دو ٹوک ۔۔۔ مہر ساجد شاد

کچھ کتابیں مجبور کر دیتی ہیں کہ ان کے بارے میں ضرور کچھ لکھا جائے۔  “دوٹوک” بھی ایسی ہی کتاب ہے جسے پڑھ کر آپ واپس خاموشی سے الماری میں نہیں رکھ سکتے، یہ آپ کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ زندگی سیکھنے اور سیکھانے میں آپ نے کیا حصہ لیا ہے۔
صاحب کتاب کسی تعارف کے محتاج نہیں، وکالت پڑھ کر سی ایس ایس کیا اور سول سروس میں آئے، پولیس کے بدنام محکمہ میں اپنی کارکردگی اور ایمانداری سے نیک نامی اور شہرت پائی۔ کسی بھی مشکل ہدف کے لیے ان کا انتخاب ہوا تو اہلیت ثابت کی، پاسپورٹ کا شعبہ بحران میں تھا انہوں نے نہ صرف بحران سے نکالا بلکہ سسٹم ٹھیک کر دیا۔ فنی تعلیم کا وفاقی ادارہ نیوٹیک ان کے حوالے ہوا تو پورے ملک میں فنی تعلیمی اداروں کو فعال اور متحرک کر دیا۔ نوجوانوں میں فنی تعلیم کی رغبت پیدا کر دی اور بہترین ہنرمند افراد تیار کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔
یہ کتاب یوں تو ان کے لکھے کالموں کا مجموعہ ہے جن میں سے اکثر پہلے سے پڑھ رکھے تھے لیکن یہ حسین گلدستہ ایک جگہ پر اپنا الگ ہی حُسن رکھتا ہے۔ کتاب کے آغاز میں انہوں نے اپنے والد محترم کا تعارف کروایا لیکن میں کہوں گا ناکام رہے حق ادا نہ ہوا کیونکہ وہ عظیم شخصیت اس تعارف سے کہیں بڑی ہیں جنہوں نے ان تینوں بھائیوں کی بہترین پرورش کی جو اپنے اپنے شعبہ میں کمال ہیں۔ دنیا میں چیمہ صاحب جہاں بھی گئے انہوں نے ایک پیغام سب کو دیا کہ بیرون ملک خدارا ایک ہو جائیے یہاں تقسیم نہ ہوں بلکہ پاکستان کے نمائندے بنیں کسی علاقے یا سیاسی مذہبی مسلکی جماعت کے نمائندے نہ بنیں۔ انہوں نے اپنے محکمہ کے منفی پہلووں کو چھپایا نہیں بلکہ بے لاگ لکھا لیکن اس میں محنتی ایماندار اور محب وطن کسی فرد کے احترام میں کمی نہیں آنے دی۔ ان کے نام بھی اپنے قلم سے صد احترام لکھے۔ سیاستدانوں، بیوروکریٹس، عدلیہ، افواج ہر جگہ اچھے اور بُرے لوگوں پر بغیر ملمع کاری کے صاف صاف لکھا۔ دنیا بھر کے سفر کے احوال لکھے لیکن ان شہروں اور قوموں کی ترقی کے سبق آموز راز ہمیں بتائے۔ کئی کتابوں کا تعارف ایسے کرایا کہ اب انہیں پڑھے بغیر چارا نہیں۔ اللہ کے گھر کی حاضری اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کی زیارت کا حال سناتے ہیں تو گویا آپ کو انگلی پکڑ کر اپنے ساتھ لئے پھر رہے ہوں۔ آمر کے دور حکومت میں بھی اپنی نوکری کو کلمہ حق کہنے میں رکاوٹ نہیں بننے دیتے نتائج سے بے پرواہ باآواز دہل تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ کئی اداروں اور شخصیات کا تعارف کرواتے ہیں تو بندہ احسان مند ہو جاتا ہے کہ کیا کیا نگینے ہم سے متعارف کروا دئیے۔
یہ کتاب کہیں ہنساتی ہے تو کہیں رلاتی ہے، کہیں سنجیدہ سوچ دیتی ہے کہیں زندگی کے سبق پڑھاتی ہے، کہیں ڈر خوف اور نتائج سے لاپرواہ ہو کر فرض کی ادائیگی پر آمادہ کرتی ہے تو کہیں کامیابی کے گر بتاتی ہے، کہیں منافقت کے نقاب چہروں سے الٹی ہے تو کہیں عظمت کو گمنامی کے اندھیروں سے نکال کر دیکھاتی ہے۔
کتاب کا آغاز والد محترم کے تعارف سے ہے اور اختتام ان کے بھانجے اسامہ کے ذکر پر بلاشبہ یہ عظمت کا خاندانی سفر ہےجو جاری ہے تربیت کی خاندانی روایت ہے جو نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔وطن عزیز میں جب تک ذوالفقار چیمہ جیسے محبان وطن موجود ہیں اس پر کوئی آنچ نہیں آسکتی، ایسی شخصیات کی موجودگی ایماندار اور محنتی لوگوں کیلئے مشعل راہ بھی ہے۔
آخر میں صرف اتنا کہ علامہ اقبال سے محبت چیمہ صاحب کا خصوصی اعزاز ہے اس پر کچھ لکھنے کی استطاعت نہیں یہ جاننے کے لیے براہ راست انہیں پڑھیئے، البتہ ادب دوستی کی صرف ایک مثال حاضر ہے۔  کوہاٹ کے ضلع ناظم نے جب شہر کی اکلوتی لائبریری گرا کر پلازہ تعمیر کروا دیا تو کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے احمد فراز نے بھی اپنے آبائی شہر کیلئے اعلان کر دیا “جس شہر میں ادبی ورثوں کو گرا کر پلازے تعمیر کر دئیے جائیں وہاں میں کبھی نہیں آؤں گا بلکہ مجھے وہاں دفن بھی نہ کیا جائے”۔ لیکن کوہاٹ میں تعیناتی کے دوران ذوالفقار احمد چیمہ نے پاکستان میں ادب کے اس عظیم ستارے کو واپس کوہاٹ لانے کا انتظام کر دیا ایک بہترین بڑی محفل سجائی، احمد فراز نے اس رات مجمعے اور محفل کو لوٹ لیا، فرمائشوں پر فرمائشیں آتی گیئں اپنے آبائی شہر شہر میں احمد فراز بھی تھکنے والے موڈ میں نہ تھے محبت اور لذت سے سرشار بس پڑھتے گئے، پھر اختتام درجنوں جارحیت سروس فوجی افسروں کی موجودگی میں اس شہرہ آفاق نظم پر کیا جسے لوگ “محاصرہ “ کے نام سے جانتے ہیں۔

میرے غینم نے مجھ کو پیغام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اُس کے
سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے
سُپرد دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے
تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام
امید لطف پہ ایوان کجکلاہ میں ہیں

معززین عدالت بھی حلف اٹھانے کو
مثال سائل مبرم نشستہ راہ میں ہیں
تم اہل حرف کے پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمان ہنر کے نُجوم سامنے ہیں

بس اک مصاحب دربار کے اشارے پر
گداگران سخن کے ہجوم سامنے ہیں
سو شرط یہ ہے جو جاں کی اماں چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو

یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا
اُسے خبر نہیں تاریخ کیا سیکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے

سو یہ جواب ہے میرا مرے عدو کیلئے
کہ مجھ کو حرص کرم ہے نہ خوف خمیازہ
اُسے ہے سطوت و شمشیر پہ گھمنڈ بہت
اُسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ

مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی گداگر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے

Advertisements
julia rana solicitors london

مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دُہرا نقاب رکھتا ہے
مرا قلم تو امانت ہے مرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply