اکڑی ہوئی لاش۔۔۔شاہد خیالوی

میرے اکثر سوشل ایکسپیریمنٹ انہیں نتائج کے حامل ہوتے ہیں جو پوسٹ کرنے سے پہلے میں نے سوچ رکھے ہوتے ہیں۔

ایک واقعہ بیان کر کے اجازت چاہوں گا

Advertisements
julia rana solicitors

ایک محلے میں ایک پیشہ کرنے والی نے مکان کرائے پر لےلیا
ایک دو دن کے اندر اندر ہی “معززین” محلہ کی پنچائیت کال کی گئی۔ یہ وہی پنچائیت تھی جس نے چند روز پہلے ایک ” چوہڑے” کو مسلمانوں کی بستی سے نکالا تھا۔ اور باؤ عارف قادیانی کو محلہ بدر کر کے محلے کو مکمل مسلمان کرنے کا سہرا بھی اسی پنچائیت کے سر تھا۔ محلے کے کچھ خاموش طبع لوگ بتاتے ہیں کہ جب علی شیر کو صرف شیعہ ہونے کی بنیاد پر محلے سے نکالا گیا تو یہ ” نیکی ” بھی اسی پنچائیت کے لوگوں نے ہی کمائی تھی۔ اس پنچائیت کے سرکردہ راہنماؤں میں جورا ددھ دہی والا تھا ، جورے کی شہر کے چوک میں دوکان تھی حاسد لوگ کہتے تھے کہ جورا دہی میں اراروٹ کی ملاوٹ کرتا ہے اور دودھ میں پانی ملاتا ہے ۔ ایک دور پرےکے حاسد کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ جورا نقلی دودھ بناتا ہے۔ حاسدوں کا کیا وہ تو جلتے رہیں گے۔ جورے کا محلہ سدھار کمیٹی کا رکن ہونا اس کی بخشش کے لیے کافی تھا۔ دوسرے رکن ایک ریٹائرڈ بزرگ تھے جو انکم ٹیکس میں ملازمت کرتے تھے۔ محلے کی مجلس کانا پھوسی کے بقول یہ ریٹائر نہیں ہوئے تھے بلکہ رشوت لینے کے الزام میں ٹرمینیٹ ہوئے تھے۔ حاجی صاحب بھی اس محلہ سدھار کمیٹی کے سرگرم کارکن تھے سننے میں آیا ہے کہ جس دن انکا بیٹا نئی گاڑی لایا تھا اسی دن ان کی بہن کا بڑا بیٹا ٹائیفائڈ سے مرا تھا مرچ مسالہ لگانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ حاجی صاحب نے تمام عمر اپنی عسرت کی ماری بہن کا حال تک نہ پوچھا لیکن چار حج بشمول حج اکبر کیے اور آپکو تو علم ہے حج اکبر ساری عمر کے گناہوں کا پرائسچت ہے۔مراد سنیارا بھی اس کمیٹی کا گوہر نایاب تھا۔ ایک دوسرے محلے سے میرا ایک دوست حامد مجھے بتا رہا تھا کہ یہ دو بھائی دوکان چلاتے ہیں۔ ایک صبح کے وقت میں بیٹھتا ہے اور ایک شام کے وقت ۔ میری والدہ نے میری بہن کی شادی پر ان سے زیور بنوایا ایک دوسال بعد میرا بہنوئی سعودی عرب جانے لگا تو پیسوں کی ضرورت پڑی ۔ بہن زیور اماں کے پاس لائیں ۔ مراد نے اماں کو نہیں پہچانا کیونکہ دوسال کا عرصہ گذر چکا تھا۔ زیور دیکھ کر کہنے لگا ،” بہن یہ تو شدید ملاوٹ والا زیور ہے” اماں نے کہا ،”زیور تو آپ سے بنوایا تھا اس وقت تو آپ نے کہا تھا یہ خالص اصلی سونا ہے۔ بہن اگر آپ کے پاس پرچی ہے تو ہم اسے اپنا مانیں گے ورنہ چلتی بنو۔ اماں روتے دھوتے اس کی دوکان سے نکلیں دوسرے دوکان والے کے پاس گئیں اس نے زیور کی لیبارٹری کروائی تو پتا چلا نصف سونا ہے اور نصف کھوٹ۔۔ خیر چھوڑو ہو سکتا ہے حامد جھوٹ بولتا ہو۔ اس کمیٹی میں مسجد کے مولوی صاحب کے دم سے برکت و نورانیت موجود تھی۔ مسجد کا ایک خادم جسے ” کرپشن” کے الزام میں نکالا گیا اس کا کہنا تھا کہ مولوی صاحب مسجد کو ملنے والا چندہ ذاتی استعمال میں لاتے ہیں اور اس کے علاؤہ چند دیگر “علتیں” بھی ان میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ لیکن۔۔ اس کرپٹ خادم مسجدکا اعتبار کون کرے صاحب اوپر سے وہ کم گو بھی تھا چرب زبانی تو نام۔کو نہ تھی۔
میں کہاں تفصیل میں نکل گیا تو آپ کو بتا رہا تھا کہ “معززین” محلہ کی کونسل نے فیصلہ کیا کہ آج اور اسی وقت اس ” کنجری” کو محلے سے نکالا جائے ۔ اہل محلہ اکٹھے ہوئے مالک مکان کو بلایا گیا ۔ کنجری کی محلہ بدری کا فیصلہ ہوا اس کا سامان اٹھا اٹھا کر باہر پھینکا جانے لگا تو اس نے دہائی دی لوگو، جس اسلام کے نام پر تم مجھے نکال رہے ہو وہی اسلام یہ بھی بتاتا ہے کہ کسی کی املاک کو نقصان نہ پہنچاو۔ بھلے مجھے محلے سے نکال دو لیکن میرا سامان تو نہ توڑو۔ لیکن جنت الفردوس کا خواہش مند ہجوم کار ثواب میں مشغول رہا۔
ایک تو سخت سردی کی رات، اوپر سے ایک سو تین پر بخار اور بے سایبانی کی کیفیت۔ سننے میں آیا ہے کہ صبح مین روڈ سے ایک نامعلوم عورت کی اکڑی ہوئی لاش ملی تھی۔
ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا کوئی کہہ رہا تھا پولیس کو بلاؤ پتا نہیں کون ہے بیچاری، ایک نے کہا اتنی سخت سردی میں بغیر کمبل کے مناسب سے کپڑوں میں گھر سے کیوں نکلی۔ کسی نے کہا یار ذرا پہچانو تو سہی یہ کون ہے۔ ایک بندے نے کہامجھے تو فلاں محلے کی فلاں عورت لگتی ہے کسی نے کہا کوئی بے آسرا خاتون لگتی ہے۔ کسی نے اسے کوئی شناخت دی کسی نے کوئی۔۔۔ ایک مجذوب کہیں سے آ ٹپکا لوگوں کے ہجوم کو چیرتا ہوا سیدھا لاش کے پاس پہنچا غور سے دیکھا پہلے سکتے میں چلا گیا پھر اچانک چلانے لگا نہ یہ کسی عورت کی لاش ہے نہ کسی مرد کی یہ تو معاشرے کی لاش ہے ، یہ تو معاشرے کی لاش ہے ، اور یہی کہتا ہوا نگاہوں سے دور ہوتا چلا گیا۔

Facebook Comments

شاہد خیالوی
شاہد خیالوی ایک ادبی گھرا نے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ معروف شاعر اورتم اک گورکھ دھندہ ہو قوالی کے خالق ناز خیالوی سے خون کا بھی رشتہ ہے اور قلم کا بھی۔ انسان اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور خالق کا شاہکار ہے لہذا اسے ہر مخلوق سے زیادہ اہمیت دی جائے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا لیا تو قلم کوآسودگی نصیب ہو گی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply