسے پام کے درختوں کا شہر کہتی ہیں۔کسی بھی عرب شہر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا سامنا اس کے بے ہنگم ٹریفک سے پڑتا ہے۔
اسرائیل کا دیگر شعبہ ہائے زندگی میں مثالی نظم و ضبط اس بدنظمی پر غالب نہیں آسکا۔قادر کی گاڑی کے سامنے ایک اسکوٹر جس پر تین نوجوان افراد کا ایک بے نیاز ٹولہ سوار ہے بڑے اطمینان سے رکاوٹ بن کر موجود ہے

قادر نے کار کا شیشہ اتار کر انہیں عربی میں یاد دلایا کہ ان کے ماں باپ ان کی پیدائش سے پہلے شادی کرنا بھول گئے تو وہ جلد گھر جاکر انہیں یاد دلائیں۔ اسے اس گالم گلوچ پر کچھ خفت ہوئی تو پوچھنے لگا کہ کیا جنوبی افریقہ میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ ارے نہیں یہ بد نظمی مسلمان ہونے کی ایک بڑی علامت ہے میرے اپنے دیس پاکستان میں بھی یہ نظارہ بہت عام ہے۔اس حوالے سے ان بچوں کے والدین کے بھائی بہن ہمارے ملک میں بہت ہیں۔ وہ میری بات سن کر زور سے ہنس پڑا۔ ایک عرصہ تک جیریکو کا شمار سب سے زیادہ کھودی جانے والی بستی میں ہوتا رہا،یہ اعزاز مجھے اندیشہ ہے لاہور شاید جلد ہی اس سے چھین لے۔
آثار قدیمہ کے ماہرین ہمہ وقت یہاں کچھ نہ کچھ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ شہر کا قدیم حصہ جہاں یہ کھدائی جاری ہے اسے ’’طّلِ سلطان ‘‘ کہتے ہیں اس حصے کے بارے میں اندازہ ہے کہ یہ سیدنا عیسیؑ کی پیدائش سے 9000 سال قبل کا ہے۔شہر کے بارے میں اس کے قدیم ترین ہونے کا اعلان داخلے کے وقت ایک بورڈ کرتا ہے۔بنی اسرائیل جب یہاں مصر سے سیدنا موسیؑ کے ساتھ آئے تو ان کی مقامی آبادی کے ساتھ پہلی جنگ اسی مقام پر ہوئی تھی۔ان کی فوج کی قیادت ایک یہودی صوفی جوشوا ( Joshua )کررہے تھے۔انہوں نے شہر کا سات دن تک محاصرہ کیے رکھا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ساتویں دن جب انہوں نے مینڈھے کا سنکھ بجایا تو اس کی پھونک سے قلعے کی دیوار ریزہ ریزہ ہوکرگرپڑی۔شہر کی پوری آبادی کو تلوار کے گھاٹ اتار دیا ,کیا مرد و زن, کیا بچے، بس ایک طوائف رباب کو زندہ چھوڑ دیا گیا۔ جنگ کے آغاز سے پہلے یہودی جاسوس اس کے ہاں پناہ لیتے تھے۔
ہم جلد ہی شہر کے مرکز میں آن پہنچے۔یہ قدرے اجڑا ہوا سا ہے۔اس سے ایک یاسیت سی جڑ گئی ہے۔ جیریکو کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ تاریخ کے بے رحم تھپیڑوں نے اسے ہراساں اور بے دم کردیا ہے۔اس کے حسن اور رونق انگیزی میں اگر کسی نے کبھی اضافے کی کوئی کوشش کی ہے تو وہ خلافت عباسیہ کے حکمران تھے۔انہی کے دور میں یہاں آب رسانی کا بندوبست کیا گیا۔زراعت کو بھی خاصا فروغ ملا۔وہ رخصت ہوئے تو یہ شہر پھر سے بے توجہی کا شکار ہوگیا۔اب بھی اس شہر کا یہی عالم ہے کہ اس کی دیواروں پر لگتا ہے اداسی بال کھولے سورہی ہے۔اس کے قہوہ خانے بے رونق ہیں اور شاہراہوں پر بے رونقی رواں دواں رہتی ہے۔یہ شہر بے حد قدامت پسندہے مجال ہے جو کوئی خاتون آپ کو یہاں بے وجہ گھومتی دکھائی دے۔ہر تیسری دکان کار میکنک کی ورکشاپ ہے اس لیے کہ یہاں سبھی گاڑیاں بہت پرانی ہیں۔ہم ایک شاپنگ سینٹر میں جا دھمکے ۔اس کے ورانڈے میں دکاندار اپنی مجلس جمائے بیٹھے تھے۔ دور دور تک گاہک کا کوئی پتہ نہ تھا۔عبدالقادر کو دیکھتے ہی یہ سب اچھل کر کھڑے ہوگئے۔اس نے ایک نشست پکڑی اور وہاں موجود کسی نوجوان کو اشارہ کیا تو وہ میرا ہاتھ تھام کر مجھے آگ سے حفاظتی زینے سے چھت پر لے گیا۔یہاں سے طلے سلطان کے کھنڈرات باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔
چھت سے داہنی طرف دیکھیں تو آپ کو نو تعمیر شدہ فلیٹوں کا ایک جنگل دکھائی دیتا ہے جیسے کراچی کا گلستان جوہر۔چھوٹے ماچس کی ڈبیا کے جیسے بلڈنگ بلاک جنہیں نیم پختہ مٹی کی سڑکوں نے ایک دوسرے سے جدا کیا ہوا ہے۔یہیں ایک بہت بڑا ٹیلا بھی تھا جس کے دامن میں ایک مٹیالا مدھم کلیسا بھی دکھائی دیتا ہے۔ایک چئیر لفٹ کہیں سے فضا میں تیرتی ہوئی کلیسا کی جانب دکھائی دی۔ میرے نوجوان رفیق نے بتایا کہ یہ دیئر القرنطل ہے یعنیMount of Temptation۔



یہ حضرت عیسیؑ کے چھ سو سال بعد عین اس مقام پر بنائی گئی تھی۔جو امتداد زمانہ کے ہاتھوں برباد ہوگئی ۔اس مقام پر چالیس دن اور رات حضرت عیسیؑ کو شیطان ان کے مراقبے میں ورغلاتا رہا۔آپ غور فرمائیں پہاڑوں کی تینوں بڑے مذاہب اور ہندو مذہب میں بھی بڑی اہمیت ہے۔ سیدنا موسیؑ نے کوہ سینا پر چالیس دن ،سیدنا عیسی نے کوہ القرنطل پر اورہمارے نبی ﷺ نے غار حرا پر اپنے روحانی سفر کے لیے اہم پڑاؤ ڈالا تھا۔ جب صلیبی جنگوں میں عیسائی غالب آئے تو یہاں انہوں نے دو عبادت گاہیں بنائیں اور اس پہاڑ کا نام قرانطہ رکھا جو اطالوی زبان میں چالیس کے ہندسے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔جیریکو مسلمانوں کے پاس حضر ت عمر ابن خطابؓ کے دور سے چلا آرہا ہے۔ اس علاقے کی زمین بھی مسلمانوں کے قبضے میں تھی۔ان سے قدیم یونانی چرچ نے یہ زمین خرید کر جس 1895 میں موجودہ کلیسا کو تعمیر کیا۔یہاں وہ غار بھی اور وہ پتھریلی نشست بھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سیدنا عیسیؑ اس میں قیام پذیر رہے اور اس پر چلہ کیا کرتے تھے۔یہاں آپ نے چالیس دن روزے بھی رکھے۔عیسائیوں کے ایسٹر کا تہوار اس چالیس روزہ عرصہء صوم کے اختتام پر منایا جاتا ہے۔چھت سے نیچے آن کر ہم نے قادر کے دوستوں سے رخصت لی اور اپنا سفر جیریکو کے مشرق میں جاری رکھا۔


شہر سے ذرا باہر نکلیں تو ہشام بن عبدالمالک کا محل قصر ہشام آجاتا ہے۔ اب اسے خرابات ا ل مفجر بھی کہتے ہیں آپ کو یادہو تو ان کے والد عبدالمالک بن مروان مکہ کے گورنر تھے یزید کی تین سال کی حکمرانی اور گھوڑے سے گر کر کل 36 برس کی عمر میں وفات کے بعد اس کا بیٹا معاویہ ثانی خلیفہ بنا جو کل دو ماہ حکمران رہ کر یرقان کی بیماری میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس پر خلافت کے دو دعویدر ہوگئے ۔ایک مدینہ میں بی بی عائشہ صدیقہ کے بھانجے یعنی ان کی ہمشیرہ بی بی عصمہ کے صاحبزادے سیدنا زبیر بن عوام جنہیں اہل مدینہ کے جانب سے خلیفہ بنایا گیا تو دوسرے دمشق میں مروان ۔ اس کے بعد ایک فتنہء ثانی کا دور چل پڑا جس میں بالآخر بنو امیہ کا وہ گھرانہ کامیاب ہوا جس کا سربراہ ابو سفیان کے خانوادے سے نہ تھا بلکہ ابوالحکم کا گھرانہ تھا انہیں مروانی کہتے ہیں مروان بن الحکم سیدنا عثمانؓ کے کزن تھے۔آپ کو تو یاد ہوگا کہ قبۃالصخری کی تعمیر عبدالمالک نے شروع کی تھی اور اس کی تکمیل ہشام بن عبدالمالک یعنی اس کے صاحبزادے کے دور میں ہوئی۔
یہاں پہنچ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے چینی سیاحوں سے بھری بس دیکھی۔ایک سیاح کو انگریزی بولتے دیکھ کر میں نے نیم دلانہ طنزیہ انداز میں پوچھ لیا تو اس نے کندھے لاعلمی سے ہلاکر اپنی بیوی کے ساتھ ایک رومانٹک پوز بنایا اور ستون کے سامنے کھڑے ہوکر دونوں نے ایک تصویر کھینچنے کی فرمائش کی۔ میں نے پاکستان میں سی پیک منصوبے پر برے اثرات نہ پڑیں اس وجہ سے مسکرا کر تصویر کھینچ لی ورنہ میری طبیعت ان چینیوں کو مقدس مقامات پر دیکھ کر جو اُوبتی ہے وہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔


محل کے کھنڈرات سے ذرا دور اقوام متحدہ کا وہ پناہ گزین کیمپ ہے جہاں فلسطینوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے ۔ویسے گھر چھوڑنا ہر حال میں بہت گراں فیصلہ ہوتا ہے مگر اپنے ملک میں ہی تصویر بے کسی بن کر پناہ گزیں کا درجہ پانا یہ روح کو کچل کر رکھ دینے والا عمل ہے۔یہاں یہ گھرانے یروشلم سے بے دخل کیے جانے کے بعد ہوسٹل کے کمروں میں آباد ہیں۔ جیل کی ان بیرکوں کو چار طرف سے ایک بلند و بالا دیوار نے احاطہ کررکھا ہے۔ان کی ناگفتہ بہ غربت اور دکھ بھری زندگی، انسانیت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے ۔یہ سوچ کر اور بھی دکھ ہوتا ہے کہ قزاقستان، چاڈ، نائجریا،سوڈان یہ وہ علاقے ہیں جہاں زمین کی بہتات اور قطر، برونائی،کویت، بحرین، سعودی عرب وہ ممالک ہیں جہاں دولت کی بہتات ہے۔
میرے لیے چارممالک کے مسلمانوں کی بہتر زندگی اب ہر دعا کا حصہ ہے ۔ میری درخواست آپ سے بھی یہی ہے۔دعا نصیب بدل دیتی ہے، مظلوم کے لیے دعا بھی جہاد ہے۔ان بے چارے بے وطنوں سے زیادہ مجبور اور بے کس کوئی اور طبقہء مسلمانان نہیں۔برما کے روہینگیا، چین کے یوغورز، شام عراق اور فلسطین کے عرب اور کشمیری۔
ہم دونوں نے بہت کوشش کی کہ ہم اندر جاکر ان سے مل پائیں۔اقوام متحدہ کا گارڈ کسی طور نہ مانا۔ ہمیں گیٹ پر دیکھ کر چند بچے ایک بالکونی میں جمع ہوگئے۔عبدالقادر نے بتایا کہ بعض مرتبہ سیاحوں کو خصوصی انتظام کے تحت اندر جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔ وہ انہیں مٹھائیاں، کھلونے ، کپڑے دیتے ہیں۔ یہ بچے ہمیں دیکھ کر اس بالکونی میں اس لیے جمع ہورہے ہیں کہ تحائف کی یہ تقسیم یقینی اور با آسانی ہوجائے۔میں نے سو شیکل کا ایک نوٹ نکال کر گارڈ کو دیا کہ وہ ان مشتاقان تحائف کو دے دے اس نے وعدے کیا کہ وہ ایسا ہی کرے گا ۔ میں بوجھل دل سے کار میں سوار ہوا تو ان بچوں کی مایوسی دیدنی تھی
مڑتی ہوئی شاہراؤں اور بڑھتے ہوئے فاصلے ان کے معصوم وجود میری نگاہوں سے چھینے چلے گئے۔
’’ فلسطین کے خبیث ، نونہالوں
میری زندگی تمہارے شور مسلسل سے نالاں ہے
ہر صبح تمہاری قلکاریاں میرے سکون کو غارت کردیتی ہیں
تم نے ہی میری بالکونی میں رکھا گلدان توڑ ڈالا ہے
میرے باغ کے گلاب بھی تم ہی چرا کر لے جاتے ہو
آؤ، چیخو اس قدر چیخو کہ تم خوش ہوجاؤ
یہ شور ہی میرے لیے زندگی کی علامت ہے
سارے گل دان توڑ ڈالو
سارے پھول چرالو
بس آجاؤ کہ فلسطین تمہارا ہے
خالد جمعہ کی نظم کا غیر پابند ترجمہ
اصل نظم
۔۔۔۔۔۔۔
Oh Rascal Children Of Gaza
Oh rascal children of Gaza,
You who constantly disturbed me with your screams under my window,
You who filled every morning with rush and chaos,
You who broke my vase and stole the lonely flower on my balcony,
Come back 150
And scream as you want,
And break all the vases,
Steal all the flowers,
Come back,
Just come back133
Come back scream as loud as u wish
Break all the vases
Steal all the flowers
Come back
Just come back”
( a Palestinian poem by
Khaled Juma )


اسرائیل میں یوں تو دوران سیاحت مجھے گوناگوں دل چسپ ہستیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا مگر اگر اس فہرست کا سب سے درخشاں نام بغیر کسی دقت کے آغاز میں ہی عبدالقادر کے روپ میں مل جائے گا۔
فسلطین کی اگر اپنی کرکٹ ٹیم ہوتی تو میرے سفری رہنما عبدالقادر کے سارے بچے اس میں شامل ہوتے اور وہ خود چئیرمین پی سی بی ہوتے۔ یعنی فلسطین کرکٹ بورڈ۔موصوف گیارہ بچوں کے والد محترم اور 23 بچوں کے نانا یا دادا تھے۔اس قدر کثیر العیال ہونے کے باوجود حضرت کے طور اطوار ایک کھلنڈرے ،نپٹ لونڈے لپاڑوں جیسے تھے۔حس مزاح :برجستہ،چبھتی ہوئی ،کٹھور اور کاٹ دار۔
دو برس پہلے کہیں دل تھام کر بیٹھ گئے تھے تو بائی پاس ہوا تھا۔وہ آپریشن محض انہیں وقتی خرابی کا معالجہ لگا۔ اس کے بعد کیسی احتیاط، کہاں کی چنتا، پرانے ریلوے انجن کی مانند سگریٹیں پھونک پھنک کر دھواں چھوڑتے تھے اور ہر کھانا غم نہ دارد کا نعرہ مستانہء لگا کر آخری کھانا سمجھ کر کھاتے تھے۔تمام فلسطینوں عربوں کی مانند صلوۃ کی ادائیگی وقت پر کرتے تھے۔
لیکن کیا مجال ہے کہ دوران صلوۃ بھی قرب جوار سے کوئی دلنشین حسینہ گزر جائے تو اپنے سلام میں اسے بھی شامل نہ کریں ۔اس حوالے سے شیشہء دل ہر وقت اچھالتے رہتے تھے اس دویدا( ہندی میں الجھن ) کے بغیر ہی کہ، یہ کہیں روٹھ جائے گا ، یہ کبھی ٹوٹ جائے گا۔خواتین سے دل لگی اور چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں حضرت کا انداز بالکل اطالوی مردوں جیساپر اعتماد ،جرات مندانہ اور خوف خمیازہ سے بے نیاز ہوتا تھا۔ہمارے ہاں کے گیلی لکڑی کے دھوئیں یا برہا کی سیلی سیلی، سسکیاں بھرتی راتوں جیسے مردوں والا نہیں کہ بقول مصطفے زیدی مرحوم ع
ہزار مصلحتوں کا شمار کرتے ہیں
تب کہیں زخم جگر اختیار کرتے ہیں
سیدنا موسیؑ کے مرقد عالیہ کی زیارت اور جیریکو کے سفر میں ہماری رفاقت نے زمان و مکان کی قیود کو کچھ اس سرعت سے پھلانگا کہ ہم اس عرصہء قیام میں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوگئے۔
میرے پاس وہ تبدیلی قلب کی جراحی کے لیے آتے تو میں انہیں دنیا میں مشہور ترین جنوبی افریقہ کیDe Beers کمپنی کے ہیروں سے مرصع 24 قیراط سونے کا دل لگادیتا ۔عبدالقادر کا دل نکال کر بطور ماڈل اپنے پاس رکھ لیتا اور اپنے سرجری کے طالب علموں کو بتاتا کہ مجروح اور شکستہ ہی سہی ایک اچھا انسانی دل دیکھو بالکل ایسا ہوتا ہے۔
میں جتنے دن اسرائیل میں رہے ہم دن کے آغاز سے رات کے پچھلے پہر ک ساتھ ہی رہے۔ہم نے کھایا ساتھ، ہنسے بھی ساتھ ہی۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ میں اپنے سگار کے قیمتی ذخیرے سے اسے پینے کے لیے سگار کی پیشکش کرتا تو وہ اسے گناہ بے لذت کہہ کرٹھکرادیتا۔اس کے پھیپھڑوں کو دھونکنے کے لیے اسرائل کے سستےNoblesse سگریٹوں میں چوری کے بوسوں کی لذت محسوس ہوتی تھی۔اس کے ساتھ کھانا کھانا بہت بڑا مرحلہ ہوتا تھا ۔بل کی ادائیگی پر وہ کسی لحاظ کے بغیر دست و گریباں ہوجاتا۔ مجھے اسے یقین دلانا پڑتا کہ میں بھی پرانا ہاشمی ہوں ،قبائیلی ہوں میری بھی کچھ نسلی روایات ہیں۔کھانا کھلانا میرے لیے بھی باعث توقیر ہے۔وہ مجھے اپنا بردار گمشدہ ضرور سمجھے اور مجھ سے برادران یوسف والا سلوک نہ کرے۔
اریحا ( جیریکو) سے رات گئے واپسی پر اگلی صبح وہ مجھے بحیرۂ مردار لے جانے کے لیے ہوٹل کے استقبالیے پر صبح چھ بجے ہی موجود تھا۔سفر کے جلد آغاز کا سبب یہ تھا کہ راستے میں ہمیں کئی چیک
پوسٹو ں پر رکنا تھا۔کار میں بیٹھتے ہی عبدالقادر نے سفر کی دعائے نوحؑ پڑھی اور ہم بحیرہ مردار کے طویل سفر پرچل پڑے۔سیاحوں ،سائنسدانوں اوراہلیان عقیدت کے لیے یہ مقام ہمیشہ سے بے حد
دل چسپی کا حامل رہا ہے۔ میرے اندر یہ تینوں دل چسپیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہیں۔سیاحت مشغلہ ہے، سائنس اور تعلم، پیشہ اور عقیدت میرے تفکر کا نتیجہ ہے۔
بحیرہ مردار کو جانے Dead Sea کیوں کہتے ہیں۔سمندر تو وہ ہے بھی نہیں ۔وہ تو ایک بڑی سی جھیل ہے۔دنیا کا قدیم ترین آبی ذخیرہ جو سطح سمندر سے سب سے نچلی سطح پر ہے۔اس کے اطراف میں نمک کی پہاڑیاں ہیں۔ادھر ادھر سے بھولے بھٹکے چشمے اور انہی پہاڑیوں کی دراڑوں سے بہتا ہوا بارش کا پانی اس جھیل میں رستا رہتا ہے جسے باہر بہہ نکلنے کا کوئی راستہ میسر نہیں۔بحیرہ طبریا یعنی Sea of Galilee بھی دریائے اردن کے طفیل چوری چھپے اسے اپنا کچھ پانی دے دیتا ہے۔شدید گرم موسم اور خشک ہوائیں اسے بخارات بنا کر اڑاتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے برومائیڈ اور کلورین جیسے مادوں کی ایک کیچڑ بن جاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں اتنی نفوذیت یعنی osmolality ہوتی ہے کہ اس وجہ سے اس میں اجسام ڈوب نہیں پاتے۔ یہی وجہ کہ اس پانی کی کثافت سیاست دانوں کے ضمیر کی طرح ہلکی ہے۔آپ اس کی سطح پر لیٹ کر آرام سے کوئی بھی پاکستانی اخبار پڑھ سکتے ہیں جس طرح اس کی خبریں آپ میں نہیں ڈوب پاتیں ویسے ہی آپ بھی سطح آب پر ہاتھ پیر مارے بغیر تیرتے رہتے ہیں۔


اس کی یہ نمکیاتی ہیئت اسے کسی بھی قسم کے جاندار کے لیے ناقابل نمو بنادیتی ہے۔اسی وجہ سے عرب اسے بحیرہ مردار کہتے ہیں۔قریب کی نمکین پہاڑیاں موسم کے ساتھ ریمپ پر اٹھلاتی ماڈلز کی
مانند اپنے خدوخال بھی بدلتی رہتی ہیں۔عقیدت مندوں کو ایمان کو تقویت بخشنے کے لیے ایک ایسی ہی بڑی چٹان نے سارہ کا روپ دھار لیا ہے۔
بائبل نے لوط علیہ سلام کی نافرمان بیوی کو سارہ کے نام سے پکارا ہے۔ قرآن الکریم میں سیدہ مریم کے علاوہ کوئی خاتون نام سے مذکور نہیں، نہ سیدنا آدم ، ابراہیم علیہ سلام کی ازدواج نہ ہماری امہات المومنین نہ ہی ہمارے نبی پاکﷺ کی بنات العالی مرتبت حتی کہ ابو لہب کی بیوی اروی بنت جمیل جو ابو سفیان کی بہن تھی اسے بھی امراتہٗ یعنی اس کی عورت کے ضمیر اشارہ سے پکارا۔
قرآن کا یہ اعجاز عظیم ہے کہ وہ بہت ہی Impersonal ہے۔ اس کے برعکس سورۃالتحریم کی آیت نمبر 66 میں سیدنا نوح اور لوط علیہا سلام کی بیویوں کو ان کی نافرمانی کے باعث ،دوزخ کا ایندھن بنادیا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ الشعرا کی آیت نمبر 171 میں کہا گیا ہے کہ ’’ ہم نے آخر کار اس کے سب اہل و عیال کو بچا لیا بجز ایک بڑھیا کہ جو مطعون افراد میں شامل تھی‘‘مجھے لگتا ہے کہ سائنس کے فروغ سے پہلے انسانی ذہن بہت سادہ تھا۔ تخیلاتی باتوں کو زیادہ آسانی سے تسلیم کرلیتا تھا۔ایسا ہی کچھ اس چٹان والے بت کہ ساتھ صحرائے یہودا میں ہوا جہاں خوف اور توہمات کے غلبے میں اس بے رحم گرد و پیش میں بائبل کا یہ بیانیہ بھی جڑ پکڑ گیا۔



صدوم اور گمراہ کی ان بستیوں کی جانب عقیدت کی جھولیاں پھیلائے ایک مخصوص طرز فکر کے سیاح اور راہ نورد شوق جوک در جوک آتے رہے۔ انہیں عقیدت کے شیرے میں لتھڑے جیالوں میں ایک صاحب جوزفس(Josephus, ) بھی تھے۔ وہ یہاں پہلی صدی میں آئے تھے۔انہیں یہ نمکیاتی ٹیلے اور صدوم اور گمراہ کی عبرت انگیز داستانیں بہت عجیب لگیں۔ سب سے پہلے انہیں کو اس چٹان میں سیدنا لوط علیہ سلام کی نافرمان بیوی کی جھلک دکھائی دی تھی ۔ان ہی نے یہ قصہ مشہور کردیا کہ یہ سارہ ہے : سیدنا لوط ؑ کی ناہنجار، مطعون بیوی۔ وہ بحیرہ مردار سے اس قدر دہشت زدہ ہوا کہ اسے ’’ آگ کی بھٹی ‘‘ سے تشبیہ دے بیٹھا۔ اس کا پانی اسے سیاہ جھاگ اڑاتا لاوا دکھائی دیا جس پر ہمہ وقت دھوئیں کے بخارات بھرے بادل بلند ہورہے تھے ،جن کے چھینٹے ایک قہر بھری لعنت بن کر سارا کے اس بت کے چاروں طرف پڑرہے تھے۔
.اس کے بعد کے اسی قیبل کے سیاحوں نے کچھ اسی بیانیہ کو تواتر سے فروغ دیا۔ تیسری صدی میں ایک عیسائی راہب ٹرائی رس نے جو یہاں آیا ایک سیاہ نابینا اژدہے کو دیکھنے کا قصہ بیان کیا جو بحیرہء مردار کی پاتال میں ڈیرہ جما کر بیٹھا تھا۔علم حیوانیات آپ کو بتائے گا کہ بڑے سانپ زہریلے نہیں ہوتے مگر ان کے مسلز اور معدہ دونوں ہی بہت طاقتور ہوتا ہے وہ مگر مچھ جیسے سخت جان کی ہڈیاں گرفت میں آنے کے بعد ایک دفعہ میں کرچی کرچی کردیتے ہیں۔ راہب ٹرائی رس کے بقول اس اژدہے کا زہر ساری دنیا میں سب سے زیادہ موذی تھا۔کمال یہ تھا کہ کوئی اگر اس کا ذرا سا نمونہ حاصل کرکے دنیا بھر کے سانپوں کے زہر کا توڑ بنالیا تھا یہ توڑ انگریزی میںTiriac کہلاتا اب آپ کو عربی ،اردو اور فارسی زباں میں مستعمل لفظ تریاق باآسانی سمجھ آگیا ہوگا۔
مگر اب ایک مسئلہ اور تھا عیسائی راہب کو وہ اژدھا تو دکھائی دے گیا اور اس کے زہر سے کشید شدہ توڑ بھی مل گیا مگر سارہ کا وہ نمکیلا مجسمہ کہیں دکھائی نہ دیا۔اسے گمان ہوا کہ یا تو نمک کا یہ مجسمہ بخارات میں گھل کر ریزہ ریزہ ہوگیا ہے۔اس نے پہلے سے موجود قصائص کی تصدیق اور خود معتبر لگنے کے لیے اب اس میں ایک نیا تخیلاتی تڑکا لگایا کہ اللہ سبحانہ تعالی نے اس کی سزا میں اتنی تخفیف کردی ہے کہ اس مین اس کی روح کو لوٹا دیا ہے وہ سارے علاقے میں گھومتی پھرتی رہتی ہے۔کبھی کبھی وہ بے قرار ہوکر بحیرہ مردار کی تہہ میں بھی چلی جاتی ہے تاکہ وہ اس تہہ میں دبی ہوئی صدوم کی برباد بستی میں اپنے گناہ گار رفیقوں کی دل جوئی کرسکے۔دین میں کچھ لوگ ایسی ایسی تاویلیں نکال لاتے ہیں کہ معصوم لوگوں غول کے غول انہیں مہدی، امام اور پیر سمجھ کر پیچھے چل پڑتے ہیں۔ یہ ہم بدنصیب کم پڑھے ممالک تک ہی محدود نہیں ۔ ذرا سوچئے امریکہ کا ایک بہت ہی ٹونی قصبہ رانچو سانتا فے جو کیلیفورنیا میں ہے ایک سابق امریکی فوجی جسے کار چوری میں چھ ماہ جیل بھی ہوچکی تھی یعنی Marshall Apple white
جسے بو اور ڈو کے القاب سے پکارا جاتا تھا اپنے چالیس کے لگ بھگ مالدار معتقدین کو سن 1997 میں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا کہ اس کی مرحوم بیوی ایک خلا ئی جہاز لے کر آرہی ہے جو دنیا کے سامنے دمدار ستارے Comet Hale150Bopp کی صورت میں نمودار ہوگا ۔ وہ دراصل جنت کے لیے ایک ایڈوانس پارٹی لینے آرہی ہے ۔سب مریدین و مشتاقان فردوس پر جو اس جہاز میں سوار ہوکر جنت میں اپنی جگہ سب سے پہلے بنانا چاہتے ہیں وہ چپ چاپ نائیکی کے نئے جوگرز، مرد سیاہ اور خواتین کھلتا ہوا جامنی ٹریک سوٹ پہن کر کوکو کولا میں زہر ملا کر پلا کر پلاسٹک کی صاف تھیلیاں منھ پر چڑھا کر بیٹھ جائیں تاکہ وہ عالم خواب میں اس خلائی جہاز میں سوار کردیے جائیں۔ یقین جانیے ان سب نے اجتماعی خودکشی ایسے ہی کی اور یہ کوٹ ادو کی بلندی والا یا شاہ آباد رامپور کی چھوٹی سی بستی نہ تھی یہ امریکہ کی بہترین ریاست کا بہترین پڑھا لکھا خوشحال علاقہ تھا۔

عیسائی راہب تو جانے کیا ڈھونڈتا رہا مگر تجسس یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ صدوم اور گمراہ کی وہ برباد اور لعنت زدہ بستیاں جنہیں ہم جنس پرستی کی وجہ سے ایسا تاراج کیا گیا کہ وہ آج تک آباد ہی نہ ہوپائیں،کیا وہ واقعی اس سمندر کی تہہ میں چھپی ہیں یا وہ جنوب میں صحرائے یہودا کے ریت کے ٹیلوں میں مدفن ہیں۔اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں پائی جاتی۔یہ ماہرین آثار قدیمہ کے لیے ایک چیستاں ہے یعنی پہیلی۔بحیرہء مردار جنوبی سمت میں بہت کم زیر آب ہوتا ہے یہاں سے ایک طویل دلدلی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔یہاں آج بھی کوئی آبادی نہیں اور نہ ہی کبھی یہاں سے کسی بستی کی کوئی علامت ملی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب ماہرین ریت کے ٹیلوں میں یہ علامات ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ابتدائی علامات سے یہ ظاہر ہونے لگا ہے کہ ریت نے احساس شرمندگی سے ان دو بستیوں کو اپنے اندر دبوچ لیا ہے۔ابھی ہم بحیرہ مردار سے کچھ دور ہی تھے ۔ میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔کافی دیر سے راستے میں چٹانوں کے جو ٹکڑے دکھائی دے رہے تھے ۔وہ بتدریج اب نمک کے ٹیلوں میں تبدیل ہوگئے تھے ۔لگتا ہے۔ ہم بحیرہ مردار کے نزدیک پہنچ گئے ہیں۔ میں نے عبدالقادر سے پوچھا جو با آواز بلند کسی سے سیل فون پر بحث میں مصروف تھا۔ میرے سوال کا جواب اس نے تیزی سے بائیں جانب ایک روڈ پر موڑ کاٹ کر دیا اور بحیرہء مردار کی پانی کی چادر تیز دھوپ میں چمکنے لگی۔ اس پر نہ توبخارات نہ ہی جھاگ کی کوئی علامات تھیں۔دوسری جانب اردن تھا اور ایک مناسب مقام جہان Neve Mid bar beach کا بورڈ نسب تھا وہاں پر عبدالقادر نے کار پارک کرلی۔یہ مقام سیاحوں میں خاصا مقبول ہے اس کی پہلی سب سے مصدقہ علامت تو ہر طرف کھلبلاتے چینی سیاح ہیں۔کچھ عرب خاندان بھی بھیڑ کے گوشت کا بار بی کیو کررہے تھے۔چاولوں کے ابالے جانے کی اور گوشت کے بھونے جانے کی خوشبو سے میری بھوک مچل گئی۔ویسے تو وہاں پانی میں تیرنے کی سرکاری فیس اسرائیل کے 85 شیکل یعنی ہمارے ڈھائی ہزار روپے ہے مگر عبدالقادر نے ٹکٹ گھر میں بیٹھی اس حسن سوگوار پینتیس سال کے لگ بھگ یہودن کو اللہ جانے عبرانی زبان میں کیا کچھ کہا کہ وہ پہلے حیر ت زدہ ہوئی پھر کھلکھلا کر ہنسی ایک گہری توصیفانہ نگاہ مجھ پر ڈالی اور ہمیں مفت میں نہانے کی اجازت دے دی۔ مجھے لگا کہ اس نے میری جانب معنی خیز انداز میں دیکھتے ہوئے اسے خاتون سے کہا کہ دیکھو دل کا کوئی بھروسہ نہیں کبھی بھی دھوکا دے سکتا ہے چلتے چلتے جھٹکے مار سکتا ہے ۔ یہ تمہاری مفت سرجری کردے گا۔اگر میاں کو ٹھکانے لگا کر مجھ سے بیاہ کرنا چاہتی ہو اور یہودیوں اور مسلمانوں کے اختلاف ختم کرنا چاہتی ہو تو یہ میرا ایسا دوست ہے کہ وہ اسے دوران آپریشن ٹھکانے لگادے گا تمہارے ہاں تو عدت بھی نہیں۔ہم جلد ایک ہوجائیں گے۔
میں نے جب تصدیق چاہی تو وہ مجھے کہنے لگا کہ میں نے اسے کہا کہ سرجن کاشف ماہر امراض قلب ہے ساری دنیا میں مشہور ۔ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ تمہارے بحیرہ مردار کے پانی کا دل پر کیا اثر ہوتا ہے۔اچھے شیف کی طرح کھانا پہلے خود چکھنا پڑتا ہے۔
تو تم نے اس معصوم یہودی عورت سے جھوٹ بولا۔ جس کے جواب میں اس نے میرا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ ان پر ہمارا بہت قرضہ ہے۔میں نے اسے جتلایا کہ مرد ہونے کے ناطے مجھے اندازہ ہے کہ تم نے اس کے حسن سوگوار کی بھی بہت تعریف کی تھی۔اب وہ ایک خاص عربی انداز میں جیسے پرانی مورس کار کہیں برف پر گھسٹ رہی ہو ،کھسیانی ہنسی ہنسا۔میں نے کہا ’’اس ٹوٹے ہوئے جوسر میں تمہاری دل چسپی دیکھ کر میں سمجھ گیا تھا کہ تمہارے ارادوں میں بڑی بر بریت ہے۔مجھے تمہارے معیار حسن کے ذوق پر حیرت ہے ۔
میرے اس طنز کا جواب اس نے اپنے تجربات کی پٹاری سے ایسا نکالا کہ میرے لیے وہ اک زاد ر اہ بن گیا۔ وہ کہنے لگا کہ’’ دنیا کی کوئی عورت نہ تو یہ مانے گی، نہ ہی یہ یقین کرے گی کہ وہ خوب صورت نہیں ہے، یا وہ بوڑھی ہوچکی ہے یا غلطی پر ہے۔مرد کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ اس کی اپنے بارے میں اس غلط فہمی کو تقویت اور فروغ بخشے‘‘۔ مجھے علامہ اقبال یاد آگئے جو کہتے تھے

ع جہاد زندگانی میں یہی ہیں مردوں کی تدبیریں
Facebook Comments
خواتین سے دل لگی اور چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں حضرت کا انداز بالکل اطالوی مردوں جیساپر اعتماد ،جرات مندانہ اور خوف خمیازہ سے بے نیاز ہوتا تھا۔ہمارے ہاں کے گیلی لکڑی کے دھوئیں یا برہا کی سیلی سیلی، سسکیاں بھرتی راتوں جیسے مردوں والا نہیں کہ بقول مصطفے زیدی مرحوم ع
ہزار مصلحتوں کا شمار کرتے ہیں
تب کہیں زخم جگر اختیار کرتے ہیں
…………. اقبال دیوان صاحب اپنے اشاروں، کنایوں، استعاروں، اور الفاظ کے بہاؤ، کسی چشمے کے پانی کی طرح، جو پتھروں پر بہتا جائے، کی مانند واقعات کو ایسے تانے بانے سے جوڑتے، گوندھتے جاتے ہیں، کہ قسط ختم ہوئی، مگر پیاس بڑھ کر سوا، بلکہ دگنی ہوئی ۔۔