کوئٹے تک۔۔۔۔طاہر حسین

ریل گاڑی پر طویل سفر کا ایک اپنا ہی لطف ہے۔ میں چلتی گاڑی کی کھڑکی سے باہر جھانکتا رہتا ہوں اور جہاں باہر کے مناظر مجھے لبھاتے ہیں وہیں میں نظر آنے والے ہر کردار کے متعلق ایک کہانی جوڑنے لگتا ہوں۔ وہ بوڑھا جس کا بیل رسی تڑا کر بھاگ نکلا ہے وہ اس وقت کیا مغلظات بک رہا ہوگا۔ گھڑے اٹھائے چلتی عورتوں کی قطار۔ وزن سے ان کی کمریں لچک رہی ہے لیکن ان کے چہروں پر ایک مسرت ہے شائد گھر گھر ہستی کے بکھیڑوں سے ایک گونہ آزادی کا جشن۔ پٹڑی کے ساتھ کھڑے بچے جو ریل کے مسافروں کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے ہیں ضرور ان کے دل میں یہ شوق ہے کہ وہ بھی ان دیکھی منزلوں کی سیر کو جائیں۔

تپتی گرمیوں کے دن مشہور زمانہ “چلتن ایکسپریس” پر کوئٹے کا سفر درپیش تھا۔ دو نشستوں وال کوپے میں اکیلا بیٹھا سامنے کی خالی سیٹ پر بیٹھے کسی خیالی ہمسفر کے متعلق کہانیاں جوڑتا اور آپ ہی آپ میں اسے باہر کے مناظر کی سیر کرا رہا تھا کہ کمپارٹمنٹ کے دروازے ہر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے ایک درمیانی عمر کی خاتون کھڑی تھیں اور خالص “فیصل آبادی” لہجے میں بولیں کہ باہر بچے گرمی سے بے حال ہیں اگر اندر آنے کی اجازت مل جائے۔

انکار کی تو گنجائش ہی نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی میری رضا مندی کا انتظار کئے بغیر محترمہ نے نعرہ لگایا “آ جاؤ  بھئی ” اور اس کے ساتھ چھ سات افراد کا ایک ریوڑ دو نشتوں والے کوپے میں آ دھمکا۔

خاندان میں ایک مسکین صورت مرد جو ان خاتون کا شوہر تھا، دو نو عمر لڑکے اور تین لڑکیاں جن کی عمریں  دس سے تیرہ چودہ برس کے درمیان تھیں۔

یہاں سے آغاز ہوتا ہے ایک بہترین کامیڈی فلم کا۔ اس کے بارے میں اب بھی سوچتا ہوں تو مارے ہنسی کے “وکھیاں” دکھنے لگتی ہیں۔ ایسی جگت سننے کو ملی کہ ایسی تیسی سارے سٹیج ایکٹروں کی۔

اندر داخل ہوتے ہی خاتون نے پہلے تو شوہر نامدار کی کلاس کچھ ایسے لی۔

“گواچی گاں وانگوں منہ اڈی پھردا۔ اگے ہو کے گل نئیں کردا کسے نال”

تھوڑا سا گرمی کا زور کم ہوا۔ سب کی جان میں جان آئی تو مجھ سے ہوچھا ایس ڈبے دا ٹکٹ کنے دا لبھدا؟ اور میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ باقی کا سفر اسی کوپے میں کرنے کا ارادہ کر چکی ہیں۔ میں نے قیمت بتائی تو بولیں “نال نکے نکے بال نیں” اور اگر میں ٹی ٹی کو بتا دوں کہ یہ میرا ہی خاندان ہے تو سفر ذرا سہولت سے کٹ جائے گا۔ بات درست تھی اور انکار کی کوئی گنجائش بھی نہیں تھی اگرچہ آرام میں خلل ضرور تھا۔

رات ہو چلی تھی اور میں اوپر والی برتھ پر لیٹا اب اس خاندان کی گفتگو سننے لگا اور جو سمجھ مجھے آئی وہ یہ کہ میری وہاں موجودگی سے وہ لوگ کچھ خفا سے ہیں۔ تھوڑی سی الجھن مجھے بھی تھی کہ بچے مسلسل میرے سفری بیگ کے اوپر چڑھ کر اچھل کود کرتے میرے بسکٹ وغیرہ کے پیکٹوں پر ہاتھ صاف کر رہے تھے۔

چار و ناچار میں برتھ سے نیچے اترا۔ اپنا بیگ اٹھا کر برتھ پر رکھا اور خود بوگی کے دروازے میں بیٹھ کر سگریٹ پھونکنے لگا۔

رات کا ہی کوئی پہر تھا۔ گاڑی بلوچستان اور پنجاب کے سرحدی علاقے میں تھی کہ سگریٹ کی ڈبیا ختم ہوگئی۔ دوسری ڈبیا اٹھانے جب گیا تو پتہ چلا کہ دروازہ اندر سے بند ہے جو تقریباَ دسویں دستک کے بعد خاتون کے شوہر نے آنکھیں ملتے ہوئے کھول دیا۔ اب اندر کا منظر یہ کہ سارا خاندان آرھا ترچھا اس چھوٹے سے کوپے میں سو رہا ہے اور بڑی دونوں لڑکیاں میری برتھ پر سوار ہیں۔ خاتون کی نظروں سے مجھے اندازہ ہوا کہ میری موجودگی انہیں سخت ناگوار گزری ہے۔ برتھ کر اوپر بڑے دستی بیگ میں سے سگریٹ کا پیکٹ نکالتے ہوئے فوک وزڈم کا جو شاہکار سنا وہ کچھ یوں تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

“بے شرماں دے سر تے کوئی سنگھ تے نئیں ہندے” (بے شرم آدمی کے سر سینگ نہیں ہوتے کہ پہچانا جائے بلکہ اس کی حرکتوں سے ہی پتہ چلتا ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply