برانڈڈ”ابو”، امپورٹڈ “پاپا” ۔۔۔۔۔ ماسٹر محمد فہیم امتیاز

ابھی بکواس کی تو میں تمہارا سر پھوڑ دوں گا انتہائی غصیلے لہجے میں وہ مجھ سے مخاطب تھا۔

یہ میرا ایک کولیگ تھا جس سے میں پچھلے آدھے گھنٹے سے بحث کر رہا تھا کہ وہ اس سبزی فروش کو بابا(ابو) نہ کہا کرے کہنا ہے تو کسی امیر جاگیر دار کو کہے نواز شریف کو کہے اس پر وہ نہ مانا تو میں نے کہا چلو ڈونلڈ ٹرمپ کو کہہ لو کسی اور امیر اور مشہور امریکی کو کہہ لو پہلے پہل وہ بڑے تحمل سے مزاق سمجھ کر مجھ سے مزاحیہ انداز میں گفتگو کر رہا تھا

بولا  ہو کیا گیا تمہیں آج۔۔!میں نے کہا یار دیکھو نواز شریف اتنا دولت مند ہے،ٹرمپ امریکی صدر ہے انہیں پوری دنیا جانتی ہے ان کا نام ہے  پہچان ہے تو ان  کو ابو کہو نہ تمہارا بھی کوئی سٹینڈرڈ ہے معیار ہے۔تم عجیب بندے ہو ایک سبزی بیچنے والے کو باپ بنائے پھرتے ہو۔

اس بات پر وہ تپ گیا۔خیر میں نے اسے ٹھنڈا کیا ساتھ بٹھایا اور سمجھایا کہ یار تم مجھے روزانہ کہتے ہو کہ بھائی یہ کیا تم گھٹیا سی شرٹ پہنے ہوئے ہو بہت بار یہ بھی بتاتے ہو کہ شوز اچھے پہنا کرو امپورٹڈ برانڈ کے۔ ہم ایک آرگنائزیشن کا حصہ ہیں اپنا سٹینڈرڈ بناؤ اسی طرح میرے ستو،اور گنے کا رس حتیٰ کہ گورمے کے ڈرنکس تک پینے سے منع کرتے ہو میں نے تو کبھی غصہ نہیں کیا۔

کولیگ:ہاں تو اسکا اس بات سے کیا تعلق؟

میں: تعلق کیا ہے، بس مشورہ دیا،  تم مجھے ستو پینے گورمے خریدنے لوکل میڈ شرٹ اور شوز خریدنے سے منع کرتے ہو میں نے تمہیں اس سبزی والے غریب ان پڑھ بوڑھے بابے کو ابو کہنے سے منع کر دیا۔تم مجھے ہیملٹن اور اپیرل کی شرٹس  ایڈیڈاس  اور گچی کے شوز کوک اور پیپسی کی ڈرنکس کا مشورہ دیتے ہو میں نے تمہیں  ٹرمپ اورنواز شریف کو پاپا بنانے کا مشورہ دے دیا۔تمہی تو کہتے ہو برانڈ ہونا چاہیئے معیار ہونا چاہیئے۔ دیکھو تو ٹرمپ اور نواز کو ساری دنیا جانتی اور پہچانتی ہے۔جسے تم ابو کہتے ہو وہ تو ایک سبزی فروٹ والا ہے گالیاں بھی نکالتا ہے۔تمہی نے بتایا تھا شراب بھی پیتا ہے۔تمہیں شرم نہیں آتی اسے بابا کہتے ہوئے۔

کولیگ: اوئے ماسٹر تیرا دماغ ٹھیک ہے؟باپ پر بات کر رہا ہے تو, ایک لگاوں گا تیری ہمت کیسے ہوئی اس بکواس کی ,میرا باپ ہے وہ چاہے جیسا بھی ہو اچھا برا شرابی کبابی جو بھی مگر میرا اپنا باپ ہے میرا اپنا۔

میں:رکو رکو رکو۔ کیا کہا اپنا؟ یہ اپنا کہاں سے یاد آگیا آج؟ تمہیں تو ہمیشہ برانڈڈ اور معیاری چیزیں پسند آئی ہیں نا؟ اور ہمیشہ سے پرائی ہی ہوتی ہیں،،یہ اپنوں کی اپنائیت کہاں سے امنڈ پڑی آج؟

یہی تو بات ہے۔یہی اپنے پرائے کا ہی تو کھیل ہے۔غیرت کا جوش مارنا یہ غصہ یہ جزبات سارے اپنے اور پرائے ہی کی وجہ سے تو ہیں۔کتنا پیارا ہے نہ اپنا باپ چاہے جیسا بھی ہو۔

یہی تو میں کہتا ہوں مجھے نہیں چاہیئے ایڈیڈاس،نہیں چاہیئے آرمانی،نہ نائک نہ ہیملٹن،نہ مجھے کوک پینا ہے نہ پیپسی۔چاہے جتنی بھی میعاری ہوں چاہے جتنا بڑا برانڈ ہو مگر میرا نہیں میرے ملک کا نہیں میرے وطن کا نہیں تو میرا کیسے ہو گیا۔یہی اپنے پرائے کہ تو پہچان ہے جو تمہیں اپنے گھر میں تو نظر آتی ہے اپنے وطن میں نہیں۔یا شاید تمہارے لیئے یہ وطن تمہارا گھر نہیں۔

یار اتنی سادہ سی بات کیوں سمجھ نہیں آتی کوئی چیز ہیروں میں جڑی ہی کیاں نہ ہو جب ہو ہی پرائی تو کس منہ سے گلے لگاتے ہو اسے۔کیا جب تم اپنے وطن کی چیز کو دھتکارتے ہو جب تم اپنے گھر کی چیز پر باہر والی کو ترجیح دیتے ہو اس وقت نہیں جاگتا یہ ضمیر اس وقت غیرت نہیں آتی۔

سنو۔۔!میرے لیئے یہ وطن ایسے ہی مقدس ہے جیسے میری فیملی میرا گھر اس سے منسلک ایک ایک چیز کی وہی توقیر ہے جو میرے گھر کی میری فیملی کی پھر وہ چیز جیسی بھی ہو اچھی بری مجھے جان سے پیاری ہے۔ایسے ہی جیسے تمہیں تمہارا باپ پیارا ہے چاہے اچھا ہو یا برا چاہے امیر ہو یا غریب۔

میرے لئے اس پاک سر زمین سے منسلک چھوٹی سے چھوٹی،ہلکی سے ہلکی،کم سے کم معیار کی چیز بھی مجھے ان  برانڈز اور امپورٹڈ اشیا سے ہزاروں گنا عزیز ہے۔ایسے ہی جیسے تمہیں تمہارا شرابی باپ امریکن پریزیڈنٹ سے مشہور ترین عہدیداران اور افسران سے بڑھ کر عزیز ہے۔

بات صرف پہچان کی ہے۔اپنے پرائے کی پہچان اور سوچ کی ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ بس ضمیر کی ہے۔میرے نزدیک تو غیرت کی ہے۔

میں اب اٹھ کھڑا ہوا تھا اور کھڑکی سے باہر نظریں جمائیں بات کر رہا تھا۔جیسے ہی پیچھے مڑا اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ دیکھا جس میں اسکے امپورٹڈ شوز اور کپڑے تھے اور اب وہ فریج کھولے کوک نکال نکال کر اس بیگ میں ڈال رہا تھا پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے بیگ کھڑکی سے باہر اچھال دیا اور مڑ کر میرے گلے سے لگ گیا میرے کان میں ایک سرگوشی ابھری۔

“ہاں میں بھی پاکستان ہوں”

Advertisements
julia rana solicitors

اس تحریر کا مقصد ہے چند پاکستانیوں کو ڈھونڈنا جو پاکستانی کھاتے ہوں،پاکستانی پیتے ہوں،پاکستانی پہنتے ہوں،پاکستانی اوڑھتے ہوں اور پاکستانی سوچتے ہوں۔اور ایک پیغام دینا اور ایک عہد لینا کہ آئیں اس تحریر کو پڑھنے والے چند پاکستانی میرے ساتھ وعدہ کریں کہ ہم آج سے ابھی سے پاکستانی خریدیں، کھائیں گے،پئیں گے،پہنیں گے،اوڑھیں گے،ہو نہ ہو ایک کوشش ضرور کریں گے ہر سطح پر پاکستان کو سب سے پہلے رکھنے کی ایک پاکستانی بن کر سوچنے کی،اس پیغام  کو آگے شئیر کر دیں اور کم ازکم مزید ایک پاکستانی کو  اپنے ساتھ ضرور ملائیں۔ شکریہ

Facebook Comments

ماسٹر محمد فہیم امتیاز
پورا نام ماسٹر محمد فہیم امتیاز،،ماسٹر مارشل آرٹ کے جنون کا دیا ہوا ہے۔معروف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،سائبر ٹرینر،بلاگر اور ایک سائبر ٹیم سی ڈی سی کے کمانڈر ہیں،مطالعہ کا شوق بچپن سے،پرو اسلام،پرو پاکستان ہیں،مکالمہ سمیت بہت سی ویب سائٹس اور بلاگز کے مستقل لکھاری ہیں،اسلام و پاکستان کے لیے مسلسل علمی و قلمی اور ہر ممکن حد تک عملی جدوجہد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply