لذتِ آشنائی ۔۔۔۔طاہر حسین

جیسے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ابن آدم اور بنت حوا ایک دوجے کے لیے لازم ملزوم ہیں’ اسی طرح یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کون الزام علیہ اور کون ملزم۔

اس طرح کے کردار دنیا کے ہر شہر میں ملتے ہیں لیکن یہ قصہ ابو قاسم کے متعلق ہے’ جو قدیم بغداد کے ایک محلے میں خوش و خرم زندگی بسر کر رہا تھا۔ اسے کس چیز کی کمی تھی؟ خوب رو’ خوب سیرت بیوی، آراستہ و پر آسائش مکان، محبت کرنے والے بے تکلف دوست احباب اور صحت مند و فرماں بردار اولاد۔ الغرض اس کی زندگی ایک مثال تھی۔

ابو قاسم شام کو گھر لوٹتا تو بچے پیار سے دوڑتے ہوئے اس سے آ لپٹتے; بیوی مسکرا کے اس کا استقبال کرتی۔ وہ تازہ دم ہو کے آتا تو لذیذ کھانا اس کے انتظار میں ہوتا اور پھر وہ دونوں بیٹھ کر دن بھر کے واقعات و معمولات پر گفتگو کرتے۔ رفتہ رفتہ ابو قاسم کو محسوس ہونے لگا کہ اس کی بیوی زیرک اور معاملہ فہم ہی نہیں بلکہ روزمرہ کے معاملات میں اس کی رائے انتہائی متوازن ہے اور اگر وہ اس کے دیے مشوروں پر عمل کرے’ تو بہت ترقی کر سکتا ہے۔ یوں وہ زندگی کے ہر معاملے میں اپنی بیوی کے مشوروں پر عمل کرنے لگا۔ ایسے میں کبھی کبھی اسے احساس بھی ہوتا کہ شاید اس کی بیوی کے دیے ہوئے مشورے در اصل حکم ہیں’ لیکن وہ اس خیال فاسد کو ذہن سے جھٹک دیتا۔

ابو قاسم کی عادت تھی کہ رات کے کھانے کے بعد اپنے یاروں کی منڈلی میں جا بیٹھتا’ جہاں قہوے کے دور چلتے، چوسر کھیلی جاتی اور خوب قہقہے لگتے۔ اس کا دل شام کی اس مجلس میں بہت لگتا تھا۔ یہ نہیں کہ بیوی سے وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی!
وہ بس یہی پوچھا کرتی کہ کہاں جا رہے ہو، کب واپس آؤ گے، وہاں اور کون کون ہو گا، کیا کرو گے وہاں جا کر، وہ موا الفہدی بھی وہاں ہو گا، ننھے کو بھی ساتھ لے جاؤ اور دیکھو جلدی واپس آنا۔

اس کے دوست یار بھی پرلے درجے کے کمینے تھے کہ چہار سو یہ بات مشہور کر رکھی تھی کہ ابو قاسم رن مرید ہے۔ لوگ جب اسے ملتے’ اگرچہ منہ سے کچھ نہ کہتے لیکن ان کے لبوں پر ایک زہریلی سی مسکراہٹ ضرور ہوتی۔ ہاں! لیکن سسرالی خاندان میں اس کی قدر و منزلت بہت بڑھی ہوئی تھی۔ اس کے ہم زلف اسے رشک بھری نظروں سے تکا کرتے اور ساس صدقے واری جاتے نہ تھکتی۔ در حقیقت ابو القاسم خوش نہیں تھا۔ کچھ تھا جو اندر ہی اندر اس کے دل کو کچوکے لگائے رکھتا۔

چونکہ ہر معاملے میں بیوی سے مشورہ کرنے کی عادت پختہ ہو چکی تھی تو ایک رات اس نے پوچھ ہی لیا کہ کیا وہ واقعی رن مرید لگتا ہے؟ یہ سن کر بیوی مسکرائی اور محبت سے اس کے گلے لگ کر بولی کہ ابو قاسم تم تو میرے دل کے بادشاہ ہو۔ اور جو لوگ تمہارے دل میں وسوسے ڈالتے ہیں وہ حقیقت میں شیطان کا روپ ہیں۔
بیوی کے منہ سے اپنی تعریف سن کر ابو قاسم تھوڑا اترایا تو ضرور لیکن ایک کسک اب بھی اس کے دل میں باقی تھی۔ بہت سے سوال اس کے دل و دماغ میں ہیجان برپا کیے رکھتے کہ ہاں درست ہے کہ وہ اب اپنا فارغ وقت گھر ہی پر گزارتا ہے، لیکن وہ وقت ضائع تو نہیں کرتا۔ کیا ہوا جو گھر کے کام کاج میں کچھ مدد کر دیتا ہے۔ اس کی بیوی کو اس کے دوست پسند نہیں ہیں کہ وہ ہیں ہی اس قابل۔ لیکن اس میں رن مریدی کا پہلو کہاں سے نکلتا ہے۔

ایک روز وہ کام سے گھر لوٹا تو گھر میں ایک اشتہا انگیز مہک پھیلی ہوئی تھی۔ بیوی نے بتایا کہ آج میں نے تمھارے لیے خاص طور پر اونٹ کی گردن کے گوشت کا شوربہ بنایا ہے۔اس کی انتڑیاں مچلنے لگیں۔ بھوک جو پہلے ہی شدید تھی’ شوربے کے نام سے اور بھی چمک اٹھی۔ ابو قاسم نے جلدی سے دستر خوان بچھایا، برتن رکھے اور کھانے کا انتظار کرنے لگا۔ بیوی نے شوربہ ایک قاب میں ڈالا اور کہا’ کہ جلدی سے یہ دوسرے محلے میں اس کی ماں کے گھر دے آئے’ اس لیے کہ اس کے بھائی کو یہ شوربہ بہت پسند ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ وہ اس کی واپسی تک گرم گرم روٹیاں بنا کے رکھے گی۔
نہ چاہتے ہوئے بھی ابو قاسم بوجھل قدم لیے گھر سے نکلا اور سسرالی مکان کی طرف چل دیا۔

جب وہ جامع مسجد والی نکڑ پر واقع قاضی شہر کے مکان کے سامنے سے گزرا تو قاضی صاحب گھر کے اندر کسی مہمان سے محو گفتگو تھے. اس کلام کا یہ ٹکڑا “جس شخص کی داڑھی لمبی اور سر چھوٹا ہو اس کے رن مرید بننے کے  امکانات زیادہ ہوتے ہیں“ ابو قاسم کے کان میں پڑا۔ یہ سننا تھا کہ ابو قاسم کا ہاتھ بے اختیار اپنی ٹوپی کی جانب بڑھ گیا۔ اس نے قاب قاضی کے مکان کے چبوترے پر رکھی اور داڑھی پر ہاتھ پھیر کے دیکھا. اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا سسرال پہنچا، قاب دروازے ہی سے برادر نسبتی کو پکڑائی اور تقریباً دوڑتا ہوا اپنے گھر پہنچا۔ وہ سیدھا دیوار پر لٹکے آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

ٹوپی اتار کر اپنا سر دیکھا۔ اس کا دل کسی ہتھوڑے کہ طرح اس کی پسلیوں سے ٹکرانے لگا۔ اسے احساس ہواکہ اسکا سر چھوٹا اور داڑھی لمبی ہے۔ تو کیا و ہ واقعی رن مرید ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا اور وہ اس مسئلے کا حل سوچنے لگا۔ اب سر تو بڑا ہونے سے رہا لیکن داڑھی تو تراش کر چھوٹی کی جا سکتی تھی۔ قینچی کی تلاش شروع ہوئی مگر کہاں رکھی ہے؟ بسیار تلاش کے ڈھونڈ نہ پایا۔

ایسے میں چراغ کی جانب دھیان گیا۔ اس کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا۔ اپنی داڑھی کو مطلوبہ لمبائی تک پکڑ کر باقی ماندہ کو چراغ کی لو پر رکھ دیا۔ بال جلنے کی بو سارے کمرےمیں پھیل گئی; آگ کی تپش سے اس کا ہاتھ جلنے لگا۔ اس کی داڑھی کے سب بالوں نے آگ پکڑ لی تھی۔ وہ تیزی سے صحن میں رکھی گھڑونچی کی طرف لپکا۔ منہ پر کچھ چھینٹے پھینکنے سے آگ تو بجھ گئی لیکن داڑھی ٹھوڑی تک مکمل طور پہ جل چکی تھی۔
جلد پر شدید جلن کا احساس لئے جب ابو قاسم آئینے کے رو برو ہوا’ تو اب اس کا سر’ اس کی باقی ماندہ داڑھی کے مقابلے میں خاصا بڑا دکھائی دے رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب اسے اونٹ کی گردن کے گوشت سے بنے شوربے کی بھوک بالکل بھی نہ رہی تھی۔ اس نے اپنے چہرے پر ایک رومال لپیٹا اور پرانے یاروں کی منڈلی کی طرف چل دیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply