ویلنٹائن ڈے۔ ایک خرافاتی رسم۔۔۔۔اقبال آشنا

سب سے پہلے اس کی ابتداء پہ بات کرتے ہیں۔ اس کی شروعات پر مختلف روایات ملتی ہیں اور ان روایات میں کس قدر سچائی ہے یا یہ سر سرا من گھڑت قصے کہانیاں ہیں اس پہ میرے خیال میں کوئی دلیل اور ثبوت میسر نہیں۔۔
بہر حال پہلی روایت کچھ یوں ہے کہ ایک ویلن ٹائن نامی راہب تھا جو ایک راہبہ کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوا اور اس نے راہبہ کو یوں مسخر کیا کہ اُسے خواب میں مسیح علیہ اسلام کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ راہب اور راہبہ اگر 14 فروری کو صنفی ملاپ کر لیں تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ راہبہ بھی راہب کی ہم خیال ہوئی اور انھوں نے یہ فعل 14 فروری کو انجام دے دیا، جب اس عمل کی خبر باہر نکلی تو کلیساء کے اصولوں اور روایات کی دھجیاں اڑانے پر وہی ہوا جو ہمیشہ ایسا پاپ کرنے والوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ مطلب ان دونوں کو قتل کر دیا گیا۔ اور بعد میں ان کو بعض منچلوں نے شہیدِ محبت گردانا اور ان کی یاد میں یہ دن منانا شروع کر دیا۔

ایک دوسری رویت بھی اسی سے ملتی جلتی ہے کہ ایک دفعہ رومی بادشاہ کلاودیوس کو جنگ کے لیے لشکر تیار کرنے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں تو اس نے وجوہات جاننے کی کوشش کی تو بادشاہ کو معلوم ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنا گھر بار، مال متاع اور بیوی بچے چھوڑنے کو تیار نہیں۔ تو بادشاہ نے حکم صادر کیا کہ نئ شادی کرنے پر پابندی نافذ کر دی جائے، مگر ایک ویلن ٹائن نامی راہب نے شاہی حکم نامے سے بغاوت کی اور نہ صرف خود چھپ کر شادی رچا لی بلکہ دوسرے لوگوں کی بھی خفیہ شادیاں کروانے لگا، بادشاہ کو علم ہوا تو اس نے راہب کو گرفتار کر لیا اور 14 فروری کو تختہِ دار پر لٹکا دیا۔
اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں۔ مگر بات پھر وہی کہ ان میں سے کونسی سی کامل ہے۔ کچھ پتہ نہیں۔
لیکن یہ دن تیسری صدی عیسوی سے منایا جا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ امریکا اور یورپ میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے “سان فرانسیکو” میں اس تہوار کی تقلید میں فحاشی کی انتہائی بیہودگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس کی وضاحت یہاں مجھے نا مناسب لگتی ہے۔

ان تمام قصے کہانیوں کو چھوڑیں اور تمام مذاہب کی روشنی میں دیکھیں تو اسلام میں ایسی خرافاتی رسومات کی کوئی کنجائش نہیں۔ اور ہندو مذہب میں بھی بعض تنظیموں کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ جو لڑکے لڑکیاں ویلنٹائن ڈے کے دن ایک دوسرے کو پھول یا کارڈ دیتے پکڑے گئے ان کی زبردستی شادی کروا دی جائے گی، مطلب کہ ہندو بھی اس فعل کو نا زیبا جانتے ہیں۔
اور عیسائیت میں بھی اس فعل کو قبیح  گردانا جاتا ہے۔ تاریخ کی کتابیں کھولیں تو یہاں تک پڑھنے کو ملتا ہے کہ بعض پادریوں نے ہم خیال نوجوان کو لے کر ایسی دکانیں نظرِ آتش کر دیں جہاں پر ویلنٹائن  ڈے کے حوالے سے پھول اور کارڈ بیچے جاتے تھے،،

اب ہم مخاطب ہیں اس طبقے سے جو اس دن کو “یومِ محبت” کہتے ہیں اور اس کا اظہار درست جانتے ہیں تو جذبہِ محبت کی اصلیت اور اس کی جزئیات کو سمجھیے کہ کیا محبت میں اظہار اور قرب ضروری ہے۔ کیا محبت جنسِ مخالف سے لگاؤ تک ہی محدود ہے۔۔کیا محبت نمائش مانگتی ہے۔۔یا اس کو بس نہاں خانوں میں ہی مقیم رہنا چاہیے،
تو اہل دل اور اہل شعور دانشور لوگوں کے نزدیک اور صاحب حال، واقف حال ہستیوں کے بقول محبت جسموں کی نمائش، تجارت اور تسکینِ وجود کا نام نہیں۔۔ یہ بس ایک خالصتاً آفاقی جذبہ ہے جو احساسات کو جلا بخشتا ہے اور افزائشِ کائنات میں بڑی اخلاقی قدروں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سرگرداں رہتا ہے۔۔ محبت مغربی معاشرے میں لذتِ اجزائے مخصوصہ تک محدود ہے۔ جہاں محبت بس جسم کی گرمی کا نام ہے۔۔ جو اسلامی اصولوں کے تو کجا انسانی خمیر اور ضمیر کے بھی بر عکس ہے۔۔اور اب ویلنٹائن ڈے منانے والوں اور پیروکاروں سے گزارش ہے کہ محبت کو بدنام نہ کریں اور اپنی ہوس کی بھینٹ نہ چڑھایں یہ پھولوں اور کارڈز کے تبادلے محبت کی دلیل نہیں محبت من کی کھیتی ہے اور اس کی آبیاری میں خلوص اور پاگیزگی کا آب درکار ہے جو اس کو سیراب کرے۔ یہاں محبت کی ترجمانی پہ ایک شعر دیکھیے کیسے شاعر نے سمندر کو کوزے میں بند کیا ہے۔۔کہ ۔۔

ہیچ اکسیر بہ تاثیرِ محبت نرسد،
کفر آور دم و در عشقِ تو ایمان کردم،

کسی اکسیر میں محبت جتنی تاثیر نہیں ہے،
میں نے کفر اختیار کیا اور اسے تیرے عشق میں ایماں بنا لیا،

Advertisements
julia rana solicitors london

قصہ   مختصر کرتے ہیں کہ اسلام اور اسلامی اصولوں کو ماننے اور نہ ماننے والو اسلام سے روگردانی کرنے والو تم بس انسانیت کی روشنی میں فیصلہ کرو کہ کیا محبت اس چیز کا نام ہے۔۔ جس نے فطری اور کائناتی حدود سے تجاوز کر رکھا ہے۔ جس نے معاشرے کو اخلاقی پستی میں غرق کر دیا ہے۔ جس نے نفیس جسموں کو بیچ بازار، سرِ محفل عریاں کر رکھا ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ یہ بغاوت ہے محبت سے اور محبت کے خالق سے اور اس خالق کی گرفت کتنی سخت ہو گی یہ گرفت کرنے والا ہی خووب جانتا ہے..!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply