کوانٹم گریوٹی-طبیعاتی وحدت؟ (محمد علی شہباز)

ذراتی طبیعات سائنس کی وہ شاخ ہے جس کے مطابق کائنات کی ہر شے ایسے ناقابل تقسیم ذروں سے مل کر بنی ہے۔ اگرچہ یہ نظریہ قدیم یونان کے دیموقراطیس کے ایٹم (ناقابل تقسیم ذرہ) سے شروع ہوتا ہے لیکن اس سمت میں سب سے زیادہ کام گزشتہ صدی میں ہوا۔ 1896ء میں جے جے تھامسن نے ایٹم کے اندر الیکٹران نامی منفی بار کا حامل ایک ذرہ دریافت کر کے ایٹم کو قابل تقسیم کر دکھایا۔ اسی طرح گولڈسٹائن کے تجربات سے پروٹان نامی مثبت ذرہ اور 1932ء میں جیمز چیڈوک کی نیوٹران کی دریافتوں نے اس نظریہ کو تقویت دی کہ ایٹم مزید کئی ذرات پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ پال ڈیراک نے کوانٹم نظریہ کی بنیاد پر آئن سٹائن کے نظریہ خصوصی اضافیت میں ایک ایسی مساوات کا اضافہ کیا جس کے نتیجے میں منفی الیکٹران کا جڑواں ذرہ مثبت الیکٹران یعنی پوزیٹران کی پیش گوئی ہوئی جسے 1932ء میں اینڈرسن نے اپنے تجربات سے ثابت کر دکھایا۔ کائنات میں پائے جانے والے ستاروں اور کہکشاؤں سے آنے والی شعاؤں کا تجزیہ کرتے ہوئے مزید ذرے جیسے پائی اون وغیرہ دریافت ہوئے۔ اسی دوران ایٹم کے مرکز یعنی نیوکلیئس سے نکلنے والی تابکاری شعاؤں پر تحقیق کرتے ہوئے ایک ایسا ریاضیاتی طریقہ پیش کیا گیا جسے فیلڈ تھیوری کہا جاتا ہے۔ یعنی ہر ذرہ بنیادی طور پر ایک فیلڈ یا میدان کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔

فیلڈ تھیوری کے مطابق کائنات میں پائی جانے والی تمام قوتیں جیسے کمزور و طاقتور نیوکلیائی قوت، برقی مقناطیسیت وغیرہ سمیت تمام ذرے اپنا مختلف میدان پیدا کرتے ہیں۔ جیسے برقی بار سے برقی میدان، مقناطیس سے مقناطیسی میدان اور گریوٹی سے کشش ثقل کا میدان یا فیلڈ پیدا ہوتا ہے۔فیلڈ تھیوری میں کوانٹم نظریہ کے اثرات دیکھے گئے تو معلوم ہوا کہ کائنات کی بنیادی قوتیں اور ذرے دراصل ان میدانوں کا نتیجہ ہیں۔ یعنی ذرہ بذات خود اسوقت تک وجود نہیں رکھتا جب تک کہ اس کا متعلقہ میدان قائم نہیں ہوتا۔ہر میدان دراصل انرجی کا ایک منبع ہے۔ آئن سٹائن کے مطابق انرجی کا یہ منبع کمیتی شکل یعنی ماس کے طور پر اپنا اظہار کر سکتا ہے۔لہذا ہر میدان اپنی انرجی سے خاص ذرات کو پیدا کرتا ہے۔

برقی مقناطیسی میدان سے جو ذرہ پیدا ہوتا ہے اسے فوٹان کہا جاتا ہے جس کی ایک شکل قابل دید روشنی ہے۔ بعد ازاں پاکستانی سائنسدان عبدالسلام اور دو امریکی سائنسدان سٹیون وائنبرگ اور شیلڈن گلاشو وغیرہ نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ مختلف نظر آنے والے ذرات بنیادی طور پر ایک ہی فیلڈ یا میدان کے مختلف اظہار ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے برقی مقناطیسی میدان اور کمزور نیوکلیائی قوت کو یکجا کردیااور ایک نئے فیلڈ یا قوت جسے الیکٹرو ویک قوت کہتے ہیں کی بنیاد ڈالی۔ اس نئے میدان سے تین نئے ذرات یعنی دو W اور ایک Z بوزان کی پیش گوئی کی گئی جنہیں بہت جلد دریافت کر لیا گیا۔ پروفیسر عبدالسلام کو باقی دونوں سائنسدانوں سمیت 1979ء میں سائنس کا سب سے اعلیٰ انعام یعنی نوبل پرائز دیا گیا۔ یہ نئے ذرات پروٹان کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ کمیت رکھتے ہیں اور اس لئے عام انرجی کے مقابلے زیادہ انرجی پر نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الیکٹران اور پروٹان کے مقابلے میں یہ ذرات قائم نہیں رہتے اور عام انرجی پر دوسرے ذرات میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔

پروفیسر عبدالسلام کی طرح دیگر سائنسدان بھی اب ایسے میدانوں کی تلاش میں پھرنے لگے جو باقی ماندہ فطری قوتوں اور ذروں کو بھی یکجا کرتے ہوئے ایک طبیعاتی وحدت میں پرو سکے۔ اس سلسلے میں ابھی تک سائنسدان تین بنیادی قوتوں کو یکجا کر سکے ہیں۔ یعنی الیکٹرو ویک قوت کے ساتھ طاقتور نیوکلیائی قوت کا اتحاد کیا گیاہے۔ یہ کام پچھلی صدی کی آخری دہائیوں میں سرانجام دے دیا گیا تھا۔ پروٹان اور نیوٹران وغیرہ کو جب زیادہ توانائی والے کسی علاقے سے گزارا جائے تو انکی رفتار انتہائی تیز ہوجاتی ہے اور اسقدر تیز رفتاری پر انکوباہم ٹکرایا جائے تو یہ ذرات مزید تحلیل ہوکر کچھ نئے چھوٹے ذرات کو جنم دیتے ہیں جنہیں آج کوارک کا نام دیا جاتا ہے۔ کوارک کی نظریاتی بنیادیں گیل مین نامی ایک سائنسدان نے رکھ دی تھیں۔یہ چھوٹے ذرات تین نسلوں کی شکل میں رہتے ہیں جن میں سے ہر نسل کے دو افراد ہی ہوتے ہیں۔ گویا یہ چھ مختلف کوارک ہوتے ہیں اور عام طور پر دکی (Doublet) یا تکی (Triplet)کی شکل میں جڑے ہوتے ہیں۔ دکی والے ذرات کو میزون اور تکی والوں کو بیری اون کہا جاتا ہے۔پروٹان اور نیوٹران تین کوارک سے بنتے ہیں۔ بہرحال ان چھ کوارک کی مختلف دکیوں اوت تکیوں سے بہت سے نئے ذرات بھی بنائے جا سکتے ہیں جنہیں بارہا تجربات سے دریافت کیا گیا ہے۔لیکن یہ عام توانائی پر قائم نہیں رہ پاتے اور تحلیل ہوجاتے ہیں لہذا عام مادہ جس کا اظہار کائنات میں ہوتا ہے وہ صرف نچلے درجے کی توانائی والے ذرات ہیں۔

تین بنیادی قوتوں کو ایک ہی میدان کی توانائی کی مختلف شکلیں قرار دینا گزشتہ صدی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور اسی کامیابی کے پیش نظر سائنسدانوں نے طبیعاتی وحدت کا خواب دیکھا ہے۔ یعنی یہ کہ چوتھی اور آخری قوت گریوٹی کے میدان کو بھی کسی خاص توانائی پر انہی تین میدانوں میں ضم کرتے ہوئے واحد قوت دریافت کر لی جائے جو ساری کائنات کو واضح کر سکے۔ اس سمت میں نظریاتی ذراتی طبیعا ت پر کام کرنے والے تمام سائنسدان گزشتہ تین دہائیوں سے سوچ بچار کر رہے ہیں۔ اور بہت سے ماڈل پیش کئے گئے ہیں۔ ایسی ہی ایک کاوش کوانٹم گریوٹی بھی ہے۔ اس ماڈل کے مطابق ہم گریوٹی کے میدان کو بھی ایک ذرے کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ او ر گزشتہ قوتوں کی وحدت کے دوران جو طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا اس کے مطابق گریوٹی کے ذرے کی کچھ خصوصیات واضح کر دی گئی ہیں۔ جیسے یہ کہ اس ذرہ کا کمیت صفر ہوگی اور اسکی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہوگی۔ اسکی اندرونی یا کوانٹم گردش (Spin) کی مقدار فوٹان سے دوگنا ہوگی۔ اس مفروضہ شدہ ذرے کا نام گریویٹان (Graviton) رکھا گیا ہے۔
06 اگست 2012ء کو ڈنمارک میں ہونے والے پوائن کرے لیکچر میں مشہور نوبل انعام یافتہ سائنسدان فری مین ڈائیسن نے کہا تھا کہ اگر دیگر ذرات کی طرح گریویٹان کے لئے بھی کوئی تجربہ کیا گیا تو یہ گریویٹان اتنا بھاری ہوجائے گا کہ ایک بلیک ہول بھی بن سکتا ہے کیونکہ یہ ذرہ اس قدر زیادہ توانائی پر سامنے آئے گا جسے ہم زمین پر موجود کسی تجربہ گاہ میں پیدا نہیں کرسکتے۔ لہذا بہت سے سائنسدان اب بھی یہی سوچتے ہیں کہ شاید گریویٹان کبھی تجربے سے سامنے نہ آسکے۔ لیکن اسی بے یقنی کی صورتحال میں گزشتہ دنوں نیدرلینڈمیں مقیم ایک سائنسدان رچرڈ نورٹ نے ایک سادہ طریقہ وضع کیا ہے جس سے گریویٹان کے اثرات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ مکمل موصل مادہ کی بنی پلیٹوں کے درمیان گریوٹی کے فیلڈ کے اثرات دیکھ سکتے تھے۔

آئن سٹائن کے مطابق ہر ذرہ انرجی ہی کی ایک شکل ہوتا ہے لہذا گریویٹان بھی انرجی کا حامل ذرہ ہوگا۔ کوانٹم نظریہ کے مطابق اس ذرے کی انرجی کبھی بھی صفر نہیں ہوسکتی۔ لہذا ہر وہ جگہ جہاں کشش ثقل موجود ہے وہاں گریویٹان کی توانائی موجود ہوگی۔ حتٰی کہ خلاء میں بھی یہ توانائی اپنا اظہار کرے گی۔ اس طرح کی توانائی جڑواں ذروں کی شکل میں اپنا اظہار کرتی ہے جنہیں واہمی ذرات (Virtual Particles) کہا جاتا ہے۔ اس طرح کا عمل پہلے بھی فوٹان کے لئے دیکھا جا چکا ہے اور اصطلاح میں اسے کیزی میر کا اثر (Casimir Effect) کہا جاتا ہے۔ اس اثر کے مطابق اگر خلاء میں دو پلیٹوں کو قریب قریب رکھا جائے تو برقی مقناطیسی میدان کی توانائی ان پلیٹوں میں ارتعاش پیدا کرے گی۔ کیونکہ کوانٹم کے مطابق کسی میدان یا فیلڈ کی توانائی کی مقدار کبھی بھی صفر نہیں ہوسکتی۔ لہذا پلیٹوں میں ارتعاش سے ثابت ہوتا ہے کہ خلاء بھی خالی نہیں ہے!

گریوٹی کا میدان چونکہ خلاء میں بھی موجود ہوتا ہے اس لئے اگر مکمل موصل ایلومینیم (Superconducter Aluminum) کی پلیٹوں کو خلاء میں قریب رکھ دیا جائے تو ان کے درمیان ارتعاشی اثر پیدا ہوسکتا ہے۔ 20 جولائی 2018ءکو پروفیسر نورٹ نے طبیعات کے مشہور میگزین فزیکل ریویو لیٹرز میں اپنی تحقیق کے نتائج پیش کئے۔ ان کے تجربے میں ایسا کوئی اثر سامنے نہیں آیا۔یعنی گریویٹان ابھی بھی ناقابل دریافت ہے۔ لیکن سائنسدانوں نے مزید ایسی پیش گوئیاں کی ہیں جن سے یہ دریافت ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر 12 دسمبر 2017ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مارلیٹو نے کوانٹم انفارمیشن کے نظریات کو استعمال کرتے ہوئے دو ذرات کے مابین پائی جانے والی اینٹیگل منٹ (Entaglement) پر تجربات کی صلاح دی۔ اس تجربے میں ہیرے کے کرسٹلز کو خلاء میں گریوٹی کے میدان میں چھوڑا جائے گااور ان پر لیزر کی شعاؤں سے یہ دیکھا جائے گا کہ کیا دونوں کرسٹل ذرات کی گردش یک سمتی رہتی ہے یا نہیں جو کہ ان ذروں کے درمیان اینٹیگلمنٹ کا ثبوت ہوگا۔ ایک اور طریقہ بگ بینگ کے وقت کائناتی توانائی کے انتہائی تیز رفتار پھیلاؤ یا انفلیشن میں بھی گریویٹان کے اثرات کا مطالعہ ہے۔ بگ بینگ شعاؤں کی پیمائش جو کہ مختلف دوربینوں سے ہوتی ہے ان میں یہ ذرات اپنے اثرات بی موڈ پولرائزیشن (B mode Polarization) کی شکل میں چھوڑ تے ہوں گے۔ اسی طرح 2016ء کے نوبل انعام میں دریافت ہونے والی گریوٹی کی لہروں میں بھی ان اثرات کو دیکھا جا سکے گا لیکن چونکہ گریوٹی انتہائی کمزور قوت ہے لہذا گریویٹان کی دریافت کے بہت بڑے پیمانے کی تجربہ گاہ درکار ہے۔ یورپی سپیس ایجنسی کی جانب سے LISO نامی ایسا تجربہ مستقبل قریب میں ہوگا۔ بہرحال انسان کے اندر موجود وحدت کی تلاش کی جبلت کا اظہار طبیعات کے جدید نظریات میں نظر آرہا ہے اور شاید یہی جبلت کسی روز کوانٹم گریوٹی کی شکل میں کائنات کی طبیعاتی وحدت کا اظہار کردے گی!

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ  http://www.laaltain.com

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply